بجا کہتے ہو تم، اچھا نہیں ہوں - عبید الرحمٰن عبید

محمداحمد

لائبریرین

غزل


بجا کہتے ہو تم، اچھا نہیں ہوں
میں جو کچھ ہوں مگر دھوکا نہیں ہوں

نسیمِ نرم بھی سایہ صفت بھی
فقط جلتا ہوا صحرا نہیں ہوں

ترا غم ہوں مثالِ اشکِ لرزاں
مگر میں آنکھ سے چھلکا نہیں ہوں

بدن میں پڑتی جاتی ہیں دراڑیں
ابھی تک ٹوٹ کہ بکھرا نہیں ہوں

بُھلا دوں اُن کو یہ کیسے ہے ممکن
کرم فرمائیاں بھولا نہیں ہوں

میں جلتا ہوں چراغِ یاد بن کر
اندھیری رات کا حصہ نہیں ہوں

جھکا دوں سر تو میری ہے یہ دنیا
مگر میں اس پہ آمادہ نہیں ہوں

کوئی ایسی خبر جو موم کردے
بہت دن ہوگئے رویا نہیں ہوں

عبید اپنی حقیقت سے ہوں واقف
فریبِ ذات میں زندہ نہیں ہوں

عبید الرحمٰن عبید

 

جیا راؤ

محفلین
بجا کہتے ہو تم، اچھا نہیں ہوں
میں جو کچھ ہوں مگر دھوکا نہیں ہوں

بدن میں پڑتی جاتی ہیں دراڑیں
ابھی تک ٹوٹ کہ بکھرا نہیں ہوں

جھکا دوں سر تو میری ہے یہ دنیا
مگر میں اس پہ آمادہ نہیں ہوں

کوئی ایسی خبر جو موم کردے
بہت دن ہوگئے رویا نہیں ہوں


واہ۔۔ بہت ہی خوبصورت غزل ہے !
 

محسن حجازی

محفلین
ایک ایک شعر کمال ہے جناب کیا ہی بات ہے۔ کلام کی بے ساختگي سے یہ عبید صاحب بھی نوید صادق صاحب کے دوست معلوم ہوتے ہیں :grin:
 

فرحت کیانی

لائبریرین

جھکا دوں سر تو میری ہے یہ دنیا
مگر میں اس پہ آمادہ نہیں ہوں

کوئی ایسی خبر جو موم کردے
بہت دن ہوگئے رویا نہیں ہوں

عبید اپنی حقیقت سے ہوں واقف
فریبِ ذات میں زندہ نہیں ہوں


بہت ہی خوب :)
بہت شکریہ احمد!
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت شکریہ آپ تمام دوستوں کا۔

عبید صاحب انٹرنیٹ بہت کم استعمال کرتے ہیں لیکن میں پھر بھی اُن سے کہوں گا۔ گذشتہ جمعے اُن سے سرسری ملاقات ہوئی تھی مگر بس اتنی کہ بامشکل سلام دعا ہو سکی۔
 
Top