بانگِ درا کا ایک کردار- غلام قادر روہیلہ

محمد وارث

لائبریرین
بانگِ درا کا ایک کردار - غلام قادر روہیلہ

اقبال نے اپنی نظم بعنوان "غلام قادر روہیلہ" میں ایک تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے، جس میں غلام قادر روہیلہ کی بربریت دکھائی ہے، کہ اس نے مغل بادشاہ کی آنکھیں نکالنے کے بعد اس کے حرم کی عورتوں کو رقص کا حکم دیا تھا۔ لیکن روہیلہ نے جب یہ دیکھا کہ وہ شریف بیبیاں کسطرح اسکے حکم پر عمل در آمد کر رہی ہیں تو اس کو کچھ شرم آئی، اپنی تلوار اور خنجر کھول کر رکھ دیئے اور یوں ظاہر کیا کہ وہ سو گیا ہے، آخر اٹھا اور ان عورتوں سے کہا کہ سونے کا تو بہانہ تھا، میں نے تمھیں موقعہ دیا تھا کہ میرے خنجر سے ہی میرا خاتمہ کردو، لیکن افسوس خاندانِ تیمور سے غیرت ختم ہو چکی۔

اقبال نظم کا اختتام اس شعر پر کرتے ہیں۔

مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے

بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ نظم غلام قادر روہیلہ کی بربریت دکھانے کیلیے ہے، لیکن اس کا اختتام ہمیں فکر و جستجو کی دعوت دے کر چھوڑ جاتا ہے کہ جب تک تمام تاریخی واقعات سامنے نہ ہوں، قاری پیچ و تاب میں ہی مبتلا رہتا ہے، اور یہ بھی اقبال کے کلام کا ایک خاصہ ہے۔

غلام قادر روہیلہ، کا تعلق افغانوں کے قبیلہ روہیلہ سے تھے جو روہیل کھنڈ کے باسی تھے۔ تاریخ ہندوستان، مغلوں اور پٹھانوں کی نبرد آزمایوں سے بھری پڑی ہے۔ عظیم پٹھان شاعر، خوشخال خان خٹک کا کلام اسکا واضح ثبوت ہے۔ شیر شاہ سوری نے بھی ہمایوں کو شکست دے کر ہندوستان بدر کر دیا تھا لیکن اسکی اولاد آخر ہمایوں کے ہاتھوں ہی موت کے گھاٹ اتری۔

اس نظم میں جس مغل بادشاہ کا ذکر ہے، اسکا نام مرزا عبداللہ تھا اور لقب شاہ عالم ثانی، وہ 1759 سے لیکر اپنی وفات 1806 تک تختَ دہلی پر کٹھ پتلی حکمران رہا۔ غلام قادر روہیلہ کے ہاتھوں 1787 میں اندھا ہوا۔ مغل سلطنت کا زوال عالمگیر کی وفات کے ساتھ ہی ہو گیا تھا، اسکے بعد جتنا عرصہ بھی یہ سلطنت رہی، وہ ہاتھی والی اس مثال کے مصداق ہے کہ وہ مرتے مرتے بھی کافی عرصہ لگا دیتا ہے۔ اس واقعے کے بیک گراؤنڈ میں دیکیں تو اس وقت طاقت کے ڈرامے میں کئی کردار تھے: مغل خود، مرہٹے، سکھ، انگریز اور حملہ آور۔ مرہٹوں اور سکھوں نے اس زمانے میں شمالی ہندوستان میں طوفان اٹھایا ہوا تھا اور حکمرانوں کیلئے مسلسل دردِ سر بنے ہوئے تھے۔

مرہٹوں کی چیرہ دستیاں اور مظالم جب حد سے بڑھ گئے تو، غلام قادر روہیلہ کا جرنیل دادا، نجیب الدولہ انکے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے یہ سوچا کہ مغل، مرہٹوں کے خلاف اسکا ساتھ دیں گے کہ مرہٹے خود، مغل سلطنت کیلیے مسلسل پریشانیاں کھڑی کر رہے تھے، لیکن خاندانِ تیموریہ اور انکے وزراء نے کمال بد طینتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، الٹا مرہٹوں کے ساتھ مل کر نجیب الدولہ کو محصور کر دیا اور اس سے پے در پے جنگیں لڑیں۔

ان حالات میں جب نجیب الدولہ نے دیکھا کہ اب کوئی چارہ نہیں ہے تو اسنے احمد شاہ ابدالی سے مدد مانگی۔ احمد شاہ ابدالی نے اپنے قاضی سے فتوٰی طلب کیا تو قاضی نے کہا کہ مرہٹوں کے خلاف نجیب الدولہ کی مدد جائز ہے۔ لہذا احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں سے پانی پت کے مقام پر جنگیں لڑیں۔ اور ان میں سب سے مشہور پانی پت کی تیسری لڑائی ہے
جو 1761 میں ہوئی اور اس میں ابدالی نے غلام قادر روہیلہ کے دادا نجیب الدولہ اور والد ضابطہ خان کی مدد سے مرہٹوں کو شکستِ فاش دی جس سے مرہٹوں کی اصل طاقت ہمیشہ کیلیے ختم ہو گئی۔ ابدالی کے سامنے اس وقت دہلی کا تخت خالی پڑا ہوا تھا، لیکن یہ بھی تاریخ کی ستم ظریفی ہے ہا پھر انسان کا مقدر کہ ہوتا وہ نہیں ہے جسے چاہا جاتا ہے۔ ابدالی بجائے دہلی پہ قابض ہونے کے واپس چلا گیا۔

اسکے بعد بھی نجیب الدولہ کی مرہٹوں اور سکھوں سے کشمکش جاری رہی لیکن وہ 1770 میں فوت ہوگیا۔ اس بہادر جرنیل کی تعریف اپنے پرائے سب ہی کرتے ہیں، یہاں تک کہ انتہائی متعصب ہندو مصنف جادو ناتھ سرکار، جس نے تاریخِ مغلیہ اور تاریخِ ہند پر کئی کتابیں تصنیف کی ہیں اور جو مسلمانوں کے خلاف زہر سے بھری پڑی ہیں، اس نے بھی نجیب الدولہ کی معاملہ فہمی اور جرنیلی کی تعریفیں کی ہیں۔

نجیب الدولہ کے مرنے کے بعد، مرہٹوں نے روہیلوں سے پانی پت کی شکست کا انتہائی شرمناک انتقام لیا۔ اسکی وفات کے دو سال بعد ہی 1772 میں مرہٹوں نے مغلوں کے ساتھ مل کر روہیلوں کو خون کے گھاٹ اتار دیا۔ اور یہی واقعہ غلام قادر روہیلہ کے انتقام کا محرک ہے۔

غلام قادر روہیلہ اس وقت کوئی 12، 13 سال کا بچہ تھا، اس نے اپنے قبیلے کو مرہٹوں کے ساتھ ساتھ اپنے مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں مرتے دیکھا۔ بات یہیں تک رہتی تو شاید وہ یہ فعلَ شعنیہ نہ کرتا جس کی طرف علامہ نے اپنی نظم میں اشارہ کیا ہے۔ لیکن ہوا وہی جو فاتح فوجیں ہمیشہ کرتی ہیں، مرہٹوں اور مغل فوج نے روہیلہ قبیلے کی عورتوں کی عصمت دری کی۔ غلام قادر نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا، جان تو اسکی بچ گئی لیکن وہ اس ظلم کو کبھی نہ بھلا سکا جو اصل میں مغل بادشاہ شاہ علام ثانی نے ہی کیا تھا کہ مرہٹے اکیلے روہیلوں کو فتح نہیں کرسکتے تھے

غلام قادر نے 1787 میں جب اسکی عمر کوئی 27 سال تھی، دہلی پر حملہ کیا اور اسے فتح کر لیا اور یہ واقع رو پذیر ہوا۔ جب اس نے شاہ عالم ثانی کو پکڑا تو اس نے کہا۔ اگرچہ تمھارا جرم تو اسکا متقاضی ہے کہ تمہارا بند بند جدا کرکے تمہارا گوشت چیل کوؤں کو کھلا دیا جائے لیکن یہ میری خدا ترسی ہے کہ میں تمھیں زندہ چھوڑے دیتا ہوں، ہاں اس میں شک نہیں کہ میں نے تم سے غوث گڑھ کی اس بد سلوکی کا جو تم نے میری ماں بہنوں کے ساتھ روا رکھی، پورا پورا انتقام لے لیا ہے۔ اور اسکے بعد خنجر سے اسکی دونوں آنکھیں نکال دیں۔ اس واقعہ کے ایک سال بعد ہی غلام قادر 1788 میں مرہٹوں کے ساتھ لڑتا ہوا مارا گیا۔

اب اس تمام واقعے سے ایک بات تو ظاہر ہوتی ہے کی غلام قادر نے جو کچھ بھی کیا وہ انتقام کے جذبے میں تھا کہ مغلوں اور مرہٹوں نے اسکی خاندان کی عورتوں کی خود اور اپنی فوجوں سے آبروریزی کروائی، لیکن غلام قادر نے فتح کے باوجود اس حد تک بربریت نہیں دکھائی جس کا مظاہرہ مغل و مرہٹہ فوجوں نے کیا تھا بلکہ اس نے غیرت کھا کے مغل عورتوں کو موقع بھی دیا کہ اسے قتل کر دیں۔

یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنی نظم کا آغاز تو غلام قادر روہیلہ کی بربریت سے کیا ہے، لیکن نظم کے اختتام پہ نہ صرف غلام قادر پر لعن طعن نہیں کی بلکہ مغلوں کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ انہی میں غیرت و حمیت ختم ہو گئی تھی۔

۔
 

ابوشامل

محفلین
وارث یا قتیل صاحب! سبحان اللہ! اقبال تو ویسے ہی میرے پسندیدہ شاعر ہیں بلکہ میں انہیں شاعر سے بڑھ کر اپنا روحانی رہنما سمجھتا ہوں، جن کے اشعار نظریاتی زندگی کے ہر موڑ پر میری رہنمائی کرتے رہے ہیں۔
غلام قادر روہیلہ پر مندرجہ بالا مضمون بہت شاندار ہے اور مجھے بہت پسند آیا ہے اس کی شخصیت پر وکیپیڈیا پر لکھا جا سکتا ہے بلکہ مذکورہ بالا مضمون کو "غلام قادر روہیلہ (نظم)" کے عنوان سے الگ‌ مضمون بھی بنایا جا سکتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ بھائی صاحب۔

آپ ضرور شامل کیجیے اس وکی پہ، اگر آپ اسے اس قابل سمجھتے ہیں۔
 

qaral

محفلین
روہیلہ کس قدر ظالم جفا جو کینہ پرور تھا

نکالی شاہ تیموری کی آنکھیں نوک خنجر سے
 

ابوشامل

محفلین
کلیات اقبال کے دلکش نسخے سے اسکین شدہ نظم "غلام قادر رُہیلہ" پیش خدمت ہے:

rohelajv4.gif
 

Dilkash

محفلین
مکرمی
میں یھاں پر نیا ہوں۔فورم میں اپکا مضمون غلام قادر روھیلا پڑھا بہت مزا آیا۔ ساتھ ساتھ حقیقی تاریخی واقعہ کا مفصل تشریح بھی ۔

امر واقعہ یہ ھے کہ پاکستان کی مرتبہ تاریخ مصلحتوں کا شکار ھے۔جس میں ھیرو کو زیرو اور زیرو کو ھیرو بنایا جاتا ھے۔اس مملکت خداداد کی اکاٰئیوں میی افغان/پشتون قوم کی اھمیت اپنی جگہ موجود اور مسلم ھے۔پھر بھی نجانے کس مصلحت پر یہان کے مورخ مغل نوارد،جو باہر سے ایا ہوا ایک جارح لشکر ھے ،یہاں کی صدیوں سے اباد افغان /پشتون قوم کے مقابلے میں بطور ھیرو پیش کرتا ھے۔ کھا جاتا ھے کہ محمد ظھیر الدین بابر 12000 لشکر جرار لا کر ابراہیم لودھی کو پانی پت کی میدان پر شکست فاش دیکر اسلامی سلطنت کا بنیاد رکھتا ھے۔حالانکہ دیکھا جاے تو مغل کی فوج میں خیبر اور پشاور کے غوری ،سوری اور لودھی پشتون ھی تھے
جو بعد میں کوئ خان جھان لودھی اور کوئ دلیر خان،عزیز خان روھیلہ وغیرہ کے القابات سے نوازے گئے۔ُشتونوں کی یہ بدقسمتی ھے کہ اپنی قوم کا فرد اپنے سے اوپر برداشت نھیں کرسکتا۔لھذا اغیار انکو ھمیشہ سے استعمال کرتے ائے ھیں۔

پاکستانی مورخ اگر اپ کی طرح غیر جانبدارانہ تاریخ مرتب کریں ، اور معتصبانہ رویہ ترک کرے تو یھی موجود قومیں اس پاک سرزمین کی حفاظت اپنا لھو بھا کر کرے گی۔ورنہ نفرتوں کی زھر خطرناک حد تک پھیل سکتی ھے۔

پی ٹی وی اور پاک سٹڈی کو اب تو قبلہ درست کرنا چاھیے۔

گستاخی معاف
 

محمد وارث

لائبریرین
محترم، بہت شکریہ مضمون کی پسندیدگی کیلیے، نوازش آپکی۔ اور فورم پر خوش آمدید، امید ہے آپ کا وقت یہاں پر خوب گزرے گا۔

واقعی ہمیں جو تاریخ پڑھائی جا رہی ہے وہ "مصلحتوں" کا شکار ہے، تاریخِ ہندوستان کے علاوہ اسلامی تاریخ کا بھی یہی حشر ہو رہا ہے ہمارے ملک میں۔ اور آپ کی یہ بات بھی درست ہے کہ ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا چاہئے۔

۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

ایک سوال کیا یہ مضمون آپ کی ذاتی تحریر اور تحقیق ہے ؟ آپ سے یہ بھی درخواست ہے کہ اس ضمن میں حوالہ جات کی بھی نشاندہی کر دیں۔

شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم

ایک سوال کیا یہ مضمون آپ کی ذاتی تحریر اور تحقیق ہے ؟ آپ سے یہ بھی درخواست ہے کہ اس ضمن میں حوالہ جات کی بھی نشاندہی کر دیں۔

شکریہ

وعلیکم السلام شگفتہ صاحبہ۔

جی ہاں یہ میری اپنی تحریر ہے۔ اسی سلسلے میں میرے دو دیگر مضامیں بھی اقبالیت میں موجود ہیں، جو کہ فاطمہ بنتِ عبداللہ اور عرفی شیرازی پر ہیں۔

اس مضمون کے حوالہ جات درج ذیل ہیں:

1-شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی، ناشر مکتبہ تعمیرِ انسانیت، لاہور، سنِ اشاعت ندارد۔ ص ص 413 تا 415

2- شرح کلیاتِ اقبال اردو، بانگِ درا از اسرار زیدی۔ ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور، سنِ اشاعت ندارد۔ ص ص 251 تا 253۔

3- رودِ کوثر از شیخ محمد اکرام۔ ناشر ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور۔ پندھرواں ایڈیشن، 1995۔ ص ص 598 تا 601

4- اسلامی سلطنتیں از کلیفورڈ ای بوسورتھ، اردو ترجمہ یاسر جواد۔ ناشر نگارشات لاہور، 2002۔ ص ص 200 تا 205

5- شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا از سید قاسم محمود۔ ناشر الفیصل، لاہور۔ سنِ اشاعت 2000۔ مختلف اندراج۔

6- اردو انسائیکلوپیڈیا۔ ناشر فیروز سنز، لاہور۔ چوتھا ایڈیشن، 2005۔ مختلف اندراج۔

۔
 
Top