باعثِ درد جو سینے میں سسکتی ہے غزل

صابرہ امین

لائبریرین
معزز استادِ محترم الف عین ،
محمد خلیل الرحمٰن ، سید عاطف علی
محمّد احسن سمیع :راحل:بھائ

آداب
آپ سے اصلاح و راہنمائ کی درخواست ہے ۔ ۔




باعثِ درد جو سینے میں سسکتی ہے غزل
جان لو تب ہی تو آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل

اشکوں کا سیلِ رواں بھی نہ بجھا پائے جسے
آتشِ ہجرِ مسلسل میں دہکتی ہے غزل

بیتے لمحات کی بارات گذرتی ہو کہیں
ایسے یادوں کے دریچوں سے جھلکتی ہے غزل

اس محبت میں جدائ کے عذابوں کو لیئے
خوف کے سائے میں ہر شام ٹھٹھکتی ہے غزل

روئے بازار میں جب طفل کھلونے کے لیئے
ایسے ناکامیِ حسرت سے بلکتی ہے غزل

جیسے نغمات بکھرتے ہیں سماعت کی نذر
یوں شبستانوں میں ہر روزدھڑکتی ہے غزل

جیسے جذبات پگھلتے ہیں بدن کے اندر
عشق کے راہوں پہ بےباک تھرکتی ہے غزل

بن پیئے مے بھی خماری کا مزہ دیتی ہے
جب رگ وپے میں یوں دن رات لہکتی ہے غزل
 

الف عین

لائبریرین
باعثِ درد جو سینے میں سسکتی ہے غزل
جان لو تب ہی تو آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل
.. درد سینے میں ہو رہا ہے تو غزل پہ کیا اثر پڑ رہا ہے؟ یا غزل کی وجہ سے ہی سینے میں درد ہے، کچھ واضح نہیں ہوا

اشکوں کا سیلِ رواں بھی نہ بجھا پائے جسے
آتشِ ہجرِ مسلسل میں دہکتی ہے غزل
.. میری تجویز
آنسوؤں کا نہ سمندر بھی بجھا پائے جسے
غلطی اشکوں کے وں کے اسقاط کی ہے
میرے مجوزہ مصرعے میں اگرچہ 'بھی بجھا' کا تنافر محسوس ہو رہا ہے۔
تم بھی مزید سوچو

بیتے لمحات کی بارات گذرتی ہو کہیں
ایسے یادوں کے دریچوں سے جھلکتی ہے غزل
.. درست

اس محبت میں جدائ کے عذابوں کو لیئے
خوف کے سائے میں ہر شام ٹھٹھکتی ہے غزل
.. درست

روئے بازار میں جب طفل کھلونے کے لیئے
ایسے ناکامیِ حسرت سے بلکتی ہے غزل
... خلیل کی 'صلاح' قبول کر لیں

جیسے نغمات بکھرتے ہیں سماعت کی نذر
یوں شبستانوں میں ہر روزدھڑکتی ہے غزل
.. پہلا مصرع واضح نہیں ہوا

جیسے جذبات پگھلتے ہیں بدن کے اندر
عشق کے راہوں پہ بےباک تھرکتی ہے غزل
... عشق کی راہوں.... باقی درست، مفہوم تم ہی جانو!

بن پیئے مے بھی خماری کا مزہ دیتی ہے
جب رگ وپے میں یوں دن رات لہکتی ہے غزل
.. درست
 

صابرہ امین

لائبریرین
باعثِ درد جو سینے میں سسکتی ہے غزل
جان لو تب ہی تو آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل
.. درد سینے میں ہو رہا ہے تو غزل پہ کیا اثر پڑ رہا ہے؟ یا غزل کی وجہ سے ہی سینے میں درد ہے، کچھ واضح نہیں ہوا
آداب
ملاحظہ کیجیئے ۔ ۔

باعثِ ہجر جو سینے میں سسکتی ہے غزل
جان لو تب ہی تو آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل

یا

درد سے ہجر کے، سینے میں سسکتی ہے غزل
جان لو تب ہی تو آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل

اشکوں کا سیلِ رواں بھی نہ بجھا پائے جسے
آتشِ ہجرِ مسلسل میں دہکتی ہے غزل
.. میری تجویز
آنسوؤں کا نہ سمندر بھی بجھا پائے جسے
غلطی اشکوں کے وں کے اسقاط کی ہے
میرے مجوزہ مصرعے میں اگرچہ 'بھی بجھا' کا تنافر محسوس ہو رہا ہے۔
تم بھی مزید سوچو
مری آنکھوں کا سمندر بھی بجھا سکتا نہیں
آتشِ ہجرِ مسلسل میں دہکتی ہے غزل

مرے اشکوں کا سمندر بھی بجھا سکتا نہیں
آتشِ ہجرِ مسلسل میں دہکتی ہے غزل

یا

مرے اشکوں کا سمندر کیا بجھا دے گا اسے
آتشِ ہجرِ مسلسل میں دہکتی ہے غزل

روئے بازار میں جب طفل کھلونے کے لیئے
ایسے ناکامیِ حسرت سے بلکتی ہے غزل
... خلیل کی 'صلاح' قبول کر لیں
جی بہتر ۔ ۔
روئے بازار میں جوں طفل کھلونے کے لیئے
ایسے ناکامیِ حسرت سے بلکتی ہے غزل

جیسے نغمات بکھرتے ہیں سماعت کی نذر
یوں شبستانوں میں ہر روزدھڑکتی ہے غزل
.. پہلا مصرع واضح نہیں ہوا
یہ کیسا رہے گا ۔ ۔ ۔

جیسے جذبات دھڑکتے ہیں مرے دل میں کہیں
یوں شبستانوں میں ہر روزدھڑکتی ہے غزل

جیسے جذبات دھڑکتے ہیں مرے دل میں عجب
یوں شبستانوں میں ہر روزدھڑکتی ہے غزل

جیسے جذبات پگھلتے ہیں بدن کے اندر
عشق کے راہوں پہ بےباک تھرکتی ہے غزل
... عشق کی راہوں.... باقی درست، مفہوم تم ہی جانو!
ہاہاہا ۔ ۔ جی اب مجھے بھی بےکار لگ رہا ہے ۔ ۔
میں اصل میں دل استعمال کرنا چاہ رہی تھی ۔ ۔ اب دیکھیئے ۔ ۔ ۔ ۔

دل کے تاروں سے نکلتے ہیں وہ نغمے جن پر
عشق کے راہوں پہ بےباک بھٹکتی ہے غزل

یا
دل کے تاروں سے نکلتے ہیں وہ نغمے جن پر
عشق کے راہوں پہ بےباک تھرکتی غزل
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
درد سے ہجر کے، سینے میں سسکتی ہے غزل
جان لو تب ہی تو آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل
بہتر ہے
آتشِ ہجرِ مسلسل میں دہکتی ہے غزل
کی ساری گرہیں 'ایسے' 'اس طرھ' کے کسی ربط کی کمی کی شکار ہیں
ہجر مسلسل کی جگہ
آتشِ ہجرِ مین کچھ ایسے دہکتی ہے غزل
آتش.... اس طرح دہکتی....
کیا جا سکتا ہے
پہلا مصرع
مری آنکھوں کا سمندر بھی بجھا سکتا نہیں
ہی بہتر ہے، لیکن بحر میں مکمل 'میری' آ سکتا ہے جس کی روانی بہتر ہے

جیسے جذبات دھڑکتے ہیں مرے دل میں کہیں
یوں شبستانوں میں ہر روزدھڑکتی ہے غزل
درست ہے، اگر رکھنا چاہو تو، ویسے یر روز کا مطلب تم ہی جانو!

عشق کی راہوں اب بھی نہیں ہے، راہ م کر نہیں بیٹا! باقی درست ہے
 

صابرہ امین

لائبریرین
آتشِ ہجرِ مسلسل میں دہکتی ہے غزل
کی ساری گرہیں 'ایسے' 'اس طرھ' کے کسی ربط کی کمی کی شکار ہیں
ہجر مسلسل کی جگہ
آتشِ ہجرِ مین کچھ ایسے دہکتی ہے غزل
آتش.... اس طرح دہکتی....
کیا جا سکتا ہے

پہلا مصرع
مری آنکھوں کا سمندر بھی بجھا سکتا نہیں
ہی بہتر ہے، لیکن بحر میں مکمل 'میری' آ سکتا ہے جس کی روانی بہتر ہے
آداب
ملاحظہ کیجیئے ۔ ۔

میری آنکھوں کا سمندر بھی بجھا سکتا نہیں
آتشِ ہجرِ میں اس طرح دہکتی ہے غزل

جیسے جذبات دھڑکتے ہیں مرے دل میں کہیں
یوں شبستانوں میں ہر روزدھڑکتی ہے غزل
درست ہے، اگر رکھنا چاہو تو، ویسے یر روز کا مطلب تم ہی جانو!
اب دیکھیئے


جیسے جذبات دھڑکتے ہیں مرے دل میں کہیں
یوں شبستانوں میں دن رات دھڑکتی ہے غزل

یا

جیسے جذبات دھڑکتے ہیں مرے دل میں کہیں
یوں شبستانوں میں بے تاب دھڑکتی ہے غزل



عشق کی راہوں اب بھی نہیں ہے، راہ م کر نہیں بیٹا! باقی درست ہے
جی " عشق کی راہوں" لکھا پر پھر غلط والا پیسٹ کر دیا ۔ ۔ معذرت۔ ۔

کون سا شعرر بہتر رہے گا ورنہ پھر کوشش کرتی ہوں ۔ ۔ ۔

دل کے تاروں سے نکلتے ہیں وہ نغمے جن پر
عشق کی راہوں پہ بےباک بھٹکتی ہے غزل

یا
دل کے تاروں سے نکلتے ہیں وہ نغمے جن پر
عشق کی راہوں میں بےباک تھرکتی غزل

 

صابرہ امین

لائبریرین
معزز استادِ محترم الف عین ،
محمد خلیل الرحمٰن

آپ کی رہنمائی اور اصلاح نے اس غزل کو بھی خوبصورت بنا دیا ہے ۔ ۔ جزاک اللہ ۔ ۔ ۔آپ سے نظر ثانی کی درخواست ہے ۔ ۔ :)

میں محمد خلیل الرحمٰن بھائی کی بھی شکر گذار ہوں کہ انہوں نے میری رہنمائی کی ۔ ۔ جزاک اللہ:)

درد سے ہجر کے، سینے میں سسکتی ہے غزل
جان لو تب ہی تو آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل

میری آنکھوں کا سمندر بھی بجھا سکتا نہیں
آتشِ ہجر میں اس طرح دہکتی ہے غزل

بیتے لمحات کی بارات گذرتی ہو کہیں
ایسے یادوں کے دریچوں سے جھلکتی ہے غزل

اس محبت میں جدائی کے عذابوں کو لیے
خوف کے سائے میں ہر شام ٹھٹھکتی ہے غزل

روئے بازار میں جوں طفل کھلونے کے لیے
ایسے ناکامئ حسرت سے بلکتی ہے غزل

دل کے تاروں سے نکلتے ہیں وہ نغمے جن پر
عشق کی راہوں میں بےباک تھرکتی ہے غزل

جیسے جذبات دھڑکتے ہیں مرے دل میں کہیں
یوں شبستانوں میں بے تاب دھڑکتی ہے غزل

بن پیے مے بھی خماری کا مزہ دیتی ہے
جب رگ وپے میں یوں دن رات لہکتی ہے غزل​
 
مدیر کی آخری تدوین:
معزز استادِ محترم الف عین ،
محمد خلیل الرحمٰن

آپ کی رہنمائی اور اصلاح نے اس غزل کو بھی خوبصورت بنا دیا ہے ۔ ۔ جزاک اللہ ۔ ۔ ۔آپ سے نظر ثانی کی درخواست ہے ۔ ۔ :)

میں محمد خلیل الرحمٰن بھائی کی بھی شکر گذار ہوں کہ انہوں نے میری رہنمائی کی ۔ ۔ جزاک اللہ:)

درد سے ہجر کے، سینے میں سسکتی ہے غزل
جان لو تب ہی تو آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل

میری آنکھوں کا سمندر بھی بجھا سکتا نہیں
آتشِ ہجر میں اس طرح دہکتی ہے غزل

بیتے لمحات کی بارات گذرتی ہو کہیں
ایسے یادوں کے دریچوں سے جھلکتی ہے غزل

اس محبت میں جدائی کے عذابوں کو لیے
خوف کے سائے میں ہر شام ٹھٹھکتی ہے غزل

روئے بازار میں جوں طفل کھلونے کے لیے
ایسے ناکامئ حسرت سے بلکتی ہے غزل

دل کے تاروں سے نکلتے ہیں وہ نغمے جن پر
عشق کی راہوں میں بےباک تھرکتی ہے غزل

جیسے جذبات دھڑکتے ہیں مرے دل میں کہیں
یوں شبستانوں میں بے تاب دھڑکتی ہے غزل

بن پیے مے بھی خماری کا مزہ دیتی ہے
جب رگ وپے میں یوں دن رات لہکتی ہے غزل​
بہت خوب۔ بہت سی داد قبول فرمائیے!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
معزز استادِ محترم الف عین ،
محمد خلیل الرحمٰن

آپ کی رہنمائی اور اصلاح نے اس غزل کو بھی خوبصورت بنا دیا ہے ۔ ۔ جزاک اللہ ۔ ۔ ۔آپ سے نظر ثانی کی درخواست ہے ۔ ۔ :)

میں محمد خلیل الرحمٰن بھائی کی بھی شکر گذار ہوں کہ انہوں نے میری رہنمائی کی ۔ ۔ جزاک اللہ:)

درد سے ہجر کے، سینے میں سسکتی ہے غزل
جان لو تب ہی تو آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل

میری آنکھوں کا سمندر بھی بجھا سکتا نہیں
آتشِ ہجر میں اس طرح دہکتی ہے غزل

بیتے لمحات کی بارات گذرتی ہو کہیں
ایسے یادوں کے دریچوں سے جھلکتی ہے غزل

اس محبت میں جدائی کے عذابوں کو لیے
خوف کے سائے میں ہر شام ٹھٹھکتی ہے غزل

روئے بازار میں جوں طفل کھلونے کے لیے
ایسے ناکامئ حسرت سے بلکتی ہے غزل

دل کے تاروں سے نکلتے ہیں وہ نغمے جن پر
عشق کی راہوں میں بےباک تھرکتی ہے غزل

جیسے جذبات دھڑکتے ہیں مرے دل میں کہیں
یوں شبستانوں میں بے تاب دھڑکتی ہے غزل

بن پیے مے بھی خماری کا مزہ دیتی ہے
جب رگ وپے میں یوں دن رات لہکتی ہے غزل​
بہت خوب! اساتذہ کے مشوروں کی روشنی میں آپ نے یہ اشعار خوب سنوارے ہیں ۔ اسی طرح محنت کرتی رہیں تو یقیناً اوربھی اچھی شاعرہ بن جائیں گی ، اسلوب نکھرتا جائے گا ۔ ایک دو نکتے میں بھی گوش گزار کرنا چاہوں گا۔
کوشش کیجئے کہ شعر میں حشو و زوائد کم سے سے کم ہوں ۔ یہ بات درست ہے کہ عہدِ نو آموزی میں مبتدی کا دھیان زیادہ تر وزن برابر کرنے اور قافیہ ردیف سنوارنے ہی میں لگا رہتا ہے ۔ لیکن جب ان سب مراحل سے گزر چکیں تو پھر دیکھنا چاہئے کہ اب شعر میں سے کون سے الفاظ نکالے جاسکتے ہیں کہ جن کے حذف کرنے سے شعر کے مفہوم ( یعنی ابلاغ) پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ اور ان کی جگہ اور کون سے الفاظ لائے جاسکتے ہیں کہ جن سے شعر چمک جائے اور تاثر دوبالا ہوجائے ۔ جلدی مت کیجئے ۔ کم از کم چار پانچ روز تو غزل کے ساتھ گزارئیے ۔
اس نکتے کی وضاحت کی غرض سے میں آپ کے دو تین اشعار پر تبصرہ کرتا ہوں :
درد سے ہجر کے، سینے میں سسکتی ہے غزل
جان لو تب ہی تو آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل
جان لو تب ہی وغیرہ کے الفاظ حذف کئے جاسکتے ہیں ۔ ان سے شعر کے مفہوم میں کوئی اضافہ نہیں ہورہا ۔ اسے یوں کہئے:
دردِ ہجراں سے جو سینے میں سسکتی ہے غزل
صورتِ اشک اِن آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری آنکھوں کا سمندر بھی بجھا سکتا نہیں
آتشِ ہجر میں اس طرح دہکتی ہے غزل
آنکھوں کا سمندر کے بجائے اشکوں کا سمندر زیادہ بہتر طور پر مفہوم ادا کرے گا ۔ دوسرے مصرع میں "اس طرح" کے الفاظ زائد ہیں ۔ اسے یوں کردیکھئے :
مرے اشکوں کا سمندر بھی بجھا سکتا نہیں
آتشِ ہجر میں پیہم جو دہکتی ہے غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روئے بازار میں جوں طفل کھلونے کے لیے
ایسے ناکامئ حسرت سے بلکتی ہے غزل
جوں کا لفظ متروک ہے ۔ بیکار لفظ ہے ۔ آپ نے آخری دفعہ کسے بولتے سنا یہ لفظ؟! بازار کا لفظ بھی ہٹادینے سے مفہوم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ شعر کا سیاق و سباق ایسا نہیں کہ بازار کا لفظ لانا ضرور ہو ۔ صرف بچے کا کھلونے کے لئے رونا اور بلکنا دکھلانا مقصود ہے ۔ اسے یوں بھی کیا جاسکتا ہے : جس طرح روئے کوئی طفل کھلونے کے لئے
دوسرے مصرع میں ناکامیِ حسرت بہت مبہم ہے ۔ خواہش کی ناکامی کو ہی حسرت کہا جاتا ہے ۔ یعنی جو خواہش پوری نہ ہوسکے وہ حسرت بن جاتی ہے ۔ اسے بھی درست کیجئے ۔
جس طرح روئے کوئی طفل کھلونے کے لئے
ایسے ناکامیِ الفت پہ بلکتی ہے غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے جذبات دھڑکتے ہیں مرے دل میں کہیں
یوں شبستانوں میں بے تاب دھڑکتی ہے غزل
پہلے مصرع میں ہیں کہ بجائے ہوں کہئے ۔ دوسری بات یہ کہ شبستانوں سے کیا مراد؟ جمع کا صیغہ کیوں؟ بات اپنی اور ذاتِ واحد کی ہورہی ہے سو شبستان کہنا مناسب ہوگا ۔
جیسے جذبات دھڑکتے ہوں مرے دل میں کہیں
یوں شبستان میں بے تاب دھڑکتی ہے غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس غزل کا سب سے کمزور شعر آخری ہے ۔ ٹھیک نہیں ہے ۔ کئی خامیاں ہیں ۔ آپ کا ہوم ورک یہ ہے کہ اس شعر کو سدھاریئے اور سنواریئے ۔:)
 

صابرہ امین

لائبریرین
بہت خوب! اساتذہ کے مشوروں کی روشنی میں آپ نے یہ اشعار خوب سنوارے ہیں ۔ اسی طرح محنت کرتی رہیں تو یقیناً اوربھی اچھی شاعرہ بن جائیں گی ، اسلوب نکھرتا جائے گا ۔ ایک دو نکتے میں بھی گوش گزار کرنا چاہوں گا۔
کوشش کیجئے کہ شعر میں حشو و زوائد کم سے سے کم ہوں ۔ یہ بات درست ہے کہ عہدِ نو آموزی میں مبتدی کا دھیان زیادہ تر وزن برابر کرنے اور قافیہ ردیف سنوارنے ہی میں لگا رہتا ہے ۔ لیکن جب ان سب مراحل سے گزر چکیں تو پھر دیکھنا چاہئے کہ اب شعر میں سے کون سے الفاظ نکالے جاسکتے ہیں کہ جن کے حذف کرنے سے شعر کے مفہوم ( یعنی ابلاغ) پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ اور ان کی جگہ اور کون سے الفاظ لائے جاسکتے ہیں کہ جن سے شعر چمک جائے اور تاثر دوبالا ہوجائے ۔ جلدی مت کیجئے ۔ کم از کم چار پانچ روز تو غزل کے ساتھ گزارئیے ۔
اس نکتے کی وضاحت کی غرض سے میں آپ کے دو تین اشعار پر تبصرہ کرتا ہوں :
درد سے ہجر کے، سینے میں سسکتی ہے غزل
جان لو تب ہی تو آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل
جان لو تب ہی وغیرہ کے الفاظ حذف کئے جاسکتے ہیں ۔ ان سے شعر کے مفہوم میں کوئی اضافہ نہیں ہورہا ۔ اسے یوں کہئے:
دردِ ہجراں سے جو سینے میں سسکتی ہے غزل
صورتِ اشک اِن آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری آنکھوں کا سمندر بھی بجھا سکتا نہیں
آتشِ ہجر میں اس طرح دہکتی ہے غزل
آنکھوں کا سمندر کے بجائے اشکوں کا سمندر زیادہ بہتر طور پر مفہوم ادا کرے گا ۔ دوسرے مصرع میں "اس طرح" کے الفاظ زائد ہیں ۔ اسے یوں کردیکھئے :
مرے اشکوں کا سمندر بھی بجھا سکتا نہیں
آتشِ ہجر میں پیہم جو دہکتی ہے غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روئے بازار میں جوں طفل کھلونے کے لیے
ایسے ناکامئ حسرت سے بلکتی ہے غزل
جوں کا لفظ متروک ہے ۔ بیکار لفظ ہے ۔ آپ نے آخری دفعہ کسے بولتے سنا یہ لفظ؟! بازار کا لفظ بھی ہٹادینے سے مفہوم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ شعر کا سیاق و سباق ایسا نہیں کہ بازار کا لفظ لانا ضرور ہو ۔ صرف بچے کا کھلونے کے لئے رونا اور بلکنا دکھلانا مقصود ہے ۔ اسے یوں بھی کیا جاسکتا ہے : جس طرح روئے کوئی طفل کھلونے کے لئے
دوسرے مصرع میں ناکامیِ حسرت بہت مبہم ہے ۔ خواہش کی ناکامی کو ہی حسرت کہا جاتا ہے ۔ یعنی جو خواہش پوری نہ ہوسکے وہ حسرت بن جاتی ہے ۔ اسے بھی درست کیجئے ۔
جس طرح روئے کوئی طفل کھلونے کے لئے
ایسے ناکامیِ الفت پہ بلکتی ہے غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے جذبات دھڑکتے ہیں مرے دل میں کہیں
یوں شبستانوں میں بے تاب دھڑکتی ہے غزل
پہلے مصرع میں ہیں کہ بجائے ہوں کہئے ۔ دوسری بات یہ کہ شبستانوں سے کیا مراد؟ جمع کا صیغہ کیوں؟ بات اپنی اور ذاتِ واحد کی ہورہی ہے سو شبستان کہنا مناسب ہوگا ۔
جیسے جذبات دھڑکتے ہوں مرے دل میں کہیں
یوں شبستان میں بے تاب دھڑکتی ہے غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس غزل کا سب سے کمزور شعر آخری ہے ۔ ٹھیک نہیں ہے ۔ کئی خامیاں ہیں ۔ آپ کا ہوم ورک یہ ہے کہ اس شعر کو سدھاریئے اور سنواریئے ۔:)
جی بہتر ۔ ۔ میں پوری کوشش کرتی ہوں ۔ ۔ آپ کی رہنمائی اور اصلاح کا بے حد شکریہ ۔ ۔ :)
 

صابرہ امین

لائبریرین
اس غزل کا سب سے کمزور شعر آخری ہے ۔ ٹھیک نہیں ہے ۔ کئی خامیاں ہیں ۔ آپ کا ہوم ورک یہ ہے کہ اس شعر کو سدھاریئے اور سنواریئے ۔:)
آداب
آخری شعر پر آپ کی رہنمائی کی روشنی میں اپنی سمجھ کے مطابق یہ تبدیلیاں کی ہیں ۔ ۔ آپ کی رہنمائی اور اصلاح درکار ہے ۔ ۔ امید کرتی ہوں کہ کوئی شعر بہتر ہوگا ۔ ۔ ورنہ دوبارہ کوشش کرتی ہوں ۔ ۔ ۔ شکریہ :)

ۤ؂

بن پیے مے بھی عجب ہوتی ہے حالت دل کی
جب رگ و پے میں سرِ شام بہکتی ہے غزل


یا
کیسا چڑھتا ہے نشہ عشق کا ہم رندوں پر
جب رگ و پے میں سرِ شام بہکتی ہے غزل

یا

عشق کی مےسے ہے لبریز مری چشم کہ اب
پیتے پیتے بھی کئی بار چھلکتی ہے غزل

یا

ہے مئے عشق سے لبریز مری زیست کہ اب
پیتے پیتے بھی کئی بار چھلکتی ہے غزل

یا

میں ہوں مدہوش، تمہیں کیسے بتاؤں ساقی
پن پیئے کیسے رگ و پے میں بہکتی ہے غزل
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ تو ایک شعر کی پوری غزل بنادی آپ نے ! :)

عشق کی مےسے ہے لبریز مری چشمِ جنوں
بن پئے بھی کئی بار چھلکتی ہے غزل

۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔

عشق کی مے سے ہے لبریز مرا سارا وجود
بن پئے میرے رگ و پے میں بہکتی ہے غزل
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
معزز استادِ محترم الف عین ،
محترم ظہیراحمدظہیر
محمد خلیل الرحمٰن بھائی ، سید عاطف علی بھائی
@محمّد احسن سمیع :راحل:بھائ


آداب
میں آپ کی بہت شکر گذار ہوں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت میرے اشعار کو خوب تر بنانے کے لیئے دیا۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔ ۔ آمین

بہت خوب! اساتذہ کے مشوروں کی روشنی میں آپ نے یہ اشعار خوب سنوارے ہیں ۔ اسی طرح محنت کرتی رہیں تو یقیناً اوربھی اچھی شاعرہ بن جائیں گی۔
ان شاء اللہ ۔ ۔ آپ کی حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ ۔ آپ نے بجا فرمایا کہ تمام اساتذہ ہم مبتدیوں پر بہت محنت کرتے ہیں ۔ جب اصلاح سخن میں آئی تو مجھے قافیہ کا "ق" اور بحر کا "ب" بھی نہیں معلوم تھا ۔ ۔ استادِ محترم الف عین اور دیگر محفلین نے مجھے وہ سمجھ بوجھ دی کہ اب آپ جیسے شاعروں کی باتیں سمجھنا معمہ نہیں لگتا۔ ۔ ۔ میں بطور خاص استاد محترم الف عین کی شکر گذار ہوں کہ شروع میں مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آتا تھا توجب جب بھی شاعری چھوڑنے کا ارادہ کیا انہوں نے بروقت رہنمائی کی اور ہمت بندھائی اور مجھے شاعری سے جوڑے رکھا ۔ ۔ اصلاح سخن کے علمی ماحول کا سہرا بلاشبہ استاد محترم کی شائستہ، محنتی، شفیق، منکسرالمزاج اور علم دوست شخصیت کو جاتا ہے ۔ ۔ اور دیگر تمام اساتذہ اس کارخیر میں ان کے شانہ بشانہ موجود ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ آپ سب سے شاعری تو سیکھی جا رہی ہے ساتھ ساتھ یہ قرینہ اور سلیقہ بھی سیکھا جا رہا ہے کہ علمی بحث اور ادبی اختلاف رائے کو کیسے پیش کیا جائے اورکس طرح ایک اچھے ماحول کو قائم رکھتے ہوئے اس سے صرف اور صرف سیکھا اور سمجھا جائے ۔ ۔ مجھ جیسے مبتدی کے لیئے یہ سب بہت قیمتی ہے جو مجھے خوب سے خوب تر کی جانب گامزن رکھے گا ۔ ۔ آپ سب لوگوں کا بے حد شکریہ:):)

یہ تو ایک شعر کی پوری غزل بنادی آپ نے ! :)
اس نئی جہت پر میں خود بھی کئی بار دم بخود ہو جاتی ہوں ۔ ۔ کبھی دماغ چل کے ہی نہیں دیتا ۔ اور کبھی یکے بعد دیگرے شعر ذہن میں اترنے لگتے ہیں ۔ ۔ استادِ محترم کو تو اس کی عادت ہو گئی ہے ۔ ۔ :D

آپ سب کی رہنمائی اور اصلاح کے بعد غزل کی ایک خوبصورت شکل نکل آئی ہے ۔ ۔ ۔ آپ سب سے نظر ثانی کی درخواست ہے ۔ ۔

درد سے ہجر کے، سینے میں سسکتی ہے غزل
صورتِ اشک اِن آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل

مرے اشکوں کا سمندر بھی بجھا سکتا نہیں
آتشِ ہجر میں پیہم جو دہکتی ہے غزل

بیتے لمحات کی بارات گذرتی ہو کہیں
ایسے یادوں کے دریچوں سے جھلکتی ہے غزل

اس محبت میں جدائی کے عذابوں کو لیے
خوف کے سائے میں ہر شام ٹھٹھکتی ہے غزل

جس طرح روئے کوئی طفل کھلونے کے لئے
ایسے ناکامیِ الفت پہ بلکتی ہے غزل

دل کے تاروں سے نکلتے ہیں وہ نغمے جن پر
عشق کی راہوں میں بےباک تھرکتی ہے غزل

جیسے جذبات دھڑکتے ہوں مرے دل میں کہیں
یوں شبستان میں بے تاب دھڑکتی ہے غزل

عشق کی مے سے ہے لبریز مرا سارا وجود
بن پئے میرے رگ و پے میں بہکتی ہے غزل
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
درد سے ہجر کے، سینے میں سسکتی ہے غزل
صورتِ اشک اِن آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل

پہلے مصرع میں تعقید ہے ۔ ۔۔۔ ہجر کے سینے میں سسکتی ہے غزل
یو ں معلوم ہوتا ہے کہ ہجر کے سینے کی بات ہورہی ہے ۔ تحریری صورت میں تو ہجر کے بعد سکتہ لگانے سے قاری کے لئے آسانی پیدا ہوجاتی ہے لیکن غزل پڑھتے وقت تو سکتہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ ایسی صورت میں بہتر ہوتا ہے کہ کوئی کہ متبادل صورت اختیار کریں اِلّا یہ کہ ایسا کرنے سے شعر کا مطلب تبدیل ہورہا ہو۔
دردِ ہجراں سے جو سینے میں سسکتی ہے غزل
دردِ فرقت سے جو سینے میں ۔۔۔۔۔
غمِ فرقت سے جو ۔۔۔۔۔
وغیرہ وغیرہ
 

صابرہ امین

لائبریرین
درد سے ہجر کے، سینے میں سسکتی ہے غزل
صورتِ اشک اِن آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل

پہلے مصرع میں تعقید ہے ۔ ۔۔۔ ہجر کے سینے میں سسکتی ہے غزل
یو ں معلوم ہوتا ہے کہ ہجر کے سینے کی بات ہورہی ہے ۔ تحریری صورت میں تو ہجر کے بعد سکتہ لگانے سے قاری کے لئے آسانی پیدا ہوجاتی ہے لیکن غزل پڑھتے وقت تو سکتہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ ایسی صورت میں بہتر ہوتا ہے کہ کوئی کہ متبادل صورت اختیار کریں اِلّا یہ کہ ایسا کرنے سے شعر کا مطلب تبدیل ہورہا ہو۔
دردِ ہجراں سے جو سینے میں سسکتی ہے غزل
دردِ فرقت سے جو سینے میں ۔۔۔۔۔
غمِ فرقت سے جو ۔۔۔۔۔
وغیرہ وغیرہ
جی بہتر۔ ۔ اب دیکھیئے ۔ ۔

دردِ ہجراں سے جو سینے میں سسکتی ہے غزل
صورتِ اشک اِن آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل

ایک بار پھر تہہ دل سے شکریہ ۔ ۔ :)
 

فاخر رضا

محفلین
درد سے ہجر کے، سینے میں سسکتی ہے غزل
صورتِ اشک اِن آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل

پہلے مصرع میں تعقید ہے ۔ ۔۔۔ ہجر کے سینے میں سسکتی ہے غزل
یو ں معلوم ہوتا ہے کہ ہجر کے سینے کی بات ہورہی ہے ۔ تحریری صورت میں تو ہجر کے بعد سکتہ لگانے سے قاری کے لئے آسانی پیدا ہوجاتی ہے لیکن غزل پڑھتے وقت تو سکتہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ ایسی صورت میں بہتر ہوتا ہے کہ کوئی کہ متبادل صورت اختیار کریں اِلّا یہ کہ ایسا کرنے سے شعر کا مطلب تبدیل ہورہا ہو۔
دردِ ہجراں سے جو سینے میں سسکتی ہے غزل
دردِ فرقت سے جو سینے میں ۔۔۔۔۔
غمِ فرقت سے جو ۔۔۔۔۔
وغیرہ وغیرہ
اس غزل کے ساتھ آپ نے وہ کیا ہے جو ہم ICU میں مریض کے ساتھ کرتے ہیں
ایک ایک organ ٹھیک کرتے ہیں
دماغ، دل، پھیپھڑے، جگر، گردے، اسکن، خون کے خلیات، غدود کا نظام یعنی شوگر وغیرہ غرض ہر عضو جسم کو سپورٹ کرنا پڑتا ہے
یہ ایک بہت مشکل کام ہے مگر بہت challenging ہے
اس غزل میں چونکہ خیالات اچھے تھے شاید اسی لیے آپ نے اسے اتنی توجہ دی
خدا آپ کو سلامت رکھے
 
Top