بارے ہمزہ کا کچھ بیاں ہوجائے ۔۔۔۔۔ تبصرے اور آراء

جیہ

لائبریرین
اردو کیسے لکھیں
(صحیح املا)

از

رشید حسن خان

سے ایک طویل اقتباس

اپنے تبصرے اور آرا یہاں لکھیں
 

الف عین

لائبریرین
جزاک اللہ خیر جوجو محنت سے یہ طویل اقتباس ٹائپ کرنے کا۔
اردو املا کے ضمن میں خان صاحب کی اہمیت اپنی جگہ ہے اگرچہ بہت سے علما ان سے متفق نہیں تھے۔ جیسے ہمارے دوسرے استاد (مشتاق یوسفی) نے ہی کہیں لکھا ہے کہ "توتا" کو اگر "طوطا" ہیم لکھا جائے تو نہ صرف زیادہ ہرانظر آتا ہے بلکہ اس کی چونچ بھی واضح نظر آتی ہے۔
مذاق قطع نظر، موصوف کا ایک رہنما اصول یہی ہے کہ املا آسان بنائ جائے، اگرچہ یہ بھی کہا گیا کہ خان صاحب کو کیا اختیار ہے کہ کسی لفظ کو تین حرفی یا چار حرفی ڈکلیر کریں اور پھر کہیں کہ اس میں ہمزہ کی ضرورت نہیں۔ سوال اٹھ سکتا ہے کہ بناؤ درست لیکن بناو سنگھار نہیں۔ بول چال میں ضرور بناو سنگھار میں و دبتی ہے، لیکن شاعری میں ڈھونڈھا جائے تو یقیناً بناو سنگھار میں بناؤ بر وزن بتاؤ (فعولن) بھی ضرور ملے گا۔ ہندی میں بھی ایسے سارے الفاظ دونوں طرح لکھے جاتے ہیں۔ جاؤ کو "جا، آ ماترا" اور محض "وا" سے بھی (जाव)اور "جا، آ کی ماترا اور پھر "او" (जाओ)سے بھی۔ بہر حال یہ بات وہ تھی جس پر اختلاف کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس رہنما اصول کی بات کی جائے کہ حروف کی تعداد کم کی جائے تو بہتر ہے۔ جب محض آے سے کام چل جائے تو پھر اسے آ۔ ئ اور ے سے کیوں لکھا جائے۔ اس سے بہتر آ اور ئے (ہمزہ بڑی ے واحد کیریکٹر) رہے گا نا!! یہی صورت ’کوئ‘ کی ہے۔ کیوں اسے ک۔ و۔ ئ۔ اور ی لکھا جائے؟ اس کے علاوہ موصوف کو یہ علم تو تھا نہیں کہ یونی کوڈ میں ئے اور ئ الگ الگ کیریکٹرس ہیں۔ (شاید خان صاحب علاحدہ املا پسند کرتے تھے، بہ نسبت علیحدہ یا علیٰحدہ) لیکن علماء بھی اس آسان املا کی بہ نسبت اب بھی وہی اصیل املا بلکہ املاء لکھنا پسند کرتے ہیں، یا شاید جرأت یا جرات نہیں کر پاتے۔
ایک املا کے سلسلے میں لیکن اکثر لوگوں سے اختلاف رکھتا ہوں۔ اردو لائف کے ادبی جریدے میں شاید عباس ملک نے بھی اور کچھ اور حضرات نے بھی لکھا ہے کہ پاؤں اور گاؤں لکھنا غلط ہے، اگرچہ اس کا رواج چل گیا ہے۔ اور اب محض کلاسیکی کتابوں میں آپ کو گانو یا پانو لکھا ملے گا۔ اگر اس طرح لکھیں اور نون پر جزم لگائ جائے (جو میں خود نہیں لگا رہا ہوں کہ اکثر فانٹ میں نہیں ہے) تب ہی آپ درست سمجھ سکتے ہیں ورنہ پانو بر وزن جانو پڑھنے میں آئے گا۔ اس لئے میرا ووٹ اس ضمن میں گاؤں اور پاؤں کی املا کے لیے ہی ہے۔
لیے کی بات مانی جا سکتی ہے۔ بہ نسبت لئے کے۔ لیکن جب آپ کمپیوٹر پر ل ئ ی اور ے لکھنے پر بضد ہوں تو یہ خواہ مخواہ طوالت پر ضد ہوگی۔ اس لئے اگرچہ مجھے ذاتی طور پر لئے پسند ہے (وہی رہنما اصول کہ حروف کی تعداد کم کی جائے) ل اور ئے میں دو ہی حروف ہیں۔ ل ی ے میں تین، لیکن اگر آپ لئیے لکھنا چاہیں تو اس میں چار ہیں ل ئ ی ے۔
محض اس اصول کو قبول کیا جائے کہ کم حروف استعمال ہوں اور یونی کوڈ میںؤ ئ اور ئے کے علاحدہ کیریکٹرس کی موجودگی میں زبردستی ایک ی یا ے کا اضافہ کوئ معنی نہیں رکھتا۔ رہا سوال فانٹ کا کہ ئے یا ئ درست دکھائ نہیں دیتے تو یہ فانٹ کی غلطی ہے۔ میں نے اپنے سارے نسق فانٹس اور حالیہ اردو نقش میں ئ کو نستعلیق شکل دی ہے۔ یہ محض نفیس نستعلیق ہی ہے جس نے ئ کو بھی محض ء سے میپ کر رکھا ہے جو فاش غلطی ہے۔ دوسرے فانٹس میں ئ ئی سے بہتر نظر آتا ہے اور زیادہ درست۔
رہا سوال شگفتہ کی کرسی والی بات کا، تو یہاں بھی میں اسی اصول پر کار بند ہوں کہ جب علاحدہ کیریکٹرس ہیں تو پھر و، ی یا ے کو کرسی بنا کر اس میں اوپر سے ہمزہ کی تشریف کیوں رکھی جائے۔ انھوں نے واضح الفاظ میں اوپر ہمزہ والے یونی کوڈ کیریکٹر استعمال کرنے کا کہا تو نہیں، لیکن کرسی والی بات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ اگر اسے درست املا مانی جائے تو ہم کو ؤ کی جگہ و اور اس کے اوپر ہمزہ یعنی ’ ؤ ‘ لکھنا پڑے گا، جو ظاہر ہے کہ دو کی سٹروکس ہیں، دو کیریکٹرس ہیں اور دو حروف بھی۔ جب کہ یونیکوڈ نے ہمیں اب ایک حرف دے دیا ہے ’ؤ‘۔
 

دوست

محفلین
ؤ کے استعمال سے منع کرنا مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔ اگر فاضل مصنف کے خیال میں ایسا ہی تھا تو ہوگا۔ ان دنوں اگر ہم آؤ کو آو لکھ دیں تو تلفط کا بیڑہ غرق ہی ہوسکتا ہے املاء تو کیا ٹھیک ہونی ہے۔
پہلے ہی زیر زبر پیش کے استعمال میں کمی کی وجہ سے آدھے سے زیادہ اہل اردو آدھے سے زیادہ الفاظ کو زیر کی بجائے زبر اور زبر کی بجائے زیر لگا کر پڑھتے ہیں۔
 

جیہ

لائبریرین
استاد محترم کے تفصیلی تبصرے سے فکر کی نئ راہیں کھل رہی ہیں۔ خان صاحب نے یہ کتاب 1983 میں لکھی تھی ظاہر بات ہے کہ اس وقت کمپیوٹر پر اردو لکھنے کا تصور نہیں تھا۔ اردو یا کم از کم عربی وینڈوز 2000 آنے کے بعد کمپیوٹر پر لکھی جانے لگی ہے مگر یہ بات واضح ہے کہ ان کی دلائل سے فرار ممکن نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان سب کو اگر مانا جائے املا بہت پیچیدہ ہو جاتی ہے اور جیسے استاد محترم نے لکھا ہے کہ املا آسان بنائ جائے اس سے مجھے پورا اتفاق ہے مگر گاے (جانور) اور(گانا) گائے میں فرق تو ہونا چاہیے۔

جہاں تک شاکر بھائ کی ؤ کے بارے میں بات ہے، میرا خیال ہے کہ مصنف نے واضح طور پر کہا ہے کہ فعل میں ہمزہ آسکتا ہے مگر اسم اور حاصل مصدر میں نہیں۔
 

تفسیر

محفلین
جیہ نے کہا:
استاد محترم کےتفصیلی تبصرے سےفکر کی نئ راہیں کھل رہی ہیں۔ خان صاحب نے یہ کتاب 1983 میں لکھی تھی ظاہر بات ہے کہ اس وقت کمپیوٹر پر اردو لکھنے کا تصور نہیں تھا۔ اردو یا کم از کم عربی وینڈوز 2000 آنے کے بعد کمپیوٹر پر لکھی جانے لگی ہے مگر یہ بات واضح ہے کہ ان کی دلائل سے فرار ممکن نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان سب کو اگر مانا جائے املا بہت پیچیدہ ہو جاتی ہے اور جیسے استاد محترم نے لکھا ہے کہ املا آسان بنائ جائے اس سے مجھے پورا اتفاق ہے مگر گاے (جانور) اور(گانا) گائے میں فرق تو ہونا چاہیے۔

جہاں تک شاکر بھائ کی ؤ کے بارے میں بات ہے، میرا خیال ہے کہ مصنف نے واضح طور پر کہا ہے کہ فعل میں ہمزہ آسکتا ہے مگر اسم اور حاصل مصدر میں نہیں۔

مجھ کو توایسا لگتا۔۔۔۔۔۔

کہ حروف سےلفظ ، لفظوں سےجملےبنتے ہیں اور جملہ خیال کی بنیاد ڈالتا ہے۔ پیراگراف اس خیال کی وضاحت کرتا ہے۔
اسکول کی ابتدائ کلاسوں میں اردو اعراب کےساتھ سکھائ جاتی ہے۔ لیکن اوپری کلاسوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ شایداسکی کوئ وجہ ہو؟
جس طرح الفاظ لغت کے پابند نہیں ہوتے اورلہجےسے بھی لفظوں کا مفہوم بدلتا ہے اسی طرح جملےالفاظ کی سجھ کو مکمل کرتے ہیں۔اگر میں کہوں“ نسیمہ کودیکھو، گاے جارہی ہے“ ۔ کیا نسمیہ ایک گاے ہے؟ یا واقعی میں ایک گاے کہیں گھانس چرنےجارہی ہے۔ :cry:

آپ کو کیوں ایسا نہیں لگتا ہے ۔۔۔۔
 
Top