قمر جلالوی اے میرے ہم نشیں چل کہیں اور چل

سیما علی

لائبریرین
اے مرے ہم نشیں چل کہیں اور چل، اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں
بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم، اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں

آج آئے ہو تم کل چلے جاؤ گے، یہ
محبت کو اپنی گوارا نہیں
عمر بھر کا سہارا بنو تو بنو، دو گھڑی کا سہارا سہارا نہیں

دی صدا دار پر اور کبھی طور پر،
کس جگہ میں نے تم کو پکارا نہیں
ٹھوکریں یوں کھلانے سے کیا فائدہ، صاف کہہ دو کہ ملنا گوارا نہیں

گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی سب
سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہلِ چمن، یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں

ظالمو اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو،
دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے
وہ یقیناً سنیں گے صدائیں مری، کیا تمہارا خدا ہے ہمارا نہیں

اپنی زلفوں کو رخ سے ہٹالیجئے،
میرا ذوقِ نظر آزما لیجئے
آج گھر سے چلا ہوں یہی سوچ کر، یا تو نظریں نہیں یا نظارہ نہیں

جانے کس کی لگن کس کی دھن میں مگن،
ہم کو جاتے ہوئے مڑ کے دیکھا نہیں
ہم نے آواز پر تم کو آواز دی، پھر بھی کہتے ہو ہم نے پکارا نہیں

استاد قمر جلالوی
 
مدیر کی آخری تدوین:
ایک اور پاکستانی غزل گائیک ہوا کرتے تھے، مسعود خان، جو اپنی بیگم شیلُو کے ساتھ گایا کرتے تھے، انہوں نے بھی یہ غزل گائی ہے. 90 کی دہائی میں ان کا خوب طوطی بولتا تھا اور خوب آڈیو کیسٹس بکا کرتے تھے. پھر نجانے کہاں غائب ہوگئے.

 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس کلاسیک غزل کی فارمیٹنگ درستی چاہتی ہے ۔ مصرعوں کو توڑ کر لکھنے کے بجائے ایک ساتھ ہونا چاہئے۔ یوں:

اے مرے ہم نشیں چل کہیں اور چل، اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں
بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم ، اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
 
اس کلاسیک غزل کی فارمیٹنگ درستی چاہتی ہے ۔ مصرعوں کو توڑ کر لکھنے کے بجائے ایک ساتھ ہونا چاہئے۔ یوں:

اے مرے ہم نشیں چل کہیں اور چل، اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں
بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم ، اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
تدوین کردی ہے جناب!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اے مرے ہم نشیں چل کہیں اور چل، اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں
بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم، اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں

گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہلِ چمن، یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں

ظالمو اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو،
دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے
وە یقیناً سنیں گے صدائیں مری، کیا تمہارا خدا ہے ہمارا نہیں

جانے کس کی لگن کس کی دھن میں مگن، ہم کو جاتے ہوئے مڑ کے دیکھا نہیں
ہم نے آواز پر تم کو آواز دی، پھر بھی کہتے ہو ہم نے پکارا نہیں

خلیل بھائی ، یہ سرخ رنگ زدہ ٹائپو بھی درستی چاہتے ہیں ۔ دراصل اتنی اچھی غزل کا مزا کرکرا ہوتے دیکھا نہیں جارہا ۔ :)
 

بابا-جی

محفلین
ایک اور پاکستانی غزل گائیک ہوا کرتے تھے، مسعود خان، جو اپنی بیگم شیلُو کے ساتھ گایا کرتے تھے، انہوں نے بھی یہ غزل گائی ہے. 90 کی دہائی میں ان کا خوب طوطی بولتا تھا اور خوب آڈیو کیسٹس بکا کرتے تھے. پھر نجانے کہاں غائب ہوگئے.

کُچھ تھوڑا بہت انٹرنیٹ پر ان کا وُجود ہے مگر گائیکی شاید ترک کر چکے۔ ٹویٹر اکاؤنٹ بھی زمانے سے غیر فعال ہے۔
 
Top