فراز اے خدا جو بھی مجھے پندِ شکیبائی دے ۔۔۔ احمد فراز

ابھی مقدس نے فراز کی ایک انتہائی خوبصورت غزل ارسال کی تو ہمیں بھی مہمیز ہوئی کہ کچھ انتخاب اس عہد کے خوبصورت شاعر کا ارسال کیا جائے۔​


اے خدا! جو بھی مجھے پندِ شکیبائی دے​
اُس کی آنکھوں کو مرے زخم کی گہرائی دے​
تیرے لوگوں سے گلہ ہے مرے آئینوں کو​
ان کو پتھر نہیں دیتا ہے تو بینائی دے​
جس کے ایما پہ کیا ترکِ تعلق سب سے​
اب وہی شخص مجھے طعنۂ تنہائی دے​
یہ دہن زخم کی صورت ہے مرے چہرے پر​
یا مرے زخم کو بھر، یا مجھے گویائی دے​
اتنا بے صرفہ نہ جائے مرے گھر کا جلنا​
چشمِ گریاں نہ سہی چشمِ تماشائی دے​
جن کو پیراہنِ توقیر و شرف بخشا ہے​
وہ برہنہ ہیں انھیں خلعتِ رسوائی دے​
کیا خبر تجھ کو کہ کس وضع کا بسمل ہے فرازؔ​
وہ تو قاتل کو بھی الزامِ مسیحائی دے​
احمد فرازؔ کے مجموعۂ کلام "جاناں جاناں" سے انتخاب​
 

mfdarvesh

محفلین
بہت خوب
کافی عرصے بعد دوبارہ اس کو پڑھا ہے
دوران تعلیم ہمارے اردو کے استاد نے ہمیں یہ سنائی تھی، اپنی پسندیدہ غزل کے طور پہ
 

شیزان

لائبریرین
یہ دہن زخم کی صورت ہے مرے چہرے پر
یا مرے زخم کو بھر، یا مجھے گویائی دے

جن کو پیراہنِ توقیر و شرف بخشا ہے
وہ برہنہ ہیں انھیں خلعتِ رسوائی دے

بہت عمدہ انتخاب ہے اپیا
بےحد شکریہ شیئرنگ کے لیے
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
فراز کا لہجہ خوب صورت ہے، کیا کہنے!

اتنا بے صرفہ نہ جائے مرے گھر کا جلنا
چشمِ گریاں نہ سہی ۔۔ چشمِ تماشائی دے
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہ
بہت خوب انتخاب
تیرے لوگوں سے گلہ ہے مرے آئینوں کو
ان کو پتھر نہیں دیتا ہے تو بینائی دے
 
یہ دہن زخم کی صورت ہے مرے چہرے پر
یا مرے زخم کو بھر، یا مجھے گویائی دے

جن کو پیراہنِ توقیر و شرف بخشا ہے
وہ برہنہ ہیں انھیں خلعتِ رسوائی دے

بہت عمدہ انتخاب ہے اپیا
بےحد شکریہ شیئرنگ کے لیے
شکریہ چھوٹے بھائی ۔۔آپکو پسند آیا ہمارا انتخاب ۔۔جیتے رہیئے :)
 
Top