اے آر وائے ٹی وی چینل کے خلاف مقدمہ، صحافی تنظیموں کا احتجاج

arifkarim

معطل
واشنگٹن — پاکستان کے صوبے بلوچستان میں پولیس کی جانب سے نجی ٹیلی ویژن نیوز چینل 'اے آر وائی نیوز' کی انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کیے جانے پر پاکستان کی صحافی تنظیموں نے سخت احتجاج کی دھمکی دی ہے۔

'اے آر وائے نیوز' کی انتظامیہ کے مطابق چینل پر مقدمہ 13 اگست کو نشر کی جانے والی ایک ویڈیو کی بنیاد پر درج کیا گیا ہے جس میں بلوچستان میں سرگرم ایک علیحدگی پسند تنظیم سے منسلک جنگجووں کو صوبے کے شہر زیارت میں واقع بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ پر مبینہ حملہ کرتے دکھایا گیا تھا۔

بتایا جاتا ہےکہ زیارت میں واقع اس قومی یادگار کو جون کے وسط میں بلوچ علیحدگی پسندوں نے حملہ کرکے نذرِ آتش کردیا تھا اور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب رہے تھے۔ حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم 'بلوچستان لبریشن آرمی' نے قبول کی تھی۔

'اے آر وائے نیوز' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیوز اویس توحید نے 'وائس آف امریکہ - اردو سروس' کے نمائندے شہزاد حسین کو بتایا ہے کہ، بقول اُن کے، متنازع ویڈیو نشر کرنے کا مقصد حملے سے متعلق حقائق سامنے لانا تھا۔

اویس توحید کے مطابق ان کے چینل نے جو ویڈیو نشر کی تھی، اس سے حملے کے متعلق سکیورٹی اداروں کے موقف کی تردید ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پہلے ہی ویڈیو نشر کیے جانے کا از خود نوٹس لے رکھا ہے جس کی سماعت جاری ہے۔ ان کے بقول ایسے میں صوبائی انتظامیہ کی جانب سے چینل کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کو وہ "شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری" سمجھتے ہیں۔

اویس توحید نے بتایا کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کی ہدایت پر درج کی جانے والی 'ایف آئی آر' میں چینل کے سربراہ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیوز اور اسلام آباد اورکوئٹہ کے بیورو چیفس کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق 'ایف آئی آر' انسدادِ دہشت گردی کے قانون مجریہ 1997ء کے تحت درج کی گئی ہے جس میں ذرائع ابلاغ کو دہشت گردی کی کاروائیوں کی ایسی تشہیر نہ کرنے کا پابند کیا گیا ہے جس سے دہشت گردوں یا ان کی سرگرمیوں کی مثبت تشہیر ہوتی ہو یا مذہبی، فرقہ ورانہ اور نسلی منافرت کو ہوا ملتی ہو۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں بلوچستان میں بدامنی سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں دہشت گردی سے متعلق خبروں کی اشاعت کو متعلقہ قوانین اور ضابطوں کا پابند بنائیں۔

اس سے قبل بلوچستان ہائی کورٹ نے بھی مقامی اخبارات کو دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث تنظیموں کے بیانات اور سرگرمیاں شائع نہ کرنے کا حکم دیا تھا جس کی خلاف ورزی پر ماضی میں بلوچستان سے شائع ہونے والی کئی اخبارات کے خلاف مقدمات درج کیے جاتے رہے ہیں۔

تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ صوبے کی انتظامیہ نے کسی ٹی وی چینل کے خلاف 'ایف آئی آر' درج کی ہے۔

سپریم کورٹ نے 'اے آر وائے نیوز' کی انتظامیہ سے یہ ویڈیو نشر کرنے پر وضاحت مانگی ہے اور اس ازخود نوٹس لیے جانے والے کیس کی مزید سماعت منگل کو ہوگی۔

'اے آر وائی نیوز' کی انتظامیہ کے خلاف مقدمے کے اندراج کے خلاف پاکستان میں صحافیوں کی وفاقی انجمن 'پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس' اور دیگر تنظیموں نے سخت احتجاج کیا ہے اور حکومت سے مقدمہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق، مقدمے کے خلاف کراچی اور سکھر میں صحافیوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں جب کہ منگل کو مزید احتجاج متوقع ہے۔

بحوالہ: http://www.urduvoa.com/content/case-registered-against-pakistan-news-channel-26aug2013/1737472.html
 

arifkarim

معطل
'اے آر وائے نیوز' کی انتظامیہ کے مطابق چینل پر مقدمہ 13 اگست کو نشر کی جانے والی ایک ویڈیو کی بنیاد پر درج کیا گیا ہے جس میں بلوچستان میں سرگرم ایک علیحدگی پسند تنظیم سے منسلک جنگجووں کو صوبے کے شہر زیارت میں واقع بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ پر مبینہ حملہ کرتے دکھایا گیا تھا۔

یہ ویڈیو یہاں دیکھی جا سکتی ہے:
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/بلوچستان-لبریشن-آرمی-نے-قائداعظم-ریزیڈنسی-پر-حملے-کی-ویڈیو-جاری-کر-دی.66537/

کیا محفل کے سی ای او کیخلاف بھی مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے؟ :battingeyelashes:
 

شیزان

لائبریرین
آزادئ صحافت کے نام پر جو جو کچھ ہو رہا ہے۔۔ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔۔
بےلگام میڈیا کو خود ہی کوئی ضابطہ اخلاق طے کر لینا چاہیے ورنہ شواہد بتا رہے ہیں کہ مزید پابندیاں لگ سکتی ہیں۔۔
میڈیا کی آزادی مقدم سہی لیکن بہرحال کچھ نہ کچھ حدود ہوتی ہیں۔۔ جن کا پوری دنیا میں خیال رکھا جاتا ہے۔۔ لیکن ہمارے ہاں صحافت کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔
بڑے بڑے اینکرز بلیک میلرز کا روپ دھارے ؎بیٹھے ہیں۔زرد صحافت سے نجات ہمارا اولین مقصد ہونا چاہیے
 

نایاب

لائبریرین
بلا شبہ زرد صحافت قابل نفرین ہے جو کہ سنسنی خیزی پھیلاتی ہے ۔ اور معاشرے میں بد امنی اور بگاڑ کی کیفیت کو تقویت دیتی ہے ۔
سب دھندے باز وں نے اپنے اپنے دھندے چمکا رکھے ہیں ۔ آزادی اظہار کے نام پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت گندا باعزت دھندہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
واشنگٹن — پاکستان کے صوبے بلوچستان میں پولیس کی جانب سے نجی ٹیلی ویژن نیوز چینل 'اے آر وائی نیوز' کی انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کیے جانے پر پاکستان کی صحافی تنظیموں نے سخت احتجاج کی دھمکی دی ہے۔

'اے آر وائے نیوز' کی انتظامیہ کے مطابق چینل پر مقدمہ 13 اگست کو نشر کی جانے والی ایک ویڈیو کی بنیاد پر درج کیا گیا ہے جس میں بلوچستان میں سرگرم ایک علیحدگی پسند تنظیم سے منسلک جنگجووں کو صوبے کے شہر زیارت میں واقع بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ پر مبینہ حملہ کرتے دکھایا گیا تھا۔

بتایا جاتا ہےکہ زیارت میں واقع اس قومی یادگار کو جون کے وسط میں بلوچ علیحدگی پسندوں نے حملہ کرکے نذرِ آتش کردیا تھا اور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب رہے تھے۔ حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم 'بلوچستان لبریشن آرمی' نے قبول کی تھی۔

'اے آر وائے نیوز' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیوز اویس توحید نے 'وائس آف امریکہ - اردو سروس' کے نمائندے شہزاد حسین کو بتایا ہے کہ، بقول اُن کے، متنازع ویڈیو نشر کرنے کا مقصد حملے سے متعلق حقائق سامنے لانا تھا۔

اویس توحید کے مطابق ان کے چینل نے جو ویڈیو نشر کی تھی، اس سے حملے کے متعلق سکیورٹی اداروں کے موقف کی تردید ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پہلے ہی ویڈیو نشر کیے جانے کا از خود نوٹس لے رکھا ہے جس کی سماعت جاری ہے۔ ان کے بقول ایسے میں صوبائی انتظامیہ کی جانب سے چینل کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کو وہ "شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری" سمجھتے ہیں۔

اویس توحید نے بتایا کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کی ہدایت پر درج کی جانے والی 'ایف آئی آر' میں چینل کے سربراہ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیوز اور اسلام آباد اورکوئٹہ کے بیورو چیفس کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق 'ایف آئی آر' انسدادِ دہشت گردی کے قانون مجریہ 1997ء کے تحت درج کی گئی ہے جس میں ذرائع ابلاغ کو دہشت گردی کی کاروائیوں کی ایسی تشہیر نہ کرنے کا پابند کیا گیا ہے جس سے دہشت گردوں یا ان کی سرگرمیوں کی مثبت تشہیر ہوتی ہو یا مذہبی، فرقہ ورانہ اور نسلی منافرت کو ہوا ملتی ہو۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں بلوچستان میں بدامنی سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں دہشت گردی سے متعلق خبروں کی اشاعت کو متعلقہ قوانین اور ضابطوں کا پابند بنائیں۔

اس سے قبل بلوچستان ہائی کورٹ نے بھی مقامی اخبارات کو دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث تنظیموں کے بیانات اور سرگرمیاں شائع نہ کرنے کا حکم دیا تھا جس کی خلاف ورزی پر ماضی میں بلوچستان سے شائع ہونے والی کئی اخبارات کے خلاف مقدمات درج کیے جاتے رہے ہیں۔

تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ صوبے کی انتظامیہ نے کسی ٹی وی چینل کے خلاف 'ایف آئی آر' درج کی ہے۔

سپریم کورٹ نے 'اے آر وائے نیوز' کی انتظامیہ سے یہ ویڈیو نشر کرنے پر وضاحت مانگی ہے اور اس ازخود نوٹس لیے جانے والے کیس کی مزید سماعت منگل کو ہوگی۔

'اے آر وائی نیوز' کی انتظامیہ کے خلاف مقدمے کے اندراج کے خلاف پاکستان میں صحافیوں کی وفاقی انجمن 'پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس' اور دیگر تنظیموں نے سخت احتجاج کیا ہے اور حکومت سے مقدمہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق، مقدمے کے خلاف کراچی اور سکھر میں صحافیوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں جب کہ منگل کو مزید احتجاج متوقع ہے۔

بحوالہ: http://www.urduvoa.com/content/case-registered-against-pakistan-news-channel-26aug2013/1737472.html

شاید اسے ہی چوری اور سینہ زوری کہتے ہیں۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
صحافت میں کہیں نہیں کہا گیا کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرو، آزادی رائے کے نام پر جو جی چاہے دکھاؤ، بلیک میلنگ کرو لیکن یہ معاشرے کو بے وقوف بناتے لوگ۔۔۔ انہی بڑے مگر مچھوں کی وجہ سے آج ایماندارانہ صحافت کا فقدان ہے ۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اب اے آر وائی والے اپنے چینلز پر صفائیاں پیش کر رہے ہیں۔ احتجاج کر رہے ہیں۔

یہ لوگ سیدھا سیدھا مقدمے کی پیروی کریں اور اپنا موقف پیش کریں۔ یہ لوگ میڈیا کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔

کیا مجھ پر یا آپ مقدمہ ہو جائے تو اپنی صفائیاں پیش کرنے کے لئے ٹی وی مہم چلائیں گے یا عدالت میں اپنا دفاع کریں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
میڈیا کی بدمعاشیاں کسی سے ڈھکی چُھپی تو ہیں نہیں لیکن حکومت بھی ان کے خلاف کچھ کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔
 

arifkarim

معطل
میڈیا کی بدمعاشیاں کسی سے ڈھکی چُھپی تو ہیں نہیں لیکن حکومت بھی ان کے خلاف کچھ کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔
جو ویڈیو اے آر وائی نے دکھائی تھی، اسمیں محض بلوچستان لبریشن آرمی کے کالے کرتوت دکھائے گئے تھے اور وہ ویڈیو خود اس تنظیم نے تیار کر کے انٹرنیٹ پر ڈالی تھی۔ اب اگر بلوچستان حکومت کو اپنی نااہلی پر تکلیف ہو رہی ہے تو ہوتی رہے۔ احمقانہ مقدمے کرنے سے کچھ بھی نہیں ہونے والا!
 
اس ویڈیو سے کروڑوں پاکستانیوں کی دلآزاری ہوئی اور دکھ پہنچا۔۔۔اور یہی دہشت گردوں کا مقصد تھا جو کہ میڈیا نے کندھے سے کندھا ملا کر پورا کیا۔
 

سید ذیشان

محفلین
article-1264092-081d0a9f000005dc-144_468x3392.jpg
 

حسینی

محفلین
یار لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔۔۔
اگر کوئی چینل حکومت کی ناکامی کو بے نقاب کرے تو اس میں بری کیا بات ہے۔۔۔
کیا ان دہشت گردوں کو دکھانا بری بات ہے؟؟ کیا ان کے کرتوت سب پاکستانی عوام کو معلوم ٰ نہیں ہونے چاہیے؟؟
کیوں ہم ان دہشت گردوں کا دفاع کرتے ہیں جنہوں نے بانی پاکستان کی حرمت کو بھی پائمال کیا۔۔۔
میرا خیال ہے اے آر وائی نیوز نے کوئی برا کام تو نہیں کیا۔۔۔ حقیقت دکھائی ہے۔
ہاں اگر ویڈیو جعلی ہو تو پھر ُ آپ بات کریں۔
 
Top