ایک کیوٹ سی نظم اصلاح کے لیے،'' ملتے جلتے اک دن آنا۔ کہ دینا''

ملتے جلتے اک دن آنا۔ کہ دینا
ملتے جلتے اک دن آنا۔ کہ دینا
شام میں آو، ساتھ میں کھانا، کہ دینا
مجھ پر سارا زور جو تیرا چلتا ہے
ہاتھ پکڑنا، اور بٹھانا، کہ دینا
وہ باتیں جو دل میں اپنے رکھتی ہو
وہ باتیں جو سُننا میں بھی چاہوں گا
ملتے جلتے اک دن آنا۔ کہ دینا
شام میں آو، ساتھ میں کھانا، کہ دینا
حال وہ ساری سُلگی سُلگی راتوں کا
سینے میں جو گھٹ کر رکھی، باتوں کا
ملتے جلتے اک دن آنا۔ کہ دینا
شام میں آو، ساتھ میں کھانا، کہ دینا
پاس پڑوس محلے اور سہیلی سے
تُم نے چھپا کر رکھی ہوں جو وہ باتیں
ملتے جلتے اک دن آنا۔ کہ دینا
شام میں آو، ساتھ میں کھانا، کہ دینا
رنگوں، کلیوں، پھولوں، بھنوروں کی باتیں
الجھی اُلجھی تنہا تنہا سی راتیں
ملتے جلتے اک دن آنا۔ کہ دینا
شام میں آو، ساتھ میں کھانا، کہ دینا
مجھ پر سارا زور جو تیرا چلتا ہے
ہاتھ پکڑنا، اور بٹھانا، کہ دینا
ملتے جلتے اک دن آنا۔ کہ دینا
شام میں آو، ساتھ میں کھانا، کہ دینا
 

شوکت پرویز

محفلین
کیا یہ میر کی بحر ہندی ہے ؟ :roll:
جی ہاں جناب!
---------------
وزن کے لحاظ سے مجھے کوئی غلطی نظر نہیں آئی۔
البتہ آپ "بولڈ" فانٹ استعمال نہ کریں، اسے "نارمل - ان بولڈ" میں لکھیں۔
اور لفظ "کہ" کو "کہہ" لکھیں۔ ک + ہ + ہ

ویسے آپ کی نظم بہت معصوم لگی اور مجھے بہت پسند آئی، ابلاغ اور زبان کے مسائل کے قطع نظر۔
شکریہ۔۔۔
 
جی ہاں جناب!
---------------
وزن کے لحاظ سے مجھے کوئی غلطی نظر نہیں آئی۔
البتہ آپ "بولڈ" فانٹ استعمال نہ کریں، اسے "نارمل - ان بولڈ" میں لکھیں۔
اور لفظ "کہ" کو "کہہ" لکھیں۔ ک + ہ + ہ

ویسے آپ کی نظم بہت معصوم لگی اور مجھے بہت پسند آئی، ابلاغ اور زبان کے مسائل کے قطع نظر۔
شکریہ۔۔۔
اگر ابلاغ و زبان کی وضاحت ہو جاتی تو کیا مضائقہ تھا؟
 

الف عین

لائبریرین
مجھ کو تو ٹیپ کا مصرع ہی سمجھ میں نہیں آیا۔ ملتے جلتے آنا؟ اسی طرح شام میں آؤ کی جگہ ’شام کو آنا‘ بہتر ہو گا۔
کچھ بندوں میں دونوں مصرعوں میں قوافی ہیں، کچھ آزاد ہیں۔ ان کو یکساں بنانے کی ضرورت ہے۔
میر کی مکمل بحر تو نہیں ہے۔ عام طور پر ساڑھے سات رکنی بحر کو میر کی بحر کہا جاتا ہے۔ یہ ساڑھے پانچ رکنی ہے۔
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع÷فعل
 
مجھ کو تو ٹیپ کا مصرع ہی سمجھ میں نہیں آیا۔ ملتے جلتے آنا؟ اسی طرح شام میں آؤ کی جگہ ’شام کو آنا‘ بہتر ہو گا۔
کچھ بندوں میں دونوں مصرعوں میں قوافی ہیں، کچھ آزاد ہیں۔ ان کو یکساں بنانے کی ضرورت ہے۔
میر کی مکمل بحر تو نہیں ہے۔ عام طور پر ساڑھے سات رکنی بحر کو میر کی بحر کہا جاتا ہے۔ یہ ساڑھے پانچ رکنی ہے۔
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع÷فعل
یوں دیکھ لیجیے محترم اُستاد

چپکے سے بس اک دن آنا۔ کہہ دینا​
ہاتھ پکڑنا، ساتھ بٹانا، کہہ دینا​
ماں سے کرنا ایک بہانہ، کیا ہو گا​
شام کو میرے ساتھ ہی کھانا، کیا ہو گا​
ہاتھ پکڑنا، ساتھ بٹانا، کہہ دینا​
چپکے سے بس اک دن آنا۔ کہہ دینا​
ایسا کیا ہے میں بتلاوں، کون سی باتیں​
سوچتے جن کو کاٹی ہیں یہ سب برساتیں​
ہاتھ پکڑنا، ساتھ بٹانا، کہہ دینا​
چپکے سے بس اک دن آنا۔ کہہ دینا​
وہ باتیں جو دل میں اپنے رکھتی ہو​
سپنے سارے، رات جو خواب میں تکتی ہو​
ہاتھ پکڑنا، ساتھ بٹانا، کہہ دینا​
چپکے سے بس اک دن آنا۔ کہہ دینا​
حال وہ ساری سُلگی سُلگی راتوں کا​
سینے میں جو گھٹ کر رکھی، باتوں کا​
ہاتھ پکڑنا، ساتھ بٹانا، کہہ دینا​
چپکے سے بس اک دن آنا۔ کہہ دینا​
پاس پڑوس محلے اور سہیلی سے​
دو سے، تین نہ چار نہ پانچ۔ اکیلی سے​
ہاتھ پکڑنا، ساتھ بٹانا، کہہ دینا​
چپکے سے بس اک دن آنا۔ کہہ دینا​
کلیوں، پھولوں، بھنوروں، رنگوں کی باتیں​
اُٹھتی ہوں منہ زور اُمنگوں کی باتیں​
ہاتھ پکڑنا، ساتھ بٹانا، کہہ دینا​
چپکے سے بس اک دن آنا۔ کہہ دینا​
تیری سوچ میں سورج ڈوب، نکلتا ہے​
مجھ پر تیرا زور بھی سارا چلتا ہے​
ہاتھ پکڑنا، ساتھ بٹانا، کہہ دینا​
چپکے سے بس اک دن آنا۔ کہہ دینا​
 

الف عین

لائبریرین
پہلے یہ طے کر لیا جائے کہ ٹیپ کر مصرع میں ‘بٹَانا‘ ہے یا ’بِٹھانا‘۔ ہاتھ بَٹانا تو ممکن ہے، لیکن ساتھ بٹانا کبھی نہیں سنا۔

ماں سے کرنا ایک بہانہ، کیا ہو گا
شام کو میرے ساتھ ہی کھانا، کیا ہو گا
کیا ہو گا؟ سے مراد؟ اس فقرے کو بدل دو۔

ایسا کیا ہے میں بتلاوں، کون سی باتیں
سوچتے جن کو کاٹی ہیں یہ سب برساتیں
یہ ۶ رکنی ہو گئی ہے۔ آدھا رکن ’فع‘ یا ’لن‘ زیادہ ہو گیا ہے
ایسا کیا ہے میں بتلاوں وہ باتیں
سوچتے جن کو کاٹی ہیں یہ برساتیں
درست ہو سکتا ہے

وہ باتیں جو دل میں اپنے رکھتی ہو
سپنے سارے، رات جو خواب میں تکتی ہو
تکتی اور رکھتی قوافی درست نہیں۔ ’خواب میں سپنے تکنا‘ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔
وہ باتیں جو دل میں چھپا کر رکھتی ہو
سپنے جو آنکھوں میں سجا کر رکھتی ہو

حال وہ ساری سُلگی سُلگی راتوں کا
سینے میں جو گھٹ کر رکھی، باتوں کا
دوسرے مصرع کا بیانیہ درست نہیں۔
دل میں گھٹی جو رکھی ہیں ان باتوں کا
بہتر ہو سکتا ہے

اُٹھتی ہوں منہ زور اُمنگوں کی باتیں
سمجھ میں نہیں آیا۔

تیری سوچ میں سورج ڈوب، نکلتا ہے
مجھ پر تیرا زور بھی سارا چلتا ہے
ہاتھ پکڑنا، ساتھ بٹانا، کہہ دینا
یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا، واضح نہیں۔
 
پہلے یہ طے کر لیا جائے کہ ٹیپ کر مصرع میں ‘بٹَانا‘ ہے یا ’بِٹھانا‘۔ ہاتھ بَٹانا تو ممکن ہے، لیکن ساتھ بٹانا کبھی نہیں سنا۔

ماں سے کرنا ایک بہانہ، کیا ہو گا
شام کو میرے ساتھ ہی کھانا، کیا ہو گا
کیا ہو گا؟ سے مراد؟ اس فقرے کو بدل دو۔

ایسا کیا ہے میں بتلاوں، کون سی باتیں
سوچتے جن کو کاٹی ہیں یہ سب برساتیں
یہ ۶ رکنی ہو گئی ہے۔ آدھا رکن ’فع‘ یا ’لن‘ زیادہ ہو گیا ہے
ایسا کیا ہے میں بتلاوں وہ باتیں
سوچتے جن کو کاٹی ہیں یہ برساتیں
درست ہو سکتا ہے

وہ باتیں جو دل میں اپنے رکھتی ہو
سپنے سارے، رات جو خواب میں تکتی ہو
تکتی اور رکھتی قوافی درست نہیں۔ ’خواب میں سپنے تکنا‘ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔
وہ باتیں جو دل میں چھپا کر رکھتی ہو
سپنے جو آنکھوں میں سجا کر رکھتی ہو

حال وہ ساری سُلگی سُلگی راتوں کا
سینے میں جو گھٹ کر رکھی، باتوں کا
دوسرے مصرع کا بیانیہ درست نہیں۔
دل میں گھٹی جو رکھی ہیں ان باتوں کا
بہتر ہو سکتا ہے

اُٹھتی ہوں منہ زور اُمنگوں کی باتیں
سمجھ میں نہیں آیا۔

تیری سوچ میں سورج ڈوب، نکلتا ہے
مجھ پر تیرا زور بھی سارا چلتا ہے
ہاتھ پکڑنا، ساتھ بٹانا، کہہ دینا
یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا، واضح نہیں۔
اُستاد محترم یوں دیکھ لیجیے کافی تبدیلیاں کر دی ہیں


سب کہہ دینا​
چپکے سے بس اک دن آ نا کہہ دینا​
مجھ کو یا پھر پاس بلا نا کہہ دینا​
من کے اندر رکھی ہیں جو وہ باتیں​
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا​
کیا کیا تُم بہانا کر کے آو گی​
کون سی گلیاں گھوم کے گھر کو جاو گی​
فرصت میری خاطر پا نا تو ہو گی​
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا​
بے چینی سے کاٹی ہیں جو وہ راتیں​
آگ لگا کر گزری ساری برساتیں​
حال وہ ساری سُلگی سُلگی راتوں کا​
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا​
جاگ رہا ہوں ، راگ میں آنا اور کہنا​
سو جاوں تو خواب میں آ نا اور کہنا​
مجھ پر تیرا زور تو سارا چلتا ہے​
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا​
کب ڈوبا تھا سورج، چندا نکلا کب​
کیا سوچا تھا پہلا تارا دیکھا جب​
کوئی قصہ بھول نہ جانا یاد رہے​
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا​
پاس پڑوس محلے اور سہیلی سے​
دو سے، تین نہ چار نہ پانچ۔ اکیلی سے​
تُم نے چھپائی ساری جو ہیں وہ باتیں​
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا​
کلیوں، پھولوں، بھنوروں، رنگوں کی باتیں​
دنیا داری، جھگڑے ، جنگوں کی باتیں​
کچھ بھی ہو مضمون، مجھے بس سُننا ہے​
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا​
چپکے سے بس اک دن آ نا کہہ دینا​
مجھ کو یا پھر پاس بلا نا کہہ دینا​
من کے اندر رکھی ہیں جو وہ باتیں​
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا​
 

الف عین

لائبریرین
اب تو تم نے مکمل نظم بدل دی ہے۔ اس لئے نئے سرے سے دیکھ رہا ہوں۔ جو مصرع پسند نہین آئے یا سقم محسوس ہوا ، ان کاذکر کر دوں۔

مجھ کو یا پھر پاس بلا نا کہہ دینا
÷÷ رواں یوں ہو گا
یا پھر مجھ کو پاس بلا نا کہہ دینا

کیا کیا تُم بہانا کر کے آو گی​
کون سی گلیاں گھوم کے گھر کو جاو گی​
فرصت میری خاطر پا نا تو ہو گی​
÷÷فرصت والا مصرع بے ربط محسوس ہوتا ہے۔ پہلے دونوں یوں بہتر ہو سکتے ہیں​
کیسے کیسے کر کے بہانے آو گی​
کیا کیا گلیاں گھوم کے گھر کو جاو گی​
 

الف عین

لائبریرین
جاگ رہا ہوں ، راگ میں آنا اور کہنا
÷÷راگ اور خواب دوسرے مصرع میں، یہاں قوافی کی ضرورت نہیں کیا؟

دو سے، تین نہ چار نہ پانچ۔ اکیلی سے​
تُم نے چھپائی ساری جو ہیں وہ باتیں​
۔۔پہلے بھی یہ دوسرا مصرع کچھ پسند نہیں آیا تھا، اسے بدلنے کی کوشش ہی کرو، اگلا مصرع بھی یوں بہتر ہو گا​
تُم نے چھپائی ہیں جو، وہ ساری باتیں​
دنیا داری، جھگڑے ، جنگوں کی باتیں
کچھ بھی ہو مضمون، مجھے بس سُننا ہے
اس طرح بہتر ہو گا
دنیا داری کے جھگڑوں، جنگوں کی باتیں
کچھ بھی ہو موضوع، مجھے بس سُننا ہے
 
جاگ رہا ہوں ، راگ میں آنا اور کہنا
÷÷راگ اور خواب دوسرے مصرع میں، یہاں قوافی کی ضرورت نہیں کیا؟

دو سے، تین نہ چار نہ پانچ۔ اکیلی سے​
تُم نے چھپائی ساری جو ہیں وہ باتیں​
۔۔پہلے بھی یہ دوسرا مصرع کچھ پسند نہیں آیا تھا، اسے بدلنے کی کوشش ہی کرو، اگلا مصرع بھی یوں بہتر ہو گا​
تُم نے چھپائی ہیں جو، وہ ساری باتیں​
دنیا داری، جھگڑے ، جنگوں کی باتیں
کچھ بھی ہو مضمون، مجھے بس سُننا ہے
اس طرح بہتر ہو گا
دنیا داری کے جھگڑوں، جنگوں کی باتیں
کچھ بھی ہو موضوع، مجھے بس سُننا ہے
بہت بہتر اُستاد محترم، جن مصارع کی نشاندہی فرمائی آپ نے وہ یا تو درست کیے ہیں یا پورا بند ہی تبدیل کر دیا ہے، یوں دیکھ لیجیے تو

چپکے سے تُم اک دن آ نا کہہ دینا​
یا پھر مجھ کو پاس بلا نا کہہ دینا
من کے اندر رکھی ہیں جو وہ باتیں​
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا​
تُم نے مجھ کو یاد کیا تھا، کہہ دینا
دل کا گھر آباد کیا تھا، کہہ دینا
میری یاد میں آنسو کتنے آئے تھے
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا​
بے چینی سے کاٹی ہیں جو سب راتیں​
آگ لگا کر گزری ساری برساتیں​
حال وہ ساری سُلگی سُلگی راتوں کا​
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا​
برسوں سے وہ طاق پہ رکھی سب باتیں
یادوں کے آفاق پہ رکھی سب باتیں
اُلٹی، سیدھی، اُلجھی، سُلجھی کیسی بھی
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا​
کب ڈوبا تھا سورج، چندا نکلا کب​
کیا سوچا تھا پہلا تارا دیکھا جب​
کوئی قصہ بھول نہ جانا یاد رہے​
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا​
جاگ رہا ہوں، راگ میں آ کر کہہ دینا
سوتے میں اک خواب جگا کر کہہ دینا
مجھ پر تیرا زور تو سارا چلتا ہے​
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا​
پاس پڑوس محلے اور سہیلی سے​
دو سے، تین نہ چار نہ پانچ۔ اکیلی سے​
وہ باتیں جو کرنا مشکل ہوتی ہیں
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا​
کلیوں، پھولوں، بھنوروں، رنگوں کی باتیں​
شورش، جھگڑوں، جنگوں ،دنگوں کی باتیں
کچھ بھی ہو موضوع ، مجھے بس سُننا ہے
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا​
چپکے سے تُم اک دن آ نا کہہ دینا​
مجھ کو یا پھر پاس بلا نا کہہ دینا​
من کے اندر رکھی ہیں جو وہ باتیں​
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا​
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے، بس اس بند میں ردیف بدل دو
تُم نے مجھ کو یاد کیا تھا، کہہ دینا
دل کا گھر آباد کیا تھا، کہہ دینا
میری یاد میں آنسو کتنے آئے تھے
ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاناکہہ دینا
یہاں کہہ دینا کی بجائے ‘کہہ بھی دو‘ ’کہنا ہے‘ یا اس قسم کے کچھ اور الفاظ کر دو۔​
 
Top