ایک کہانی (شیخ ڈیفنس) - قسط 8

سید رافع

محفلین
شیخ ڈیفنس - سو لفظوں کی کہانی
لڑکے کی گاڑی سی ویو کی طرف رواں دواں ہے۔
پچھلی نشست پر ایک تکیہ اور گدا ہے۔
لڑکا ایک سال کے کورس کے دوران انکو سونے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
سرسید احمد خان، مودودی صاحب ، اسرار صاحب، خمینی صاحب اور یہ کورس ایک تاریخ رکھتا ہے۔
برطانوی راج بہادر شاہ ظفر کو جزیرہ رنگون میں قید کر چکا ہے۔
مسلمانوں کا ایک ہزار سالہ دور حکومت ختم اور بادشاہ ۱۸۵۷ کی بغاوت کو مدد فراہم کرنے کی الزام میں جزیرے میں قید ہے۔
کوی قیدی نہ ہو کی پالیسی کے مطابق ڈیڑھ لاکھ لوگ قتل کیے جا چکے ہیں۔
خونخوار برطانوی راج عورتوں کی آبروریزی کرتا، مردوں کو لاین میں کھڑا کر کے یک لخت گولیوں سے قتل کرتا۔
پاگل برطانوی راج کو نہ عورتوں کی پرواہ نہ بزرگوں کا لحاظ نہ بچوں پر کوی رحم۔ ہر ایک پامال ہوتا جا رہا ہے۔
کیونکہ مسلمانوں سے حکومت چھینی گی تھی سو وہ سخت ترین عتاب کا شکار تھے۔
علما و مشایخ کو دہلی میں سور کی کھالوں میں زندہ سیا دیا گیا۔ بے شمار کو ہفتوں لٹکا رہنے دیا گیا۔
اب وقت ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔
مسلمانوں میں سے جیسے حیسے غدار ملتے جاتے وہ علاقے فتح ہوتے۔ مثلا ٹیپو سلطان کے غدار میر جعفر اور میر صادق۔
برطانوی راج ہندوں سے مل کر اپنی مشینوں اور ساینس کے بل بوتے پر مسلمانوں کو پیستا چلا جا رہا تھا۔
سر سید نے علی گڑھ میں ایک یورنیورسٹی قایم کی اور قرآن کی ساینٹفک تشریح کر دی۔
ایک ایسی تشریح جس کا پیغام محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوی تعلق نہ تھا۔
مسلمان محض آیین میں حقوق مانگ رہے تھے لیکن جاتے جاتے برطانوِ ی راج نے تقسیم ہند کا ایک طویل چھرا تیار کیا۔
برطانوی راج سود ی ذہن اور بمطابق قرآن پاگل اور مخبوط الحواس ہے۔
تقسیم کرو اور حکومت کرو کے وحشی ذہن نے ۱۹۴۷ میں جاتے جاتے دس لاکھ لوگوں کے ساتھ غدر ۱۸۵۷ دوبارہ دوہرای۔
جو لوگ ہزار سال سے ساتھ رہ رہے تھے ان میں خوف و وحشت اتنا بڑھایا کہ عورتیں اپنے باپ بھای کی تلوار سے قتل ہونا ، کنویں میں چھلانگ لگانا اور پہاڑی سے کود جانا پسند کرنے لگیں۔
ٹرینوں کی ٹرینیں جب تقسیم زدہ ملک پہنچتیں خون سے بھری ہوتیں۔ ایک زندہ نہ ہوتا سب وحشت کا نشانہ بن جاتے۔
ریڈ کلف نے کشمیر کو یوں تقسیم کیا کہ پاک و ہند آج تک دست و گریباں ہیں اور اور پاگل برطانوی راج پوری دنیا میں خفیہ طور پر پھل پھول رہا ہے۔
مودودی صاحب نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کو دیکھا اور تقسیم ہند کو بھی۔ سو ابتدا میں یہ خواہش ہوی کہ ایک ملک تو ایسا ہو جہاں اسلام کا نظام عدل ہو۔ لیکن ان کی یہ کوششیں بلآخر قرآن کی ایسی تشریح پر منتہج ہوی جو اسلام سے جوڑ نہیں کھاتی۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ ایک ایسے کام کے درپے ہوے جو نور امام مہدی علیہ السلام مانگتا ہے۔
سو جب براہ راست دینی طریقے سے کام میں ناکامی ہوی تو ووٹ کے ذریعے حکومت بنانے کی کوشش کی۔ دلیل یہ تھی کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے بادشاہت حاصل کر کے لوگوں کی ہدایت کا سامان کیا۔ لیکن امر یوسف علیہ السلام نور یوسف علیہ السلام مانگتا ہے۔ سو وہ بھی نہ ہو پایا۔
ڈاکٹر اسرار صاحب نے منہج سیدنا یوسف علیہ السلام کے بجاے منہج سیدنا رسول عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے حکومت قایم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہی بات وہ ایک ایسے کام کے درپے ہوے جو نور امام مہدی علیہ السلام مانگتا ہے۔یا اس سے بھی آگے جایں تو وہ امر رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو سر انجام دینا چاہ رہے تھے جو نور محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم مانگتا ہے۔
یہ تمام سوچیں کم و بیش اس خیال سے ابھری تھیں کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم محض ہمارے ہی طرح کے تو بشر ہیں۔سو جو وہ کر سکتے ہیں ہم بھی کر سکتے ہیں۔ حالانکہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا اس کاینات میں کوی ہے ہی نہیں نہ ہو گا۔ لیکن رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہر زمانے کے بارے میں بتا کر گے ہیں کہ زندگی کیسے گزاریں اور محال کے درپے نہ ہو۔ جو جس کا کام ہے اسکو کرنے دیں۔ ہر کام کا مکلف اپنے آپ کو نہ بنایں۔یہی وجہ ہے کہ ان تحاریک میں موجود لوگ مایوس لوگ ہیں یا پھر متشدد۔
لڑکے کی ملاقات شیخ المصطفی ٹرسٹ نے ڈاکٹر اسرار سے کچھ عرصے قبل کرای تھی۔
لڑکے نے انکو ون قرآن کے منصوبے کے خدوخال سے آگاہ کیا تھا۔
لڑکا چاہتا تھا کہ ایک ایسا سافٹ ویر بنے کہ لاکھوں اھدیث میں سے صحیح چھن کر اوپر آجایں تاکہ ا مت صحیح مذہب کو پہچان لے اور آپس میں گردنیں نہ کاٹے اور اختلاف میں پڑے۔
ڈاکٹر صاحب نے لڑکے سے کہا کہ میں اس عمر کو پہنچ چکا ہو ں کہ اب کوی نیی چیز نہیں سیکھ سکتا۔آپ لاہور آجایں وہاں ہمارے بیٹے ہیں وہ اسکو دیکھیں گے۔
ڈاکٹر صاحب چند دنوں پہلے اس ایک سالہ کورس کا افتتاح کرتے ہوے گلا کر رہے تھے کہ کورس کے چالیس سے زاید شرکا کورس ختم ہونے پر چار رہ جاتے ہیں۔
لڑکا سی ویو کی نم ہواں میں گاڑی سے باہر اترتا ہے۔
شیخ ڈیفنس ان سو لوگوں میں سے تھے جن کو ڈاکٹر صاحب نے خود تیار کیا تھا اور تربیت کی تھی۔وہ این ای ڈی کے انجنیر تھے لیکن اب کورنگی کی ایک مسجد کے پیش امام اور دیگر کاموں میں ڈاکٹر صاحب کے دست راس۔
لڑکے نے سال بھر کورس میں مقیم رہنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
شیخ ڈیفنس نے کہا ہمیں اعتراض نہیں لیکن سیکیورٹی کے خدشات بھی ظاہر کیے۔
ساتھ ہی درد دل سے یہ بھی بتایا کہ یہاں نہ آیں بلکہ جس جگہ ہیں وہیں رہ کر دین کی خدمت کریں۔
چند کمپیوٹر اور چند کرسیوں پر مشتمل کمرے یہ نشست اختتام کو پہنچتی ہے۔
لڑکا واپسی کا سفر اختیار کرتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکا ون قرآن کا منصوبہ شیخ رب میڈیکل اول کو دکھتا ہے۔
- میاں ظہوری
 
Top