ایک کہانی (شیخ عایشہ منزل ) - قسط 5

سید رافع

محفلین
شیخ عایشہ منزل - سو لفظوں کی کہانی
عایشہ منزل کی امام بارگاہ پر گاڑی رکتی ہے۔
امام بارگاہ گویا امام حسین کی بارگاہ کے طرز تعمیر پر بنای گی ہے۔ حالانکہ برا ہے وہ پیسہ جو مٹی اور گارے پر لگے۔
بڑا گیٹ جیسے کہ ہر جگہ بند ہوتا ہے یہاں بھی بند تھا۔ علم محصور ہو کر رہ گیا ہے۔
لڑکا چھوٹے گیٹ پر موجود گارڈ سے امام صاحب کا پوچھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ظہر بعد آیں۔
یہ وہ وقت تھا کہ مرد آفس میں ہوتے ہیں۔
اندر سے مجلس کی آواز آ رہی تھی۔
گیٹ کے پاس طلسماتی طرز کے موضوعات کے بڑے پوسٹر لگے تھے جو شہر کی دیگر مجالس کے بارے میں تھے۔
زیادہ تر کا موضوع آمد امام مہدی تھا۔
زیادہ تر مرد بے ریش تھے۔ حالانکہ خوبصورت داڑھی تو سب کو بھلی معلوم ہوتی ہے۔
زیادہ تر مردوں کے چہرے سیاہ ہورہے تھے یا اسکے قریب تھے۔
حالانکہ کتاب چہرے سے سفید پوش کی پہچان بتاتی ہے۔ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰہُمْ۔ عبادت گزار کی طرف توجہ دلاتی ہے۔
چہرے ہی روشن اور چہرے ہی سیاہ ہونے کا بتاتی ہے۔
یورپ، ہنزہ، کےپی کے اور بلوچستان یا دیگر علاقوں کے لوگ گورے ہوتے ہیں روشن نہیں۔
یہ اس راہ کی اہم پہچان ہے۔
ورنہ ہر گورے عالم پر فریفتہ ہوں گے۔
چہرہ روشن ہونا غیر ضروری تعصب سے پاک ہونے کی دولت ہے۔ اور اوراد و تہجد کا کمال ہے۔
لڑکا اگلے روز کے ارادے سے واپس ہو گیا۔
اگلے روز بعد از ظہر پہنچا تو امام صاحب پھر بھی نہ تھے۔
لڑکے کے ذہن میں کچھ اگلے شیوخ کی یاد دوڑ جاتی ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکاشیخ گلبرگ کا پتہ پوچھ رہا ہے۔
- میاں ظہوری
 
Top