ایک کہانی (شیخ دویم رب میڈیکل ) - قسط 10

سید رافع

محفلین
شیخ دویم رب میڈیکل - سو لفظوں کی کہانی
ہر شیخ رومانوی منظر کو حقیقت کا لباس دے رہا تھا۔ ہر بات چیت حق سے مکر کی تہہ کو اتار رہی تھی۔
ایک صبح لڑکا ایک دستاویز لے کر شیخ اول کے پاس پہنچتا ہے۔
یہ اس نے بہت محنت سے تیار کی تھی۔
شیخ مونچھوں کو لب سے تراشنے میں کسی قدر غلو سے کام لیتے تھے۔ ایسی مونچھ کو برقرار رکھنا ایک وقت مانگتا ہے۔
وہ وزن دار تھے۔ سفید لباس اور بنگلہ دیشی خانقای نوک دار ٹوپی پہنتے۔ سر پر بال کم رکھتے۔
لڑکا سلام کر کے قریب نشست رکھتا ہے اور ون قرآن کی دستاویز شیخ کو دکھاتا ہے۔
لیکن اسکو ایسا لگتا ہے شیخ کو دستاویز سے زیادہ اس سے دلچسپی تھی کہ ہماری مانتا ہے کہ نہیں۔
یہ تھا اس بات کا مقصد جو انہوں نے پہلے کہی تھی کہ ہر کام علما کی سرکردگی میں ہونا چاہیے۔
لڑکے نے شیخ سے کہا کہ اس کا دل عام لوگوں کی باتوں اور نوکری میں نہیں لگتا۔
انہوں نے ہتھیلی کے سایز کے ایک چوکور کاغذ پر تحریر لکھی۔
جس کا لب لباب یہ تھا کہ لڑکا انکے احباب میں سے ہے ذرا اس پر توجہ کریں۔
شیخ نے کہا کہ شیخ دویم نچلی منزل پر ہوتے ہیں ان کو یہ تحریر اور اپنا مسئلہ بیان کریں۔
لڑکا نچلی منزل پر شیخ دویم کے پاس پہنچتاہے تو زمین پر بیٹھے تھے۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ تہمد اور ایک کرتا پہنا ہوا تھا۔ عمر دار تھے اور چھوٹے سے پان دان سے کتھا نکال کر پان پر لگا رہے تھے۔ان کے دوسرے احباب ان سے گفتگو میں مصروف تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ پیتیس سال قبل یہاں آے تھے۔ انہوں نے بوجہ شادی نہ کی تھی۔ جب ان سے انکے شیخ سے پوچھا کہ کیا کر سکتے ہو تو کہا کچھ نہیں۔ بس ان کے شیخ اسی پر ان پر فریفتہ ہوے اور کہا ہم کو بھی ایسا ہی آدمی چاہیے تھا جو کچھ نہ کر سکتا ہو۔ وہ کہتے تھے جب اللہ کسی کو اپنا بناتا ہے تو اسکو کسی کام کا نہیں چھوڑتا۔شیخ مجذوب تھے۔
لڑکے نے انکو شیخ اول کا لکھی پرچی دکھای اور اپنے ہاتھ کی لکھی ہو ایک تحریر بھی جس میں اپنا مسئلہ لکھا تھا۔
شیخ نے دونوں روقے پڑھے۔
لڑکے کو آج بھی یاد ہے کہ کیسے انہوں نے کسی گہری سوچ میں جا کر ہاتھ میں موجود پرچیاں ہتھیلی میں مسل دیں۔
پھر گویا ہوے اور کہا کہ آپ مایوس ہو رہے ہیں۔ یہ دین داری نہیں کہ نوکری یا لوگوں میں دل نہ لگے۔
پان کھاتے ہوے کہنے لگے آپ میرے پاس آیا کریں۔جو مسئلہ ہو ایک ورق پر لکھ کر اس باکس میں رکھ دیں۔ میں جواب دے دیا کروں گا۔ اس پر عمل کریں اور پھر اپنی کیفیت دوسرے کاغذ پر لکھ کر باکس میں رکھ دیں۔ اور پچھلے تمام ورق اسکے ساتھ منسلک کر دیں۔ شیخ نے مذید کہا کہ یہاں تین مجالس ہوتیں ہیں گیارہ بجے، عصر کے بعد اور عشاء کے بعد جب موقع ملے اس میں آیں۔ یہ پودے پر مانند پھوار کے ہیں۔ اب آپ جایں۔
علی کرم اللہ وجہ کے ابر کرم کی موسلا دھار بارش کا ایک قطرہ شیخ پر بھی پڑا تھا سو انکی گفتگو بے لاگ اور بے تکلف تھی۔ انکا سلسلہ اشرف علی تھانوی صاحب،امدا اللہ مہاجر مکی سے ہوتے ہوے جناب حیدر کرار جناب علی المرتضی کرم اللہ وجہ تک جا پہنچتا تھا۔
لڑکا گیارہ بجے کی مجالس میں جاتا۔ وہاں شیخ سویم کے اشعار پڑھے جاتے۔ انکے بیانات چلاے جاتے۔ کبھی کسی غیر ملک سے کوی مہمان آ جاتا تو اسکا بیان ہو جاتا یا اشعار پڑھ دیتا۔ یہی عصر اور عشاء کی مجالس میں ہوتا۔
مسجد میں عام لال کارپیٹ کے بجاے سفید چادر کی صفیں ہوتیں جو اکثر گندی ہوتیں۔ لڑکے کو ان سے کراہیت آتی۔
آنے والے لوگ سفید کرتے ،نوک دار خانقاہی ٹوپی پہنتے اور اکثر گنجے ہوتے۔
داڑھی بڑھانے، نظر اور دل کی حفاظت اور پایچے ٹخنوں سے اوپر رکھنے پر زور تھا
لڑکا ون قرآن کے منصوبے کو بھول چکا ہوتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکا ایک صبح شیخ کورنگی سے ملنے روانہ ہوتا ہے۔
- میاں ظہوری
 
Top