ایک پنجابی شعر
پڑھائی لکھائی کی عمر شروع ہوتے ہی فارسی، اردو اور پنجابی کے کچھ شعروں سے واسطہ پڑا۔ دادا اور والد کے حجروں میں ملک کے نامور خوش نویسوں کے کتابت کیے ہوئے کئی شاہ کار آویزاں تھے۔ انھیں دیکھ دیکھ اور پڑھ پڑھ کر وہ اشعار مجھے یاد ہو گئے۔ بیشتر اشعار کا موضوع تصوف، عشق اور اخلاق تھا۔ حافظ محمد یوسف سدیدی، صوفی خورشید عالم خورشید رقم مخمور سدیدی اور سید انور حسین نفیس رقم جیسے نابغۂ روزگار خطّاطوں نے انھیں محبت و اخلاص سے لکھا تھا۔افسوس کہ وقت کی گردشوں کے الٹ پھیر میں خطّاطی کے ان خوب صورت نمونوں میں سے زیادہ تر کہیں ادھر ادھر ہو گئے۔ اس سانحے کی اندوہ ناکی کا کیا کہیے۔ پڑھے لکھے اور با ذوق خاندان کے اکثر افراد کو ان فن پاروں کی قدر و قیمت کا اندازہ بھی تھا، اس کے باوجود نجانے یہ غفلت کیسے ہو گئی۔ اس کے مقابلے میں ہم سب کی چھوٹی موٹی موروثی جائدادوں کی دستاویزات کا گم ہو جانا کہیں کمتر حادثہ ہوتا۔
والدِ مرحوم کے کمرے میں محبوب کے روایتی وعدوں کے موضوع پر یہ خوب صورت پنجابی شعر بھی لکھا تھا اور خطاطی غالباً صوفی خورشید رقم مخمور سدیدی کی تھی:
اَکنوں تیرا چھے مہینے، فردا تیرا سال
جس نوں توں پس فردا آکھیں، اس دا کیہڑا حال
اکنوں ابھی اور فوری کے معنوں میں ہے، فردا آنے والا کل اور پس فردا آنے والا پرسوں ہے۔جس نوں توں پس فردا آکھیں، اس دا کیہڑا حال
یہ شعر ایک دو بار وہیں کسی درگاہی قوالی میں استاد محمد حسین جلال پوری قوال نے تضمین کے طور پر گایا بھی تھا۔ مجھے یہ شعر کبھی نہیں بھولا۔ اب بھی گاہے بہ گاہے ایک پر کشش الماری کی پیشانی پر نازک سے فریم میں جھلملاتا دکھائی دیتا ہے۔ شعر کے نیچے باریک سی سطر میں بھی کچھ لکھا ہوا تھا، شاید شاعر اور کاتب کا نام اور سالِ کتابت۔
شاعر کا نام ڈھونڈنے کی میری ہر کوشش اب تک ناکام ہی ہوتی رہی ہے۔ کئی بزرگوں سے استفسار کیا تو انھوں نے کہا کہ شاعر تو معلوم نہیں ہے البتہ شعر لکھوا دو۔
خدا جانے وہ فریم کہاں اور کس حال میں ہو گا۔
معین نظامی
٢٧- فروری ٢٠٢١ء