ایک پرانی کاوش برائے رہنمائی

رات فرقت کی ڈھلے یا نہ ڈھلے کس کو خبر
سحر تک شمع جلے یا نہ جلے کس کو خبر
کچھ بہانہِ جنوں سوچ کے رکھنا یارو
چاکِ دامن کا سلے یا نہ سلے کس کو خبر
یوں نہ ضائع کرو گلدستے وہ پچھلی رت کے
شاخِ گل اب کے کھلے یا نہ کھلے کس کو خبر
آ کہ اقرارِ وفا کا یہی موقع ہے صنم
پھر یہ تنہائی ملے یا نہ ملے کس کو خبر
زندگی بھر کی رفاقت کا جو داعی ہے شکیل
دو قدم ساتھ چلے یا نہ چلے کس کو خبر
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات۔ قوافی غلط ہیں۔ حرکت یا اعراب مشترک نہیں ہیں۔ جلے اور مِلے قافیے نہین ہو سکتے۔ ان اشعار کو دو غزلوں میں تبدل کر دیں۔ کچھ اضافے کے ساتھ
رات فرقت کی ڈھلے یا نہ ڈھلے کس کو خبر
سحر تک شمع جلے یا نہ جلے کس کو خبر
۔۔سحر، ح پر جزم کے ساتھ، بر وزن فعل، جادو کے معنی میں ہوتا ہے۔ صبح کے معنوں میں ’ح‘ مفتوح ہوتی ہے۔ یہاں ’صبح کر دیں تو کیا حرج ہے؟
کچھ بہانہِ جنوں سوچ کے رکھنا یارو
چاکِ دامن کا سلے یا نہ سلے کس کو خبر
۔۔بہانہِ‘ ’بہانائے‘ تقطیع ہوتا ہے جو غلط ہے۔
چاکِ دامن کا؟ چہ معنی دارد۔ محض چاک دامن کا ہونا چاہیے۔
باقی۔ قوافی کی غلطی کے علاوہ، درست ہیں
 
Top