محمد شکیل خورشید
محفلین
رات فرقت کی ڈھلے یا نہ ڈھلے کس کو خبر
سحر تک شمع جلے یا نہ جلے کس کو خبر
کچھ بہانہِ جنوں سوچ کے رکھنا یارو
چاکِ دامن کا سلے یا نہ سلے کس کو خبر
یوں نہ ضائع کرو گلدستے وہ پچھلی رت کے
شاخِ گل اب کے کھلے یا نہ کھلے کس کو خبر
آ کہ اقرارِ وفا کا یہی موقع ہے صنم
پھر یہ تنہائی ملے یا نہ ملے کس کو خبر
زندگی بھر کی رفاقت کا جو داعی ہے شکیل
دو قدم ساتھ چلے یا نہ چلے کس کو خبر
سحر تک شمع جلے یا نہ جلے کس کو خبر
کچھ بہانہِ جنوں سوچ کے رکھنا یارو
چاکِ دامن کا سلے یا نہ سلے کس کو خبر
یوں نہ ضائع کرو گلدستے وہ پچھلی رت کے
شاخِ گل اب کے کھلے یا نہ کھلے کس کو خبر
آ کہ اقرارِ وفا کا یہی موقع ہے صنم
پھر یہ تنہائی ملے یا نہ ملے کس کو خبر
زندگی بھر کی رفاقت کا جو داعی ہے شکیل
دو قدم ساتھ چلے یا نہ چلے کس کو خبر