ایک نئی گپ از مشہور زمانہ گپ باز بابا (ڈونلڈ ٹرمپ)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک شڑل چھوڑی ہے کہ میں نے سعودی حکمران سے کہا کہ ہمارے بغیر آپ دو ہفتے بھی اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔ آپ کا اس مہا گٹھ پر کیا خیال ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک شڑل چھوڑی ہے کہ میں نے سعودی حکمران سے کہا کہ ہمارے بغیر آپ دو ہفتے بھی اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔ آپ کا اس مہا گٹھ پر کیا خیال ہے
تکبر کرنے والے کے دن تھوڑے ہیں اب امریکا میں نیا صدر آئے گا جو ماحول دوست ہوگا۔
 

اکمل زیدی

محفلین
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک شڑل چھوڑی ہے کہ میں نے سعودی حکمران سے کہا کہ ہمارے بغیر آپ دو ہفتے بھی اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔ آپ کا اس مہا گٹھ پر کیا خیال ہے
یقین نہیں آرہا یہ بات دیکھ کرکہ یہ واقعی صرف گپ مارتے ہیں ۔ ۔ ۔ :lol:
 
بالکل سچ ہے ۔ ۔ ۔ مگر جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداری کی مثال ہمارے سعودیوں نے کی ہے وہ قابل افسوس صد افسوس ہے۔ ۔ ۔
جہاں بادشاہی کو عوام میں پذیرائی نہ ہو وہاں بیساکھیاں ضروری ہوتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ خود کو بیساکھیاں سمجھنے والے اپنی سوچ میں کس قدر سچے ہیں
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

خود مختار ممالک اور حکومتوں کے مابين دفاعی اور فوجی معاہدے جن کا مقصد باہم مفادات کا تحفظ ہوتا ہے دراصل تعلقات ميں مضبوطی اور استحکام کا باعث ہوتے ہيں۔ تاہم ان معاہدوں کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہوتا کہ ايک ملک دوسرے کا محتاج يا غلام بن گيا ہے اور اس ملک کی حکومت کو اپنے قومی سلامتی کے تقاضوں کو بلائے طاق رکھ کر فيصلوں کے ليے مجبور کيا جا سکتا ہے۔

امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی ملک اس بات کی استعداد نہيں رکھتا کہ کسی بيرونی ملک سے اسلحے سازی کے ايسے معاہدے زبردستی کرے جسے مقامی حکومت اپنے ملکی سلامتی کے ليے خطرہ سمجھتی ہو۔

ياد رہے کہ امريکی اور سعودی حکومتوں نے حال ہی ميں اسلحے کے تقسيم سے متعلق بڑے معاہدوں پر دستخط کيے ہيں۔ تاہم يہ کو‏ئ غير معمولی واقعہ نہيں ہے جس کی ماضی ميں مثال ہی نہيں ملتی۔ ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح رہے کہ کونسل آن فارن ريليشنز کے مطابق سال 2011 سے سال 2015 کے درميان امريکہ نے اسلحے کے حوالے سے جو معاہدے کيے ہيں، اس کا دس فيصد حصہ سعودی حکومت کے ساتھ ہی کيا گيا ہے۔

علاوہ ازيں سعودی حکومت کے ساتھ اسلحے کے حاليہ معاہدے دس برس کے عرصے پر محيط ہيں جن ميں سے ايک سو دس بلين ڈالرز کے معاہدے فوری طور پر اور قريب 350 بلين ڈالرز کے معاہدے اگلی ايک دہائ کے دوران مکمل کيے جائيں گے۔

اس معاہدے کا اہم مقصد خطے ميں جاری انسداد دہشت گردی کی کاوشوں کے ضمن ميں سعودی حکومت کی صلاحيتوں کو مزيد فعال بنانا ہے۔

يہ قابل ذکر بات ہے کہ حاليہ برسوں ميں پاکستان امريکہ سے فوجی سازوسامان حاصل کرنے والے ممالک کی لسٹ میں سر فہرست ہے۔

اس ميں فوجی امداد کے علاوہ لاجسٹک سپورٹ بھی شامل ہے۔

علاوہ ازيں جب آپ سعودی عرب سميت ديگر ممالک کے ليے امريکہ کی عسکری امداد کو اجاگر کرتے ہيں تو پھر آپ اس بات کو بھی مدنظر رکھيں کہ ان فوجی معاہدوں کا ايک بڑا حصہ ہمارے بہت سے شراکت داروں اور اتحاديوں کی دفاعی ضروريات کو پورا کرنے کے ليے بھی خرچ ہوتا ہے جو ہماری جانب سے دی جانے والی امداد، سازوسامان، تربيت اور لاجسٹک اسپورٹ پر انحصار کرتے ہيں۔

اس تناظر ميں سال 2014 ميں بيرونی فوجی اعانت وصول کرنے والے سرفہرست ممالک کی لسٹ پيش ہے۔


اسرائيل – 1۔3 بلين ڈالرز

مصر – 3۔1 بلين ڈالرز

عراق – 300 ملين ڈالرز

جارڈن – 300 ملين ڈالرز

پاکستان – 280 ملين ڈالرز


آپ ديکھ سکتے ہيں کہ اس لسٹ ميں 5 ميں سے 4 اسلامی ممالک ہيں۔

صرف يہی نہيں بلکہ اگر ہم خطے کی سطح پر بھی امريکی امداد کی تقسيم کا تجزيہ کريں تو آپ پر واضح ہو گا کہ گزشتہ برس امريکہ کی کل فوجی امداد کا 86 فيصد ان دو خطوں پر خرچ کيا گيا۔

مشرق وسطی 64 فيصد

افريقہ 23 فيصد

عالمی سطح پر سياسی، معاشی اور معاشرتی تبديليوں کے ساتھ امريکی کی جانب سے عسکری معاونت کے ضمن ميں ردوبدل بھی ملحوظ رکھنا چاہيے۔ تاہم گزشتہ تين برسوں کے دوران بيرونی ممالک کو دی جانے والی عسکری معاونت قدرے يکساں رہی ہے۔ سال 2013 ميں 7۔5 بلين ڈالرز، سال 2014 میں 9۔5 بلين ڈالرز اور سال 2015 ميں 6۔5 بلين ڈالرز بيرون ممالک کو عسکری معاونت کے ضمن ميں ديے گئے ہيں۔ ان تين سالوں کے دوران وہ پانچ ممالک جو عسکری معاونت وصول کرنے والے ممالک ميں سرفہرست رہے ہيں ان ميں اسرائيل، مصر، عراق، جارڈن اور پاکستان شامل ہيں اور ان تمام ممالک کو اس دورانيے ميں قريب يکساں فوجی امداد فراہم کی گئ ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

خود مختار ممالک اور حکومتوں کے مابين دفاعی اور فوجی معاہدے جن کا مقصد باہم مفادات کا تحفظ ہوتا ہے دراصل تعلقات ميں مضبوطی اور استحکام کا باعث ہوتے ہيں۔ تاہم ان معاہدوں کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہوتا کہ ايک ملک دوسرے کا محتاج يا غلام بن گيا ہے اور اس ملک کی حکومت کو اپنے قومی سلامتی کے تقاضوں کو بلائے طاق رکھ کر فيصلوں کے ليے مجبور کيا جا سکتا ہے۔

امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی ملک اس بات کی استعداد نہيں رکھتا کہ کسی بيرونی ملک سے اسلحے سازی کے ايسے معاہدے زبردستی کرے جسے مقامی حکومت اپنے ملکی سلامتی کے ليے خطرہ سمجھتی ہو۔

ياد رہے کہ امريکی اور سعودی حکومتوں نے حال ہی ميں اسلحے کے تقسيم سے متعلق بڑے معاہدوں پر دستخط کيے ہيں۔ تاہم يہ کو‏ئ غير معمولی واقعہ نہيں ہے جس کی ماضی ميں مثال ہی نہيں ملتی۔ ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح رہے کہ کونسل آن فارن ريليشنز کے مطابق سال 2011 سے سال 2015 کے درميان امريکہ نے اسلحے کے حوالے سے جو معاہدے کيے ہيں، اس کا دس فيصد حصہ سعودی حکومت کے ساتھ ہی کيا گيا ہے۔

علاوہ ازيں سعودی حکومت کے ساتھ اسلحے کے حاليہ معاہدے دس برس کے عرصے پر محيط ہيں جن ميں سے ايک سو دس بلين ڈالرز کے معاہدے فوری طور پر اور قريب 350 بلين ڈالرز کے معاہدے اگلی ايک دہائ کے دوران مکمل کيے جائيں گے۔

اس معاہدے کا اہم مقصد خطے ميں جاری انسداد دہشت گردی کی کاوشوں کے ضمن ميں سعودی حکومت کی صلاحيتوں کو مزيد فعال بنانا ہے۔

يہ قابل ذکر بات ہے کہ حاليہ برسوں ميں پاکستان امريکہ سے فوجی سازوسامان حاصل کرنے والے ممالک کی لسٹ میں سر فہرست ہے۔

اس ميں فوجی امداد کے علاوہ لاجسٹک سپورٹ بھی شامل ہے۔

علاوہ ازيں جب آپ سعودی عرب سميت ديگر ممالک کے ليے امريکہ کی عسکری امداد کو اجاگر کرتے ہيں تو پھر آپ اس بات کو بھی مدنظر رکھيں کہ ان فوجی معاہدوں کا ايک بڑا حصہ ہمارے بہت سے شراکت داروں اور اتحاديوں کی دفاعی ضروريات کو پورا کرنے کے ليے بھی خرچ ہوتا ہے جو ہماری جانب سے دی جانے والی امداد، سازوسامان، تربيت اور لاجسٹک اسپورٹ پر انحصار کرتے ہيں۔

اس تناظر ميں سال 2014 ميں بيرونی فوجی اعانت وصول کرنے والے سرفہرست ممالک کی لسٹ پيش ہے۔


اسرائيل – 1۔3 بلين ڈالرز

مصر – 3۔1 بلين ڈالرز

عراق – 300 ملين ڈالرز

جارڈن – 300 ملين ڈالرز

پاکستان – 280 ملين ڈالرز


آپ ديکھ سکتے ہيں کہ اس لسٹ ميں 5 ميں سے 4 اسلامی ممالک ہيں۔

صرف يہی نہيں بلکہ اگر ہم خطے کی سطح پر بھی امريکی امداد کی تقسيم کا تجزيہ کريں تو آپ پر واضح ہو گا کہ گزشتہ برس امريکہ کی کل فوجی امداد کا 86 فيصد ان دو خطوں پر خرچ کيا گيا۔

مشرق وسطی 64 فيصد

افريقہ 23 فيصد

عالمی سطح پر سياسی، معاشی اور معاشرتی تبديليوں کے ساتھ امريکی کی جانب سے عسکری معاونت کے ضمن ميں ردوبدل بھی ملحوظ رکھنا چاہيے۔ تاہم گزشتہ تين برسوں کے دوران بيرونی ممالک کو دی جانے والی عسکری معاونت قدرے يکساں رہی ہے۔ سال 2013 ميں 7۔5 بلين ڈالرز، سال 2014 میں 9۔5 بلين ڈالرز اور سال 2015 ميں 6۔5 بلين ڈالرز بيرون ممالک کو عسکری معاونت کے ضمن ميں ديے گئے ہيں۔ ان تين سالوں کے دوران وہ پانچ ممالک جو عسکری معاونت وصول کرنے والے ممالک ميں سرفہرست رہے ہيں ان ميں اسرائيل، مصر، عراق، جارڈن اور پاکستان شامل ہيں اور ان تمام ممالک کو اس دورانيے ميں قريب يکساں فوجی امداد فراہم کی گئ ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جب بن سوال کے جواب دینا ٹھہرے تو جان لیا جانا چاہیئے کہ احساس جرم بول رہا ہے۔
نہ بلایا نہ چلایا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ جواب لے کے آیا
 

اکمل زیدی

محفلین
جب بن سوال کے جواب دینا ٹھہرے تو جان لیا جانا چاہیئے کہ احساس جرم بول رہا ہے۔
نہ بلایا نہ چلایا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ جواب لے کے آیا
بھیا وہ اپنی جگہ صحیح ہیں پورے اعداد شمار کے حساب سے پروفیشنلی جواب دے دیا۔۔۔۔بات صرف اتنی ہے کہ انہیں جو کرنا چاہیے وہ کر رہے ہیں مگر ہمیں جو کرنا چاہیے وہ ہم نہیں کر رہے۔۔۔۔simple is this...
 
Top