ایک مثال ایک خوبصورت بات یا جو بھی سمجھیں

x boy

محفلین
https://www.facebook.com/pages/حق-کی-طرف-رجوع/477016309020454
پیار ہےیا پیاری ہے

ایک دفعہ ہم سب دوست چڑیا گھر گئے بندر کے پنجرے میں دیکھا کہ وہ اپنی بندریا کے ساتھ محبت کی اعلیٰ تفسیر بنا بیٹھا تھا۔ تھوڑا آگے جا کرشیر کے پنجرے کے پاس سے گزر ہوا تو معاملہ الٹ تھا، شیر اپنی شیرنی سے منہ دوسری طرف کیئے خاموش بیٹھا تھا۔ میں نے دوستوں سے کہا کہ بندر کو اپنی مادہ سے کتنا پیار ہے اور یہاں کیسی سرد مہری ہے؟
ایک دوست نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا؛ اپنی خالی بوتل شیرنی کو مارو۔ میں نے بوتل پھینکی تو شیر اچھل کر درمیان میں آگیا۔ شیرنی کے دفاع میں اسکی دھاڑتی ہوئی آواز کسی تفسیر کی طالب نہ تھی۔ میں نے ایک بوتل جا کر بندریا کو بھی ماری یہ دیکھنے کو کہ بندر کا ردعمل کیا ہوتا ہے، بوتل اپنی طرف آتے دیکھ کر بندر اپنی مادہ کو چھوڑ کر اپنی حفاظت کیلئے اچھل کر کونے میں جا بیٹھا۔
میرے دوست نے کہا کہ کچھ لوگ شیر کی طرح ہی ہوتے ہیں؛ ان کی ظاہری حالت پر نہ جانا، ان کے پیاروں پر بن پڑے تو اپنی جان لڑا دیا کرتے ہیں، مگر ان پر آنچ نہیں آنے دیتے۔
اور کچھ لوگ جو ظاہرا" بہت محبت جتاتے ہیں لیکن وقت آنے پر یوں آنکھیں پھیر لیتے ہیں جیسے کہ جانتے ہی نہ ہوں ۔"
از: حق کی طرف رجوع
 

x boy

محفلین
https://www.facebook.com/pages/حق-کی-طرف-رجوع/477016309020454
مٹھاس سے بھرپور زندگی !!!!

فرض کریں آپ کے سامنے چائے کا ایک کپ رکھا ہوا ہے۔
اس میں شکر تو ڈال دی گئی ہے مگر ہلائی نہیں گئی۔
کیا چائے پیتے ہوئے آپ شکر کی مٹھاس محسوس کر پائیں گے؟
نہیں، ہرگز نہیں۔۔۔
اب ایسا کیجیئے کہ چائے کے کپ کو انتہائی غور سے دیکھنا شروع کر دیجیئے۔
دو منٹ کے بعد چائے کو دوبارہ چکھیئے۔
کیا ذائقہ میں کوئی تبدیلی نظر آئی؟
کیا کچھ مٹھاس کا احساس ہوا؟
شاید نہیں!!!
بلکہ اب تو چائے ٹھنڈی بھی ہونا شروع ہو چکی ہوگی۔
ابھی تک تو چائے کے میٹھا ہونے والی کوئی بات نظر نہیں آرہی۔
اب ایک آخری کوشش اس طرح کیجیئے کہ:
اپنے دونوں ہاتھ سر پر رکھ کر چائے کے کپ کے ارد گرد چکر لگائیے۔۔
اور ساتھ ساتھ اللہ سے دُعا بھی کرتے رہیئے کہ آپ کی چائے میٹھی ہوجائے۔
ارے یہ تو اچھا خاصا مذاق لگ رہا ہے۔۔۔
بلکہ شاید پاگل پن۔۔۔
اس طرح اور تو کچھ نہیں ہوا۔۔۔
بلکہ چائے بالکل ٹھنڈی ہو چکی ہے۔۔۔
میٹھا تو کیا ہونا تھا اس نے، پینے کے قابل بھی نہیں رہی اب۔۔۔

جی ہاں!! اور بالکل اسی طرح ہی ہماری زندگی ہے۔۔۔
چائے کے ایک کڑوی کسیلے کپ کی طرح۔۔۔
اور ہمیں اللہ کی طرف سے عطا کردہ صلاحیتیں شکر کی مانند ہیں۔۔۔
اور اِن صلاحیتوں نے آپکی زندگی میں مٹھاس بھرنے کیلئے اپنے آپ تو نہیں جاگ جانا۔۔۔
لاکھ ہاتھ اُٹھا کر دعائیں کر لیجیئے۔۔۔
حرکت تو دینا پڑے گی ان صلاحیتوں کو۔۔۔
اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار تو لانا ہی پڑے گا آپکو۔۔۔
لگن، محنت، جذبے اور خلوص کے ساتھ۔۔۔
تاکہ زندگی چائے کے ایک میٹھے اور پُر لطف کپ کی مانند ہو جائے۔۔۔
 
پیار ہےیا پیاری ہے

ایک دفعہ ہم سب دوست چڑیا گھر گئے بندر کے پنجرے میں دیکھا کہ وہ اپنی بندریا کے ساتھ محبت کی اعلیٰ تفسیر بنا بیٹھا تھا۔ تھوڑا آگے جا کرشیر کے پنجرے کے پاس سے گزر ہوا تو معاملہ الٹ تھا، شیر اپنی شیرنی سے منہ دوسری طرف کیئے خاموش بیٹھا تھا۔ میں نے دوستوں سے کہا کہ بندر کو اپنی مادہ سے کتنا پیار ہے اور یہاں کیسی سرد مہری ہے؟
ایک دوست نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا؛ اپنی خالی بوتل شیرنی کو مارو۔ میں نے بوتل پھینکی تو شیر اچھل کر درمیان میں آگیا۔ شیرنی کے دفاع میں اسکی دھاڑتی ہوئی آواز کسی تفسیر کی طالب نہ تھی۔ میں نے ایک بوتل جا کر بندریا کو بھی ماری یہ دیکھنے کو کہ بندر کا ردعمل کیا ہوتا ہے، بوتل اپنی طرف آتے دیکھ کر بندر اپنی مادہ کو چھوڑ کر اپنی حفاظت کیلئے اچھل کر کونے میں جا بیٹھا۔
میرے دوست نے کہا کہ کچھ لوگ شیر کی طرح ہی ہوتے ہیں؛ ان کی ظاہری حالت پر نہ جانا، ان کے پیاروں پر بن پڑے تو اپنی جان لڑا دیا کرتے ہیں، مگر ان پر آنچ نہیں آنے دیتے۔
اور کچھ لوگ جو ظاہرا" بہت محبت جتاتے ہیں لیکن وقت آنے پر یوں آنکھیں پھیر لیتے ہیں جیسے کہ جانتے ہی نہ ہوں ۔"
از: حق کی طرف رجوع

چڑیاگھر میں جانوروں کو بوتلیں مارنا انسانوں کا کام نہیں
 

x boy

محفلین
اللہ کے پیارے نبی محمد مصطفی خیر الانبیاء ﷺ فرماتے ھیں کہ میرا جی چاھتا ھے کہ نماز میں لمبی قرات کروں مگر کسی خاتون کا بچہ رو پڑتا ھے اور میں سوچتا ھوں کہ اس کی ماں کا دل بچے میں اٹک گیا ھو گا،میں اس کی سہولت کے لئے قرات کو مختصر کر دیتا ھوں،،
کیا بات ھے ھمارے نبیﷺ کی دلجوئی کی کہ نماز میں بھی لوگوں کے احساسات پر نظر ھے، اپنے اعمال سے ویسے لگتا نہیں کہ ھم ان کے امتی ھیں ! اولاد کو والدین کے احساسات کا خیال نہیں تو والدین کو اولاد کے دل کی خبر نہیں حالانکہ وہ اولاد رہ کر آئے ھیں،، والدین کو پتہ ھے اور تجربہ ھے کہ والدین کی کون سی بات گولی کی طرح لگتی ھے ۔۔ مگر پھر بھی وہ یہ گولی اولاد کو مارے بغیر رھتے نہیں کیونکہ یہ گولی بزرگوں کی امانت ھے آگے پہنچانا ضروری ھے ،، شوھر کو یہ احساس نہیں کہ اس کی اک ذرا سی بات،بس اک چھوٹا سا جملہ ان کی پارٹنر کی رات کی نیند اڑا دیتا ھے،، وہ مر مر کے جیتی اور جی جی کے مرتی ھے ،، ھر روز کی یہ ٹینشن اسے ڈیپریشن کا مریض بنا دیتی ھے،اور پھر اس کا ٹائی راڈ ٹوٹ جاتا ھے،،نارمل آدمی جب بولتا ھے تو پتہ چل جاتا ھے اگرچہ غصے میں بولے اور ابنارمل آدمی بھی جب بولتا ھے تو پتہ چل جاتا ھے،،جب بیوی ڈیپریشن میں بولنا شروع کرے تو انسان کو محسوس ھو جانا چاھئے کہ یہ اب اپنے آپ میں نہیں ھے اور مرفوع القلم پوزیشن میں ھے ! لہذا چپ کر کے سنتے رھنا چاھئے،، باھر بھی نہیں بھاگ جانا چاھئے ورنہ مواد عورت کے اندر ھی رھے گا،اب جو پھوڑا پھٹ گیا ھے اس کا پورا مواد نکل جانے دیں ! یہ آپ کی عطا تھی اسے آپ ھی وصول کیجئے ،خط جب واپس آتا ھے تو اسی ایڈریس پر واپس آتا ھے جہاں سے بھیجا جاتا ھے !

خواتین کا معاملہ بھی کچھ ملتا جُلتا ھے،، کام پر جاتے شوھر کی پیٹھ پر ایسا انگارہ رکھ دیں گی پہلے تو کام پر جاتے ھوئے رستے میں وہ گاڑی کو جہاز سمجھ کر چلائے گا اور ایکسیلیریٹر کو بیوی کا گلا سمجھ کر دبائے گا اور سارا دن ڈیوٹی پر افسروں سے اور دفتر کے ساتھیوں سے منہ ماری کر کے انگارے کی تپش کم کرتا رھے گا،مگر وہ کم ھوتی نہیں ھے،،کیونکہ جس نے رکھا ھے خوب ناپ تول کر رکھا ھے،، سوتے وقت کوئی ایسی بات کر دیں گی کہ ساری رات بستر انگاروں کا بستر بنا رھے گا،،اب جب صبح یہ بندہ ڈیوٹی پہ جائے گا تو نیند کا مارا ھر ایک کے گلے پڑے گا ،، عین کھانا کھاتے ھوئے خود کش حملہ کر دیتی ھیں اور کھانا زھر بنا دیتی ھیں،، مناسب وقت پر غیر معقول بات بھی قابلِ برداشت ھوتی ھے،مگر ڈیوٹی ٹائم،، سوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت کسی قسم کی اختلافی گفتگو نہیں کرنی چاھئے !
خیر بات کہاں کی کہاں نکل گئ ھے ! عرض کرنا چاہ رھا تھا کہ ھمیں جو بات بطور مقتدی ،اپنے امام سے پسند نہ آئی کوشش کی کہ امامت کے وقت میرے مقتدیوں کو اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے،، جب ھم ڈیوٹی پہ جایا کرتے تھے تو فجر کی نماز میں ادھر بس کا ٹائم ھو جاتا،، ادھر مولوی صاحب کا ذوق وجد میں آ جاتا ،، اب ھم پر ایک ایک لمحہ بھاری ھے ،بس نکل گئ تو 35 درھم کی ٹیکسی بک کر کے جانا پڑے گا،، کئ دفعہ ایسا ھوا کہ نماز توڑ کر نکل جانا پڑا اور کام پر جا کر نماز پڑھی،کئی دفعہ نیت کی کہ اگر آج بس نکل گئ تو ٹیکسی کا کرایہ مولوی صاحب سے لیں گے ،، تو عالیجاہ اپنی تو عادت بن گئ ھے کہ چھوٹی چھوٹی سورتوں سے فجر پڑھاتے ھیں، مختصر تسبیحات پڑھتے ھیں تا کہ کسی کی بس نہ نکل جائے،،!
پہلے نماز میں بچے رویا کرتے تھے اب موبائیل روتے ھیں،، اگر بس ڈرائیور ھے تو سواریاں کال کرنا شروع کر دیتی ھیں کہ کہیں سویا نہ رہ گیا ھو ،،سواری ھے تو ڈرائیور کال مارتا ھے،" کہاں مر گئے ھو "؟ بس اپنا حال تو شاعر جیسا ھے جس نے عرض کیا تھا !

اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں !
کبھ۔ی س۔۔وز و س۔۔۔ازِ رومی ،کبھی پیچ و تابِ رازی !

عرصہ تیس سال سے زائد ھوا ھے کہ ھمارے پڑوسی مسکین مرحوم نے پاکستان میں نماز کے بعد ھم سے مسئلہ پوچھا تھا کہ " قاری صاحب اگر ایک آدمی دمے کا مریض ھے اور اس کی سانس سجدے میں رک جاتی ھے تو کیا وہ سر سجدے سے اٹھا کر سانس لے کر دوبارہ مولوی صاحب کے ساتھ سجدے میں شامل ھو سکتا ھے ؟ چونکہ مسکین مرحوم شدید دمے کا مریض تھا،، بھائیو وہ دن اور آج کا دن میں نے کبھی 3 بار سے زیادہ سجدے کی تسبیح نہیں پڑھی،مجھے اپنے پیچھے کئی مسکین نظر آتے ھیں،، میرے بہت اچھے دوست وجاھت ھاشمی صاحب نے رمضان میں تراویح کے بعد کہا کہ قاری صاحب، باقی اماموں کے پیچھے ھم نماز پڑھتے ھیں تو تسبیحات کا دورانیہ بدلتا رھتا ھے،،کبھی تو یوں لگتا ھے مولوی صاحب سو ھی گئے ھیں،،مگر آپ کے پیچھے مدت سے جمعہ اور تراویح پڑھی ھے،ایسا نپا تلا پیمانہ ھے کہ ادھر تین پوری ھوئیں ادھر اللہ اکبر،، میں نے کہا مسکین مرحوم خود تو فوت ھوگیا ھے،مگر میری سپیڈ باندھ گیا ھے !
از: قاری حنیف ڈار دبئی۔
 

x boy

محفلین
" پاکستان میں اس وقت تین ہی فقہی مذاہب ہیں ۔
ایک حنفی ، دوسرے اہل الحدیث ، تیسرے شیعہ امامیہ ۔۔۔ ان تینوں مذاہب کے علماء نے 1951 میں باہم اتفاق سے یہ بات طے کر لی تھی کہ مُلکی قانون ( Law of Land ) اکثریت کے مسلک پر مبنی ہو گا اور ہر فقہی مذہب کے پیروؤں کو یہ ح۔ق دیا جائے گا کہ اُن کے شخصی معاملات اُن کے اپنے پرسنل لاء کے مطابق طے کئے جائیں ۔۔
رہے مختلف مذاہب کے اعتقادی اختلافات ، تو ن۔ہ وہ دور کئے جا سکتے ہیں ، ن۔ہ اُن کو دور کرنا ضروری ھے ۔۔ صرف اتنی بات کافی ھے کہ ہر گروہ اپنے عقیدے پر قائم رھے اور سب ایک دوسرے کے ساتھ رواداری برتیں ۔۔۔ اس کے لئے ھم ملک میں مسلسل کوشش کر رہے ہیں ۔۔ "

( سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ ، تصریح۔۔۔ات )
 

x boy

محفلین
جناب اورہا مقبول جان کی بات:
انسان کو جس چیز میں کمال ہوتا ہے اس پر مرتا ہے ۔ چنانچہ دھنتر دید کو سانپ پکڑنے میں کمال تھا ، اس کو سانپ نے کاٹا اور مر گیا ۔ ارسطو سل کی بیماری میں مرا ۔ افلاطون فالج میں ۔ لقمان سرسام میں اور جالینوس دستوں کے مرض میں حالانکہ انہیں بیماریوں کے علاج میں کمال رکھتے تھے ۔ اس طرح جس کو جس سے محبت ہوتی ہے اسی کی خیال میں جان دیتا ہے ۔ قارون مال کی محبت میں مرا ، مجنوں لیلیٰ کی محبت میں ۔ اسی طرح طالبِ خدا کو خدا کی طلبی کی بیماری ہے وہ اسی میں فنا ہو جاتا ہے ۔
 

x boy

محفلین
دوستی کا معیار:
ھم میں سے اکثر لوگوں کی کوشش ھوتی ھیکہ معاشرے کے ایسے افراد سے دوستی کیجائے جو سلجھے ھوئے ،صاحب حیثیت ،سوٹڈ بوٹڈ اور کم از کم گاڑی اور اچھے عہدے والے ھوں ، لیکن دلچسپ امر یہ ھیکہ اگر رستے میں ھماری گاڑی خراب ھو جائے تو ھماری نگا٥ انتخاب سڑک کنارے کھڑے "مزدور" اور "غریب" ٹائپ لوگوں پر ھی پڑتی ھے ، کیونکہ ھم اچھی طرح جانتے ھیں کہ کوئی بھی "سوٹڈ بوٹڈ" مشکل سے ھی گاڑی کو دھکا لگانے پر آماد٥ ھوگا ، البتہ "کمتر حیثیت "والا نہ صرف دھکا بخوشی لگائے گا ، بلکہ ھمیں اسے "لفٹ " دینے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی ،کیا ھی اچھا ھو ،ھم "بظاھر " غریب اور "دل" کے امیر لوگوں سے بھی دوستیاں کریں انکا درد سمجھیں اور احساس دلائیں کہ ذات پات اونچ نیچ کا فرق ھم انسانوں نے پیدا کیا ھے ،بندوں کے رب کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ھی اس نے ایسا کوئی حکم دیا ہے
 

x boy

محفلین
یکم جنوری 2014 لیپ ٹاپ پہ سامنے لکھا ھوا ھے !
پتہ نہیں کتنے دن ھم 2013 لکھ کر کاٹتے رھیں گے جب عادت پکے گی 2014 لکھنے کی تو ، 2015 آ جائے گا !
یہ وقت بڑا ظالم ھے یا انسان بڑا ظالم ھے، ایک معمہ ھے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا !
شکر کرنے کو آؤ تو زبان گنگ ھو جاتی ھے،گننے میں نہیں آتا تو شکر کس کس کا ادا کرے ،، ھر احسان کہتا ھے پہلے میرا شکر ادا کرو ! مانا کہ اللہ نے ھم سے پوچھ کر ھمیں انسان نہیں بنایا ،، مگر اللہ نے کاکروچوں،چوھوں اور بلیوں سے بھی درخواستیں لے کر انہیں کاکروچ ،چوھے اور بلیاں نہیں بنایا،،، اگر وہ ھمیں کاکروچ بنا دیتا تو ھم کونسا اس کے خلاف پرچہ کرا دیتے،، انسانوں میں اس نے ھمیں مسلمان کے گھر پیدا فرمایا یہ بھی اس کا احسان ھے کوئی ھم نے درخواست اور ایکسٹرا فیس جمع نہیں کرائی تھی،، صحیح العقیدہ بنایا،اپنے در کا رکھا کہیں دھکے کھانے کو نہیں چھوڑا، یہ بھی اس کا احسان ھے ، 52 نصف صدی بیت گئ ھے کوئی میجر بیماری نہیں،بلڈ پریشر، شوگر،دل کے امراض ،، جوڑوں کا درد،کچھ بھی تو نہیں،، یہ کوئی کم احسان ھے ،، نیک تابعدار اولاد صالح بیوی جو عمل میں مجھ سے کوسوں آگے ھے،، کئی بار اسے یاد دھانی کرواتا ھوں ،،آگے میرا خیال کرنا ، وہ سمجھتی ھے مذاق کرتا ھوں،، مگر یہ حقیقت ھے !
اللہ نے انسان بنایا،مسلمان بنایا ،صحتمند بنایا ،صحتمند اولاد عطا فرمائی ،، اگر وہ گونگے بہرے پیدا فرما دیتا تو کونسا ھم بل جمع کراتے ھیں جو روک لیتے،،میری پھوپھیوں اور کزنز کے یہاں ڈھیر مارے پڑے ھیں معذور بچوں کے کے،کچھ سسک رھے ھیں کچھ فوت ھوگئے ھیں،کچھ گونگے بہرے جوان ھو گئے ھیں،، میری پھوپھو جو رمضان کے بعد فوت ھوئی تھیں ان کی ایک گونگی بچی 14 سال کی بس بخار سے فوت ھو گئ،، دو باقی بیٹے گونگے ھیں شادی شدہ ھیں ان میں سے ایک کا بچہ بھی گونگا بہرہ ھے، دوسرے کے چار بچے ھیں مگر اسے دن کو بھی کم نظر آتا ھے،، مگر نماز روزے کے پابند،،مشقت کر کے آتے ھیں تو پہلے نہا کر نماز پڑھتے ھیں،، پھر کھانا کھاتے ھیں،ماں کے خدمتگار،بجلی چلی جائے تو بدک کر اٹھتے ھیں اور ماں کو پکھی جھولنا شروع کر دیتے ھیں کہ اس کی آنکھ نہ کھل جائے،، پھوپھو فوت ھوئیں تو بڑا بیٹا لاش پر پہنچا والدہ کے ماتھے کو چوما پھر اس کے گالوں کو ھاتھ لگا کر اپنے کانوں کا ھاتھ لگائے اور پھر دونوں ھاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف کر کے کھڑا ھو گیا اور آنسوؤں کی جڑی لگا دی،،ماں کے لئے بخشش مانگنے کا یہ انداز کیا رب کریم رد کر دے گا ؟ سنتے نہیں مگر جمعے کے لئے سب سے پہلے جاتے ھیں کہ رب راضی ھوتا ھے،نہ فاتحہ سنی نہ پڑھی ،نہ تسبیح نہ التحیات یاد کی نہ درود نہ دعا،، بس ھونٹ ھلاتے ھیں،،اور فرشتہ خود لکھ لیتا ھے الحمد للہ رب العالمین ،، سبحان ربی العظیم ،، کیا نماز ھے ! سبحان اللہ ،، مگر گلہ کوئی نہیں ،، فریاد کوئی نہیں،، دوسری جانب سننے بولنے والے جب بولتے ھیں گند اگلتے ھیں،، گلے شکووں کی ایک لائن لگا دیتے ھیں،، سب کو گلہ ھے رب نے اسے کیا دیا ھے ؟ کوئی نہیں سوچتا اس نے رب کو کیا دیا ھے؟ اسی کا کھا کر اسی کی زمین پہ رہ کر اسی کی نعمتیں استمال کر کے اسی کے گلے کرتے پھرتے ھیں کوئی ناشکری سی ناشکری ھے ؟ وہ تو ان کو بھی پالتا پھرتا ھے جو کہتے ھیں ھمارا کوئی خالق ھے ھی نہیں،، کوئی پالنہار ھے ھی نہیں،، بغیر کسی کے بنائے بن گئے ھیں،، وہ انہیں بھی صحت و سلامتی عطا فرماتا ھے،، کیونکہ وہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ھے ! کلو من رزق ربکم واشکروا لہ،، بلدۃٓ طیبۃٓ و ربٓ غفور،، لوگو رب کے رزق میں سے کھاؤ اور اسی کا شکر بجا لاؤ،، بہترین زمین اور بخشنے والا رب،،( تمہیں اور کیا چاھیئے؟ ) (سبا )
اللہ تعالی نئے سال کو ھم سب کے لئے مبارک بنا دے،کوئی سنگی ساتھی رشتے دار اس سال جدا نہ ھو،، سارے ایمان و بدن کی صحت سے بہرہ مند رھیں ! اور ھمیں زندگی کے اس نئے سال کو صبر و شکر سے گزارنے کی توفیق عطا فرمائے،، اور اس موقعے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے والا بنا دے آمین
از: قاری حنیف ڈار دبئی
 

x boy

محفلین
از: قاری حنیف ڈار
  • انسان میں قوت تخیل اللہ پاک کی مخلوق میں سب سے قوی ھے، باقی سارے نفعے نقصان اسی قوت متخیلہ کے ساتھ جُڑے ھیں ، اس کے مثبت اور منفی استعمال پر جنت اور دوزخ کے فیصلے صادر ھوں گے ! اسی قوت متخیلہ کی کارفرمائی ھے ھر نئی تخلیق اور نئی ایجاد کے پیچھے، اللہ پاک نے صرف انسان کو اپنی تخلیق کی صفت میں سے کچھ بخشا ھے،،

    یہ قوتِ متخیلہ کیا ھے !

    یہ قوت متخیلہ ھے تصویر سازی کی صلاحیت،، پھر اس تصویر میں رنگ بھرنے کی صلاحیت، پھر اس تصویر کو بنا کھڑا کرنے کی صلاحیت !
    اللہ کے رسولﷺ نے عورتوں سے کہا ھے کہ مرد کے سامنے دوسری عورتوں کا نین نقشہ نہ بیان کیا کرو، کیونکہ اس طرح ایک تو دوسروں کے گھروں کی بے پردگی ھوتی ھے ، دوسرا مرد فتنے میں مبتلا ھو جاتا ھے، پھر جب وہ نادیدہ معشوق کا عاشق ھو جاتا ھے،جس کی تصویر تم نے خود اس کے دل و دماغ میں بنا کر نقش کر دی ھے، تو پھر روتی پھرتی ھو،، مرد اگر خود دیکھے تو اتنی تباھی نہیں ھوتی، کیونکہ وہ خوبی کے ساتھ عیب بھی نوٹ کر لیتا ھے،،مگر تم نے تو ساری خوبیاں ھی سمیٹ کر بتائی ھیں اور وہ فوٹو شاپ میں اس میں رنگ بھرتا رھا ھے !
    یہ صلاحیت تو دی گئ تھی کہ انسان اس کے ذریعے اپنے رب کی نعمتوں کو دیکھ کر اپنے رب کی ھستی کا ایک ھیولہ بنائے گا ،پھر اس سے پیار کرے گا ،
    قرآن میں کیئے گئے وعدوں اور جنت کی تفصیلات کا اسکیچ بنائے گا اور اسے حاصل کرنے کو محنت کرے گا،، قرآن میں بیان کردہ جھنم کی تفصیلات کو مُشَکَۜل کرے گا ،، اور اس کے ڈر کی وجہ سے برائی سے بچے گا ،،
    اسی کے بارے میں علامہ عامر عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ھے کہ !

    تیرے جان ف۔۔۔راز وع۔۔دے مجھے کیا ف۔۔۔ریب دیتے !
    تی۔۔۔رے کام آ گئ۔۔۔۔ی ھے،می۔۔۔۔ری زود اعتب۔۔۔۔اری !

    پھر اس دکھوں سے بھری زندگی میں شیخ چلی کے خواب بھی نہ ھوتے تو کون جی سکتا تھا،،ھر بندہ اپنے کو سب سے خوبصورت سمجھتا ھے، ھر بندہ اپنے کو سب سے زیادہ عقلمند سمجھتا ھے بقول شاعر !
    بق۔۔درِ پی۔۔۔۔۔۔۔۔مانہء تخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یل ذوق ھ۔۔ر آدمی میں ھے خودی کا !
    گ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ر نہ ھ۔۔و یہ ف۔۔ریبِ ھس۔۔۔۔۔۔۔۔۔تی، تو دم نکل جائے آدمی کا !

    یہ جو شیطان نام کا ولن ھمارے ساتھ لگایا گیا ھے،یہ ھماری ھر کمزوری سے واقف ھے، بلکہ اللہ پاک کے فرمان کے مطابق ،،انہ یراکم ھو و قبیلہ من حیث لا ترونھم ،، تمہاری توقعات سے بڑھ کر وہ تم پر نظر رکھے ھوئے ھے،وہ بھی اور اس کے چیلے چانٹے بھی،، وہ بھی اسی قسم کے نقشے دکھا وکھا کر انسان کو ورغلا لیتا ھے ،،گویا وہ زود اعتباری والی معصومیت کو شیطان ایکسپلائٹ کرتا ھے،، اور سارا دن ھمارے سیٹلائٹ چینل شیطانی وعدوں پر مبنی اشتہارات چلاتے رھتے ھیں ،، اور لوگ پاگل بن بن کر خود کشیاں کرتے رھتے ھیں !

    دنیا میں چونکہ انسان کو دکھوں کی بارش میں جینا تھا،، ضروری تھا کہ اسے ریموو ایبل اور ری رائٹ ایبل میموری عطا فرمائی جائے،، ورنہ دکھ اس کو مار دیں گے،، یوں دکھ تو fade ھوتے چلے جاتے ھیں مگر اسی کا سائڈ ایفیکٹ یہ ھے کہ ساتھ ھی درس قران ، وعظ و نصیحت اور اللہ پاک کی سنائی گئ وعیدیں اور دھمکیاں بھی دھیمی ھوتے ھوتے مٹ جاتی ھیں ،، اسی کو اس طرح بیان کیا گیا ھے کہ ولقد وعدنا ادم من قبل " فَنَسِیَ " و لم یجد لہ عزماً۔۔ یعنی ھم نے آدم سے عہد تو لے لیا اور آدم نے عہد دے بھی دیا مگر" بھول گیا" وہ fade ھو گیا ،اور ھم نے اس میں گناہ کا عزم نہیں پایا،، یعنی وہ ایک ماحول کا رد عمل تھا جس میں وہ وعدہ پسِ منظر میں دب گیا ،،
    اس کو ساغر صدیقی نے اپنی غزل میں بیان کیا ھے !

    میں تلخ۔ئ حیات سے گھب۔را کے پی گیا !
    غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا !

    چھلکے ھوئے تھے جام ،پریشاں تھی زلفِ یار !
    کچھ ایسے ح۔ادثات سے گھب۔۔را کے پ۔۔ی گیا !

    میں آدمی ھوں کوئی فرشتہ نہیں حض۔۔۔ور !
    میں آج اپن۔۔ی ذات سے گھب۔۔را کے پی گیا !

    ساغر "وہ" ک۔۔ہہ رھے تھے، کہ پی لیجئے حض۔۔۔۔ور !
    ان ک۔۔۔۔۔۔۔ی گ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زارشات سے گھبرا کے پی گیا !

    پھر اللہ پاک کے ایک موھوم وجود کی طرف اشارہ کر کے کہتا ھے کہ اتنے بڑے بڑے نظر آنے والے پرکشش داعیات کے مقابلے میں ایک ایسے خدا کا تصور جس کا نہ سر ھے نہ منہ ھے نہ ھاتھ ھیں نہ پاؤں ھیں، نہ وہ کسی جگہ ھے، نہ وہ کسی سمت ھے، انسان ایسے خدا پر کیسے اور کتنی دیر تک توجہ کو مرتکز رکھ سکتا ھے ؟ اپنی اس کمزوری کو وہ عذر کے طور پر پیش کرتا ھے ،،

    اتنی دقیق شے ک۔۔۔وئ کیسے سمجھ سکے ؟
    یزداں کے واقع۔۔۔۔۔۔۔ات سے گھب۔۔را کے پی گیا !

    اس پوری غزل میں "پی گیا" سے مراد نافرمانی اور گناہ کا صدور مراد ھے !
    الغرض یہ انسان چوں چوں کا مربہ ھے،، اس کو ودیعت کی گئ صلاحتیں دوا بھی ھیں اور زھر بھی اسی لئے اللہ پاک نے انبیاء جیسے ڈاکٹر بھیجے ھیں جو عملی طور پر ان صلاحیتوں کو مثبت طور پر استعمال کر کے دکھاتے ھیں تا کہ اتمامِ حجت ھو ،، اور زھر اور دوا کا فرق واضح ھو جائے،، نبی کریمﷺ کا اسوہ سب انبیاء سے زیادہ کامل اور مکمل ھے کہ اس میں انسانی زندگی کے ھر پہلو کے بارے میں پریکٹیکل موجود ھے،، شادیاں کیں،، بیویاں رکھ کر دکھائیں،وہ بیویاں اپنی سارے عورت پن کے ساتھ نبی ﷺ کی ازواج اور ھماری مائیں تھیں،ان میں آپس میں سوکناپے کا سارا رشک و غیرت موجود تھی اور گھر میں کھٹ بٹ لگی رھتی تھی،ان میں وہ بھی تھیں جو اپنے گھر کی باری میں دوسری زوجہ کے گھر سے آیا سالن نبیﷺ کو نہیں کھانے دیتی تھیں،، وہ بھی تھیں جو سفر کے دوران خالی اونٹ تو ساتھ لیئے چل رھی تھیں مگر نبیﷺ کے کہنے کے باوجود اپنی سوکن کو اپنا اونٹ دینے پر تیار نہیں تھیں جن کا اونٹ بیمار پڑ گیا تھا، اس کے علاوہ اور بہت سارے واقعات کوٹ کیئے جا سکتے ھیں،، مگر اس ساری کھٹ بٹ کے باوجود نبیﷺ نے اپنی بییوں کو مارا نہیں اور نہ گالی دی اور فرمایا کریم النفس کبھی اپنی بیوی کو نہیں مارتا،، اسی طرح بیٹیاں اپنی زندگی میں بیاھی بھی اور قبر میں بھی اتاریں،، بیٹے پیدا بھی ھوئے اور فوت بھی ھوئے،، خوشیاں بھی آئیں اور غم بھی آئے مگر ھمیشہ اپنے رب کی رضا کے مطابق چل کر دکھا گئے کہ اس دنیا میں یوں بھی جیا جاتا ھے !

    آج ھم 63 من کا تین منزلہ کیک تو بنا سکتے ھیں،، 63 بکروں کا صدقہ بھی دے سکتے ھیں،، بڑے بڑے جلوس نکال کر ٹریفک تو جام کر سکتے ھیں،، کنڈے ڈال کر مساجد کو تو بقعہ نور بنا سکتے ھیں ،مگر مح۔۔۔۔۔۔۔۔۔م۔۔۔۔د ﷺ کا جینا نہیں جی سکتے،، ان کی طرح کی زندگی نہیں اپنا سکتے،، ان کی طرح سب کے حقوق ادا نہیں کر سکتے !

    وجہ صرف یہ ھے کہ ھم چلنا ھی نہیں چاھتے ! ورنہ نبیﷺ کی زندگی کوئی ناقابلِ عمل تو نہیں ھے،، !!!

    اللھم صلِۜ و سلِۜم و باِرک علی سیدنا محمد ﷺ ملأ الارضِ و ملأ السموات و ملأ ما بینھما و ملأ العرش العظیم ِ و ملأ ما شئت من شئٍ بعد ! آمین یا رب العالمین !
 

ماہی احمد

لائبریرین
از: قاری حنیف ڈار
  • انسان میں قوت تخیل اللہ پاک کی مخلوق میں سب سے قوی ھے، باقی سارے نفعے نقصان اسی قوت متخیلہ کے ساتھ جُڑے ھیں ، اس کے مثبت اور منفی استعمال پر جنت اور دوزخ کے فیصلے صادر ھوں گے ! اسی قوت متخیلہ کی کارفرمائی ھے ھر نئی تخلیق اور نئی ایجاد کے پیچھے، اللہ پاک نے صرف انسان کو اپنی تخلیق کی صفت میں سے کچھ بخشا ھے،،

    یہ قوتِ متخیلہ کیا ھے !

    یہ قوت متخیلہ ھے تصویر سازی کی صلاحیت،، پھر اس تصویر میں رنگ بھرنے کی صلاحیت، پھر اس تصویر کو بنا کھڑا کرنے کی صلاحیت !
    اللہ کے رسولﷺ نے عورتوں سے کہا ھے کہ مرد کے سامنے دوسری عورتوں کا نین نقشہ نہ بیان کیا کرو، کیونکہ اس طرح ایک تو دوسروں کے گھروں کی بے پردگی ھوتی ھے ، دوسرا مرد فتنے میں مبتلا ھو جاتا ھے، پھر جب وہ نادیدہ معشوق کا عاشق ھو جاتا ھے،جس کی تصویر تم نے خود اس کے دل و دماغ میں بنا کر نقش کر دی ھے، تو پھر روتی پھرتی ھو،، مرد اگر خود دیکھے تو اتنی تباھی نہیں ھوتی، کیونکہ وہ خوبی کے ساتھ عیب بھی نوٹ کر لیتا ھے،،مگر تم نے تو ساری خوبیاں ھی سمیٹ کر بتائی ھیں اور وہ فوٹو شاپ میں اس میں رنگ بھرتا رھا ھے !
    یہ صلاحیت تو دی گئ تھی کہ انسان اس کے ذریعے اپنے رب کی نعمتوں کو دیکھ کر اپنے رب کی ھستی کا ایک ھیولہ بنائے گا ،پھر اس سے پیار کرے گا ،
    قرآن میں کیئے گئے وعدوں اور جنت کی تفصیلات کا اسکیچ بنائے گا اور اسے حاصل کرنے کو محنت کرے گا،، قرآن میں بیان کردہ جھنم کی تفصیلات کو مُشَکَۜل کرے گا ،، اور اس کے ڈر کی وجہ سے برائی سے بچے گا ،،
    اسی کے بارے میں علامہ عامر عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ھے کہ !

    تیرے جان ف۔۔۔راز وع۔۔دے مجھے کیا ف۔۔۔ریب دیتے !
    تی۔۔۔رے کام آ گئ۔۔۔۔ی ھے،می۔۔۔۔ری زود اعتب۔۔۔۔اری !

    پھر اس دکھوں سے بھری زندگی میں شیخ چلی کے خواب بھی نہ ھوتے تو کون جی سکتا تھا،،ھر بندہ اپنے کو سب سے خوبصورت سمجھتا ھے، ھر بندہ اپنے کو سب سے زیادہ عقلمند سمجھتا ھے بقول شاعر !
    بق۔۔درِ پی۔۔۔۔۔۔۔۔مانہء تخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یل ذوق ھ۔۔ر آدمی میں ھے خودی کا !
    گ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ر نہ ھ۔۔و یہ ف۔۔ریبِ ھس۔۔۔۔۔۔۔۔۔تی، تو دم نکل جائے آدمی کا !

    یہ جو شیطان نام کا ولن ھمارے ساتھ لگایا گیا ھے،یہ ھماری ھر کمزوری سے واقف ھے، بلکہ اللہ پاک کے فرمان کے مطابق ،،انہ یراکم ھو و قبیلہ من حیث لا ترونھم ،، تمہاری توقعات سے بڑھ کر وہ تم پر نظر رکھے ھوئے ھے،وہ بھی اور اس کے چیلے چانٹے بھی،، وہ بھی اسی قسم کے نقشے دکھا وکھا کر انسان کو ورغلا لیتا ھے ،،گویا وہ زود اعتباری والی معصومیت کو شیطان ایکسپلائٹ کرتا ھے،، اور سارا دن ھمارے سیٹلائٹ چینل شیطانی وعدوں پر مبنی اشتہارات چلاتے رھتے ھیں ،، اور لوگ پاگل بن بن کر خود کشیاں کرتے رھتے ھیں !

    دنیا میں چونکہ انسان کو دکھوں کی بارش میں جینا تھا،، ضروری تھا کہ اسے ریموو ایبل اور ری رائٹ ایبل میموری عطا فرمائی جائے،، ورنہ دکھ اس کو مار دیں گے،، یوں دکھ تو fade ھوتے چلے جاتے ھیں مگر اسی کا سائڈ ایفیکٹ یہ ھے کہ ساتھ ھی درس قران ، وعظ و نصیحت اور اللہ پاک کی سنائی گئ وعیدیں اور دھمکیاں بھی دھیمی ھوتے ھوتے مٹ جاتی ھیں ،، اسی کو اس طرح بیان کیا گیا ھے کہ ولقد وعدنا ادم من قبل " فَنَسِیَ " و لم یجد لہ عزماً۔۔ یعنی ھم نے آدم سے عہد تو لے لیا اور آدم نے عہد دے بھی دیا مگر" بھول گیا" وہ fade ھو گیا ،اور ھم نے اس میں گناہ کا عزم نہیں پایا،، یعنی وہ ایک ماحول کا رد عمل تھا جس میں وہ وعدہ پسِ منظر میں دب گیا ،،
    اس کو ساغر صدیقی نے اپنی غزل میں بیان کیا ھے !

    میں تلخ۔ئ حیات سے گھب۔را کے پی گیا !
    غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا !

    چھلکے ھوئے تھے جام ،پریشاں تھی زلفِ یار !
    کچھ ایسے ح۔ادثات سے گھب۔۔را کے پ۔۔ی گیا !

    میں آدمی ھوں کوئی فرشتہ نہیں حض۔۔۔ور !
    میں آج اپن۔۔ی ذات سے گھب۔۔را کے پی گیا !

    ساغر "وہ" ک۔۔ہہ رھے تھے، کہ پی لیجئے حض۔۔۔۔ور !
    ان ک۔۔۔۔۔۔۔ی گ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زارشات سے گھبرا کے پی گیا !

    پھر اللہ پاک کے ایک موھوم وجود کی طرف اشارہ کر کے کہتا ھے کہ اتنے بڑے بڑے نظر آنے والے پرکشش داعیات کے مقابلے میں ایک ایسے خدا کا تصور جس کا نہ سر ھے نہ منہ ھے نہ ھاتھ ھیں نہ پاؤں ھیں، نہ وہ کسی جگہ ھے، نہ وہ کسی سمت ھے، انسان ایسے خدا پر کیسے اور کتنی دیر تک توجہ کو مرتکز رکھ سکتا ھے ؟ اپنی اس کمزوری کو وہ عذر کے طور پر پیش کرتا ھے ،،

    اتنی دقیق شے ک۔۔۔وئ کیسے سمجھ سکے ؟
    یزداں کے واقع۔۔۔۔۔۔۔ات سے گھب۔۔را کے پی گیا !

    اس پوری غزل میں "پی گیا" سے مراد نافرمانی اور گناہ کا صدور مراد ھے !
    الغرض یہ انسان چوں چوں کا مربہ ھے،، اس کو ودیعت کی گئ صلاحتیں دوا بھی ھیں اور زھر بھی اسی لئے اللہ پاک نے انبیاء جیسے ڈاکٹر بھیجے ھیں جو عملی طور پر ان صلاحیتوں کو مثبت طور پر استعمال کر کے دکھاتے ھیں تا کہ اتمامِ حجت ھو ،، اور زھر اور دوا کا فرق واضح ھو جائے،، نبی کریمﷺ کا اسوہ سب انبیاء سے زیادہ کامل اور مکمل ھے کہ اس میں انسانی زندگی کے ھر پہلو کے بارے میں پریکٹیکل موجود ھے،، شادیاں کیں،، بیویاں رکھ کر دکھائیں،وہ بیویاں اپنی سارے عورت پن کے ساتھ نبی ﷺ کی ازواج اور ھماری مائیں تھیں،ان میں آپس میں سوکناپے کا سارا رشک و غیرت موجود تھی اور گھر میں کھٹ بٹ لگی رھتی تھی،ان میں وہ بھی تھیں جو اپنے گھر کی باری میں دوسری زوجہ کے گھر سے آیا سالن نبیﷺ کو نہیں کھانے دیتی تھیں،، وہ بھی تھیں جو سفر کے دوران خالی اونٹ تو ساتھ لیئے چل رھی تھیں مگر نبیﷺ کے کہنے کے باوجود اپنی سوکن کو اپنا اونٹ دینے پر تیار نہیں تھیں جن کا اونٹ بیمار پڑ گیا تھا، اس کے علاوہ اور بہت سارے واقعات کوٹ کیئے جا سکتے ھیں،، مگر اس ساری کھٹ بٹ کے باوجود نبیﷺ نے اپنی بییوں کو مارا نہیں اور نہ گالی دی اور فرمایا کریم النفس کبھی اپنی بیوی کو نہیں مارتا،، اسی طرح بیٹیاں اپنی زندگی میں بیاھی بھی اور قبر میں بھی اتاریں،، بیٹے پیدا بھی ھوئے اور فوت بھی ھوئے،، خوشیاں بھی آئیں اور غم بھی آئے مگر ھمیشہ اپنے رب کی رضا کے مطابق چل کر دکھا گئے کہ اس دنیا میں یوں بھی جیا جاتا ھے !

    آج ھم 63 من کا تین منزلہ کیک تو بنا سکتے ھیں،، 63 بکروں کا صدقہ بھی دے سکتے ھیں،، بڑے بڑے جلوس نکال کر ٹریفک تو جام کر سکتے ھیں،، کنڈے ڈال کر مساجد کو تو بقعہ نور بنا سکتے ھیں ،مگر مح۔۔۔۔۔۔۔۔۔م۔۔۔۔د ﷺ کا جینا نہیں جی سکتے،، ان کی طرح کی زندگی نہیں اپنا سکتے،، ان کی طرح سب کے حقوق ادا نہیں کر سکتے !

    وجہ صرف یہ ھے کہ ھم چلنا ھی نہیں چاھتے ! ورنہ نبیﷺ کی زندگی کوئی ناقابلِ عمل تو نہیں ھے،، !!!

    اللھم صلِۜ و سلِۜم و باِرک علی سیدنا محمد ﷺ ملأ الارضِ و ملأ السموات و ملأ ما بینھما و ملأ العرش العظیم ِ و ملأ ما شئت من شئٍ بعد ! آمین یا رب العالمین !
کتنا ٹھیک کہا ہے نا!
 

x boy

محفلین
از: قاری حنیف ڈار

اسلامی لٹریچر میں جتنا ظلم جہاد کی اصطلاح کے ساتھ ھوا ،اس کی مثال نہیں ملتی ،، جتنا ھی یہ لفظ عظیم القدر اور وسیع المعنی تھا،، اُتنا ھی اسے رخیص اور مسخ کر دیا گیا ھے، اگر ان نام نہاد جہادیوں کی بات مان لی جائے تو نبی کریمﷺ کے 13 سال جہاد گنے ھی نہیں جائیں گے، حالانکہ وھی شدید ترین جہاد کے دن تھے، قرآن و حدیث میں جہاد کا لفظ انسان کی سوچ سے شروع ھوتا ھے، مطالعے سمیت کردار کے ھر شعبے یعنی گھریلو ذمہ داریوں سمیت تجارت اور لین دین ،، گواھی اور خوف کی حالت میں عدل و اںصاف کو قائم رکھنا،، تنگ دستی کے باوجود رشوت نہ لینا ،، نفس کے تقاضوں کے علی الرغم اللہ کی حدوں کو نہ توڑنا، اور شیطانی وساوس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا،، ان میں سے ھر ایک کام جہاد ھے،، دین کی ترویج کے لئے لٹریچر فراھم کرنا،اس کی پرنٹنگ کا بندوبست کرنا ،اسے پھیلانے کے لئے گھر گھر اور گلی گلی پھرنا ،،یہ سب جہاد کی قسمیں ھیں،، اخبارات میں کالم لکھنا ، راہ حق پر ڈالی گئ دھند کو صاف کرنا یہانتک کہ کسی غیر مسلم کا مختلف حق کی تلاش میں مختلف مذاھب کے لٹریچر کا مطالعہ کرنا بھی جہاد گنا جاتا ھے جبکہ وہ ٹھیک منزل پر پہنچ جائے ،جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا " والذین جاھدوا فینا ،، لنھدینھم سبلنا،، جو ھماری تلاش میں جہاد" جدوجہد " کرتے ھیں ھم ان کو اپنا رستہ سجھا دیتے ھیں،، گویا جہاد جدوجہد کا نام ھے،جس کا ایک جزو قتال بھی ھے،جاہد کی باقی قسموں کے ساتھ تو کوئی شرطیں نہیں،،مگر قتال کے لئے سخت ترین شرطیں عائد کی گئ ھیں جن کے بارے میں نبیوں کو بھی کوئی چھوٹ نہیں دی گئ،، نبی کریمﷺ نے جہاد تو پہلے دن سے شروع کر دیا تھا،،مگر قتال کی آیات دوران ھجرت رستے میں نازل ھوئیں اور سورہ الحج میں لکھی گئیں،، اُذِنَ للذین یُقاتَلون،، بانۜھم ظُلِموا ،،، اب اس ایک جرو قتال کو مسلسل جہاد جہاد کہہ کہہ کر جہاد کا مُثلہ کر دیا گیا ھے، اور قتال کے منکر کو جہاد کا منکر گردانا جاتا ھے ،، حالانکہ یہ ایک شعبے کی شرائط پر اعتراض ھے کہ وہ پوری ھوئ ھیں یا نہیں ! یہ اسی طرح کی بات ھے کہ پوری مرسیڈیس میں سے ایک اسٹیرنگ وھیل کو اٹھا کر گھر لایا جائے تو لوگوں کو بتایا جائے کہ مرسیڈس میرے گھر کے ڈرائنگ روم کے ٹیبل پر پڑی ھے اور پھر کیٹلاگ سے مرسیڈیس کا مونو گرام دکھا کر اسٹیرنگ وھیل والے مونو گرام سے تقابل کر کے اسے مکمل مرسیڈس منوایا جائے، یا ھمارے سامنے ایک کتا پیش کیا جائے اور کہا جائے کہ یہ ایک بےسینگ کی "مونی ) بکری ھے، اور جب ھم اس کا انکار کریں تو بدنام کیا جائے کہ یہ لوگ بکری کو حرام کہہ رھے ھیں،، اور بکری کی حلت کے منکر ھیں،،اس وقت جس ظلم و بربریت کو جہاد کے نام پر پیش کیا جا رھا ھے وہ سوائے کتے کو بکری کہنے کے اور کچھ نہین !
 

x boy

محفلین
از: قاری حنیف ڈار
اگر ھماری عمر اپنی نبی پاکﷺ جتنی ھو تو !

8 گھنٹے ڈیوٹی کے = 21 سال

8 گھنٹے سونے کے= 21 سال

باقی بچ گئے 21 سال !

اس میں سے 15 سال بلوغت کےنکال دیجئے !

باقی بچے صرف 6 سال ،، ان چھ سالوں میں کتنے خیبر ھم فتح کر لیتے ھیں ؟ جو اللہ پر احسان چڑھائے پھرتے ھیں اپنی عبادات کا ؟؟
ایک گھنٹہ فی دن اللہ کی عبادت کا نکال لیں،کیونکہ ایک گھنٹے میں ساری نمازیں پڑھ لی جاتی ھیں !
اس طرح 2 سال 6 ماہ اور 25 دن عبادت کی ھے ! بشرطیکہ آپکی عمر 63 سال ھو !

یہ حساب نکال کے آپ کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور ھم اپنی عبادت سے خود شرما جائیں گے،، پھر نعمتوں کے ڈھیر دکھائے جائیں گے،، اور پھر کہا جائے گا اپنی عبادت کو میری نعمتوں پر پیش کرو،، جو بچ جائے گی وہ تول لی جائے گی !
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سب سے کمزور نعمت سے کہا جائے گا آگے بڑھو اور اپنا حق وصول کرو،، وہ نعمت ایک لقمے میں اس عبادت کو ھڑپ کر جائے گی اور شکوہ کرے گی پروردگار میرا حق ادا نہیں ھوا !! اس وقت انسان کو اپنی عبادت کی حقارت اور بے وقعتی کا احساس ھو گا،، سوائے اس کے کہ اللہ یا تو اپنی نعمتیں معاف کر دے اور ان کو ھدیہ بنا دے،، یا ان نعمتوں کا حق اپنے فضل سے ادا کر دے ،، اور کوئی راہ جنت جانے کی نہیں ھے !
یہ ھے وہ بات جو اللہ کے رسولﷺ نے فرمائی ھے کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے عملوں سے جنت میں نہیں جائے گا بلکہ اللہ کے فضل سے جائے گا،، سو عبادت کا مطمع نظر رب کی رضا رکھو،، جنت نہ رکھو!!
رب کی رضا کا سرٹیفیکیٹ ھاتھ میں ھوا تو بس وارے نیارے،،
اسی سے صحابہ کی فضیلت کا اندازہ کریں کہ جن کو یہ رضا کا سرٹیفیکیٹ کر کے قرآن میں ثبت کردیا گیا،، رضی اللہ عنہم و رضو عنہ،،

اب اس کا فوری علاج تو یہ ھے کہ نیند والے 21 سال بھی عبادت بنا لیئے جائیں !
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص عشاء جماعت کے ساتھ پڑھ کر سوتا ھے اس کی آدھی رات کا قیام لکھا جاتا ھے اور جو فجر بھی جماعت کے ساتھ پڑھتا ھے اس کی ساری رات کا قیام لکھا جاتا ھے !

ڈیوٹی کے 21 سال بھی عبادت بنا لو ،، دیانت کے ساتھ جتنے گھنٹے کا کنٹریکٹ ھے اتنے گھنٹے کام کرو اور اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ کرو،،جتنا وقت ڈیوٹی کے دوران نماز پہ صرف کرتے ھو ،،وہ واپس پلٹا کر دیا کرو یعنی اتنا وقت ایکسٹرا کام کیا کرو !
 

x boy

محفلین
ایک نوجوان جب ایک ہسپتال میں اپنے دوست کی تیمار داری کیلئے گیا تو اسی ہسپتال میں ہی لمبے عرصے سے چلنے پھرنے سے معذور، صرف سر کو ہلا سکنے کی قوت رکھنے والے مفلوج اپنے محلے کے اس بزرگ کے بستر پر بھی گیا تاکہ اس کی تیمار داری کر سکے۔
حال احوال اور خیر خیریت پوچھنے کے بعد اس نے بزرگ سے پوچھا؛ بابا جی، اس معذوری اور اپاہجی میں یقیناً آپ کے دل میں کوئی خواہش تو ضرور ہوگی؟
نوجوان کا خیال تھا بابا کہے گا کہ بیٹا میری خواہش ہے میں تندرست ہو جاؤں، چلوں پھروں، بھاگوں دوڑوں اور دنیا دیکھوں۔
مگر بزرگ نے کہا؛ بیٹے میری عمر پچاس سال سے متجاوز ہے، میرے پانچ بچے ہیں، میں سات سال سے اس چارپائی کا ہوا پڑا ہوں۔ مجھے نا ہی چلنے پھرنے کی خواہش ہے اور نہ ہی اپنے بچوں سے ملنے کی کوئی حسرت اور نا ہی میں لوگوں کی طرح روزمرہ کی عام زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔
نوجوان نے حیرت سے بزرگ کی طرف دیکھا اور پوچھا؛ تو پھر آپ کیا چاہتے ہیں؟
بزرگ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا؛ بس میں اس ماتھے کو زمین پر ٹکانا چاہتا ہوں، میری اتنی سی خواہش ہے کہ اس رب کو ویسے سجدہ کروں جیسے دوسرے لوگ کرتے ہیں۔
نعمتوں میں گھرے، خوشیوں میں مگن، بیماریوں، ورموں، زخموں اور دوائیوں سے محفوظ، پھر بھی ایسی ناشکری کہ رب کے حضور سر جھکانے کی فرصت نہ ہو۔۔۔۔۔۔ ہم اتنا ظالم تو نہ بنیں۔
اللہ پاک ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمادیں اور نیکی کی توفیق اور سیدھے راستے پر چلنے کی ہدایت دیں۔ آمین
 

قیصرانی

لائبریرین
از: قاری حنیف ڈار
اگر ھماری عمر اپنی نبی پاکﷺ جتنی ھو تو !

8 گھنٹے ڈیوٹی کے = 21 سال

8 گھنٹے سونے کے= 21 سال

باقی بچ گئے 21 سال !

اس میں سے 15 سال بلوغت کےنکال دیجئے !

باقی بچے صرف 6 سال ،، ان چھ سالوں میں کتنے خیبر ھم فتح کر لیتے ھیں ؟ جو اللہ پر احسان چڑھائے پھرتے ھیں اپنی عبادات کا ؟؟
ایک گھنٹہ فی دن اللہ کی عبادت کا نکال لیں،کیونکہ ایک گھنٹے میں ساری نمازیں پڑھ لی جاتی ھیں !
اس طرح 2 سال 6 ماہ اور 25 دن عبادت کی ھے ! بشرطیکہ آپکی عمر 63 سال ھو !

یہ حساب نکال کے آپ کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور ھم اپنی عبادت سے خود شرما جائیں گے،، پھر نعمتوں کے ڈھیر دکھائے جائیں گے،، اور پھر کہا جائے گا اپنی عبادت کو میری نعمتوں پر پیش کرو،، جو بچ جائے گی وہ تول لی جائے گی !
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سب سے کمزور نعمت سے کہا جائے گا آگے بڑھو اور اپنا حق وصول کرو،، وہ نعمت ایک لقمے میں اس عبادت کو ھڑپ کر جائے گی اور شکوہ کرے گی پروردگار میرا حق ادا نہیں ھوا !! اس وقت انسان کو اپنی عبادت کی حقارت اور بے وقعتی کا احساس ھو گا،، سوائے اس کے کہ اللہ یا تو اپنی نعمتیں معاف کر دے اور ان کو ھدیہ بنا دے،، یا ان نعمتوں کا حق اپنے فضل سے ادا کر دے ،، اور کوئی راہ جنت جانے کی نہیں ھے !
یہ ھے وہ بات جو اللہ کے رسولﷺ نے فرمائی ھے کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے عملوں سے جنت میں نہیں جائے گا بلکہ اللہ کے فضل سے جائے گا،، سو عبادت کا مطمع نظر رب کی رضا رکھو،، جنت نہ رکھو!!
رب کی رضا کا سرٹیفیکیٹ ھاتھ میں ھوا تو بس وارے نیارے،،
اسی سے صحابہ کی فضیلت کا اندازہ کریں کہ جن کو یہ رضا کا سرٹیفیکیٹ کر کے قرآن میں ثبت کردیا گیا،، رضی اللہ عنہم و رضو عنہ،،

اب اس کا فوری علاج تو یہ ھے کہ نیند والے 21 سال بھی عبادت بنا لیئے جائیں !
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص عشاء جماعت کے ساتھ پڑھ کر سوتا ھے اس کی آدھی رات کا قیام لکھا جاتا ھے اور جو فجر بھی جماعت کے ساتھ پڑھتا ھے اس کی ساری رات کا قیام لکھا جاتا ھے !

ڈیوٹی کے 21 سال بھی عبادت بنا لو ،، دیانت کے ساتھ جتنے گھنٹے کا کنٹریکٹ ھے اتنے گھنٹے کام کرو اور اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ کرو،،جتنا وقت ڈیوٹی کے دوران نماز پہ صرف کرتے ھو ،،وہ واپس پلٹا کر دیا کرو یعنی اتنا وقت ایکسٹرا کام کیا کرو !
آپ کا حساب کتاب بہت غلط ہے۔ دوبارہ سے ابتدائی حساب کی مشقیں کر لیجئے
63 سال میں سے اگر 15 سال بلوغت کے نکالیں گے تو 48 سال بچیں گے۔ اس میں سے ہر روز کا تیسرا حصہ یعنی آٹھ گھنٹے نوکری کے نکالنے ہیں (اگر آپ رزق حلال کما رہے ہیں تو یہ آٹھ گھنٹے بھی آپ کی عبادت ہے) تو 48 کو تین پر تقسیم کرنے سے 16 جواب آئے گا نہ کہ 21
اگر رزق حلال کما رہے ہیں تو وہ بھی عبادت ہے اور آپ کے حساب کتاب اور آپ کی سمجھ کی ایک اور فاش غلطی
اب ذرا ٹھنڈے دل سے اپنی جہالت پر غور فرما لیجئے کہ تبلیغ کرنے کا یہ ڈھنگ ہوتا ہے؟
باقی بچے صرف 6 سال ،، ان چھ سالوں میں کتنے خیبر ھم فتح کر لیتے ھیں ؟ جو اللہ پر احسان چڑھائے پھرتے ھیں اپنی عبادات کا ؟؟
 

x boy

محفلین

  • احباب نماز کا طریقہ نوٹ فرما لیں اور صرف دو رکعت پڑھ کر ھی اسے آزما لیں !
    فرض نمازوں میں ھم عموماً امام کے پیچھے ھوتے ھیں ،جس میں ھماری کیفیت،جہاز میں یا گاڑی میں سوار سوئے ھوئے مسافروں کی سی ھوتی ھے !
    یہ طریقہ نفل نماز کے لئے ھے خصوصاً فجر کی اذان سے ایک گھنٹہ یا چالیس منٹ پہلے اٹھ کر اچھی طرح تسلی کے ساتھ وضو کر لیں !

    نماز نفل کی نیت کر لیں اور ثناء نیز فاتحہ کے ترجمے کو ذھن میں رکھ کر پڑھیں،، کہ آپ کس کے سامنے کھڑے ھیں اور کیا طلب کر رھے ھیں،،
    رکوع میں جا کر فوری تسبیح مت پڑھیں،، یاد رکھیں رکوع فرض ھے،، تسبیح فرض نہیں ھے،بلکہ سنت ھے،، جب آپ بغیر پڑھے ایک منٹ رکوع میں رھیں گے تو آپ آٹو موڈ سے نکل آئیں گے اور مینوئل موڈ پر آ جائیں گے،، اب آپ جو کہیں گے وہ شعوری طور پر کہیں گے،، تسبیح میں سبحان رب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ی کو ذرا لمبا کریں اور اَلعظیم کو الگ کر کے پڑھیں،، العظیم ،، میں کائنات اور پھر اس کی تخیلق اور قبضے کو اللہ کے دستِ قدرت میں سمجھتے ھوئے ،اس کی عظمت سے دل کو بھر کر کہیں،، اور تعداد تین سے بڑھا دیں،یعنی پانچ یا سات دفعہ کہیں،، درمیان میں پھر رک کر سوچ سکتے ھیں،، پھر شروع کر سکتے ھیں،،
    سجدے میں جا کر سر سجدے میں رکھ کر ٹھہر جایئے تقریباً ایک یا دو منٹ کچھ مت پڑھئے،، مینوئیل موڈ پر آیئے اور اللہ کے حضور اپنی حاضری کو ممکن بنایئے،، just ensure your presence before Almighty ,,,
    آپ جب اپنی ھیئت پر غور فرمائیں گے،کہ کس طرح آپ کا سر زمین پر رکھا ھے،کس کے سامنے رکھا ھے،اپنی مجبوریاں ،کمزوریاں اور اس کی بے نیازیاں ،،
    اس دوران آپ کی زبان ساکت رھے،آپ کا سجدہ جاری ھے،، سجدہ فرض ھے،، تسبیح سنت ھے،، آپ پہلے فرض کے فرائض ادا کیجئے،،سجدے کو رب کے سامنے ممکن بنایئے ،، کیفیت پیدا کیجئے،، سجدہ جاری ھے، زبان خاموش ھے،، اس کی عظمتوں اور بلندیوں کو سوچئے ،، آسمان کے تاروں ،ریت کے ذرات اور درختوں کے پتوں سمیت سب کچھ اس کی تسبیح کر رھا ھے،، بڑے بڑے نیک لوگ حرم اور ریاض الجنہ میں سجدہ ریز ھیں ،،وہ آپ کی طرف دھیان کیوں دے ؟
    اسکی یہ بے نیازی اور پھر اس تک اپنی رسائی ممکن بنانے کے لئے ( نہ کہ ثواب کمانے کے لئے) دل کی گہرائی سے کہئے ،سبحان ربی الاعلی،،یہاں بھی " الاعلی" کو الگ کر لیں،، اس طرح وقفہ دے دے کر جب دل بھر جائے پیار سے اوور فلو کرے تو کہہ دیجئے سبحان ربی الاعلی ،،،، بس دو رکعت ایسی نماز پڑھ کر اپنے دل کی کیفیت کا اندازہ لگا لیجئے گا،،یہ کسٹمرز کاپی ھے،،باقی ان شاء اللہ حشر میں دیکھ لیجئے گا !


    نفل نماز رب سے آپ کی ھم کلامی کے لئے اللہ پاک کا خاص تحفہ ھے،،
    اپنی زبان میں کیوں نہیں کہہ لیتے،، میرے مولا ،، میرے آقا،، میرے خالق ،میرے مالک،، تو بہت کریم ھے،تو بہت ھی عظیم ھے،، تو بہت ھی بلند ھے،، گنتی کی کیا ضرورت ھے؟ جب اپنی زبان میں یا اللہ ھی کہو تو گگھی بند جاتی ھے،الفاظ گلے میں اٹک جاتے ھیں،،ھونٹ تتلی کے پروں کی طرح کانپتے ھیں،، جو کہنا ھوتا ھے دل کہہ رھا ھوتا ،،
    اپنے گناھوں کا فولڈر سامنے دھر کر اس کے بالمقابل اس کے کرم کا فولڈر رکھ کر ،، بندہ جب شرمندگی سے کہتا ھے،، اللہ جی تو کتنا چنگا ایں ،، تو سجدے والا نہیں سامنے والا مسجود بھی وجد میں آ جاتا ھے،، کبھی اللہ سے اپنی زبان میں بات کر کے دیکھیں ناں ، اسے ساری زبانیں آتی ھیں،، اپنی زبان میں جو اپنائیت پیدا ھوتی ھے، وہ مفادات سے الگ ایک تقرب ھے،، اللہ اپنا اپنا لگتا ،،بالکل اپنا گرائیں ،، پھر وہ بھولتا ھی نہیں انسان ترستا ھے پھر اس سے بات کرنے کو، پھر اس کا حال وہ ھوتا ھے جو مچھلی کا پانی سے نکل کر ھوتا ھے،، وہ فجر پڑھ کر انتظار کرتا ھے کہ کب سورج طلوع ھو اور وہ اپنے اللہ سے دل کی بھڑاس نکالے !
    نبی کریمﷺ نے ایک نوجوان کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ سالم مرے گا،، تو صحابہ نے تعجب سے کہا تھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ یہ سالم مرنا کیا ھوتا ھے؟ فرمایا تھا انسان مختلف ٹکڑوں میں بٹتا جاتا ھے،یعنی اپنی ھستی میں مختلف ونڈوز اور Tabs کھول لیتا ھے ،، وہ ونڈوز پھر موت کے فرشتے کو ھی آ کر کلوز کرنے ھوتے ھیں اور اس دوران بند بھندے میں اٹکا رھتا ھے،، جبکہ ایک شخص وہ ھوتا ھے جو اپنی ھستی کو سمیٹ سمیٹ کر رکھتا ھے،ادھر موت کا فرشتہ آتا ھے یہ اس کے ساتھ چل پڑتا ھے،،
    نماز ھستی کو سمیٹنے اور ونڈوز اور Tabs بند کر کے اپنی مکمل ھستی رب کے سامنے رکھنا ھوتا ھے،، آپ سجدے میں جا کر چپ کر کے سجدہ کریں،، آپ کا فرض ادا ھو رھا ھے اور آپ کی ھستی کی واپس ڈاؤن لؤڈنگ ھو رھی ھے ، جلدی کی ضرورت نہیں ڈاؤن لؤڈ مکمل ھونے دیجئے،، اور دیگر غیر ضروری ونڈوز بند ھونے دیجئے،، آپ خود محسوس کریں گے کہ ھاں ،، اب میں پورا ھو گیا ھوں ،میرا قلب و شعور اپنے صانع اور خالق کے سامنے حاضر ھے،، اب اپنی مادری زبان میں اسے مخاطب کیجئے،ڈرتے ڈرتے،، اللہ ،، میرے اللہ ،، اللہ جی،، اللہ پاک،، میں بہت گنہگار ھوں،، میں تو اس سجدے کے قابل بھی نہیں تھا، پھر جو جی میں آئے اپنے دکھ درد اس کے سامنے رکھئے ،،یاد رکھئے جو بھی مسئلہ ھے اس کے سامنے اسی طرح رکھیئے جس طرح ڈاکٹر کو اپنی بیماری بتاتے ھیں،، عربی کی کوئی ضرورت نہیں نفلی نماز میں آپ سجدے میں جو چاھئیں اپنی مادری زبان میں بات کریں،، !
    یہ سکون ،،یہ یکسوئی آپ کو فرض نمازوں میں بھی بہت کام آئے گی،، ورنہ ھم امام کے پیچھے ایک tab پر الحمد تو دوسرے پر میچ کھول کے کھڑے ھوتے ھیں،، اسی لئے نمازوں سے کردار کو تبدیل کرنے کی صلاحیت اور ذوقِ تقرب ختم ھو گیا ھے،، صحابہ کو یہ ایڈوانٹیج حاصل تھا کہ وہ فرض میں بھی اللہ سے اپنی مادری زبان میں باتیں کرتے تھے اسی لئے اعتبار بھی کرتے تھے اور بڑے بڑے باغ کھڑے کھڑے اللہ کو سونپ دیتے تھے،،ھم کم از کم نفل میں تو اللہ سے اپنی زبان میں بات کریں،،اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں !!

    میرا سوھنا اللہ سب کو توفیق عطا فرمائے ! آمین

    فدوی محمد حنیف عفی اللہ عنہ و عافاہ !
 
Top