ایک مثال ایک خوبصورت بات یا جو بھی سمجھیں

x boy

محفلین
انسانی جان کی حرمت و توقیر !

اللہ پاک نے قرآنِ حکیم میں جہاں بھی بڑے گناھوں کا ذکر فرمایا ھے وھاں شرک کے فوراً بعد قتلِ نفس کو ضرور ذکر کیا ھے،، جہاں میں شرک سے منع کیا ھے وھیں ناحق انسانی جان لینے کو بھی حرام قرار دیا ھے ! ایک انسان کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ھے، اور ایک جان بچانے کو ساری انسانیت کو بچا لینے کے مترادف قرار دیا ھے ! اللہ پاک نے مسلمانوں کی ایک لشکری مہم میں ایک شخص کے کلمہ پڑھ لینے کے باوجود قتل کر دینے پر سورہ النساء میں جو رکوع نازل فرمایا ھے وہ دل دہلا دینے والا ھے، بات کو کچھ یوں اٹھایا ھے کہ مومن تو مومن کو قتل کر ھی نہیں سکتا سوائے اس کے کہ کوئی خطا سے مارا جائے،، یا مومن کو تو لائق ھی نہیں کہ وہ مومن کو مار دے سوائے اس کے کہ وہ خطا سے مر جائے ! پھر قتلِ عمد کا ذکر کیا ھے تو فرمایا ،،جو شخص مومن کو جان بوجھ کر قتل کرتا ھے تو اس کا بدلہ جہنم ھے جس میں وہ ھمیشہ پڑا رھے گا اور اللہ کا غضب ھوا اس پر اور اللہ نے لعنت کر دی اس پر اور اس کے لئے عظیم عذاب تیار کر رکھا ھے ! اے ایمان والو جب تم اللہ کی راہ میں نکلو تو خوب چھان پھٹک کر لیا کرو اور جو کہے کہ وہ مسلمان ھے تو تم اسے مت کہو کہ تم مسلم نہیں ھو !( النساء92،93،94 )
صلح حدیبیہ جب ھوئی جو کہ بظاھر دب کر کافروں کی شرائط پر کی گئ تھی،بعض مومنوں کے جذباتی رد عمل پر اللہ پاک نے فرمایا کہ" اگر کچھ ایسے مسلمان مکے والوں میں گڈ مڈ نہ ھوتے جن کو تم نہیں جانتے،، اور ناواقفی میں انہیں بھی قتل کر کے نقصان سے دو چار ھو جاتے تو ،، تمہیں فتح بھی دے دی جاتی،،( الفتح 25 )گویا وہ گمنام سے مسلمان اللہ کے نزدیک اتنے اھم تھے کہ ان کی خاطر اپنے رسول کے ھاتھوں "محمد رسول اللہ" کٹوا کر محمد بن عبداللہ لکھوا دیا مگر انسانی جانوں پر کمپرومائز نہیں کیا !
احادیث کی طرف آئیں تو امام ذھبی اپنی کتاب الکبائر میں شرک کے بعد دوسرا کبیرہ قتل نفس کو ھی لے کر آئے ھیں،، جس میں قرآنی آیات کے بعد متعدد احادیث میں اس شنیع فعل کی مذمت بیان کی ھے،، فرماتے ھیں،، نبی پاکﷺ کا فرمان ھے اللہ کی رحمت انسان کو ھر حال میں پا لیتی ھے،جب تک کہ وہ کسی کی ناحق جان نہ لے،، نیز کسی کو ناحق قتل کرنا اللہ کے نزدیک ساری دنیا کو تباہ کرنے سے بڑا جرم ھے،،روایت کیا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے قتل کے فیصلے پہلے کیئے جائیں گے، نیز بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت کے حوالے سے لکھا کہ،جس کسی نے غیر مسلم ذمی کو ناحق قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا اگرچہ جنت کی خوشبو کی لپٹیں 40 سال( 40 light years ) کے فاصلے تک جاتی ھیں !! تبصرے میں امام ذھبی فرماتے ھیں کہ اگر ذمی یہودی اور عیسائی کے ناحق قتل کی سزا یہ ھے تو مسلمان کے قتل کی سزا کیا ھو گی ؟؟
امام احمد روایت کرتے ھیں کہ جس نے کسی مسلم کے قتل میں ایک کلمے یا جملے کی مدد بھی کی( یعنی اس کے حق میں بات کی ) وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ھو گا " آئیس من رحمۃ اللہ " یہ بندہ اللہ کی رحمت سے مایوس ھے،محروم ھے ،،
امیر معاویہؓ سے روایت ھے کہ اللہ پاک ھر گناہ کو معاف فرما دیں گے سوائے شرک اور قتلِ ناحق کے !!
الغرض ان تمام وعیدوں کو پڑھ کر ایک سلیم الفطرت مسلمان تو کانپ کانپ جاتا ھے،مگر ھر زمانے میں کچھ مسخ الفطرت لوگ بھی رھے ھیں جنہوں نے قتلِ انسانی کو مشغلہ بنا لیا ،، اور بہانے بہانے سے خون کی ندیاں بہاتے رھے، اور یہ سب کچھ اسی اللہ کے نام پر کیا جاتا رھا جس نے اس فعل پر سخت غصے کا اظہار فرمایا !!

جہاد فی سبیل اللہ کے نام پر فساد فی سبیل اللہ !!

یہ وہ وائرس ھے جو اس امت کی ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ میں بار بار کہیں نہ کہیں ابھرتا رھا،، اپنا سائیکل مکمل کر کے پھر دب جاتا،امت کے مجموعی مزاج نے کبھی اس کی پذیرائی نہیں کی،، یہ لوگ سمجھتے ھیں کہ اللہ اپنے بندوں کی گرفت کرنے سے عاجز آ گیا ھے لہذا انہیں انسانوں کی صفائی کا ٹھیکہ دیا گیا ھے کہ وہ معاشرے کو برے لوگوں سے صاف کر دیں،، اسے یہ لوگ اللہ کی نصرت یا مدد کرنا کہتے ھیں !
جب نبی کریمﷺ مکے میں تھے اور مسلمان روزانہ ستائے جا رھے تھے ،انہیں جان بوجھ کر نبیﷺ کے آنے جانے والے رستوں میں لٹا کر اذیت دی جاتی تا کہ نبیﷺ اپنی دعوت سے باز آ جائیں،مگر نبی پاک ﷺ نے ان لوگوں کو تو صبر کی تلقین فرمائی،،مگر کبھی یہ نہ سوچا کہ جفاکش غلاموں کا گینگ بنا کر قریشی سرداروں میں سے چند کو مروا دیا جائے تا کہ باقی کو عبرت ھو جائے،، اور وہ مسلمانوں کو ستانا چھوڑ دیں،، اس قسم کی زیرِ زمین سرگرمیاں نہ اسلام کا مزاج ھیں اور نہ ھے کسی حقیقی اسلامی جماعت کے اس طرح انڈر گراؤنڈ قاتل گروپ ھوتے ھیں !! حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے جب ایک کافر کے تھپڑ کے جواب میں تھپڑ مارا تو آپﷺ نے ان کو شاباش دینے کی بجائے الٹا ڈانٹ دیا اور فرمایا کہ اگر صبر نہیں کر سکتے تو یہاں سے چلے جاؤ،جب اللہ مجھے غلبہ عطا فرما دے گا تو واپس آ جانا،، !
بیعتِ عقبہ ثانیہ میں جب 70 مدنی انصار نے آپﷺ کی بیعت کی اور آپﷺ کو مدینے کی ھجرت کی دعوت دی تو ان میں سے عباس ابن عبادہؓ نے جو کہ سعد ابن عبادہؓ کے بھائی تھے فرمایا 'والذی بعثک بالحقِ نبیاً لئن شئت لنمیلنَۜ غداً علی اھل منی بأسیافنا" اس ذات کی قسم جس نے اپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ھے، اگر آپﷺ اجازت دیں تو کل ھم اھل منی پر اپنی تلواروں سے ٹوٹ پڑیں؟ ،، آپﷺ نے نہایت وقار کے ساتھ جواب دیا،،لم نؤم۔ر بذالک،،، ھمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا،،یاد رھے ان 70 کو ملا کر مومنوں کی تعداد 313 سے زیادہ بنتی تھی،، اگر حضور ﷺ اجازت مرحمت فرما دیتے تو بدر منی میں ھی واقع ھو جاتا ،، مگر اسلام گینگ وار کا داغ اپنے ماتھے پہ نہیں لگانا چاھتا تھا،، جب ایک اسلامی ریاست قائم ھو گئ تو جہاد کا حکم دیا گیا،، اور وہ لفظ اذن کے ساتھ،،گویا جہاد اللہ کے اذن کے ساتھ مشروط ھے،، کسی گینگ کی تعداد اور وسائل کے ساتھ نہیں اور اس اذن کی پہلی شرط اسلامی ریاست کا قیام ھے،،جس میں رسولوں کو بھی استثناء نہیں دیا گیا !

اللہ پاک نے سورہ البقرہ کی آیت 178 سے جس قانون سازی کی ابتدا لفظ "کُتِبَ " سے شروع فرمائی ھے ،کہ تم پر فرض کیا گیا ھے ،، اس میں سب سے پہلے انسانی جان ھی کو لیا ھے اور اس کا قصاص فرض کیا ھے،پھر وصیت پھر روزے پھر حج کو لیا ھے ! جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ھے کہ اللہ کے نزدیک انسانی جان کی بہت اھمیت ھے وہ نیک ھو یا بد ،، مرد ھو یا عورت آزاد ھو یا غلام کسی کی جان نہیں لی جا سکتی جب تک یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ اس نے کسی کی جان لی ھے یا اس نے اللہ کی زمین میں فتنہ و فساد پبا کر کے خوف و ھراس کی فضا قائم کر دی ھے جس میں ھر چیز کی حرمت داؤ پر لگ گئ ھے !
اسلام میں احکامات کیمحتلف قسمیں ھیں جن میں سے کچھ میں تو فرد مخاطب ھے اورجنہیں وہ انفرادی طور پر ادا کر سکتا ھے،اور کچھ احکامات میں نظم یا اجتماعیت مخاطب ھے،، چاھے وہ نظم کسی بھی اصول پر قائم کیا گیا ھو،،وہ کوئی سرداری قبائلی نظم ھو یا آمریت ھو یا خلافت و یا جمہوریت ھو،ان میں سے ایک قصاص بھی ھے،ھر فرد کو یہ اجازت نہیں کہ وہ خود آگے بڑھ کر اپنے مقتول کا بدلہ لے لے، پھر دوسرا اٹھے اور اپنے مقتول کے بدلے میں خود کسی بندے کا انتخاب کر کے قتل کر دے یا یہ سوچے کہ جناب ھمارا آدمی تو قاتل قبیلے کے دس آدمیوں کے برابرتھا لہذا ھم دس آدمی ماریں گے،، یا ھمارا تو سردار مارا گیا ھے، جب کہ قاتل عام آدمی ھے تو ھم قاتل کے خاندان کے 10 آدمی ماریں گے،یا یہ کہ قاتل تو ایک عورت ھے، مقتول مرد ھے لہذا ھم بھی بدلے میں لازم مرد ماریں گے،،یا قاتل کوئی غلام ھے جبکہ مقتول آزاد ھے تو ھم بدلے میں آزاد ماریں گے،،
جب بھی افراد انفرادی طور پر بدلہ لینے نکلتے ھیں تو وہ کبھی بھی حدِ اعتدال میں نہیں رھتے اور نہ وہ انصاف کر پاتے ھیں،بلکہ غیظ و غضب انہیں ھمیشہ زیادتی پر اکساتا ھے،، وہ چاھتے ھیں کہ نہ صرف بدلہ اتر جائے بلکہ ھم کچھ ایسا کریں کہ دوسرے فریق پر ھماری دھاک بیٹھ جائے اور ھمارا ھاتھ اوپر رھے !
یوں ھوتا یہ ھے کہ جب وہ بدلہ لینے نکلتے ھیں تو یا تو اپنے مزید بندے مروا کر پلٹتے ھیں،، بدلہ ایک کا لینے گئے تھے،مگر وھاں مزاحمت ھو گئ اور مزید دس بندے مارے گئے،،یا فریق مخالف نے مزاحمت کی اور اصلی قاتل تو محفوظ رھا جبکہ دیگر دس آدمی مارے گئے،،یہ طریقہ قصاص پھر نسلوں تک چلتا رھتا ھے کہ قبیلے کے قبیلے اس اندھے انتقام کی بھینٹ چڑھ جاتے ھیں !
اجتماعیت اس بات کو ممکن بناتی ھے اور یہ ممکن بنانے کے لئے ادارے قائم کرتی ھے جو اصلی قاتل کو گرفتار کرے، اس پر مقدمہ چلائے اور اسے سزا دے،یوں قاتل کو مقتول کے قبیلے کو سونپ دینے میں اپنی ناک کٹ جانے کا احساس رکھنے والوں کو اسے حکومت کو سونپ دینے میں آسانی رھتی ھے !
اس طرح ایک جان کے بدلے میں عدل و انصاف کے ساتھ ایک ھی جان سے قصاص لیا جاتا ھے، جو قاتل ثابت ھو،، اس کے لئے غیر جانبدار عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جاتا ھے !
شریعت مجھے اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتی کہ میں خود آگے بڑھ کر اپنے بھائی کے قاتل کو قصاص کے نام پر قتل کر دوں ،بلکہ اگر میں اپنے بھائی کے بدلے میں قاتل کی جان لیتا ھوں تو قانون کی نظر میں قاتل جیسا ھی مجرم قرار پاتا ھوں اور وھی دفعہ میرے اوپر بھی لاگو ھوتی ھے ،
جب بھی اندھا دھند خود کش دھماکوں کی مذمت میں کچھ لکھا جاتا ھے تو فوراً یہ سوال آتا ھے کہ جناب اگر آپ کے خاندان کو کسی ڈرون حملے میں مار دیا جائے تو آپ کیا کریں گے ؟ میں عرض کرتا ھوں کہ پہلی تو بات یہ ھے کہ میرے گھر پر یا علاقے پر ڈرون ھو گا کیوں ؟ مجھے اپنی اداؤں پر بھی تو غور کرنا ھو گا،،کیا کسی کا دماغ خراب ھے کہ وہ لاکھوں ڈالر کے میزائل صرف نشانہ پکانے کے لیئے خرچ کر گا؟ جب ھم پوری دنیا کے قاتل گینگ اپنے علاقے میں اکٹھا کر لیں گے جو نہ نیک دیکھیں نہ بد ، نہ مرد دیکھیں نہ عورت، نہ بچہ دیکھیں نہ بوڑھا ،نہ مسجد دیکھیں نہ مدرسہ تو اسیے قاتل گروھوں اور باؤلے کتوں کا تعقب کرتے ھوئے اگر کوئی میرے علاقے پر حملہ کرتا ھے اور اس میں میرے بے گناہ بچے بھی مارے جاتے ھیں تو میرا غضب ان پر بھڑکے کا جو اس کا سبب بنے ھیں نہ کہ مارنے والوں پر،،
یہ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ عملی طور پر بھی جب میرے دو بھائیوں کو 29 مارچ 1995 میں قتل کیا گیا، جن کی عمریں 18 سال اور 22 سال تھیں ،، قاتل گرفتار ھوا جو کہ حوالات میں بند تھا،اس کے ساتھ اس کا والد اور بھائی بھی تھا،تینوں ایک ھی دس بائی دس فٹ کے کمرے میں بند اور میرے سامنے تھے،، میرے پاس پستول تھا جس کی میگزین میں 9 گولیاں تھیں،، ملزم سامنے بیٹھا تھا اور میں اکیلا تھا وھاں پولیس کا پہرہ بھی نہیں تھا میں اگر چاھتا تو اپنے بھائیوں کے بدلے میں قاتل اور اس کے بھائی کو قتل کر کے حساب برابر کر سکتا تھا،اوریہی ایس ایچ او کا مشورہ بھی تھا کہ عدالت سزا دے گی بھی تو ایک کو دے گی،جبکہ آپ یہاں دو کو ٹَکا سکتے ھیں اور آپ پر دفعہ بھی 304 کی لگے گی،، مگر الحمد للہ قاتل کے اشتعال دلانے کے باوجود اور قتل کر سکنے کے تمام تر اسباب پر دسترس رکھنے کے باوجود مجرد اللہ کے خوف کی بنیاد پر میں نے کوئی اقدام نہیں کیا اور ملزم کو عدالت کے ذریعے 11 سال بعد سزا دلوائی ! عدالت کو ملزم کے فعل پر شک ھو سکتا ھے مگر مجھے تو اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ قاتل کون ھے،،وہ شریعت جو مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں سامنے بیٹھے ایک یقینی قاتل کو قتل کروں ، وہ شریعت کسی گروہ کو اسلام کے نام پر قتلِ عام کا لائسنس کیسے دے سکتی ھے کہ وہ جہاں چاھے جس کو چاھے جتنے چاھے بندے مارے ؟؟ میں یہ بات اس یقین کے ساتھ کہہ رھا ھوں کہ اگر خدانخواستہ میرے بیوی بچوں سمیت میرا پورا خاندان کسی ڈرون کا شکار ھو جاتا تو بھی میرے الفاظ میں کوئی کمی بیشی نہ ھوتی ،اور میرا موقف یہی ھوتا کہ میرے مجرم وہ ھیں جن کی وجہ سے یہ سب ھوا !! اللہ پاک کا ارشاد ھے " اے ایمان والو تم پر مقتولین کے معاملے میں قصاص فرض کیا گیا ھے،، آزاد اگر قاتل ھے تو بدلے میں وھی آزاد اور اگر غلام قاتل ھے تو بدلے میں وھی غلام اور اگر کوئی عورت قاتلہ ھے تو بدلے میں وھی عورت قتل کی جائے گی،اور قصاص میں ھی تمہاری زندگی کی ضمانت ھے اے عقلمندو، ،، اسکے درمیان ایک تخفیف کی صورت رکھی کہ اگر مقتول کے ورثاء چاھئیں تو وہ دیت لے سکتے ھیں،، لیکن عدالت یہ فیصلہ قبول کرنے سے پہلے بحیثیتِ مجموعی اس بات کا جائزہ لے گی کہ اس بندے کو چھوڑ دینا کہیں باقی اجتماعیت کے لئے زہرِ قاتل تو نہیں ؟ قتل کی مختلف قسمیں ھیں اور صلح کی بھی مختلف قسمیں ھیں ! ایک قتل وہ ھے جو برادری کی سطح پر کسی لڑائی جھگڑے میں ھوا ھے، اور برادری ھی کی سطح پر صلح ھوئی ھے،، ایک قتل وہ ھے جو ڈکیتی کے دوران ھوا ھے،، ان دو میں زمین آسمان کا فرق ھے،،تیسرا قتل وہ ھے جو کسی گینگ وار کے دوران ھوا ھے،،چوتھا قتل وہ ھے جو کسی وڈیرے نے اپنی دھاک بٹھانے کے لئے کیا ھے ،، اب اسی طرح صلح کی بھی قسمیں ھونگی،، برادری کی صلح کو عدالت مان بھی لیتی ھے،،مگر جب بات ڈکیتی اور وڈیرے کی دھشت کی آ جاتی ھے تو عدالت سمجھتی ھے کہ فریق مخالف پر دباؤ ڈال کر مجبور کیا گیا ھے اور عدالت اگر ملزم کو چھوڑ دیتی ھے تو گویا امیر کو یا وڈیرے کو اپنے اثر رسوخ کی بنیاد پر قتل کا لائسنس دےدیتی ھے،، اس صورت میں اجتماعیت کے وسیع تر مفاد میں وہ اس صلح کو مسترد کرنے اور قصاص کی فرضیت کے حکم پر عملدرآمد کی ذمہ دار ھے،، کیونکہ اللہ پاک نے یہ کہہ کر کہ تمہارے اجتماعی وجود کے لئے قصاص ھی زندگی کی ضمانت ھے ،اسی طرف توجہ دلائی ھے

از:- ق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اری حنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ف ڈار
 

x boy

محفلین
آپ دیکھیں ! دنیا میں کس قدر مشاہیر گزرے ہیں۔ ہر قوم میں ایسے افراد موجود ہیں جن پر قوموں کو ناز ہے، مگر ایسے کتنے ہیں جن کا قول، قولِ فیصل ثابت ہوا ہو؟

ایک بھی نہیں ۔۔۔!!

قانون اور ضابطے بناتے ہیں، پھر خود ہی ان میں ترمیم کرتے ہیں۔
اور یہی اس بات کا اعتراف ہوتا ہے کہ اس میں خامی موجود ہے اور اصلاح کی ضرورت باقی ہے۔

صرف ایک ہستی ۔۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، جس نے آج سے چودہ صدیاں پیشتر ایک طرزِ حیات، ایک قانون، ایک معاشرت اور ایک ضابطہ عطاء فرمایا۔۔
ایسا کامل، ایسا جامع ۔۔ جسے نہ زمانہ فرسودہ کر سکا اور نہ کوئی مدّبر اس سے بہتر تدبیر کر سکا۔

یعنی جس کام کو جس طرح سے کرنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، وہی اس کی بیترین صورت ہے، اس سے بہتر کبھی نہ ہو گا۔

بلکہ اختلاف پیدا کرنے والا، بگاڑ پیدا کر کے مفسد کہلائے گا، خواہ اپنے زعمِ باطل میں وہ کتنا ہی اچھا کر رہا ہو۔
 

x boy

محفلین
( لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُوْلَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمْ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ )

ترجمہ: جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ کبھی انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی یا کنبہ والے ہوں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح کے ذریعہ انہیں قوت بخشی ہے۔ المجادلة/22
 

x boy

محفلین
سوال:-
میں 19 سالہ نوجوان لڑکی ہوں، میرا والد مجھے جنسی طور پر اپنی طرف مائل کرتا ہے، اس نے مجھ سے زبردستی کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے اپنے دفاع کیا، وہ اب بھی مجھے ہراساں کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، میں نے اپنی والدہ کو اس بارے میں بتلایا لیکن اس نے میری بات پر کان تک نہیں دھرا ، اور ایسے اظہار کرنے لگی جیسے اسے اس بارے میں پتہ ہی نہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ اسے اس بات کا علم ہے، اور میں یہ سمجھتی ہوں کہ میری والدہ بھی اس بارے میں کچھ نہیں کرسکتی، کیونکہ ہم ایک مغربی ملک میں رہتے ہیں، اور یہ ملک ہمارے لئے نیا ہے، اور مادّی اعتبار سے ہمارا انحصار والد پر ہی ہے، ہم بھی چاہتے ہیں کہ میرا والد ہمارے ساتھ ہی رہے۔
آپ مجھےکوئی طریقہ بتائیں جس سے اپنے والد کو روک سکوں، میں اس کے ساتھ کیسے پیش آؤں، تو کیا میں اس سے بالکل بات کرنا چھوڑ دوں؟


جواب:-
انا للہ وانا الیہ راجعون، اللہ کی قسم یہ بات آنسو بہانے کے قابل ہے، کیا اس حد تک لوگ گر چکے ہیں کہ نظامِ فطرت کو ہی درہم برہم کردیا ، اور ایک باپ اپنی بیٹی کے بارے میں اس حد تک گر گیا ہے؟!

اس باپ کے بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ وہ نفسیاتی اور جنسی مریض ہے، اسکو جلد از جلد قلب وعقل، دماغی اور جسمانی علاج کی شدید ضرورت ہے۔

اور آپ کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کریں، جس سے تمہارے والد کیلئے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے مواقع کم ہوجائیں گے، اس کیلئے آپ اور والد کبھی بھی گھر میں اکیلے مت رہیں، جب آپ اپنے کمرے میں چلی جائیں تو کمرے کا دروازہ بند کر لیں، اور اسے کسی صورت میں بھی اپنے کمرے میں داخل نہ ہونے دیں، اس سے تمہارے والد کو موقع نہیں ملے گا۔

اور اس عادت کو کلی طور پر ختم کرنے کیلئے باپ کا علاج یا اس کے کرتوت کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا پڑے گا، اس واسطے آپ کو بھی اس پر مرتب ہونے والے اثرات کیلئے تیار ہونا پڑے گا، کیونکہ اسکے کرتوت بیان کرنے سے آپکے خاندان پر بُرے اثرات مرتب ہونگے ، لیکن یہ اثرات موجودہ صورتِ حال سے کہیں بہتر ہونگے۔

ایک باپ کی طرف سے اس قسم کے کام صادر ہونے کی بھی کوئی وجہ ہے، اور اس قسم کے مسائل حل کرنے کیلئے اسباب کو مدّ نظر رکھنا ضروری ہے، تو ان اسباب میں سے کچھ تو باپ سے متعلقہ ہیں اور کچھ اسی لڑکی سے متعلق ہیں، اور کچھ اسباب جگہ اور وقت سے بھی متعلق ہیں۔

ذیل میں اس خطرناک انحراف کے کچھ اسباب ہیں:

1- ایمان کمزور ہوجائے، اللہ کا ڈر دل میں نہ رہے، اور یہ خیال ذہن سے مٹ جائے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔

2- مسلسل شراب نوشی، اور نشہ آور اشیاء کا استعمال۔

3- ذہنی یا نفسیاتی تناؤ کا شکار۔

4- جنسی فلمیں اور تصاویر دیکھنا۔

5- بے روز گاری اور گھر میں بیٹھے رہنا۔

6- لباس پہنتےہوئے بے احتیاطی سے کام لینا، کہ بہت سے لڑکیاں اپنے والد اور بھائیوں کے سامنے تنگ اور مختصر لباس زیب تن کرتی ہیں، حالانکہ یہ شرعی طوربالکل ممنوع ہے، اور اس سے نفسیاتی طور پر مریض میں چھپی ہوئی شہوت بھڑک اٹھتی ہے، اور اگر جنسی چینل بھی ساتھ میں دیکھے جاتے ہوں تو یہ جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔

7- کچھ معاملات میں تساہل سے کام لینا، مثلاً، ہونٹوں پر بوسہ لینا، یاشہوت سے چھونا، یا ایک ہی بیڈ پر ایک ہی لحاف میں باپ کے ساتھ یا بھائی کے ساتھ سونا، یہ بھی شرعاً منع ہے، بلکہ اس سے جذبات بھڑکتے ہیں۔

اگر ہم فطرت کے مخالف اس بری عادت کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مذکورہ بالا اسباب کا خاتمہ کرنا ہوگاجن کی وجہ سے غیر فطری عادات جنم لیتی ہیں، اور اسکے لئے مندرجہ ذیل امور پر عمل کیا جاسکتا ہے:

1- اپنے خاندان میں اخلاقیات اور اچھی عادات اپنائی جائیں، اللہ کے بارے میں ایمان، خوفِ الہی، اور اس بات کو پختہ کیا جائے کہ اللہ دیکھ رہا ہے، اس کیلئے نمازوں اور دیگر نیک اعمال کی پابندی کی جائے، اور برے اخلاق اور ممنوعہ کاموں سے بچا جائے۔

2- کلی طور پر شہوت بھڑکانے والے پروگرام، اور قصے کہانیوں کو ترک کردیا جائے، نہ سنیں نہ پڑھیں ، اور نہ ہی دیکھیں۔

3- برے دوستوں کی محفلوں سے دور ہو جائیں، انہی محفلوں سے اس قسم کی عادات پیدا ہوتی ہیں۔

4- لڑکیوں کو شریعت کے مخالف تنگ، مختصر، اور شفاف لباس سے دور رکھا جائے، ایسے ہی شہوت سے ہاتھ نہ لگائیں، اور ہونٹوں پر پیار نہ دیں۔

5- کشادہ اور کھلی رہائش میں زندگی گزاریں کہ جہاں پر بیٹی اور باپ ایک کمرے اور ایک لحاف میں نہ ہوں۔

6- اس قسم کے حالات میں والدہ کا مثبت کردار ہونا چاہئےکہ اس قسم کی باتیں سن کر غفلت سے کام نہ لے، بلکہ اسے اِن معاملات کا پہلے سے ادراک ہونا چاہئے، اسلئے بیٹی کو تساہل سے کام نہ لینے دے اور نہ ہی اپنے خاوند کو اتنی آزادی دے کہ جو مرضی کرتا پھرے۔

7- سمجھ دار رشتہ داروں کو اس معاملے پر باخبر کیا جائے، تا کہ ان غیر اخلاقی معاملات کا سدّ باب کیا جاسکے، اگر اس سے بھی کوئی فرق نہ پڑے تو باپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔

8- ہم سائلہ بہن سے کہیں گے کہ اس معاملے میں سستی سے کام مت لے، بلکہ اس کے علاج کیلئے پختہ بنیادوں پر کوشش کرے، ہم اسے دعا کا بھی مشورہ دیتے ہیں، اور دعا کیلئے خاص اوقات مثلا رات کی آخری تہائی میں اپنے والد کیلئے دعا مانگے، کہ اللہ اسے ہدایت دے اور اس کےشر سے آپکو بچائے۔

9- اپنے والد کے ساتھ غیر فطری معاملات میں سستی سے کام لینا آپ پر حرام ہے اللہ نے جتنی آپکو طاقت دی ہے ، ساری آپ والد کو دور کرنے میں لگا دو، اور اپنی مدد کیلئے چیخ وپکار شروع کردو، چاہے تمہارے باپ کو رسوائی یا جیل میں جانا پڑے۔

10- اگر پھر بھی حالات ساز گار نہ ہوں ،تو آپ گھر میں نہ رہیں آپ نیک سیرت مسلمان بہنوں کے ساتھ رہائش اختیار کر لیں، یا اپنے ان رشتہ داروں کے ساتھ رہائش اختیار کر لیں جہاں شرعی طور پر آپکی رہائش کا بندو بست کیا جاسکے۔

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپکی اس پریشانی کو دور فرمائے، اور آپکو اس تنگی سے نکال دے، اور آپ کے والد کوہدایت دے، اور اس کے شر سے آپکو محفوظ فرمائے۔

اللہ ہی توفیق دینے والا ہے.
 

x boy

محفلین
الحمد للہ:

کھانا کھانے کے بعد میزبان کیلئے دعا کرنا مسنون ہے، جیسے کہ صحیح مسلم میں (2042) ہے کہ عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد کی طرف تشریف لائے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا اور وطبہ (کھجور، پنیر، اور گھی سے بنا ہوا حلوہ) پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھایا، پھر کھجوریں لائی گئیں تو آپ نے وہ بھی کھائیں،اور کھجوروں کی گٹھلیاں اپنی دونوں انگلیوں یعنی شہادت والی انگلی اور درمیانی انگلی کے ذریعے پھینکنے لگے پھر آپکو مشروب پیش کیا گیا، تو آپ نے نوش فرمایا، اور پھر اپنے دائیں طرف بیٹھے ہوئے شخص کو دے دیا، عبداللہ کہتے ہیں: پھر میرے والد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی لگام پکڑی اور عرض کی : اے اللہ کے رسول! ہمارے لئے دعا فرمائیں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی (یا اللہ! ان کے رزق میں برکت عطا فرما اور ان کی مغفرت فرما اور ان پر رحم فرما)

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اس حدیث سے پتہ چلا کہ مہمان کی طرف سے وسیع رزق، مغفرت، اور رحمت کی دعا کرنا مستحب ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس دعا میں دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں جمع فرما دیں" انتہی

اور ابو داود (3854) نے انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لائے تو وہ آپ کیلئے روٹی اور زیتون کا تیل لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول فرمایا، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہارے پاس روزہ دار افطار کریں اور تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں اور فرشتے تمہارے لئے رحمت کی دعا کریں)
 

x boy

محفلین
جہنم کا بیان
ھذہ النّار الّتی کنتم بھا تکذّبون!
یہ ہے وہ آگ، جسے تم لوگ جھٹلایا کرتے تھے

اے دنیا بھر کے لوگو!
میری بات ذرا غور سے سنو!
یہ چودہ سو سال پہلے کی بات ہے:
غیب کی خبریں لانے اور بتانے والوں میں سے ایک، جو اپنے شہر کے لوگوں میں صادق اور امین کے لقب سے مشہور تھا، یہ خبر لایا کہ!
" میں نے آگ دیکھی ہے-"
جہنم کی آگ، دہکتی ہوئی، بھڑکتی ہوئی،
شعلے اگلتی ہوئی اور جسم و جاں سے چمٹ جانے والی آگ!
دنیا کی آگ سے انہتر درجے زیادہ گرم!
اور اس میں داخل ہونے والوں کے لیے
آگ کے لباس ہیں، آگ کے بستر ہیں، آگ کے سائبان ہیں، آگ کی چھتریاں ہیں، آگ کی بھاری بیڑیاں اور آگ کی بھوجل زنجیریں ہیں، آگ میں تپائے اور دھکائے ہوئے لوہے کے کروڑوں ٹن وزنی ہتھوڑے اور گرز ہیں، آگ میں تپائی ہوئی تختیاں ہیں-
آگ میں پیدا ہونے والے زہریلے سانپ، اونٹوں کے برابر!
آگ میں پیدا ہونے والے زہریلے بچھو، خچروں کے برابر!
آگ مین پیدا ہونے والا زہریلا کانٹے دار تھوہر کا درخت کھانے کے لیے اور کھولتا ہوا پانی، بدبودار زہریلی پیپ اور خون پینے کے لیے!
لوگو! غیب کی خبریں لانے والا اپنی آنکھوں سے آگ کو دیکھنے والا بار بار پکاررہا ہے- ذرا کان لگا کر سنو!

انذرتکم النّار انذرتکم النّار (دارمی)
"لوگو! میں نے تمہیں آگ سے ڈرادیا ہے"
"لوگو! مین نے تمہیں آگ سے ڈرا دیا ہے"

اتّقوا النّار ولو بشقّ تمرۃ (بخاری و مسلم)
" لوگو! آگ سے بچو، خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی دے کر!"

اے دانا و بینا لوگو!
اے ہوش و گوش رکھنے والو!
ایک یا، دو دو اور تین تین سر جوڑ کر بیٹھو اور سوچو۔۔۔۔۔۔۔!
یا تو خبرلانے والے کی خبر جھوٹی ہے یا سچی؟
اگر جھوٹی ہے تو جھوٹ کا وبال خبر لانے والے پر ہوگا اور تمہارا کچھ نقصان نہیں ہوگا-
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔!
اگر یہ خبر سچی ہوئی تو پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اے آگ کا مذاق او رتمسخر اڑانے والو!
اے آگ کے بارے میں شک میں پڑنے والو!
اے آگ پر ایمان رکھنے کے باوجود غفلت میں پڑنے والو!
جب وہ آگ سامنے بھڑک رہی ہوگی او رخبر لانے والا کہ رہا ہوگا:

ھذہ النّار کنتم بھا تکذّ ّبون ( 14:52)
" دیکھو، یہ ہے وہ آگ جسے تم لوگ جھٹلایا کرتے تھے-"

تو پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
تمہارے پاس کیا جواب ہوگا اس کا؟
کہاں بھاگ جاؤ گے؟
کہاں پناہ پاؤ گے؟
کسی "مشکل کشا" کو بلاؤ گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا
اس دہکتی ہوئی اور شعلے اگلتی آگ میں جلنا قبول کرلو گے؟

ویل یّومئذ للمکذ ّبین (15:77)
"تباہی ہے اس روز جھٹلانے والوں کے لیے-"
 

ام اریبہ

محفلین
اس سب کی ایک سب سے بڑی وجہ دین سے دوری ہے ۔۔ہمارے معاشرے کے مرد کو کمائی کرنے سے فرصت نہیں ہے وہ اسی کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہے۔۔اور ہماری عورت۔۔۔اسے سٹارپلس کے سامنے سے اٹھنے کا وقت نہیں ہے۔۔تو بچوں پہ توجہ کون دے گا۔۔۔اگر ہماری عورت اور مرد کو دین کی درست سمجھ دے دی جائے تو یہ معاشرہ آج بھی سدھر سکتا ہے۔۔۔
 
آخری تدوین:

ام اریبہ

محفلین
مجھے ایک عورت ملی اس نے مجھے بتایا کہ اس کی بہن ہاسپٹل میں تھی تو بہن کو ہاسپٹل میں ایک عورت ملی اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تھا مگر وہ رو رہی تھی تو میں نے کہا کہ تمھارے ہاں بیٹا ہوا ہے اور تم رو رہی ہو ۔تو اس نے کہا مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ مجھے خوش ہونا چاہیے یا رونا چاہیے۔۔میں اس کو بیٹا کہوں گی یا بھائی؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ گناہوں کی کس دلدل میں گر چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

x boy

محفلین
الہدی انٹرنیشنل اور علماء اھلسنت میں بقائے باھمی کے امکانات !

ڈاکٹر فرحت ھاشمی اور الہدی انٹرنیشنل ! ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ھماری مسجد اور مدرسہ چونکہ وفاق المدارس دیوبند کے ساتھ الحاق رکھتا ھے لہذا ھم امام و خطیب و مدرس جامعہ فریدیہ یا فاروقیہ راوالپنڈی سے لیتے ھیں ،ھمارے قاری حفظ الرحمٰن جو کہ تازہ تازہ فارغ ھوئے تھے جامعہ فریدیہ سے انہیں ھم نے اچک لیا ( جامعہ سیدہ حفصہؓ لڑکیوں کا کیمپس ھے تو جامعہ فریدیہ لڑکوں کا کیمپس ھے ) قاری صاحب بہت باخلاق انسان تھے، بلکہ نوجوان تھے،، اپنے اخلاق کے زور پہ انہوں نے ماشاء اللہ قصبے کے لوگوں کی حالت بدل کر رکھ دی ،، چلتے چلتے انہوں نے مجھے کتابوں کا ایک سیٹ تحفے میں دیا ،،جن کے درمیان ایک کتاب " الہدی انٹرنیشنل کیا ھے " نامی کتاب بھی رکھ دی جو کہ مفتی محمد اسماعیل طورو صاحب کا کتابی فتوی تھا،،ھم فتوے کے لئے اپنے قصبے سے لوگوں کو مفتی طورو صاحب کے پاس ھی بھیجا کرتے ھیں ! ابوظہبی آ کر میں نے جب وہ کتابیں چیک کیں تو ان میں یہ کتاب پا کر میں نے اس کا مطالعہ کیا ! اس پوری کتاب میں کوئی بھی دلیل ایسی سنجیدہ نہیں تھی جس کا اتنا سخت نوٹس لیا جاتا اور فتوی جاری کیا جاتا ! سارا زور این جی اوز کی سرگرمیوں پر تھا، جس میں عاصمہ جیلانی اور دیگر خواتین کے کارنامے گنوائے گئے تھے اور صرف این جی او کا نام مشترک ھونے کی وجہ سے انہیں اس الہدی انٹرنیشنل نام کی این جی او پر لاگو کر دیا گیا ! حالانکہ سارے دینی مدارس ملک کی سب سے بڑی این جی اوز ھیں اور اس نام کے ناتے سے جو کچھ ڈاکٹر فرحت ھاشمی پہ لاگو ھوتا ھے وہ سب دینی مدارس پہ لاگو ھوتا ھے ! سب سے پہلے تو یہ جائزہ لیا جانا ضروری تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ کی سرگرمیوں سے کون سی چیز پروموٹ ھو رھی ھے،، پھر دیکھنا یہ تھا کہ ان کا کام دین کے لئے نفع رساں ھے یا فائدہ مند،، معاشرے کے لئے مثبت ھے یا منفی ،، اور یہ امر بالمعروف کی کوئی قسم ھے یا امر بالمنکر قسم کی ،، پھر اس کے عملی اثرات کا ایک جائزہ پیش کرنا چاھیئے تھا کہ،، اس کام کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ھو رھے ھیں اور آگے چل کر یہ کیونکر معاشرے یا دین کو ضرر پہنچا سکتے ھیں ! خیر ھم اسی انداز میں اس تحریک کا ایک جائزہ لیتے ھیں ! عورت انسانی سماج کا اھم ترین عنصر ھے ! یہ انسان گر ھے،انسان کو پیدا کرتی ھے،اور انسان کو پالتی پوستی اور ایک حقیقی انسان بناتی ھے،، جس قدر اھمیت کائنات میں انسان کی ھے،اسی نسبت سے عورت کی اھمیت معاشرے میں ھے،،یہ بات ھم جانیں یا نہ جانیں شیطان اور اس کے چیلے چانٹے یہ بات بخوبی جانتے ھیں، کہ عورت ھر انسان کی "ماسٹر کی" یا شاہ کلید ھے،اس کے ذریعے انسان کو لاک بھی کیا جا سکتا ھے اور ان لاک بھی کیا جا سکتا ھے،،حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد کو ماں نے ھی خراب کیا تھا ! اس سے اپ اندازہ لگا سکتے ھیں کہ ایک اولوالعزم رسول کا گھر بھی ایک عورت کی وجہ سے برباد ھو گیا ،، اس کی اھمیت کے پیش نظر شیاطین اور شیطانی اداروں نے ھمیشہ سے عورت کو اپنا ٹارگٹ رکھا ،جبکہ ھم نے ھمیشہ اس کے برخلاف رویہ اختیار کیا ! بجائے اس کے کہ ھم عورت پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیتے اور اس کی تعلیمی اور فکری تطہیر و تزکیئے کا بندوبست کرتے ھم نے اسے فتنہ گردان کر مساجد سے دور کر دیا اور اجتماعی دینی سرگرمیوں سے روک دیا،،اسے جمعے اور جماعت،نیز عیدین کے اجتماعات و خطبات سے بھی محروم کر دیا،، ظاھر ھے دین سے بے بہرہ عورت اولاد کو کیا سکھا سکے گی،اور معصوم بچے کے ان سوالات کا کیا جواب دے گی جو ابتدا میں تو افیم کے پودے کے پھول کی طرح بہت معصوم مگر آگے چل کر انتہائ ایمان لیوا بن جاتے ھیں ! اسلام آباد جسے ترقی یافتہ اور مادر پدر آزاد شہر میں لڑکیوں کی جو حالت ھو گی اس کا صرف تصور ھی کیا جا سکتا تھا،کیونکہ جب گاؤں کے حالات یہ ھیں کہ وھاں لڑکیوں کے لباس دیکھے نہیں جاتے تو شہر کا تو باوا آدم ھی نرالا ھو گا ! ان حالات میں اللہ پاک نے ٹھیک اپنی سنت کے مطابق ایک عورت کو اٹھایا،،وہ عورت کوئی بہت بڑی فلاسفر نہیں تھی،، انٹرنیشنل فورمز پر انعامات اور میڈلز لینے والی نہیں تھی، ایک پردہ دار خاتون اٹھتی ھے،،اور ایک کام کا بیڑہ اٹھاتی ھے،، جن گھرانوں کو ھم مسلمانی سے خارج کر کے جہنم کے حوالے کر چکے تھے،جن کی بچیاں بیوٹی پارلر چلاتی اور بیوٹی پارلر جاتی تھیں،، اس عورت نے انہیں پہ ھاتھ رکھا،، انہی کو آئی سی یو والا مریض سمجھا،، یکہ و تنہا عورت اس معاشرے میں اٹھتی ھے جہاں دین کی نسبت سے عورت کا کوئی دینی رول نہیں ھے،، اور اس طرح چھاتی چلی جاتی ھے کہ اس کی مثال ھماری اسلامی تاریخ میں کوئی عورت پیش نہیں کر سکتی،، اس کی تحریک کی مثل پوری اسلامی تاریخ مین نہیں ملتی اور اس کو ملنے والی پذیرائی بھی بے مثل ھے اور بول بول کر چیخ چیخ کر نصرتِ الہی کا اعلان کرتی ھے ! کل تک جہاں بیوٹی پارلرز کے بورڈز لگے تھے اور جینز اور شرٹ میں ملبوس پریاں آتی جاتی تھیں،، ٹھیک انہی ولاز کے باھر درسِ قرآن کے بورڈز آویزاں ھو گئے اور دن رات سراپا پردے میں ملبوس حوریں آنے جانے لگ گئیں جو امریکن لہجے میں انگریزی بولتی تھیں تو ٹھیک عربی لہجے میں قرآن پڑھتی تھیں ! ربانی نصرت کے بغیر یہ مکمن نہیں تھا،، بڑے بڑے بیوروکریٹس کی بیٹیاں ،بیویاں جو اعلی تعلیم یافتہ تھیں، ایم بی بی ایس ڈاکٹرز تھیں،، جو اس تحریک کا ھراول دستہ بنیں اور یہ تحریک شہروں سے نکل گاؤں تک جا پہنچی ،، پاکستان سے نکل کر پوری دنیا مین پھیل گئ،، علماء کے فتوے بھی چلتے رھے،،ملامت کی بوچھاڑ بھی چلتی رھی،، یہود کی ایجنٹ کے الزامات بھی چلتے رھے اور اللہ والوں کا کام بھی جاری و ساری رھا ! تحریکِ الہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دی اور اس کے مثبت اور منفی اثرات ! 1-الہدی کی مساعی کا سب سے پہلا نتیجہ جو نکلا وہ نفسیاتی تھا ! اس نے پڑھے لکھے گھرانوں کو یہ یقین دلا دیا کہ اللہ کی کتاب تک ان کی رسائی بھی ممکن ھے اور یہ کسی خاص طبقے کی یرغمال کتاب نہیں ھے،، آپکی بچیاں بھی اللہ سے ھمکلام ھو سکتی ھیں،، اس یقین و اعتماد نے ان میں بجلی بھر دی ،، اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ اسی کتاب کو لے کر بیٹھ گئیں،، کتاب اللہ سے ان کا یہ التزام مجبوراً نہیں تھا بلکہ ان کی محبت اور ذوق و شوق کا آئینہ دار تھا،،جو بچے بچیاں بھوک کے مارے مدرسوں میں جاتے ھیں ،، ان کے علم حاصل کرنے اور ان کے علم حاصل کرنے میں نفسیاتی طور پر وھی فرق تھا جو ایک مزدور اور ایک بزنس مین کے کام کرنے میں ھوتا ھے،، ایک صرف وقت پورا کرتا ھے جبکہ دوسرا جان لڑا دیتا ھے ! 2- الہدی کی جدوجہد نے توحید کی آبیاری کا کام کیا اور شرک و بدعت کی امریکن سنڈی کا قلع قمع کرنے میں ھراول دستے کا کام کیا ! عورت شرک و بدعت کی سب سے بڑی کیرئیر ھے ،، یہ جعلی پیروں اور شعبدے باز ایمان کے لٹیروں کا سب سے آسان ھدف بھی ھے اور فری کی مارکیٹنگ ایجنٹ بھی ھے ! یہ بڑے بڑے توحید کے نام لیواؤں کو درباروں پر لے جاتی ھے اور تعویز گنڈے پر راضی کر لیتی ھے،اس کی رات گئے کی ھپنوٹیسی کبھی رائیگاں نہیں جاتی،، الہدی نے شرک و بدعت کی شاہ رگ پہ جا کر چھری رکھ دی اور عورتوں کو توحید کی ایجنٹس بنا دیا،، شیطان کے چنگل سے آزاد کرا کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کے رستے پر لگا دیا،، چونکہ یہ محبت کے ساتھ دین سے جڑی تھیں تو اللہ پاک نے بھی "یُحبِبکُمُ اللہ "کا وعدہ سچ کر دکھایا،، اس کا ثبوت ان کا عمل ھے،، ان کی تبلیغ اور ان کے ذاتی عمل میں کوئی تضاد نہیں ھے، وہ جو کہتی ھیں وہ کرتی بھی ھیں اور کرتی نظر بھی آتی ھیں،، ھمارے گاؤں کی ایک لڑکی کشمیری برادری میں سے کورس کر کے آئی ھے، اس نے پوری برادری تبدیل کر کے رکھ دی ھے، شادی بیاہ کی رسموں سے لے کر فوتگی تک سب رسموں کو ختم کرا دیا ھے، اپنی والدہ فوت ھوئی تو چالیسویں پہ برادری والوں نے اسے کہا کہ اپنا درسِ قرآن رکھ لو اور لوگوں کو دعوت دیتے ھیں،، اس نے کہا کہ چالیسویں پہ کیوں ؟ گویا اپ کسی نہ کسی بہانے بندے ضرور اکٹھا کرنا چاھتے ھیں،، میں درس دو دن بعد رکھ لوں گی مگر چالیسواں نہیں ھونے دوں گی ! حقوق العباد کے ادا کرنے میں ،پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنے میں اور اپنے ارد گرد کے غریبوں یتیموں اور بیواؤں کی مالی مدد کرنے میں پیش پیش ھیں ! یہاں ابوظہبی میں بھی ان کی قرآن کلاسز کا مستقل سلسلہ چل رھا ھے جس سے شادی شدہ بال بچے دار عورتوں سے لے کر جوان بچیوں تک سب استفادہ کر رھی ھیں ! ان کی کلاسز میں شوھر کے حقوق کے علاوہ نند اور ساس سسر سے تعلقات پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ھے،، نتیجے میں الہدی سے متعلق جوڑوں میں ازدواجی تعلقات کے ساتھ ،ساس سسر والا سینڈروم بھی قابو میں ھے ! الہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دی اور منفی اثرات ! الہدی کو سلفیت نے کیش کروایا اور یوں معاشرے کے گراس روٹ تک اس کی پہنچ کو ممکن بنایا ! یہی وہ وجہ ھے جس نے علماء کے کان کھڑے کیئے اور وہ لے دے کر ڈاکٹر فرحت ھاشمی کے پیچھے پڑ گئے ،، علماء بخوبی جانتے ھیں کہ وہ یہود کی ایجنٹ نہیں ،، مگر وہ سلفیت جو کہ حنفیت کی سوتن ھے ،اس کی پروموشن سے ھراساں ھیں ،، اگر ڈاکٹر فرحت ھاشمی بچیوں کو چھوڑ دیتیں کہ وہ نماز وغیرہ اپنے والدین کے طریقے کے مطابق پڑھتی رھیں تو شاید یہ مخالفت اتنی شدید نہ ھوتی،، نیز اگر فتوے وغیرہ جاری نہ کرتیں تو بھی اس ٹکراؤ کو روکا جا سکتا تھا،، مگر انہوں نے بھی وھی غلطی کی اور وھیں غلطی کی جہاں اور جو غلطی ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے کی ! حدیث سے کسی کا اختلاف نہیں مگر حدیث کا جو مطلب لیا جا رھا ھے اس پر بہت ساری رائے بن جاتی ھیں،، اور مسلمان آزاد ھیں کہ وہ ان میں سے کوئی بھی رائے اختیار کر لیں ! یہی آزادی ھر مسلک کو اپنے پیروکاروں کو دینی چاھیئے تا کہ مسالک کی باؤنڈریاں ٹوٹیں اور آپس کے تعصبات ختم ھو کر برداشت کا کلچر نشو ونما پائے جیسا کہ عرب دنیا میں ھے،ایک ھی مسجد میں ھر مسلک کا بندہ کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ھوتا ھے،،کسی کو کسی سے کوئی عداوت نہیں اور نہ کسی کو کسی دوسرے کی نماز پر اعتراض ،، امام ایک مسلک کا ھے تو مقتدی چار مسالک کے پیچھے کھڑے ھیں،، کیا کوئی یہ تصور کر سکتا ھے کہ پاکستان میں بھی یہ منظر پیش کیا جا سکتا ھے ؟ لیکن ڈاکٹر فرحت ھاشمی کی اپنی عملی مجبوریاں ھیں،، اس کے پاس آنے والی لڑکیاں صمٓ بکمٓ عمیٓ نپہں ھیں،، یہ لڑکیاں ان اداروں میں وہ علم پڑھ کر آئی ھیں جہاں سکھایا ھی سوال کے ذریعے جاتا ھے،، اور دین میں سوال محمود نہیں سمجھا جاتا، یا کم از کم علماء اس کو پسند نہیں کرتے ،، اب اگر ایک شخص کسی حنفی عالم سے مسئلہ پوچھے تو جواب دے دیا جائے گا،، سورس پوچھے تو کتاب کا نام بتا دیا جائے گا،، بلکہ بڑے سے بڑے حنفی ادارے سے فتوی لے لیجئے ،، کذا فی شامی،، و کذا فی تاتارخانیہ ،،و کذا فی عالمگیری کا جواب آئے گا ،، آپ مولوی صاحب سے پوچھ لیں کہ عالمگیری والوں نے کس آیت یا حدیث کو ماخذ بنایا ھے اپنے فتوے کا ؟ تو وہ پوچھیں گے کہ آپ اھلِ حدیث تو نہیں ؟ کیونکہ مقلد تو یہ سوال نہیں پوچھتا وہ تو مولوی صاحب کا فرمایا ھوا اللہ اور رسولﷺ کا فرمایا ھوا سمجھتا ھے ! اب جب یہ لڑکیاں ڈاکٹر صاحبہ سے سوال کرتی ھیں تو فوری دستیاب ماخذ تو حدیث ھے،،جھٹ سے نکالا دکھا دیا،، ھماری فقہ میں دلیل ڈھونڈ کر کسی کو مطمئن کرنا پوری لائبریری الٹ پلٹ کرنا ھوتا ھے،، سیدھا دو اور دو چار کی طرح جواب نہیں ھے !! صحابہؓ کا تعامل پیش کرو تو جواب ملتا ھے یہ رسول کب سے ھو گئے؟ یہ بھی ھماری طرح امتی تھے اور انکی نجات بھی نبیﷺ کے اتباع میں تھی نہ کہ وہ نبیﷺ کے شانہ بشانہ شریعت سازی کا کوئی برابر درجے کا ادارہ تھے ! الغرض اس قسم کے نوجوانوں کی بڑھتی تعداد نے علماء کو الہدی کے خلاف بھڑکایا ھے،، اس کے علاوہ اور کوئی ٹھوس وجہ مخالفت نہیں،، بس مسلک کے دفاع میں الہدی کی مخالفت ضروری ھے !! یہ بات آپ کو الہدی کے خلاف دیئے گئے ھر فتوے میں نظر آئے گی !! پھر علماء دیوبند جو کہ برصغیر میں توحید کے سرخیل اور علمبردار تھے،، ان کی توحید اور ڈاکٹر فرحت کی توحید میں زمین آسمان کا فرق ھے،، علمائے دیوبند کی توحید کو تصوف کے تڑکے نے انتہائی لچکدار بنا رکھا ھے،، جبکہ ڈاکٹر فرحت ھاشمی کی توحید 22 کیریٹ کے سونے کی طرح خالص ھے،، یوں ڈاکٹر صاحبہ کی یہ توحید کی دعوت اور اس کا پھیلاؤ بھی علماء کے لئے کسی ریلیف کا سبب نہیں بلکہ اشتعال انگیز ھے ! میں یہ چاھتا ھوں کہ فقہی اختلاف کو برداشت کیا جائے ،اور نماز میں اسی طرح کا گلدستہ بنے جیسا کہ عربوں میں نماز کے دوران بنتا ھے، یا جس کا نمونہ حج پہ لوگ دیکھتے ھیں کہ کوئی ھاتھ چھوڑے کھڑا ھے تو کوئی ناف پہ باندھے ھوئے،، کسی نے ھاتھ عین سینے کے درمیان ھیں تو کسی نے دونوں ھاتھ جوڑ کر دل کے اوپر رکھے ھوئے ھیں ،گویا اللہ کو سینے سے لگا رکھا ھے ! بقول ھمارے ایک ساتھی کے جب سے وہ کنیڈا منتقل ھوئی ھیں،،خود ڈاکٹر صاحبہ کے خیالات میں بھی کافی تبدیلی آئی ھے اور ان میں بھی اب وسعتِ نظری پیدا ھوئی ھے،، اس سلسلے میں اگر کوئی پُل کا کام کر سکتا ھے تو وہ تبلیغی جماعت ھے،جو اھل سنت میں تازہ پانی کے جھرنے کی طرح ھے، اس کے باھر کے ممالک میں رھنے والے ممبران تو خیر سے وسیع النظر ھیں جو روزانہ سینے پر ھاتھ باندھنے والوں اور رفع یدین کرنے والوں میں پانچوں نمازیں پڑھتے ھیں،، اور جو پاکستان کے ان علماء سے زیادہ وسیع النظر اور وسیع القلب ھیں جنہیں زندگی بھر کبھی ایسا منظر دیکھنا نصیب نہیں ھوتا ،، پھر جو تبلیغی جماعتیں باھر جاتی ھیں انہیں بھی وھاں قسم قسم کے مسلمانوں سے واسطہ پڑتا ھے، اس کے علاوہ جو تبلیغی ملک کے اندر ھیں وہ بھی سالانہ اجتماع پر عربوں کو رفع یدین کرتے دیکھتے ھیں تو ان میں بھی اس معاملے میں انس اور برداشت پیدا ھوتی ھے، وہ الہدی کو ساتھ لے کر چل سکتے ھیں،،خاص طور پر مولانا طارق جمیل صاحب جنہوں نے نہ صرف الہدی میں خطاب کیا بلکہ اس تحریک کو ایک نعمت قرار دیا ،، یہ لوگ اگر چاھئیں اور الہدی والے ان کے خلوص و اخلاص کو اھمیت دیں تو عالمِ اسلام کی یہ دو تحریکیں عالم اسلام کی کایا پلٹ سکتی ھیں ،، اس بات کو ڈاکٹر ادریس صاحب بہت اچھی طرح سمجھتے ھیں،،
 

x boy

محفلین
اپنے دیور کے ساتھ غلط کاری میں مبتلا ہوگئی
سوال:-

میرا خاوند اپنے کاروبار کی وجہ سے اکثر سفر پر رہتا ہے، اور لمبے لمبے عرصے تک گھر سے دورہوتا ہے، اس نے شادی کے ابتدائی ایام سے ہی میرے ساتھ ازدواجی اور ذہنی طور پراچھا سلوک نہیں کیا، پھر میرے اعتراض کے باوجود اپنے انیس سالہ بھائی کو اپنے ساتھ رہنے کیلئے بلالیا، جسکی وجہ سے کبھی کبھار ہم دونوں ہی اکیلے گھر میں رہ جاتے تھے، اور پھر ہمارے درمیان تھوڑی سی غیر مناسب باتیں بھی ہوئیں، لیکن میں نے اس سے توبہ کرلی، تو کیا اس گناہ میں میرا خاوند بھی شریک ہوگا؟ اس لئے کہ اس کا اصل سبب تو وہی بنا ہے۔
پھر میرے خاوند نے مجھ پر نفسیاتی اور جسمانی دباؤ ڈال کر مجھ سے ان باتوں کے بارے میں پوچھنا چاہا، اور اپنے اس کام کیلئے دلیل یہ دی کہ میرے حقوق میں خیانت کے بارے میں جاننے کا مجھے حق حاصل ہے۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ : کیا میرے خاوند کومیرے ماضی کے بارے میں کھوج لگانے کا حق حاصل ہے؟حالانکہ اسکے پاس اس بارے میں کوئی دلیل تو کیا کوئی قرینہ بھی نہیں ہے جس سے یہ پتہ چلے میرے تعلقات ابھی بھی اُس کے ساتھ جاری ہیں۔ مجھے وضاحت کردیں، اللہ آپکو جزائے خیر سے نوازے۔

جواب:-
الحمد للہ:

إنا لله وإنا إليه راجعون ...

آپ کے خاوند سے وہی غلطی ہوئی ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار بھی کیا تھا، آپ نے غیرمحرم مَردوں کو خواتین کے پاس جانے سے منع کیا، تو آپ سے کہا گیا:حَمو-خاوند کا بھائی اور خاوند کے رشتہ دار- کے بارے میں آپکا کیا خیال ہے؟ تو آپ نے فرمایا: (دیور تو موت ہے)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: " دیور تو موت ہے" کا یہ مطلب ہے کہ دیور سے متعلق خطرات دوسروں سے زیادہ ہوتے ہیں، کیونکہ وہ خاتون کے پاس جا بھی سکتا ہے، اور علیحدگی بھی اختیار کر سکتا ہے، کیونکہ دیور اگر اپنی بھابھی کے گھر میں جائے تو لوگ اس کو بُرا نہیں سمجھتے ۔

دیور وں کے اپنی بھابھیوں کے پاس جانے کی وجہ سے ہم نے کتنے ہی ایسے دل خراش واقعات سنے ہیں ، حتیٰ کہ کچھ تو زنا تک پہنچ گئے اور حمل بھی ہوگیا۔ اللہ تعالی ہی سے بچنے کی دعا ہے۔

اور آپکے خاوند کیلئے ماضی کے بارے میں تفتیش کرنے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ اس پر ضروری ہے کہ ماضی پر اسی طرح پردہ رہنے دے جیسے اللہ نے پردہ ڈال کر رکھا ہے، اور خاص طور پر کہ آپ توبہ کرچکی ہو، اس لئے کہ کھوج لگانے کی وجہ سے انکا دل کبھی بھی آپکے بارے میں صاف نہیں ہوگا، اور آپ سے صادر ہونے والا ہر کام اسکی نگاہ میں اسی غلط زمرے میں شامل ہوگا۔

جیسے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " گندگی سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے لہذا ان سے بچ کر رہو، اور اگر کسی سے کوئی غلطی ہو بھی جائے تو اسے چھپائے، اور اللہ تعالی سے توبہ کرلے، کیونکہ جس نے اپنے کرتوت ہمیں بیان کئے تو ہم اس پر کتاب اللہ کی رو سے احکام جاری کرینگے"

حاكم نے " المستدرك " ( 4 / 425 ) اوربیہقی نے ( 8 / 330 ) اسے روایت کیا ہے اورألبانی نے صحيح الجامع ( 149 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

"گندگی" سے مراد گناہ ہیں۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے، اُس نے پکار کر کہا: یا رسول اللہ! میں نے زنا کیا ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ دوسری طرف پھیرلیا، پھر وہ آپ کے سامنے دوسری طرف سے آیا اور کہا: کہ میں نے زنا کیا ہے، آپ نے اس سے منہ پھیر لیا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تیسری مرتبہ آیا اور عرض کیا میں نے زنا کیا ہے، تو آپ نے پھر اعراض فرمایا، تو پھر چوتھی مرتبہ آیا اور عرض کیا میں نے زنا کیا ہے، جب وہ اپنے آپ پر چار مرتبہ شہادت دے چکا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور فرمایا: کیا تو پاگل ہوگیا ہے!؟ اس نے کہا: نہیں یا رسول اللہ!آپ نے پوچھا: کیا تو شادی شدہ ہے! اس نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا اسے لے جا کر سنگسار کردو۔

بخاری ( 6430 ) اورمسلم ( 1691 ) نے اسے روایت کیا ہے، اور بعض روایات میں الفاظ ہیں کہ اسلم قبیلے سے ایک آدمی ابو بکر کے پاس آیا اور کہا: میں نے زنا کیا ہے، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ سے توبہ کرو، اور اگر اللہ نے پردہ ڈالا ہے تو اس پر پردہ ہی رہنے دو، وہ آدمی پھر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھی آیا۔۔۔ مزید تفصیل کیلئے فتح الباری دیکھیں: ( 12/125 )

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ، جس شخص سے اس قسم کا گناہ سرزد ہوجائے تو اللہ سے توبہ کرلے، اور اپنی جان پر پردہ رہنے دے، اور کسی کو اس بارے میں نہ بتلائے ، جیسے کہ ابو بکر اور عمر نے ماعز کو اشارہ کیا تھا"

اور جسے اس قسم کے معاملے کا پتہ چل جائے تو وہ بھی پردہ پوشی سے کام لے، جیسے کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے، اور اسے معاشرے میں رسوا مت کرے، اور نہ قاضی تک معاملہ اٹھائے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی واقعہ میں فرمایا: (اگر تم پردہ پوشی کر لیتے تو تمہارے لئے بہتر تھا) اور اسی جزم کے ساتھ شافعی رضی اللہ عنہ اسکے قائل ہیں، وہ کہتے ہیں: میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جس شخص سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے ، اور اللہ تعالی اس پر پردہ ڈال دے تو وہ اپنے گناہ پر پردہ رہنے دے، اور اللہ تعالی سے توبہ کرلے، اسکی دلیل ابو بکر و عمر کے ماعز کے ساتھ واقعہ میں ہے۔

اس واقعہ میں یہ بھی ہے کہ ، جس شخص سے کوئی گناہ ہوگیا تو وہ جلد از جلد اس گناہ سے توبہ کرلے، اور کسی کو بھی اس گناہ کے بارے میں مت بتلائے، اور اگر اتفاق سے کسی کو اس نے بتلا ہی دیا تو اُسے چاہئے کہ وہ گناہ کرنے والے کو توبہ کی نصیحت کرے، اور لوگوں کو مت بتلائے، جیسے ماعز کے ساتھ ابو بکر اور عمر نے کیا۔

" فتح الباری " ( 12 / 124 ، 125 )

مندرجہ بالا بیان کے بعد:

کسی بھی خاوند کیلئے اپنی بیوی کے ماضی کے ان گناہوں کے بارے میں کھوج لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہےجن سے وہ توبہ کر چکی ہے، اور نہ ہی عورت کیلئے جائز ہے کہ وہ اپنے خاوند کو ماضی کے بارے میں بتلائے جن سے وہ توبہ کرچکی ہے، اللہ نے جن گناہوں پر پردہ ڈالا ہے ان پر پردہ ہی رہنے دے۔

واللہ اعلم .
 

x boy

محفلین

اسلام نے مسلمانوں پر دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی مشابہت کو حرام کیوں قرار دیا ہے؟

الحمد للہ:

مشابہت ایک حالت کا نام ہے جو انسان پر طاری ہوتی ہے، مشابہت کرنے سے جس کی مشابہت کی جائے اُسکی تعظیم ہوتی ہے، عمومی طور پر یہ نا مناسب عادت ہے، اسی لئے شریعت نے کفار سے مشابہت کے مسئلے کو کافی اہمیت دی ، اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعی طور پر حرام قرار دیا، اور فرمایا: (جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اُنہی میں سے ہے) ابو داود، (4031) اور البانی رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اس حدیث کا کم از کم یہ تقاضا ہے کہ کفار سے مشابہت حرام ہے، اگرچہ ظاہری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان سے مشابہت رکھنے والا شخص کافر ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی میں ہے:

(وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ) المائدة/51

ترجمہ: جو تم میں سے انکے ساتھ دوستی رکھے گا تو وہ اُنہی میں سے ہوگا۔

تو اس حدیث کو مطلق تشبیہ پر محمول کیا جاسکتا ہے، جو کہ کفر کا موجِب ہے، اور کم از کم اس تشبیہ کے کچھ اجزا کے حرام ہونے کا تقاضا کرتا ہے، یا اسکا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح کی مشابہت ہوگی اسی طرح کا حکم ہوگا، کفریہ کام میں مشابہت ہوگی تو کفر، گناہ کے کام میں مشابہت ہوگی تو گناہ، اور اگر ان کفار کے کسی خاص کام میں مشابہت ہوئی تو اسکا بھی حکم اُسی کام کے مطابق لگے گا، بہر حال اس حدیث کا تقاضا ہے کہ مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔ انتہی مختصراً از کتاب "اقتضاء الصراط المستقيم" (1/270، 271)

مسلمانوں کیلئے کفار سے مشابہت کی ممانعت کیلئے کیا حکمت ہے ؟ مشابہت کے نقصانات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ بھی جانی جا سکتی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:

1- اگر کوئی مسلمان کافر کی مشابہت اختیار کرے تو وہ اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ کافر کی شکل وصورت مسلمان سے افضل ہے، اور اس کی بنا پر اللہ کی شریعت اور اسکی مشیئت پر اعتراض آتا ہے۔

چنانچہ جو خاتون مرد کی مشابہت اختیار کرتی ہے گویا کہ وہ اللہ تعالی کی خلقت پر اعتراض کرتی ہے، اور اسے تخلیقِ الہی پسند نہیں ہے۔

2- کسی کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا نفسیاتی طور پر کمزور ہونے کی دلیل ہے، جس سے لگتا ہے کہ یہ شخص اندر سے شکست خوردہ ہے، جبکہ شریعت کبھی بھی مسلمانوں سے اس بات کو قبول نہیں کرے گی کہ وہ اپنی شکست خوردہ حالت کا اعلان کرتے پھریں، چاہے حقیقت میں وہ شکست خوردہ ہی کیوں نہ ہوں۔

اس لئے کہ شکست تسلیم کر لینا مزید کمزوری کا باعث بنتا ہے، جس کے باعث فاتح مزید طاقتور بن جاتا ہے، اور یہ کمزور کے طاقتور بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔

اسی لئے کسی بھی قوم کے عقل مند حضرات کبھی بھی اپنے معاشروں کو دشمنوں کے پیچھے لگ کر انکی مشابہت اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتے، بلکہ وہ اپنی پہچان اور شخصیت باقی رکھتے ہوئےاپنی میراث ، لباس، اور رسوم و رواج کی حفاظت کرتے ہیں، چاہے دشمنوں کے رسم و رواج ان سے افضل ہی کیوں نہ ہوں؛ یہ سب کچھ اس لئے کہ وہ معاشرتی اور نفسیاتی اقدار کو جانتے ہیں۔

3- ظاہری منظر میں کسی کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے دل میں اس کیلئے محبت کے اسباب پیدا کرتی ہے، اسی لئے انسان اُسی کی مشابہت اختیار کرتا ہے جس سے محبت بھی کرے، جبکہ مسلمانوں کو کفار سے تمام وسائل کے ذریعے اعلانِ براءت کا حکم ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

(لَا يَتَّخِذْ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنْ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمْ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ) آل عمران/28 .

ترجمہ: مؤمنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو ہرگز دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اسے اللہ سے کوئی واسطہ نہیں اِلاّ کہ تمہیں ان کافروں سے بچاؤ کے لیے کسی قسم کا طرز عمل اختیار کرنا پڑے، اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

(لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ) المجادلة/22

ترجمہ: جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ کبھی انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی یا کنبہ والے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا: (مضبوط ترین ایمان کا کڑا: اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے آپس میں ایک دوسرے سے میل جول رکھنا اور دشمنوں سے دشمنی رکھنا اور اللہ کی خوشنودی کے لیے کسی سے دوستی رکھنا اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے کسی سے بغض و نفرت رکھنا ہے) طبرانی اور البانی نے السلسلة الصحيحة (998) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب: "اقتضاء الصراط المستقيم" (1/549) میں کہتے ہیں:

"ظاہری طور پر کسی کے ساتھ مشابہت اپنانا دل میں اسکے بارے میں محبت پیدا کردیتا ہے، جس طرح دل میں موجود محبت ظاہری مشابہت پر ابھارتی ہے، یہ ایک ایسی بات ہے جو عام مشاہدے میں پائی جاتی ہےاور اسکا تجربہ بھی کیا گیا ہے" انتہی

4- ظاہری طور پر کفار کی مشابہت سے انسان اس سے بھی خطرناک مرحلے کی طرف بڑھتا ہے اور وہ ہے کہ اندر سے بھی انسان اِنہی کفار جیسا بن جاتا ہے، چنانچہ اِنہی جیسے اعتقادات رکھتا ہے، اور انکے افکار و نظریات کو صحیح سمجھنے لگتا ہے، اس لئے کہ انسان کی ظاہری اور باطنی حالت میں شدید تعلق پایا جاتا ہے، اور یہ دونوں ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اقتضاء الصراط المستقيم (1/548) میں کہتے ہیں:

"ظاہری طور پر مشابہت باطنی طور پر مشابہت کا باعث بنتے ہیں، اور یہ سب کچھ اتنا مخفی اور سلسلہ وار ہوتا ہے کہ احساس نہیں ہوپاتا، جیسے کہ ہم نے ان یہودو نصاری کو دیکھا ہے جو مسلم معاشرے میں رہتے تھے، ان میں دیگر یہود ونصاریٰ سے کم کفریہ نظریات پائے جاتے تھے، بعینہ ایسے وہ مسلمان جو یہود ونصاریٰ کے معاشرے میں رہتے ہیں ، وہ لوگ دیگر مسلمانوں سے کم ایمان رکھتے ہیں" انتہی

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ظاہری لباس میں مشابہت باطنی افکار میں موافقت کا باعث بنتا ہے، جیسا کہ اس کے متعلق شرعی، عقلی اور واقعی دلائل موجود ہیں، اسی لئے شریعتِ مطہرہ نے کفار ، حیوانات، شیاطین، خواتین، اور دیہاتی لوگوں سے مشابہت منع قرار دی ہے" انتہی

الفروسية ص(122)

یہ چند ظاہری حکمتیں ہیں جن کی وجہ سے شریعت نے مسلمانوں کو مشرکین کی مشابہت سے روکا ہے، اس لئے ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ اللہ تعالی کے تمام احکامات کی پیروی کرے، اور یہ بات دل میں بیٹھا لے کہ اللہ تعالی اسے کوئی بھی حکم بغیر کسی حکمت، فائدے اور مصلحت اور دنیا و آخرت میں کامیابی کے نہیں دیگا ۔

واللہ اعلم .
 

x boy

محفلین
غی۔۔۔۔بت نام۔۔۔۔ہ !!

ایک تو یہ غیبت بھی جو ھے نا،، بس اللہ پاک ھی اس سے پناہ دے !
یا تو بندہ شادی بیاہ کام کاروبار کچھ بھی نہ کرے یہاں تک کہ امامت اور خطابت بھی نہ کرے اپنی بکریاں لے اور جنگل کی راہ لے !

یہ اتنا بڑا گناہ ھے کہ کبیرے گناھوں میں سے ھے ! مگر چلن اس کا ایسا ھے کہ ڈالر بھی ترستا ھے ! دنیا کا سب سے مقبول سکہ رائج الوقت غیبت ھی ھے،بلکہ تو اب ھر گھر کی سویٹ ڈش ھے !

ابھی سے مت ڈریئے ،جو لوگ دوا کے سائڈ ایکفیٹ پڑھتے ھیں وہ کبھی دوا نہیں کھاتے یا کم از کم دل سے نہیں کھاتے ! ھم آپ کو ابھی صرف اس کے سائڈ ایفیکٹ بتا رھے ھیں ! اگے چل کر فائدے اور مجبوریاں بھی بتائیں گے !

نیک لوگوں کی غیبت کی ابتدا ھمیشہ " غیبت فی سبیل اللہ" سے ھوتی ھے اور انتہا ایک دعا پر جو چلتے چلتے ساری ھسٹری ڈیلیٹ کر دیتی ھے ! یہ بالکل اسی اصول کے تحت ھے جس میں ایک اسلامی ملک کا چینل پہلے تلاوتِ قران سناتا ھے،پھر نعت رسول مقبول پھر ایک آدھ قوالی اور اس کے بعد سارا دن ڈرامے اور نئے پرانے گانے چلتے ھیں اور آخر میں فرمانِ الہی کے ساتھ اختتام ھوتا ھے ! یہ ھم مسلمانوں کی پرانی جدی پشتی عادت ھے،ھم نے یہ ملک صرف تلاوتِ قرآن اور فرمان الہی کے لئے بنایا تھا،، باقی جو سارا دن ھوتا ھے اس کی ممانعت متحدہ ھندوستان میں بھی نہیں تھی !

غیبت فی سبیل اللہ کی سب سے اعلی اور ڈبل ریفائنڈ کوالٹی مساجد میں دستیاب ھے،جہاں رات دن سپیکر کھول کر ،، اور جمعے والے دن دل کھول کر غیبت کی جاتی ھے،، ھر فرقہ دوسرے فرقے کی،ھر مسجد دوسری مسجد کی، ھر مولوی دوسرے مولوی کی غیبت کر رھا ھوتا ھے ،، کوئی چوں چراں کرے تو گھڑا گھڑایا جواب تیار ھوتا ھے کہ ،، احقاقِ حق اور ابطال باطل کے لئے یہ بہت ضروری ھے ورنہ لوگوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ کون حق پر ھے اور کون باطل پر ھے !

یہاں سے یہ غیبت اسی طرح لے کر نمازی نکلتے ھیں جس طرح گنے کے جوس کی ریڑھی والے سے لوگ ھائپاٹائٹس کی ھر قسم لے کر آتے ھیں حالانکہ وہ گئے وھاں پہ جوس پی کر یرقان کا علاج کرنے کے لئے تھے،مگر بقول شاعر !

لے کے ارمان کعبے کا نکلے تھے ھم !
لے گیا می۔۔۔۔۔۔کدے میں دلِ مضط۔۔۔۔رب !

ھ۔۔۔م ک۔۔۔و جانا کہ۔۔اں تھا, کہاں آ گئے !
دل ک۔۔و لُٹنا ک۔۔ہ۔اں تھا،ک۔۔ہ۔اں لُ۔ٹ گیا ؟؟

خیر یہاں سے جو نکلتے ھیں وہ ٹولیوں کی صورت میں خطیب صاحب ھی کی غیبت کو آگے بڑھاتے ھوئے عملی صورت دینے کی بھی ترکیب ڈھونڈتے ھیں !

بندہ جب گھر میں داخل ھو اور سوچ کے آئے کہ آج کسی کی غیبت نہیں کرنی ! اب بیوی کے پاس آ کر بیٹھ جائے !! چپ چپ سا تو وہ شک شروع کر دیتی ھے کہ " چپ چپ کھڑے ھو ضرور کوئی بات ھے ؟ ایک دو بار گہری نظر سے دیکھ کر پھر سوال ھی کر دیتی ھے ! امی نے کچھ کہا ھے ؟ نئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ں ،ایسی کوئی بات نہیں،،ایسی کوئی بات نہیں تو پھر یہ تھوبڑا شریف کیوں سوجا ھوا ھے ؟ نئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ں ! ایسی بھی کوئی بات نہیں بس وہ غیبت وغیرہ بڑی بری چیز ھے ،اس لیئے ،،،،،، اچھا میری باتیں ماں سے ھوں تو غیبت نہیں ھوتی اور ماں کی ادھر کرتے ھوئے غیبت ھو جاتی ھے ؟ لو جی بندہ سوچتا ھے آخرت کے عذاب سے تو اللہ سے معافی مانگ کر بچ جائے گا،،یہ نقد سزا بہت سخت ھے ! ادھر امی کے پاس جا کر بیٹھو تو ،،بس چپ چپ ،، تو ماں کہتی ھے پتر جی کی ھویا ؟ کج نئیں ماں ،، بس غیبت ،، نہ نہ پتر تو میرے نال دل دی گل کیوں نئیں کردا ؟ ماں کے ساتھ اور رب کے ساتھ بات کرو تو بیٹا غیبت نہیں ھوتی ،عمیرہ کے ناول میں لکھا ھوا تھا،، لو جی اب جب تک غیبت نہ کرو 32 دھاریں معاف نہیں !

دوستوں میں بیٹھو اور غیبت نہ کرو ! تو زندگی موت کا منظر لگنے لگ جاتی ھے،، لگتا ھے تعزیتی مجلس میں بندہ بیٹھا ھے جہاں تازہ تازہ مردہ دفنا کے آئے ھیں ! اپ آدھ گھنٹہ کسی مجلس میں غیبت نہ کریں وہ مجلس آٹھ گھنٹے کی لگتی ھے،، اب تو غیبت ڈیپریشن ختم کرنے والی دوا بن گئ ھے،، سنا ھے کہ جب بارش ھو اور گٹر ابل رھے ھوں تو حالتِ اضطرار کی وجہ سے ناپاک پانی بھی پاک ھو جاتا ھے ،،یورپ میں لوگ ھیروئین اسپتال سے لیتے ھیں جہاں سے ان کو دوا کے طور پر دی جاتی ھے،، کیا مساجد سے غیبت دوا کے طور پر دی جارھی ھے ؟؟

الغرض علماء کو تو احقاقِ حق کی خاطر غیبت کی اجازت ھے بالکل اسی طرح جیسے پولیس اور فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو ریڈ سگنل توڑنے کی اجازت ھوتی ھے،، مگر عوام علماء کی پیروی بالکل نہ کریں ! اگر کوئی شخص مجبوراً غیبت کرنے پر مجبور ھو جائے تو اس کے لئے سانپ کے منکے کی طرح جو زہر چوستا ھے،،ایک غیبت چوس دعا بھی ھے ! وہ نوٹ کر لیجئے تا کہ بوقتِ ضرورت کام آئے !! اس کی پہلی شرط یہ ھے کہ جس کی غیبت کی گئ ھے اس کے علم میں آنے سے پہلے اور مجلس چھوڑنے وقت پڑھ لی جائے !

سبحانک اللھم و بحمدک، اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک و اتوب الیک !

امید ھے اس مجلس میں کیئے گئے غیبت،چغلی اور جھوٹ جیسے گناہ اللہ پاک معاف فرما دیں گے !!
 

x boy

محفلین
1908392_10152258949693023_596975427_n.jpg
 

x boy

محفلین
ھارون الرشید ،بہلول اور گولڈن راڈ !

لوگ ایک جملہ ھمیشہ بولتے ھیں کہ موت کا وقت چھپا دیا گیا ھے !

جی ھاں اگر اللہ پاک بتا دیتے یا ڈاکٹر حضرات جسم کے عناصر کا ٹیسٹ لے کر بتا دیا کرتے کہ موت کس عمر میں آئے گی تو تھوڑی آسانی ھو جاتی،، کہ چلو پچاس سال کی عمر میں مرنا ھے تو تیس چالیس سال موج میلہ کرتے ھیں ! پھر پانچ سات سال اللہ توبہ کر لیں گے،، ایک دو حج کریں گے اور معصوم بچے بن جائیں گے !

کم از کم کوئی ترتیب ھی بتا دی جاتی کہ جس ترتیب سے دنیا میں بھیجے گئے ھو اسی ترتیب سے واپس آؤ گے، تو بھی انسان کو تسلی ھو جاتی ھے کہ ابھی میرے والدین پڑے ھوئے ھیں 4 بڑے بھائی بیٹھے ھوئے ھیں ،ایک بڑی بہن بھی ھے جو اتنی خوانخوار ھے کہ دو تین دن تو لگائے گی مرنے میں ! بس جونہی موت ان تک پہنچے گی،،ھم اعتکاف میں چلے جائیں گے ،منہ کو تالے اور آنکھوں پر کالی عینک چڑھا لیں گے، کانوں میں ڈاٹ ٹھونس لیں گے یوں ،برا مت دیکھو ،برا مت بولو ،برا مت سنو کی تصویر بن جائیں گے !

مگر یہ کیسا چھپانا ھے کہ ھر وقت تلوار لٹکا رکھی ھے سر پر موت کی !
کسی وقت بھی آ سکتی ھے، کسی جگہ بھی آ سکتی ھے ،کسی عمر میں بھی آ سکتی ھے، 100 سال کی والدہ دعائیں کروا کروا کر ،اور بکرے دے دے کر بھی ابھی تک گھاٹی کے اس طرف پھنسی ھوئی ھے اور بیٹا منزل گزر گیا ھے ! ضیاء شاھد کو دل کے آپریشن کے لئے لے جانے والا عدنان شاھد لندن ٹریول ایجنسی کے دروازے پر ایڑیاں رگڑ کر جان دے دیتا ھے،، ماں کی موت کی منزلیں آسان کروانے کے لئے دعا کروانے والا خود اس منزل سے گزر گیا ھے،،

یار یہ موت چھپی ھوئی ھے یا ظاھر ھے ؟
کیا اس سے زیادہ بھی کوئی چیز ظاھر ھے ! موت کو چھپانا گویا موت کو ظاھر کرنا ھے،، کہ یہ تیری گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی ھے اور جس سپیڈ سے تم دوڑ رھے ھو وہ بھی اسی رفتار سے تیرے ساتھ ھے ! وہ آگے تیرے استقبال کے لئے بھی کھڑی ھے اور تم موت سے بھاگ کر موت ھی کی طرف جا رھے ھو !
عجب منظر ھے !

تہجد کے لئے لگایا گیا الارم موبائیل پر بج رھا ھے مگر جس نے اٹھنا تھا وہ اُڑ گیا ھے ! لوگ پریشان ھیں آج اذان لیٹ ھوگئ ھے مگر جس نے اذان دینی تھی وہ جلدی کر گیا ھے،، اپنے پہلے بچے کے لئے شوق شوق سے کپڑے خریدنے والا باپ بچہ پیدا ھونے سے پہلے مر جاتا ھے،، 12 سال کے بعد عورت کے یہاں پہلا بچہ پیدا ھوا ھے ،، اور وہ اسے دیکھے بغیر مر گئ ھے،، اگر چند لمحے اسے مل جاتی کہ وہ ایک نظر دیکھ تو لیتی کہ جس عذاب سے وہ گزری ھے اس کا نتیجہ کیا ھے ؟ مگر موت تو لیٹ ھوتی ھی نہیں !

موت سے بچنے کے اسباب ھی موت بن جاتے ھیں !
اندرا گاندھی کو اپنے محافظ ھی لے ڈوبے تھے، بھٹو صاحب کو ان کا اپنا انتخاب ھی ڈس گیا تھا، دوا ھی ری ایکشن کر کے مار دیتی ھے، خوراک ھی ھیضہ بن کر موت کا ذریعہ بن جاتی ھے ! لوگ کہتے ھیں فلاں اگر اسپتال پہنچ جاتا تو بچ جاتا مگر جو اسپتال میں مشینیں لگائے لیٹا ھے وہ بھی مر جاتا ھے، لوگ کہتے ھیں آپریشن ھو جاتا تو بچ جاتا ،مگر آپریشن کرا کر باھر نکلنے والا باتیں کرتا کرتا آنکھیں مِ۔۔۔۔۔۔یچ لیتا ھے ! ڈاکٹر کا بیٹا یا باپ اس کے ھاتھوں میں سفید کوٹ سے لپٹ کر مر جاتا ھے،،یہ موت کسی کا لحاظ بھی کرتی ھے یا بے مروت چیز ھے ! مسیحاؤں کے گھر کو بھی نہیں بخشتی ؟

لیٹ ھونا ھماری قومی بیماری ھے !
ھمیں موت سے ملنا ھوتا تو بےچاری انتظار میں ھی بوڑھی ھو جاتی ھم کبھی مل کر نہ دیتے مگر اللہ نے موت کی ڈیوٹی لگائی ھے کہ وہ ھم سے ملاقات کرے جہاں کہیں بھی ھم ھوں ،، اینما تکونوا یدرککم الموت ولوا کنتم فی بروجٍ مشیدہ ( النساء ) تم جہاں کہیں بھی ھو گے موت تمہیں پا لے گی اگرچہ تم ھر طرح سے جڑے ھوئے محفوظ مینار میں بھی جا بیٹھو !

قل ان الموت الذی تفرون منہ ، فانہ ملاقیکم ( الجمعہ) ان سے کہہ دیجئے تم جس موت سے بھاگتے ھو وہ خود تم سے ملاقات کر لے گی !اس موت کا علاج فرار نہیں ،، کوئی بھی آج تک اس سے فرار نہیں ھو سکا ،، نہ اس سے آگے نکل سکا ھے اور نہ اسے پیچھے چھوڑ سکا ھے ! پھر ،،، کوئی تو علاج ھو گا اس بلا کا بھی ؟

موت کا علاج !!

جی موت کا علاج فرار نہیں بلکہ اس کا سامنا کرنا ھے !

ڈاکٹر حضرات اس کو exposure therapy کہتے ھیں ، کہ جس چیز سے تم ڈرتے ھو اس کا سامنا کرو ، اپنے آپ کو اس پر پیش کر دو،، بس ڈر نکل جائے گا ! جو بلندی سے خوفزدہ ھوتا ھے وہ اسے قدم بقدم بلندی کی طرف لے کر جاتے ھیں،، قرآن میں آپ دیکھیں گے تو اللہ حکیم یہی طریقہ علاج استعمال کرتا نظر آتا ھے،، لوگو اس موت سے فرار عبث اور بے فائدہ کی پریکٹس ھے، بس اس کی تیاری کرو ،، اس کی تیاری ھی اس کا علاج ھے ! ھر دن کو آخری دن سمجھو اور اس دن کے پواڑے سمیٹ کر سوؤ ! توبہ تائب کر کے ھر رات کو آخری رات سمجھ کر سوؤ،، یہ بند ھوتی انکھیں شاید اب حشر کے میدان میں ھی کھلیں گی ! اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ھے کہ الکیس من دان نفسہ،، و عمل لما بعد الموت ،، عقلمند وہ ھے جو اپنی بےثباتی کی حقیقت کا ادراک کر لے اور موت کے بعد کی منزلوں کا سامان تیار کر لے !
خلیفہ ھارون نے ایک دن سرِ دربار بہلول دیوانے سے کہا کہ بہلول تجھے اپنے سے بے وقوف شخص بھی کبھی ملا ھے ؟ بہلول نے کہا کہ امیر المومنین ابھی تک تو نہیں ؟ ھارون نے اسے سونے کی ایک ھاتھ بھر لمبی سلاخ نکال کر دی کہ جب تمہیں کوئی اپنے سے زیادہ بے وقوف نظر آگیا تو اسے یہ گولڈن راڈ دے دینا ! خلیفہ جہاں کہیں بہلول کو دیکھتا تو آواز لگا کر پوچھنا کبھی نہ بھولتا کہ بہلول گولڈن راڈ کا کیا بنا اور بہلول بھی کہہ دیتا کہ امیرالمومنین ابھی نہیں !

پھر خدا کا کرنا ایسا ھوا کہ ھارون بسترِ مرگ پر جا لگا، تیمار داری کرنے والوں میں بہلول بھی تھا، اس نے پوچھا ائے امیر آپ اس منزل سے بچ کیوں نہیں جاتے جس کی طرف آپ کو دھکیلا جا رھا ھے،؟ بہلول اس سے آج تک کون بچ نکلا ھے ! ھارون نے جواب دیا،، ائے امیر پھر آپ نے آگے کوئی لونڈیاں غلام بیجھے اور محلات کا کوئی بندوبست کیا؟ نہیں ائے بہلول یہ تو دنیا کا سامان ھے ، ادھر ھی رہ جائے گا !

اب بہلول نے وہ گولڈن راڈ نکالا اور ھارون کے ھاتھ میں تھما دیا کہ امیر المومنین سونے کی سلاخ کو اپنا مدعا مل گیا ! آپ کسی علاقے میں شکار کرنے جاتے ھیں تو مہینوں پہلے خدام اور خیمے ،،لاؤ لشکر اور سامان تعیش فراھم کر دیتے ھیں ،اور جنگل کو منگل بنا لیتے ھیں ،،مگر افسوس کہ جہاں آپ نے ھمیشہ رھنا تھا ،وھاں کا سامان فراھم نہ کیا ، آپ اس سلاخ کے مجھ سے زیادہ حقدار ھیں !
قاری حنیف ڈار نے لکھی
 

x boy

محفلین
سوالی:
میں جو کچھ بھی ہوا سب بیان کرونگا، میرا سوال یہ ہے کہ میں وقفے وقفے سے مختلف طریقوں سے گناہ کیا کرتا تھا، ایک دن میں نے اپنے دل میں ٹھان لی کہ ایک طریقے کو چھوڑ دونگا، میں نے اُسی وقت سجدہ کیا، اور اللہ سے دعا کی، اگر میں نے دوبارہ گناہ کیا تو میرے اعضاء کو فالج میں مبتلا کردینا، اس دعا کے دوران میں نے ایک طریقے کو تحدید کرتے ہوئے ذکر بھی کیا، اس لئے کہ میرے ذہن میں یہ تھا کہ میں صرف ایک طریقے سے گناہ نہیں کرونگا، جبکہ دوسرے طریقے کے بارے میں میرا ذہن یہ تھا کہ میں اُس کے ذریعے گناہ کرتا رہونگا، میری دعا میں کچھ غیر مناسب الفاظ بھی تھے، پھر ایک ماہ بعد ہی میں وہی گناہ کر بیٹھا جس کے نہ کرنے کا میں نے اللہ سے وعدہ کیا تھا، مجھے اس بات کا احساس ہے کہ میں نے اپنی دعا میں اللہ تعالی کا ادب ملحوظِ خاطر نہیں رکھا تھا۔
آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا یہ انداز دعا میں لغو شمار ہوگا؟



جواب:- صرف قرآن اور سنتہ کےطریق سے
الحمد للہ:


پہلی بات:

جسکی وجہ سے آپکو پریشان ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ آپ نے گناہ کیا، اور یہ سچے دل سے توبہ نہ ہونے کے باعث ہوا ، یہی وجہ ہے کہ کچھ ہی دنوں کے بعد گناہ کا ارتکاب بھی کرلیا!!

اللہ کے بندے! تم کس کو دھوکہ دینا چاہتے ہو؟! اللہ کے واسطے ذرا سوچو تو صحیح!

کیا اپنے رب کو ، جس کے ساتھ گناہ نہ کرنے کا معاہدہ بھی کیا، اور سجدے میں جاکر دعا بھی مانگی۔۔۔ پھر اس سب کے باوجود ایک اضافی راستہ گناہ کرنے کیلئے ذہن میں چھپا کر رکھا، تا کہ اللہ کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی بھی نہ ہو؟!!

ایسی عجیب بات ہم نے کبھی نہیں سنی تھی!!

غیب کے بھید جاننے والی ذات سے تم گناہ کا طریقہ چھپانا چاہتے ہو!!

تم گناہ سے توبہ بھی چاہتے ہو، اور گناہ کیلئے محفوظ راستہ بھی چھپا رہے ہو؟

اللہ کے بندے! یہ تو بڑی ہی بُری توبہ ہے!!

اللہ کے بندے! توبہ تو اسے کہتے ہیں کہ کُلّی طور پر گناہ کو اپنے آپ سے دور کر لو، اور ماضی کے کرتوتوں پر ندامت ہو، اور پکے سچے ارادے کے ساتھ یہ عزم کرو کو آئندہ کبھی بھی گناہ نہیں کرنا؛ توبہ اس چیز کا نام نہیں ہے کہ گناہ کا دروازہ بند کردو، اور کھڑکی سے گناہ کرتے جاؤ؛ یہ تو تم نے دین کو کھیلونا بنا لیا ہے، اور اپنے رب کو ہاتھ دیکھانے کے مترادف ہے، اللہ کے بندے ذرا سوچ تو سہی!؟

دوسری بات:

اللہ تعالی کے ساتھ جو بھی کوئی وعدہ کرے، کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اور پھر اپنے وعدے کی خلاف ورزی کر بیٹھے تو اسے قسم کا کفارہ دینا ہوتا ہے: دس مساکین کو کھانا کھلائے، یا انہیں سوٹ پہنائے، یا ایک غلام آزاد کرے، جس کے پاس یہ نہ ہوں تو تین دن کے روزے رکھے۔

آپ (47738)اور(38934)سوالات کے جوابات بھی ملاحظہ کریں۔

یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ اپنے خلاف بد دعا کرنا جائز نہیں ہے، یا اپنے آپ پر لعنت کرنا بھی درست نہیں ، چاہے آپ اس کے ذریعے اپنے آپ کو گناہوں سے ہی کیوں نہ روکنا چاہتے ہو۔

اس کیلئے سوال نمبر (145757)کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔

لیکن آپ پر صرف کفارہ ہی لازم نہیں ہے، بلکہ آپ پر ضروری ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ اپنا تعلق درست کرو، آپ دوبارہ سے توبہ کریں؛ کیونکہ آپ نے پہلے توبہ کی ہی نہیں تھی، اس لئے اللہ کے بندے! گناہوں سے توبہ کرنے میں جلدی کرو، اس سے پہلے کے وقت ہاتھ سے جاتا رہے، اور پھر پشیمانی کا سامنا کرنے پڑے ، اور اس وقت پشیمان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

دھیان رکھنا! اللہ تعالی کی ذات بہت مہربان، اور نہایت ہی رحم کرنے والی ہے، وہ والدہ سے بڑھ کر اپنی مخلوق پر مہربان ہے، رات کے لمحات میں ہاتھ پھیلا تا ہے، تا کہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کرلے، اور دن کے وقت ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ رات کے وقت گناہ کرنے والا توبہ کرلے، جو اللہ سے مدد مانگتا ہےاللہ تعالی اسکی ضرور مدد فرماتا ہے ، اور جو ہدایت طلب کرتا ہے، اللہ تعالی اسے ضرور ہدایت دیتا ہے، اس لئے کمزوری مت دِکھانا، اور نہ ہی سستی سے کام لینا، اور اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا، کیونکہ ان کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:

( إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ )

ترجمہ: بیشک اللہ کی رحمت سے ناامید کافر لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ یوسف/87

یہ بھی ذہن میں رہے کہ اگر تم اللہ کی طرف سچے دل ، پختہ عزم، اور ارادے کیساتھ چل پڑو تو وہ ذات تمہیں راستے میں ہی نہیں چھوڑے گی بلکہ منزل پر پہنچائے گی، کیونکہ قران مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ )

ترجمہ: اور جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم یقینا انھیں اپنی راہیں دکھا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ یقینا اچھے کام کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ العنكبوت/69

اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اللہ رب العزت فرماتا ہے میں اپنے بندوں کے گمان کے مطابق ان سے معاملہ کرتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں اگر وہ اپنے دل میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اُسے ایسی جماعت میں یاد کرتا ہوں جو ان سے بہتر ہے اور اگر وہ ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میرے ایک ہاتھ قریب ہوتو میں ایک باع –دونوں ہاتھوں کو دائیں بائیں کھولنے کے بعد کا درمیانی فاصلہ- اسکے قریب ہوتا ہوں، اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں)

واللہ اعلم .
 

x boy

محفلین
اے نبی ﷺ ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ ، اور تمہارے بیٹے ، اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں ، اور تمہارے عزیز و اقارب ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار، جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں ، تم کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔(24)9 تمہیں جنگ کاحکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ...ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بُری ہو۔ اللہ جانتا ہے ، تم نہیں جانتے۔(216)2 اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سرو سامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔ (38)9 تم نہ اُٹھو گے تو اللہ تمہیں درد ناک سزا دے گا ، اور تمھاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا ، اور تم اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔(39)9 (ایسے لوگوں کو معلوم ہو کہ )اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے اُن لوگوں کو جو آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو فروخت کر دیں ، پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اُسے ضرور ہم اجرِ عظیم عطا کریں گے ۔(74)4 حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں ۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو ؟ پس خوشیاں منائو اپنے اس سودے پر جو تم نے اللہ سے چکا لیا ہے ، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔(111)
 

x boy

محفلین
میری باجی جو ہم بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں وہ وہاں کی اساتذہ ہے اور دبئی میں ہوتی ہیں
ابھی میری زوجہ وہاں کلاسز لے رہی ہے ان شاء اللہ بہت جلد وہ بھی کامل ہونے کے بعد وہاں
اساتذہ کا خدمات انجام دے گی۔
 
Top