ایک مثال ایک خوبصورت بات یا جو بھی سمجھیں

x boy

محفلین
دنیا مرے اگے ڈسکو ٹیک، عریاں محفل فیشن شو اور پاپ شو

کراچی پاکستان اور دیگر بڑے چھوٹے کاروباری اور صنعتی شہروں کے امیر گھرانوں کے چشم وچراغ ایک نئی وباں"ڈسکو ٹیک، عریاں محفل فیشن شو اور پاپ شو" کے دلدادہ ھوگئے ھیں، شھر کے صنعت کاروں، تاجروں اور بڑے بڑے افسروں کے نورچشم فیشن ایبل ھوٹلوں میں جمع ھوتے ھیں اور وھاں لڑکے لڑکیاں کا مخلوط اجتماع ھوتاھے،اس میں تمام معاشرتی،مذھبی اور سماجی پابندیوں سے آزاد ھوکریہ لڑکے لڑکیاں راگ رنگ کی محفلوں کے ساتھ فیشن شو منعقد کرتے ھیں، انھیں اجتماعات کی وجہ سے زانیوں کی تعداد میں اضافہ ھوتا جارھا ھے یہ چشم چراغ جنہیں پاکستان کا مستقبل بننا تھا وہی لوگ مغربی تہذیب کو اپنا کر حکومتی اداروں کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں شھر میں منعقد ھونے والے ڈسکو ٹیک، عریاں محفل فیشن شو اور پاپ شو میں پنگ،ہپیوں کو خاص طور سے شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔حکومتی اداروں کے کچھ معزز لوگوں نے اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ تہذیب، تمدن،شائستگی، علم اور سائنس کی ترقی کا دور ھے، جدید تحقیقات کا زمانہ ھے،اگر اس دور نے "پاپ" اور "گناہ" کا وہی دقیانوسی مفہوم برقرار رکھا تو بات ہی کیا ھوئی? ضروری ہے کہ لفظ "گناہ" کی برائی کو بھی ذہنوں سے کھرچا جائے، اپ گناہ کو گناہ کہہ کر کیاجائےگا، اور کون ہے جو گناہ پر فخر کرنے سے آج کے انسانوں کو روک سکے؟

کمال علم و ہنر نے عامر، بنا دیا رات کو سویرا
گناہ اتنا حسین کب تھا، کمال علم و ہنر سے پہلے

اللہ جانے یہ کون دقیانوسی لوگ آگئے پاکستان میں جو ڈسکو ٹیک، عریاں محفل فیشن شو اور پاپ شو پر پابندی لگانے کا مطالبہ کررہے ھیں؟
بھلا ایسے مطالبات یہاں کبھی سنے گئے ھیں؟
ان کے ساتھ بڑے بڑے ہتھیار ہیں جو دن رات اپنے تھیلیوں میں لے کر گھومتے ہیں؟یہ جماعت اسلامی والے ہیں؟ انہیں سمجھ نہیں آتی کہ ان کے گھر میں بھی
بہو بیٹیاں ہیں؟ یہ تبلیغی ہیں انکو کہاں سے اتنا وقت مل جاتا ہے کہ گلیوں گلیوں گاؤں گاؤں شہر شہر اپنا بوری بسترا لے کر سائلینٹ سولجر کی طرح اپنا مال جان
لوگوں کے فلاح و بہبود پر لگارہے ہیں؟

مغربی تہذیب و تمدن پر چند اشعار۔

تمھاری تہذیب اپنے خنجرسے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، نا پائیدار ھوگا

حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لزتیں کیا کیا
تعصب، خود فروشی، ناشکیبائی، ھوسناکی

انسان کے ھوس نے جنہیں رکھا تھا چھپاکر
کھلتے نظر آتے ھیں بتدریج وہ اسرار
 

x boy

محفلین
ایک دفعہ کا ذکر ھے کہ نہ امام مالکؒ ھوتے تھے اور نہ امام ابو حنیفہؒ ،نہ امام شافعی ھوتے تھے اور نہ امام احمد نہ امام بخاری ھوتے تھے اور نہ امام مسلم ، نہ امام نسائی ھوتے تھے اور نہ امام ترمذی ،، نہ ابن ماجہ ھوتے تھے اور نہ ابوداؤد !

اور دین تب بھی مکمل تھا !


ھے ناں تعجب کی بات ؟

بھلا لوگ نمازیں کیسے پڑھتے ھونگے ؟ اس وقت کے لوگ ھاتھ کہاں باندھتے ھوں گے ؟ یا باندھتے ھی نہیں ھونگے کہ کوئی آئے اور طے کرے کہ وہ ھاتھ کہاں باندھیں !
لوگوں کے یہاں شادیاں بیاہ اور موت و جنازے بھی ھو رھے تھے ! پتہ نہیں یہ سب کچھ لوگ بغیر کسی امام کا ریفرینس دیئے بغیر کیسے کر لیتے ھوں گے !
کپڑے اس وقت بھی پلید ھوتے تھے اور لوگ بھی پلید ھو جاتے ھونگے کیونکہ اس وقت کے لوگوں کو بھی جنابت تو لاحق ھوتی ھو گی ! اب کس فقہ کے ریفرینس سے پاک ھوتے ھوں گے یہ بھی ایک قابلِ تحقیق مسئلہ ھے !

سب سے بڑا ون ملین ڈالرز سوال یہ ھے کہ اماموں اور صحاح ستہ کے بغیر دین کو جس نے مکمل کہا ھو گا اس پہ فتوی کیا لگا ھو گا ؟
کیونکہ فتوے کے لئے بھی تو کوئی مثل موجود ھونی چاھئے ! مثلاً وھابی، پرویزی،نیچری ، غامدی، مودودی وغیرہ وغیرہ !!

ذرا سوچئے !!
از: قاری حنیف ڈار ابوظہبی
 

x boy

محفلین
اگر بيوى سے كھانا اچھا نہ پكے تو مسلمان كو چيخنا اور بيوى كو ڈانٹنا نہيں چاہيے

اگر خاوند كو كھانا پسند نہ آئے تو كيا خاوند كے ليے بيوى كو ڈانٹنا صحيح ہے ؟
اور اس طرح كى حالت ميں خاوند كو كيا كرنا چاہيے ؟

الحمد للہ:
ازدواجى زندگى محبت و پيار اور اتفاق پر قائم ہونى چاہيے، چنانچہ خاوند اپنى بيوى كے حقوق كى ادائيگى كرے اور بيوى كو چاہيے كہ وہ اپنے خاوند كے حقوق ادا كرے، اور پھر اگر كسى ايك سے كوئى غلطى اور كوتاہى ہو جائے تود وسرے كو معافى و درگزر سے كام لينا چاہيے، اس طرح وہ ايك اچھى اور بہتر زندگى گزار سكتے ہيں، اور آپس ميں سعادت و خوشى كے ايام بسر كريں گے اور ان كى اولاد بھى سعادت حاصل كرےگى.

صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مومن شخص كسى مومنہ عورت سے ناراض نہيں ہوتا اگر اس كى كوئى بات ناپسند كرے تو اس كے كسى دوسرے اخلاق سے راضى ہو جائيگا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1469 ).

امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كھانے ميں كبھى بھى عيب نہيں نكالا، اگر چاہتے تو تناول فرما ليتے، اور اگر نہ چاہتے تو نہ كھاتے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3563 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2064 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ كھانے كے تاكيدى آداب ميں شامل ہوتا ہے، اور كھانے ميں عيب نكالنا مثلا نمك زيادہ ہے، نمك كم ہے، كڑوا ہے، پتلا ہے، سخت ہے، صحيح پكا نہيں كچا ہے وغيرہ كہنا صحيح نہيں ہے " انتہى

اور ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بعض علماء كہتے ہيں كہ اگر عيب خلقت " يعنى اس كى پيدائش ) كے متعلق ہو تو مكروہ ہے، ليكن اگر بنانے كے اعتبار سے ہو تو اس عيب نكالنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ اللہ تعالى كى بناوٹ ميں تو كوئى عيب نہيں نكالا جا سكتا، ليكن آدمى نے جو كچھ تيار كيا اور بنايا ہے اس ميں عيب نكالا جا سكتا ہے.

ميں كہتا ہوں: ظاہر يہى ہوتا ہے كہ يہ عام ہے، كيونكہ عيب نكالنے ميں كھانا تيار كرنے والے كا دل ٹوٹ جاتا ہے " انتہى

اس ليے اگر كسى كى بيوى كھانا تيار كرے اور اسے پسند نہ آئے يا پھر وہ كھانا نہ چاہے تو اسے اخلاق نبوى اختيار كرتے ہوئے عيب نہيں نكالنا چاہيے، اگر دل كرے تو كھانا كھا لے اور اگر نہ چاہے تو نہ كھائے، ليكن بيوى اور گھر والوں كو تنگ مت كرے اور نہ ہى چيخے اور چلائے اور كسى كو مت ڈانٹے.

اگر كھانا عيب دار ہو تو پھر بيوى كو نصيحت كرتے وقت نرم رويہ ميں سمجھائے اور اسے بتائے كہ كھانا ابھى اچھى طرح پكا نہيں تھا، يا پھر اس ميں نمك كچھ كم ہے، يا پھر كہے كہ كھانا تو بہت اچھا پكايا ہے ليكن اگر اس ميں تھوڑا نمك اور ڈال ليتى تو بہت اچھا تھا.

يا پھر يہ كہے كہ ميں اس طرح كا كھانا پسند نہيں كرنا كاش اگر تم ايسا كھانا يا اس طرح كا كھانا تيار كرتى، اور اس ميں اسے اچھا اور بہتر اسلوب اختيار كرنا چاہيے، اور طبيعت كو بھى ٹھنڈا ركھے.

شيخ سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى خاوند اور بيوى كے حسن معاشرت كے ليے يہ راہنمائى نيكى و حسن سلوك كے ساتھ رہنے كے ليے سب سے اعلى اور اچھا سبب ہے، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيوى كے ساتھ برا سلوك اختيار كرنے سے منع فرمايا ہے، كسى چيز سے روكنے كا معنى يہ ہے كہ اس كے ضد امر كيا جائے.

اسے حكم ديا گيا ہے كہ وہ ان كا خيال كرے جو بيوى ميں اخلاق جميلہ پائے جاتے ہيں، اور جو امور اس كے مناسب ہيں اس كى طرف دھيان دے، اور ان اشياء كو اس كے مقابلہ ميں ركھے جو بيوى كے اخلاق ميں برى چيز پائى جاتى ہے.

جب خاوند غور و فكر كرے كہ اس كى بيوى ميں كيا كيا اخلاق جميلہ پائے جاتے ہيں اور جن محاسن كو وہ پسند كرتا ہے اس ميں كتنے ہيں، اور اسے ڈانٹنے اور سوء معاشرت كے اسباب كى جانب نظر دوڑائے تو اسے ايك يا دو چيزيں ہى نظر آئيں گى، ليكن اس كے مقابلہ ميں جو وہ پسند كرتا ہے وہ بيوى ميں زيادہ ہونگى، اس ليے اگر وہ منصف ہے تو وہ اس كى اس غلطى سے صرف نظر كريگا كيونكہ يہ غلطى اس كى اچھائيوں ميں چھپ جاتى ہے.

اس طرح ان ميں حسن معاشرت قائم رہےگى اور وہ واجب اور مستحب حقوق كى ادائيگى كريگا، اور ہو سكتا ہے جسے وہ ناپسند كرتا ہے بيوى اسے تبديل كرنے يا صحيح كرنے كى كوشش كريگى " انتہى

ديكھيں: بھجۃ قلوب الابرار ( 175 ).

كھانے كى وجہ سے چيخنا اور اس كے سبب سے مشكلات پيدا كرنا اور غصہ ہونا حسن معاشرت ميں شامل نہيں ہوتا اور پھر اس كے علاوہ وہ اس سلسلہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ كى بھى مخالفت كر رہا ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نيك و صالح نشانى سے بھى دور بھاگ رہا ہے جسے ايك مومن كو اپنا زيور اور شيوہ بنانا چاہيے.
واللہ اعلم .
1620765_625579810840772_1031707727_n.jpg
 

x boy

محفلین
ماخوذ
سركار دوعالم صلى الله عليہ وسلم
كى شاديوں كى كثرت ميں كيا حكمت تهى؟
كيا جواب ديا كرتے ہيں آپ اس سوال كا؟
فرض كرتے ہيں ايک شخص برى نيت سے آپ كے پاس آتا ہے، تاكہ يہ سوال اس طرح كرے كہ يا تو آپ كا ايمان شكستہ ہو كر رہ جائے يا پهر آپ سے جواب نہ بن پڑے اور وہ آپ كو شرمسار كر جائے!!! تو كيا پهر آپ جواب دينا جانتے ہيں؟
سب سے پہلے: كيا آپ كے پاس دفاع كى كوئى صلاحيت ہے كہ وه كيا حالات تهے جن ميں سركار دوعالم صلى الله عليہ وسلم كو متعدد شادياں كرنا پڑيں؟
ليجيئے يہ ہے جواب.... در حقيقت يہ جواب فاضل استاد جناب عمرو خالد كے ايک ليكچر پر مبنى ہے جو انہوں نے "امہات المؤمنين" پر ديا تها، آپ كى معلومات كيلئے تلخيص و ترجمہ حاضر خدمت ہے:
سب سے پہلے آپ سے ہى ايک سوال:::
آپ صلى الله عليہ وسلم كى زوجات مباركہ كى كل تعداد كيا تهى؟
زوجات رسول صلى الله عليہ وسلم كى كل تعداد 12 ہے.
جب حضور اكرم صلى الله عليہ وسلم كا وصال ہوا تو ان ميں سے 10 حيات تهيں. حضرت خديجہ اور حضرت زينب بنت خزيمہ رضى الله عنہما سركار دوعالم صلى الله عليہ وسلم كى حياتِ مباركہ ميں ہى انتقال فرما چكى تهيں.
آپ سے ہى ميرا دوسرا سوال: كيا آپ كو اپنى امہات ....امہات المؤمنين.... كے اسماءِ مباركہ آتے ہيں؟
الله تبارک و تعالى تمہارى اور ميرى مغفرت فرمائے، ليجيئے، يہ ہيں اسماء مباركہ:
· خديجہ بنت خويلد رضی اللہ عنہا
سودة بنت زمعہ رضی اللہ عنہا
· عائشہ بنت ابي بكر رضی اللہ عنہا
· حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا
· زينب بنت خزيمہ رضی اللہ عنہا
· أم سلمہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا
· زينب بنت جحش رضی اللہ عنہا
· جويريہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا
· صفيہ بنت حيي بن أخطب رضی اللہ عنہا
· أم حبيبہ رملہ بنت ابي سفيان رضی اللہ عنہا
· ماريا بنت شمعون المصريہ رضی اللہ عنہا
· ميمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا
اسماء مباركہ جان لينے كے بعد آپ سے يہ پوچهتے ہيں كہ آپ صلى الله عليہ وسلم سے شادى كے وقت ان ميں سے كتنى كنوارى تهيں اور كتنى پہلے سے شادى شده؟
شادى كے وقت صرف ايک كنوارى تهيں اور وہ ہيں سيده عائشہ رضى الله عنہا، جبكہ باقى سب ہى ثيبات تهيں.
كيا سب كى سب عرب تهيں؟
جى ہاں، سب كى عرب تهيں ما سوائے سيده ماريا رضى الله عنہا کے، وه جزيرة العرب كے باہر سے تهيں اور ان كا تعلق مصر كى كى سر زمين سے تها.
كيا وه سب كى سب مسلمان تهيں؟
جى ہاں، سب كى سب مسلمان تهيں ما سوائے دو كے: سيده صفيہ يہوديہ تهيں اور سيدة ماريا مسيحيہ تهيں، رضي الله عنہن جميعا
اور اب.........
دوسرے سوال كا جواب ديتے ہيں:
كيا آپ صلى الله عليہ وسلم كى ان تمام شاديوں كا سبب شہوت تهى؟
اگر حبيبنا صلى الله عليہ وسلم كى شادى شده زندگى پر ايک نظر ڈالى جائے تو ہم يہ جان ليتے ہيں كہ شہوت تو آپ صلى الله عليہ وسلم كى زندگى سے ختم ہى ہو چكى تهى، ليجئے اس بار عقلى دليل ديتا ہوں:
1. رسول الله صلى الله عليہ وسلم شروع سے ليكر 25 سال كى عمر تک كنوارے رہے.
2. رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے 25 سال سے ليكر 50 سال كى عمر تک )يہ بات ذہن ميں ركهيئے كہ يہى عمر حقيقى جوانی كى عمر ہوتى ہے( ايک ايسى عورت سے شادى كيئے ركهى جو كہ نہ صرف آپ صلى الله عليہ وسلم سے 15 برس بڑى تهيں بلكہ اس سے قبل دو اور اشخاص كے نہ صرف نكاح ميں رہ چكى تهيں بلكہ ان سے اولاديں بهى تهيں.
3. رسول الله صلى الله عليہ وسلم 50 سال كى عمر سے 52 سال كى عمر تک بغير شادى كے )بغير بيوى كے( حالت افسوس ميں رہے اپنى پہلى بيوى كى وفات كى وجہ سے.
4. رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے 52 سال كى عمر سے ليكر 60 سال كى عمر كے درميانے عرصے ميں متعدد شادياں كيں )جنكے سياسى، دينى اور معاشرتى وجوہات ہيں، انكى تفصيل ميں بعد ميں بتاؤنگا(.
اچها تو پهر......
كيا يہ بات معقول لگتى ہے كہ 52 سال كى عمر كے بعد ہى سارى شہوت كهل كر سامنے آ جاتى ہے؟
اور كيا يہ بات بهى معقول ہے كہ شاديوں كو پسند كرنے والا شخص، عين شباب ميں، ايک ايسى ثيب عورت سے شادى كرے جو اس سے پہلے دو شادياں كر چكى ہو اور پهر اس عورت كے ساتھ بغير كوئى دوسرى شادى كيئے 25 سال بهى گزارے.
اور پهر اس عورت كى وفات كے بعد دو سال تک بغير شادى كيئے ركا رہے صرف اس عورت كى تكريم اور اس كے ساتھ وفاء كے طور...
سيده خديجہ رضى الله عنہا كى وفات كے آپ الله صلى الله عليہ وسلم نے جو شادى فرمائى وہ سيدہ سودہ رضى اللہ عنہا سے تهى، اور بوقت شادى سيده سوده رضى الله عنہا كى عمر اسى )80( سال تهى، يہ زمانہ اسلام ميں ہونے والى پہلى بيوہ تهيں. ان سے سركارِ دوعالم الله صلى الله عليہ وسلم كى شادى كا مقصد نہ صرف ان كى عزت افزائى كرنا تهى بلكہ ان جيسى اور بيوہ خواتين كو معاشرے ميں ايک با عزت مقام عطا فرمانا تها جس كى ابتداء آپ الله صلى الله عليہ وسلم نے خود اپنے آپ سے فرمائى. چاہتے تو آپ الله صلى الله عليہ وسلم صرف دوسروں كو ايسا كرنے كا حكم بهى فرما سكتے تهے مگر نہيں، آپ الله صلى الله عليہ وسلم نے خود يہ عمل فرما كر آئنده بنى نوع آدم كيلئے ايک مثال قائم كر دى.
اچها ۔ يہ سب كچھ كہنے كے بعد ہم يہ نتيجہ اخذ كر سكتے ہيں كہ:
حضور اكرم صلى الله عليہ وسلم نے دو طريقوں سے شادياں كيں:
1. محمد رسول الله صلى الله عليہ وسلم بحيثيت ايک مرد )صرف سيدہ خديجہ سے شادى كى(
2. محمد رسول الله صلى الله عليہ وسلم بحيثيت ايک رسول )باقى سارى خواتين سے شادياں كيں(
اچها اب ايک اور سوال پوچهتے ہيں:
كيا محمد رسول الله اكيلے ہى ايسے نبى ہيں جنہوں نے متعدد شادياں كيں يا دوسرے نبيوں نے بهى ايسا كيا؟
جى، اسكا جواب ہاں ميں ہے.
كئى رسولوں اور نبيوں نے )مثال كے طور پر( سيدنا ابراہيم ، سيدنا داؤود اور سيدنا سليمان صلوات الله وسلامہ عليہم أجمعين نے ايسا كيا.
اور يہ سب كچھ آسمانى كتابوں ميں لكها ہوا ہے، تو پهر بات كيا ہے كہ مغربى ممالک اسى بات كو ہى بنياد بنا كر ہم پر حملے كرتے ہيں؟ جبكہ حقيقت كا وہ نہ صرف اعتراف كرتے ہيں بلكہ يہ سب كچھ ان كے پاس لكها ہوا بهى ہے.
آئيے اب ان سياسى، اجتماعى اور دينى وجوہات پر بات كرتے ہيں جن كى بناء پر سركارِ دو عالم صلى الله عليہ وسلم كو متعدد شادياں كرنا پڑيں:
سب سے پہلی وجہ:
تاكہ اسلام نہايت ہى اہتمام سے اپنى مكمل خصوصيات اور تفاصيل كے ساتھ )مثال كے طور پر نماز اپنى پورى حركات و سكنات كے ساتھ ( نسل در نسل چلتا جائے. تو اس كيلئے تو بہت ہى ضرورى تها كہ لوگ رسول صلى الله عليہ وسلم كے گهر ميں داخل ہوں اور وہاں سے يہ سارى تفاصيل ملاحظہ كريں اور امت كى تعليم كيلئے عام كريں.
اس مقصد كيلئے الله سبحانہ و تعالى نے سيده عائشہ سے رسول اكرم صلى الله عليہ وسلم كى شادى لكھ دى، ان كى كم عمرى كى بنا پر ان ميں سيكهنے كى صلاحيتيں زيادہ تهيں )عربى مقولہ ہے:العلم في الصغر كالنقش على الحجر- بچپن ميں سيكها ہوا علم پتهر پر نقش كى مانند ہوتا ہے(، اور حضرت عائشہ رضى الله عنہا آپ صلى الله عليہ وسلم كے وصال كے بعد بياليس )42( برس زندہ رہيں اور دين كى ترويج و اشاعت كا كام كيا.
اور آپ رضى الله عنہا لوگوں ميں سب سے زيادہ فرائض و نوافل كا علم ركهنے والى تهيں.
اور زوجات الرسول صلى الله عليہ وسلم سے اجمالى طور پر روايت كردہ احاديث كى تعداد تين ہزار )3000( ہے.
اور جہاں تک حضرت عاشہ رضى اللہ عنہا كى كم عمرى كى شادى سے شبہات پيدا كئے جاتے ہيں يہ تو عرب كے صحرا كے دستور تهے كہ ايک تو بچياں بهى ادهر جلدى بلوغت كو پونہچا كرتى تهيں اور دوسرا كم سنى ميں شادياں بهى كى جاتى تهيں، اور پهر يہ دستور اس زمانے ميں صرف عربوں ميں ہى نہيں تها بلكہ روم و فارس ميں بهى يہى ہوتا تها.
دوسرى وجہ:
تاكہ صجابہ كرام كو ايک ايسا رشتے باندھ ديا جائے جو امت كو مضبوطى سے جكڑے ركهے
يہى وجہ تهى كہ سركار دوعالم صلى الله عليہ وسلم نے سيدنا ابو بكر كى بيٹى سے شادى فرمائى
اور سيدنا عثمان سے اپنى دو بيٹيوں كى شادى فرمائى
اور اپنى تيسرى بيٹى كى شادى سيدنا على سے كى
رضي الله عنہم جميعا وأرضاهم
تيسرى وجہ:
بيواؤں كے ساتھ رحمت والا سلوک اور برتاؤ، چنانچہ آپ صلى الله عليہ وسلم نے بذات خود بيواؤں )سيدة سودہ ، أم سلمہ اور ام حبيبہ( سے شادياں فرمائيں
چوتهى وجہ:
اسلامى شريعت كا مكمل طور پر نفاذ، چنانچہ آپ صلى الله عليہ وسلم نے بذات خود اپنے آپ پر لاگو كركے دوسروں اور بعد ميں آنے والے مسلمانوں كيلئے اسوہ بناديا. چاہے يہ بيواؤں كى عزت و تكريم كا معاملہ تها يا اسلام ميں داخل ہونے والے ان نو مسلموں كے ساتھ رحمت و شفقت كے اظہار كيلئے تها مثال كے طور پر حضرت صفيہ رضى الله عنہا سے شادى جو كہ آپ صلى الله عليہ وسلم نے ان كے والد كے اسلام ميں داخل ہونے كے بعد فرمائى. اور حضرت صفيہ كى عزت و منزلت كو يہوديوں ميں ايک مثال بنا ديا.
پانچويں وجہ:
محبتِ رسول صلى الله عليہ وسلم – تاكہ دنيا كے ہر خطے اور طول و عرض كے ملكوں تک محبتِ رسول صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں كے دِلوں ميں گهر كر جائے، اسى وجہ سے رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے سيدہ ماريا )مصريہ( سے شادى كر كے خطہ عرب سے باہر كے ملكوں كو بهى اپنى محبت ميں پرو كر ركھ ديا، اور اسى طرح سيده جويريہ سے شادى كا معاملہ ہے جو كہ ان كے قبيلہ )بنو المصطلق( كے اسلام لانے كا سبب بنا، حالانكہ اس وقت يہ سارا قبيلہ غزوة بني المصطلق كے بعد مسلمانوں كى قيد ميں تها جو كہ بذاتِ خود ايک بہت ہى مشہور واقعہ ہے.
**** ميں اميد كرتا ہوں كہ جو كچھ كہا ہے وہ آپ كيلئے نہ صرف يہ كہ دلى اطمئنان كا باعث بنے گا بلكہ ايسے لوگوں كا سامنا كرتے وقت قوت و ثابت قدمى بهى دے گا جو آپ كے ايمان كو متزلزل كرنے يا ہمارے دين اسلام اور نبى اكرم صلى الله عليہ وسلم كى شان ميں زبان درازى كى جرأت كرنے آپ كے سامنے آتے ہيں.
**** اور الله تبارک و تعالٰى بہتر جانتے ہيں كہ ان سب باتوں كے بيان كرنے سے ميرا مقصد كيا تها
 

x boy

محفلین
اختلاط حرام ہونے کے دلائل

سوال:-
میں اور میرا خاوند عربی زبان سیکھنے کیلئے مخلوط کلاسوں میں شرکت کرنا چاہتے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ اختلاط جائز نہیں، لیکن ہمیں یہ بتلادیں کہ اختلاط کہتے کسے ہیں؟ اور دلائل کے مطابق اسکا کیا حکم ہے؟
سوال کیلئے اضافی معلومات یہ ہیں: کلاس میں دس طالب علم ہیں، جن میں سے اکثر خواتین ہیں، تو کیا میں اور میرا خاوند کلاس میں شرکت کرنے کیلئے جائیں، یاد رہے، ان میں سے کچھ غیر مسلم طلباء بھی ہیں۔


جواب:-


الحمد للہ:

خواتین و حضرات ایک جگہ جمع ہوں، ایک ہی جگہ گھل مل کر رہیں، ایک دوسرے سے ملیں، اور ایک دوسرے کو دیکھیں، یہ سب کام شریعت کے مطابق حرام ہیں، اس لئے کہ یہ فتنے کا باعث ہے، جس سے شہوت بھڑکتی ہے، اور انسان کیلئے زنا، و فحاشی کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔

کتاب و سنت میں اختلاط کے حرام ہونے کے بارے میں بہت سے دلائل موجود ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

سب سے پہلے فرمانِ باری تعالی ہے:

{ وإذا سألتموهن متاعاً فاسألوهن من وراء حجاب ذلكم أطهر لقلوبكم وقلوبهن}


ترجمہ: اور جب تمہیں ازواج نبی سے کوئی چیز مانگنا ہو تو پردہ کے پیچھے رہ کر مانگو۔ یہ بات تمہارے دلوں کے لئے بھی پاکیزہ تر ہے اور ان کے دلوں کے لئے بھی۔ الأحزاب 53


ابن کثیر رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

"جیسے اللہ تعالی نے تمہیں عورتوں کے پاس علیحدگی میں جانے سے منع کیا ہے، اسی طرح تم انکی طرف بالکل دیکھوبھی نہ ،اور اگر کسی کو کوئی چیز لینے دینے کی ضرورت ہوتو تب بھی انکی طرف نہ دیکھے، بلکہ پردے کی اوٹ میں رہتے ہوئے ان سے اپنی ضرروت کی چیز مانگے"

جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خواتین و حضرات کے اختلاط کا اللہ کے ہاں محبوب ترین مقام یعنی مساجد میں بھی خیال رکھا ، اور مرد وزن کی صفیں جدا جدا کیں، پھر سلام پھیرنے کے بعد خواتین کے چلے جانے تک مردوں کو ٹھہرنےکا حکم دیا ، اورخواتین کے مسجد میں داخلے کا دروازہ ہی علیحدہ مختص کردیا، ان سب باتوں کے دلائل درج ذیل ہیں:ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے ، تو آپ کے سلام پھیرنے کے بعد عورتیں چلی جاتیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھنے سے پہلے تھوڑی دیر ٹھہرتے تھے، ابن شہاب کہتے ہیں: میں یہ سمجھتا ہوں -واللہ اعلم- کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے ٹھہرتے تھے کہ لوگوں کے جانے سے پہلے عورتیں چلی جائیں۔ بخاری (793)

اور اسی روایت کو ابو داود نے کتاب الصلاۃ میں 786 نمبر حدیث کے تحت ذکر کیا اور اسکے لئے عنوان قائم کیا: "باب ہے، نمازکے بعد خواتین کے مردوں سے پہلے جانے کے بیان میں"

اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر یہ دروازہ ہم خواتین کیلئے مختص کردیں؟) نافع کہتے ہیں اس کے بعد فوت ہونے تک ابن عمر اس دروازے سے داخل نہیں ہوئے۔


ابو داود حدیث نمبر: (484) کتاب الصلاۃ، باب-خواتین کیلئے دروازہ مختص کرنےکے-بارے میں سختی کے متعلق۔


ایک حدیث میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مردوں کی بہترین صف پہلی صف ہے، اور بُری صف آخری صف ہے، اور خواتین کی بہترین صف آخری ہے، اور بری صف پہلی صف ہے) مسلم حدیث نمبر: 664

مذکورہ بالا حدیث شریعت کی اختلاط کی ممانعت کیلئے بہت بڑی دلیل ہے، کہ جتنا مرد خواتین کی صفوں سے دور ہوگا اتنا ہی افضل ہوگا، اور جتنی ہی عورت مردوں کی صفوں سے دور ہوگی اتنی ہی افضل ہوگی۔

اگر یہ سب اقدامات مسجد میں اٹھائے جا رہے ہیں جو کہ عبادت کیلئے پاک صاف جگہ ہے، اور اس جگہ پر مرد وخواتین شہوت سے کوسوں دور ہوتے ہیں، تو اسکے علاوہ جگہوں میں یہ اقدامات اٹھانا اس سے بھی ضروری ہوگا۔

چنانچہ ابو اسید انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ مسجد سے نکل رہے تھے کہ مرد وخواتین کا راستے میں اختلاط ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو فرمایا: (پیچھے رہو، تمہارے لئے راستے کے درمیان میں چلنا جائز نہیں ہے، تم راستے کے کنارے پر چلو) چنانچہ اس کے بعد خواتین دیوار کے ساتھ لگ کر چلنے لگیں، حتی کہ دیوار کیساتھ چلنے کی وجہ سے انکے کپڑےاٹکنے لگے۔

ابو داود، کتاب الادب، باب ہے: خواتین کے مردوں کے ساتھ راستے میں چلنے کے بارے میں۔

اور ہم جانتے ہیں کہ اس وقت بازاروں، ہسپتالوں، جامعات وغیرہ اکثر جگہوں پر مرد و خواتین کا اختلاط عام ہے، لیکن ہم اس بارے میں کہیں گے کہ:

1- اسے ہم نے اپنی مرضی سے اختیار نہیں کیا، اور نہ اس پر راضی ہیں، اور خاص طور پر دینی دروس، اور اسلامی اداروں کی مجلسِ ادارہ میں اسے پسند بھی نہیں کرتےہیں۔

2- مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے اختلاط سے بچنے کیلئے وسائل کو بروئے کار لاتے ہیں، جیسے کہ مردوں اور خواتین کیلئے علیحدہ جگہ ، دونوں کیلئے الگ دروازے، آواز پہچانے کیلئے جدید آلات، اور تعلیمِ نسواں کیلئے خواتین معلمات کا بندوبست، وغیرہ۔

3- اپنی وسعت اور طاقت کے مطابق اللہ سے ڈرتے ہیں، اور نظریں جھکا کر، اپنے نفس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔

درج ذیل میں ایک تحقیق جو کچھ مسلم سماجی کارکنوں نے اختلاط کے بارے کی تھی اسکا کچھ حصہ آپ کیلئے پیش کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں:

جب ہم نے یہ سوال رکھا: "آپ کے علم کیمطابق شریعت میں اختلاط کا کیا حکم ہے؟"

تو اسکا نتیجہ مندرجہ ذیل تھا:

جواب دینے والے 76 فیصد لوگوں نے کہا: "جائز نہیں ہے"

اور 12 فیصد لوگوں نے کہا: "جائز ہے" لیکن اخلاقی و دینی ۔۔۔ضوابط کو مد نظر رکھنا ہوگا۔

اور باقی 12 فیصد لوگوں نے "لاعلمی" کا اظہار کیا۔

آپ کیا اختیار کریں گے؟!

اگر آپکو اختلاط اور غیر اختلاط والی جگہ پر کام مل رہا ہے، تو آپ کس کو اختیار کریں گے؟!

اس سوال کا جواب فیصد کے اعتبار سے کچھ اس طرح تھا:

67 فیصد نے غیر اختلاط کو پسند کیا۔

9 فیصد لوگوں نے اختلاط والی جگہ پسند کی۔

15 فیصد لوگوں نے کسی بھی جگہ کام کرنے کو ترجیح دی، انکے متعلقہ ادارے میں کام ہو؛ چاہے اختلاط ہو یا نہ ہوا س سے کوئی سروکار نہیں۔

شرمناک واقعات:

اختلاط کی وجہ سے آپکو کبھی شرمندہ ہونا پڑا ہو؟

تحقیق میں حصہ لینے والوں کی طرف سے مندرجہ ذیل شرمناک واقعات بیان کئے گئے:

- میں ملازمت کے دنوں میں اپنے دیپارٹمنٹ میں داخل ہوا تو میری ایک پردہ نشیں ساتھی نے اپنی سہیلیوں کےدرمیان حجاب کھولا ہوا تھا، اور اچانک میرے داخل ہونے کی وجہ سے مجھے کافی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

- میرے لیے یونیورسٹی کی لیبارٹری میں تجربہ کرنا ضروری تھا، لیکن میں اپنی باری کے دن غیر حاضر تھا، جسکی وجہ سے مجھے اگلے دن جانا پڑا، اور اس دن لیبارٹری کے اندر میں اکیلا ہی مرد تھا ، اور باقی سب طالبات، استانی ، اور لیبارٹری انچارج سب خواتین تھیں، مجھے اس سے بہت کوفت ہوئی، جسکی وجہ سے مجھے اپنی حرکات و سکنات کو محدود کرنا پڑا، مجھے مسلسل اجنبی، نسوانی ، اورگھورتی ہوئی آنکھوں کا سامنا تھا ۔

- میں الماری میں سے خواتین کا مخصوص پیڈ نکال رہی تھی، کہ پیچھے میرا ایک ساتھی اپنی الماری سے کچھ ضروری اشیاء نکالنے کیلئے کھڑا تھا، جب اس نے مجھے منہمک حالت میں دیکھا تو مجھے شرمندگی سے بچانے کیلئے جلدی سے کمرے سے باہر چلا گیا۔

- میرے ساتھ ایک دفعہ یونیورسٹی کی ایک طالبہ کا مجمع بھرے برآمدے کے موڑ پر ٹکراؤ ہوگیا، یہ طالبہ لیکچر میں شرکت کیلئے تیزی سے چلتی جارہی تھی، اور ٹکراؤ کی بنا پر وہ اپنا توازن کھو بیٹھی، اور میرے بازو کے ساتھ اس طرح لپٹ گئی جیسے کہ میں نے اسے اپنی باہوں میں لے رکھا ہو، اب آپ ہی خیال کریں کہ مجھے اور اس طالبہ کو کتنا شرمندہ ہونا پڑا ہوگا جہاں اوباش قسم کے لڑکوں کا مجمع لگا ہوا ہو۔

- یونیورسٹی میں میری ایک ساتھی اسٹیج کی سیڑھیوں پر گر گئی اور اسکے کپڑے بڑے ہی شرمناک انداز سے کھل گئے، وہ سیڑھیوں پر الٹی گرنے کی وجہ سے اپنے آپ کو سنبھال بھی نہ پائی، پھر اسے قریب ہی کھڑے کسی لڑکے نے اسکی ستر پوشی کی اور اٹھنے میں مدد کی۔

- میں ایک کمپنی میں کام کرتی ہوں، ایک بار اپنے انچارج کے پاس کچھ کاغذات دینے کیلئے گئی، اور پھر بعد میں اس نے مجھے کمرے سے نکلتے ہوئے دوبارہ آواز لگائی، میں اسکی طرف متوجہ ہوئی تو وہ سر نیچے کئے ہوئے تھا، میں نے کچھ انتظار کیا کہ کوئی اور فائل یا کچھ اور دستاویزات لانے کا مطالبہ کریگا، مجھے اسکا تردد عجیب سا لگا، اس نے اپنے آپ کو مصروف ظاہر کرنے کیلئے اپنے میز کی بائیں طرف منہ موڑ لیا، اور اسی دوران اس نے مجھ سے بات کی، مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ مجھے متنبہ کرنے کیلئے یہ بات کریگا کہ میرے کپڑے حیض کے خون سے بھرے ہوئے ہیں،مجھے اتنی کوفت ہوئی اور میرے دل سے دعا نکلی کہ کاش اس وقت سے پہلے مجھے زمین نگل لیتی۔

اختلاط کے ڈسے ہوئے۔۔۔ سچے واقعات

امید کی کرنیں ختم ہوچکی ہیں؟

ام محمد ایک سمجھدار خاتون ہیں جنکی عمر چالیس سال سے زیادہ ہوچکی ہے، وہ آپ بیتی بیان کرتی ہیں:

میں نے اپنے خاوند کے ساتھ سفید پوشی کی زندگی گزاری، ہمارےدرمیان قابلِ قدر کوئی ہم آہنگی نہیں تھی، اور نہ ہی میرا خاوند کسی طاقتور شخصیت کا مالک تھا جو مجھے بطورِ بیوی خوش رکھ سکے، لیکن اسکی عادتوں نے مجھے چشم پوشی کرنے والا بنا ڈالا، کہ میں ہی اپنے خاندان کے بارے میں اکثر فیصلے اور ذمہ داریوں کو نبھاتی۔

میرا خاوند اپنے دوست جو کہ کاروبار میں شریک تھا اسکا کافی ذکر کرتا تھا، اور اپنے دوست کے ساتھ اپنے آفس میں کافی دیر تک رہتا ، یہ دفتر کئی سالوں سے ہمارے گھر ہی کے ایک حصہ میں بنا ہوا تھا۔ پھر حالات کچھ ایسے ہوئے کہ یہ شخص اور اسکی اہلیہ ہمارے گھر آئی، اور پھر میرے خاوند کی دوستی کے باعث دونوں گھرانوں میں آنا جانا شروع ہوگیا، اور اس حد تک بڑھ گیا کہ کتنی بار آتے جاتے، اور کتنے گھنٹے ملاقات جاری رہتی اس کے بارے میں کوئی پتہ نہیں، بلکہ بسا اوقات وہ اکیلا ہی آجاتا، اور میں اور میرا خاوند گھنٹوں تک بیٹھے رہتے، میرا خاوند اس پر حد سے زیادہ اعتماد کرتا تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے اسے قریب سے دیکھ لیا تھا، وہ کتنا ہی باکمال، قابلِ احترام تھا، اور میں اسکی طرف بڑی شدت کے ساتھ مائل ہونے لگی، اور ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی محسوس ہونے لگا کہ وہ بھی اپنی شخصیت میرے سامنے واضح کرنا چاہتا ہے۔

اسکے بعد معاملات کچھ عجیب انداز میں تبدیل ہونے لگے، مجھے ایسے لگنے لگا کہ یہی وہ شخص ہے جسکو میں چاہتی ہوں، اور اپنی زندگی میں اسی کے بارے میں سہانے خواب دیکھے تھے۔۔۔ یہ سوچ اب میرے ذہن میں کیوں آرہی ہے، اتنے سال گزرنے کے بعد۔۔؟ وہ شخص ہر بار میری نگاہوں میں بلند ہوتا جا رہا تھا، اور دوسری طرف میرا خاوند نگاہوں سے گرتا جا رہا تھا، ایسے لگتا تھا کہ مجھے اس شخص کی خوبیوں کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے، تا کہ میں اپنے خاوند کے عیب تلاش کرسکوں۔

کچھ دیر کیلئے معاملہ میرے اور اس محترم شخص کے درمیان دن رات مشغول رکھنے والے خیالوں تک ہی رہا، پھر نہ میں صبر کرسکی اور نہ وہ آخر کار ہم نے اپنے دلوں میں موجود۔۔۔۔۔ کا اظہار کر ہی دیا۔۔ اور اُسی دن سے ۔۔ میری زندگی ختم ہونے کے باوجود ، میرے نزدیک میرا خاوند وہی کمزور اور حقیر انسان بن گیا، جس میں کوئی مثبت خوبی نہیں، میں اس سے نفرت کرنے لگی، مجھے نہیں معلوم کہ اپنے خاوند کے بارے میں اتنا بغض کہا ں سے آگیا۔

میں آپنے آپ سے پوچھتی: کہ کس طرح میں نے اتنے سالوں تک اکیلے اس بوجھ کو اپنی پیٹھ پر اُٹھائے رکھا؟! تو مجھے جواب ملتا: "زندگی کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے" معاملات اس حد تک بگڑ گئے کہ میں نے طلاق کا مطالبہ کردیا، اور پھر واقعی اس نے مجھے میری خواہش پر طلاق بھی دے ڈالی، اور اسکے بعد وہ انتہائی گرا ہوا شخص بن گیا۔

اس سے کڑوی بات یہ ہے کہ طلاق کے بعد مجھ سے گھرانہ ، بچے، اور خاوند سب چھین جانے کے بعد اُس آدمی کے بھی گھریلو معاملات بگڑ گئے، اس لئے کہ نسوانی فطرت کے باعث اسکی بیوی بھی دال میں کالا بھانپ چکی تھی، جس نے اسکی زندگی کو جہنم بنا دیا تھا، اسے غیرت نے اس حد تک سنگ دل بنا دیا کہ ایک بار آدھی رات کے بعد دو بجے میرے گھر پر آ دھمکی، چیخ و پکار اور آہ وبکا کے ساتھ مجھ پر مختلف الزامات ۔۔کی بارش کردی، کیونکہ اسکا گھرانہ بھی برباد ہونے کے راستے میں تھا۔۔

میں اعتراف کرتی ہوں کہ یہ کار گزاری اُنہی مجلسوں کی ہےجس میں ہم سب اکٹھے بیٹھتے تھے اُنہی کی وجہ سے ہمارے درمیان غیر مناسب وقت اور غیر مناسب عمر میں تعارف ہوا۔

میرا گھرانہ برباد ہوگیا، اور بچا اُسکا بھی نہیں، میں نے ہر چیز کو کھو دیا، اور اب میں جانتی ہوں کہ ہم اس طرح پھنس چکے ہیں کہ میرے اور اُس کے حالات کسی بھی مثبت قدم اُٹھانے کی اجازت نہیں دیتے، میں اسوقت اتنی منحوس ہوچکی ہوں کہ کبھی ماضی میں ایسا وقت مجھ پر کبھی نہیں گزرا، اور اب میں خیالی خوشیوں ، اور گمشدہ امید کی تلاش میں ہوں۔

ایک کے بدلے ایک

ام احمد ہمیں بتلاتی ہوئی کہتی ہے:

میرے خاوند کے کچھ شادی شدہ دوست تھے، ہم بڑے ہی مضبوط تعلقات کی بنا پر ہفتے میں ایک بار کسی کے گھر میں رات کو گپ شپ کیلئے جمع ہونے کے عادی بن چکے تھے۔

میں اپنے آپ میں اس فضا سے غیر مطمئن تھی، کہ یہاں پر رات کا کھانا، مٹھائیاں، میوہ جات، جوس، لطیفوں اور مذاق کی وجہ سے لگائے جانے والے اونچے اور بلند قہقہے، اکثر اوقات ادب کی حدود سے بھی تجاوز کر جاتے تھے۔

دوستی کے نام پر تکلف نامی کوئی چیز باقی نہیں رہی تھی، تا کہ وقتاً فوقتاً دبے ہوئے انداز میں لگائے جانے والے قہقہے سنے جاسکیں، کسی کی بیوی اور کسی کے خاوند کے درمیان خفیہ باتیں ہوں، بہت ہی کھلا مذاق بغیر کسی شرم ساری کےہوتا تھا، اور اس میں بڑے ہی جنسی، اور خواتین کے مخصوص اعضاء جیسے حساس موضوعات کو محورِ گفتگو بنایا جاتا، بلکہ یہ ایک عام سی چیز تھی ، اور سب لوگوں کیلئے قابلِ توجہ بھی۔

ان سب معاملات میں اگرچہ میں بھی ان کے ساتھ تھی لیکن میرا ضمیرمجھے جھنجھوڑتا رہتا تھا، یہاں تک کہ وہ دن بھی آگیا جس نے اس گندی فضا کے بھیانک نتائج بھی سامنے رکھ دئے۔

ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، تو فون پر انہی دوستوں میں سے ایک کی آواز تھی، میں نے اسے خوش آمدید کہا، اور ساتھ ہی میں نے مزید بات کرنے سے معذرت کر لی کہ میرا خاوند گھر نہیں ہے، لیکن اس نے مجھے جواب دیا کہ اُسے اِس بات کا علم ہے، اور اُس نے میرےلئے (!)ہی کال کی ہے، مجھے اُسکی اِس بات پر شدید غصہ آیاکہ وہ میرے ساتھ غلط کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، میں نے اسے خوب سخت منہ کی سنائی ، لیکن اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا: میرے ساتھ اتنے غیرت مند لہجے میں بات مت کرو، یہ انداز صرف اپنے خاوند کے ساتھ اپنایا کرو، اب ذرا دھیان رکھنا وہ کیا گُل کھلاتا ہے۔۔۔ اُسکی اِس بات نے مجھے اندر سے توڑ کر رکھ دیا، لیکن میں نے اپنے آپکو سنبھالا دیا، اور اپنے آپ کو سمجھایا کہ یہ شخص صرف میرے گھر کو برباد کرنا چاہتا ہے، لیکن اسکے باوجود وہ میرے ذہن میں خاوند کے متعلق شکوک پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

پھر کچھ ہی عرصے کے بعد بہت بڑی قیامت کھڑی ہوگئی، مجھے پتہ چلا کہ میرا خاوند کسی اور خاتون کے ساتھ غلط تعلق قائم کئے ہوئے ہے، اس وقت یہ معاملہ میرے لئے زندگی اور موت کا معاملہ تھا۔۔۔ میں نے اپنے خاوند کے سامنے یہ کہتے ہوئے انکشاف کیا: تم اکیلئے ہی غلط تعلقات قائم نہیں کرسکتے مجھے بھی اِسی طرح کی فرمائش کی گئی تھی، اور میں نے اسکے دوست کا سارا قصہ سنا دیا، سُن کے اُسے بہت زیادہ صدمہ لگا۔ میں نے اُسے کہا: اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے اس عورت کے ساتھ غلط تعلق کو قبول کر لوں تو مذکورہ فرمائش اس کے بدلے میں تم بھی قبول کرو۔ میں نے اسےزناٹے دار تھپڑ رسید کردیا، اور اس وقت میں خود تھر تھرا گئی تھی، اُسے پتہ تھا کہ میں اسکا حقیقی مطلب مراد نہیں لے رہی، لیکن اسے ہماری زندگی میں آنے والی مصیبت کا اندازہ ضرور ہوگیا تھا، جسکا سبب وہی گندی فضا تھی جس میں ہم رہ رہے تھے۔

میں نے اپنے خاوند کو خوب کوسا، یہاں تک کہ اس نے اُس بازاری عورت کو چھوڑ دیا ، اور بعد میں اپنی غلطی کا میرے سامنے اعتراف بھی کیا۔

واقعی اس نے بازاری عورت کو چھوڑ دیا تھا، وہ اپنے بچوں اور گھرانے میں لوٹ آیا لیکن میرے خاوند کیلئے دوبارہ میرے دل میں پہلے والا مقام و مرتبہ کون دے گا؟؟ کون اسکا احترام ،ہیبت، اور میرے سانسوں میں اسکی قدر واپس لوٹائےگا؟؟ ماضی کی گندی محفلوں سے لگنے والا ایک بہت بڑا زخم میرے دل میں باقی رہ گیا جس کی وجہ سے میں ندامت ، پشیمانی اور اندرونی جلن کا شکار رہتی، جو کہ اس بات کا گواہ بھی ہے کہ جنہیں لوگ "خوشنما رتجگا" کہتے ہیں حالانکہ وہ "بد نما رتجگا"ہیں، اور اللہ رب العزت سے رحمت کی طلب باقی رہی۔

ذہانت بھی فتنہ ہے

عبدالفتاح اپنا قصہ بیان کرتا ہےکہ :

میں ایک بہت بڑی کمپنی کے ایک ڈیپارٹمنٹ کابطور ہیڈ کام کرتا ہوں، کافی عرصہ سے میں اپنی ایک ساتھی سے بہت متاثر تھا، اسکی خوبصورتی کی بنا پر نہیں ، بلکہ ذہانت، مہارت اور کام کے ساتھ دل لگی کی وجہ سے، پھر اسکے ساتھ ساتھ وہ بہت ہی قابل احترام شخصیت کی مالک تھی، پاکباز بھی، کام کے علاوہ کہیں نہیں جھانکتی تھی، پھر تاثر ، تعلقات میں تبدیل ہوتا چلا گیا، میں شادی شدہ شخص ہوں ، اللہ سے ڈرتا ہوں ، اور فرائض کی ادائیگی میں بالکل کمی نہیں آنے دیتا۔

میں نے اس کے سامنے اپنے جذبات کھول دئے، لیکن مجھے مثبت جواب نہ ملا، وہ بھی شادی شدہ اور بال بچے دار تھی، وہ کسی بھی سبب کے تحت اور دوستی، ساتھی، پسندگی۔۔۔ کسی بھی نام سے تعلقات قائم کرنے کیلئے تیار نہیں تھی، بسا اوقات شیطانی وساوس اور خیالات آتے ہیں، کہ کاش اسکا خاوند اسے طلاق دے دے، تا کہ میں اُسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاؤں۔

میں نے اس پر کام کے ذریعے بوجھ ڈالنا شروع کردیا، اپنے افسروں کے سامنے اسکے مقام کو بگاڑنا شروع کردیا، ہو سکتا ہے کہ یہ میری انتقامی کاروائی بھی ہو، لیکن پھر بھی وہ اِسے کشادہ دلی سے قبول کرتی، کسی قسم کا غصہ، تبصرہ، یا تیور نہ چڑھاتی، وہ بس کام ، کام اور کام ہی کرتی جاتی، حقیقت تو یہ تھی کہ اسکا کام ہی اسکی مہارت کا منہ بولتا ثبوت تھا، اور اسے اچھی طرح اس بات کا اندازہ بھی تھا۔

جس قدر وہ مجھ سے دور ہونے کی کوشش کرتی اسی طرح میرے دل میں بھی اسکی محبت بڑھتی جاتی تھی۔

یہ میں ہی تھا جو عورتوں فتنے میں آسانی سے نہ آنے کا دعوی کرتا تھا، دلیل یہ دیتا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، اور ملازمت کے تقاضوں کے مطابق حدود سے تجاوز نہیں کرتا، لیکن اس نے مجھے اپنے چنگل میں پھنسا لیا۔۔۔ اس کا کیا حل ہوگا۔۔۔ مجھے نہیں معلوم۔۔ ۔

(ن ع ع) انیس سالہ ایک لڑکی ہمیں اپنی ہڈ بیتی بیان کرتی ہے:

میں اس وقت چھوٹی سی بچی تھی، رات کے وقت ہمارے گھر میں جمع ہونے والے دوستوں کو دیکھتی تھی، مجھے یاد ہے کہ میں ایک شخص کی تمام حرکات و سکنات اور اسکے چال چلن کو خوب غور سے دیکھتی ، اور وہ شخص میرا باپ تھا، اسکی آنکھیں وہاں موجود خواتین کو تاڑتی رہتی تھیں، اُسکی نظریں کبھی اُنکی رانوں پر تو کبھی انکے سینے پر پڑتی تھیں، وہ کبھی کس کی آنکھوں پر غزلیں جڑ دیتا، تو کبھی کسی کے بالوں پر ، اور کبھی کسی کی کمر پر۔ میری ماں بیچاری ان دعوتوں کیلئے جبراً تیاری میں لگی رہتی، میری ماں بہت ہی سادہ سی خاتون تھی۔

ان مہمان خواتین میں ایک خاتون میرے والد کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں لگی رہتی تھی، کبھی اسکے قریب آکر بیٹھ جاتی، توکبھی مٹک مٹک کر حرکتیں کرتی، میں اُسے بڑے اہتمام کے ساتھ دیکھتی تھی، جبکہ میری والدہ باورچی خانہ میں اپنے مہمانوں کیلئے کھانے کی تیاری میں مشغول رہتی۔

پھر اچانک ہی رات کی یہ مجلسیں ختم ہو گئیں، میں نے اپنی صغر سنی کے باوجود کچھ سمجھنے کی کوشش کی کہ ہوا کیا ہے؟لیکن مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔

مجھے اچھی طرح یا د ہے کہ اسوقت میری والدہ مکمل طور پر دل شکستہ ہوچکی تھیں، اور اسکے بعد ہمارے گھر میں میرے والد کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتی تھیں، میں کچھ بڑی عمر کے لوگوں کو اپنے ارد گرد ایک دوسرے کے کانوں میں کھسر پھسر کرتے ہوئے (خیانت ، بیڈ روم، اُس نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا، بازاری خاتون، بڑی شرمناک حالت میں،۔۔۔۔)کہتے ہوئے سنتی تھی جو صرف سمجھدار افراد ہی سمجھ سکتے تھے۔

میں جب بڑی ہوئی تو سب کچھ سمجھ گئی، اور مجھے تمام مردوں سے نفرت ہوگئی، یہ سب خیانت کرتے ہیں، میری ماں اندر سے ٹوٹی ہوئی ہے، جو بھی ہمارے پاس آتا ہےوہ میری والدہ پر تہمت لگاتا ہے کہ یہ مَردوں کو اُچک لیتی ہے، اور عنقریب ہی میرے والد کو بھی کہیں گِرا دے گی، جبکہ میرا باپ وہ،،، ابھی بھی اپنا پسندیدہ مشغلہ اپنائے ہوئے ہے، اور وہ ہے خواتین کے ساتھ خر مستیاں لیکن گھر سے باہر، میری عمر اسوقت انیس سال ہے، میں بہت سے نوجوان چھوکروں کو جانتی ہوں، مجھے اِن سے انتقام لیتے ہوئے بڑا ہی مزا آتا ہے، کہ وہ بالکل میرے باپ جیسا رویہ اپناتے ہوئے نظر آتے ہیں، میں انہیں دھوکہ دے کر پھنساتی ہوں، لیکن انہیں اپنا ایک بال بھی چھونے نہیں دیتی، وہ میری چونچلی حرکتوں کی وجہ سے شاپنگ مال، مارکیٹوں میں میرے پیچھے پیچھے رہتے ہیں، میرا فون کبھی بھی خاموش نہیں ہوتا، اور بسا اوقات مجھے خواتین اور میری ماں کی طرف سے انتقام لیتے ہوئے بہت ہی فخر محسوس ہوتا ہے، اور اکثر اوقات مجھے اتنی مایوسی ہوتی ہے کہ میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔ میری زندگی میں ایک بہت ہی بڑا سیاہ بادل چھایا ہوا ہے جو کہ میرا والد ہے۔

سر سے پانی گزرنے سے پہلے

(ص ن ع) اپنا تجربہ بیان کرتی ہے:

میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ کبھی مجھے اپنی ملازمت کے دوران مردوں سے بھی واسطہ پڑے گا، لیکن ایسا حقیقت میں ہوگیا۔۔ میں ابتدا میں نقاب استعمال کرتے ہوئے مردوں سے پردہ کیا کرتی تھی۔

لیکن مجھے کچھ بہنوں نے مشورہ دیا کہ :یہ لباس میرے جسم کو مزید نمایاں کردیتا ہے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ آپ نقاب نہ کیا کریں ، اور ویسے بھی آپ کی آنکھیں کچھ منفرد بھی ہیں۔

تو میں نے بھی انکی بات مانتے ہوئے کہ بہتر یہ ہے کہ نقاب اتار دوں تو میں نے اپنے چہرے کا پردہ اتار دیا۔۔ لیکن اختلاط کے ساتھ کچھ دن گزرنے کے بعد مجھے اوپرا پن محسوس ہوا جسکی وجہ یہ تھی کہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ گپ شپ، ہنسی مذاق میں حصہ نہیں لیتی تھی ، اور سب لوگ یہی کہتے تھے کہ (انکی نظر میں اس وحشی) عورت سے بچ کر رہو۔

یہ بات ایسے شخص نے بیان کی جس نے بالکل واضح لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ میں مغرور اور تکبر کرنے والی شخصیت سے کوئی تعامل نہیں کرنا چاہتا، جبکہ میں ایسی بالکل نہیں تھی، میں اسکے برعکس تھی، اس کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اپنے آپ پر ظلم کیوں کروں؟ اور اپنے ساتھیوں کیلئے ناپسندیدہ انداز کیوں اختیار کروں، تو میں بھی انکے ساتھ گپ شپ، اور ہنسی مذاق میں شرکت کرنے لگی۔

اس کے بعد سب کو پتہ چل گیا کہ میں بھی گفتگو کرنے میں بڑی مہارت رکھتی ہوں، اور مجھے دوسروں کو قائل اور انہیں متاثر کرنے کا ڈھنگ بھی آتا ہے، اسی طرح میرے بات کرنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جو پر اعتماد اور مزید برآں کچھ ساتھیوں کیلئے دلکش بھی ہوتا تھا، ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ میں نے اپنے انچارج کے چہرے پر بھی میرے انداز کی وجہ سے اثرات دیکھنے کو ملے، وہ میرے انداز گفتگو، جسمانی اشاروں، سے بڑا محظوظ ہوتا، بلکہ جان بوجھ کر ایسے موضوعات کو چھیڑ دیتا تھا جس میں بھی اپنی رائے پیش کروں، مجھے اسکی نظریں کچھ عجیب سی دیکھائی دیتیں، اور میں اس بات کا بھی انکار نہیں کرتی کہ اس آدمی کا تھوڑا بہت خیال میرے دل میں بھی اتر چکا تھا، اگرچہ مجھے اس بات پر تعجب بھی ہوتا تھا کہ کتنی آسانی سے ایک آدمی دیندار خاتون کے جال میں پھنس جاتا ہے، اور اگر عورت خود ہی بے پردہ ہو، اور جسم فروشی اُسکا کام ہوتو پھر کیا حال ہوگا!؟

یہ سچ ہے کہ میں نے اسکے بارے میں کبھی غیر شرعی طریقے سے نہیں سوچا تھا، لیکن پھر بھی وہ شخص غیر معمولی مدت تک میرے دماغ میں چھایا رہا، اور پھر میرے ضمیر نے یہ گوارا نہیں کیا کہ میں اس اجنبی کیلئے تفریح کا باعث بنوں چاہے معنوی تفریح ہی کیوں نہ ہو، اس کیلئے میں نے وہ تمام راستے بند کردئیے جس کی بنا پر مجھے اسکے ساتھ علیحدہ بیٹھنا پڑے، میں اِس ساری آپ بیتی کے بعد کچھ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہوں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

1- کچھ بھی ہو، اور جیسا بھی ماحول ہو خواتین و حضرات کے درمیان آپس میں میلان پایا جاتا ہے، اس کا مرد یا عورت جتنا مرضی انکار کرے لیکن یہ حقیقت ہے، بسا اوقات یہ میلان جائز انداز سے شروع ہوکر ناجائز تک پہنچا دیتا ہے۔

2- انسان اپنی حفاظت کیلئے جتنے مرضی حفاظتی حصار قائم کر لے لیکن پھر بھی وہ شیطانی چالوں سے پر امن نہیں رہ سکتا۔

3- اگر کوئی اپنے آپ کے بارے میں ضمانت دے اور جنس مخالف کے ساتھ عقلی اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئےاس کے ساتھ تعامل کرے تو پھر بھی فریق ثانی کے احساسات، جذبات کی ضمانت نہیں دے سکتا۔

4- آخری بات یہ ہے کہ، اختلاط کسی بھی شکل میں اچھا نہیں ، اسکی وجہ سے کبھی بھی توقع کئے جانے والے فوائد حاصل نہیں ہوتے، بلکہ اسکی وجہ سے فکرِ سلیم کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

اگر معاملہ ایسے ہی تو کیا کریں؟

اختلاط سے متعلقہ تمام امور کا جائزہ لینےکے بعد ہم پوچھتے ہیں کہ اب کیا کریں؟

اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس بات کا اعتراف کریں کہ اختلاط کو جتنا مرضی خوبصورت بنا کر پیش کریں، یا اسے معمولی سمجھیں ، اسکے بھیانک نتائج ہمیں ضرور حاصل ہونگے، انہی نتائج کی وجہ سے ہمارا عائلی نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔

فطرتِ سلیم اس بات کو یکسر مسترد کرتی ہے کہ اختلاط سماجی تعلقات کیلئے صحت مند فضا ہے، اسی فطرتِ سلیم ہی کی وجہ سے مذکورہ بالا تحقیق میں شرکت کرنے والے 76 فیصد لوگوں نے غیر مختلط جگہ میں کام کو ترجیح دی تھی، اور 76 فیصد لوگوں نے یہ بھی کہا تھا کہ شرعی طور پر اختلاط جائز نہیں ہے۔

یہاں پر قابلِ توجہ بات یہ نہیں کہ ہمارے معاشرےمیں موجود اتنی بڑی تعداد صاف ذہن کی مالک ہے، بلکہ جس بات نے ہمیں سوچنے پر مجبور کیا وہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اختلاط کو جائز قرار دیا جن کی نسبت 12 فیصد تھی ، انہوں نے کہا تھا کہ بغیر کسی استثناء کے اختلاط جائز ہے بس دین، عرفِ عام، عادات، اخلاقیات، ضمیر، پاکیزگی، اور پاکدامنی۔۔۔ وغیرہ جیسی بلند اخلاقی اقدار کی حامل صفات کے دائرے میں رہتے ہوئےجائز ہے، جسکی وجہ سے اِن لوگوں کے ہاں اختلاط کی حد بندی کی جاسکتی ہے۔

ہم اِنہی لوگوں سے پوچھتے ہیں، اپنے معاشرے میں ، بازاروں میں، ملازمت کی جگہوں پر ، عائلی اور سماجی ملاقاتوں میں جس اختلاط کو ہم دیکھ رہے ہیں، کیا مذکورہ بالا صفات ان پر صادق آتی ہیں؟ یا ان جگہوں میں لباس، گفتگو، اور تعامل میں حدیں توڑنے کا مقابلہ کیا جاتا ہے؟! ہمیں ان جگہوں پر بے پردگی، بے حیائی، گمراہ کن مناظر، غیر اخلاقی تعلقات، جہاں اخلاق اور نہ ہی ضمیر، ایسے لگتا ہے کہ زبانِ حال چیخ چیخ کر پکار رہی ہے: "اس اختلاط کو وہ لوگ بھی جائز قرار نہیں دیتے جو صحت مند فضا میں اختلاط کو جائز قراردیتے ہیں"

ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ اختلاط ہی برائیوں کیلئے بنیادی اکائی ہے،جو کہ معاشرے میں موجود بلند اخلاقی اقدار کی مالک فطرتوں کیلئے ذرخیز زمین کی طرح ہے، جس کے آس پاس ، اور در و دیوار میں نشو ونما پاتا ہے، پھر اتنا پھلتا اور پھولتا ہے کہ اسکی جڑیں مضبو ط ہوجاتی ہیں، اور انتہائی خفیہ اور پوشیدہ انداز میں تمام فتنوں کا خاموش سرغنہ بن جاتا ہے، اور کسی کو احساس تک نہیں ہوتا، اسی کے سائے میں دل و دماغ برباد ہوتے ہیں، شہوت کو شہہ ملتی ہے، ازدواجی خیانت پروان چڑھتی ہے، جس سے گھرانے تباہ ہوجاتے ہیں۔

ہم اللہ تعالی سے سلامتی، عافیت، اور اصلاح احوال مانگتے ہیں، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد پر درود نازل فرمائے .


از:-
شیخ محمد بن صالح المنجد
 

x boy

محفلین
مکہ مکرمہ میں مسجدحرام کی تاريخی معلومات
الحمد للہ
مسجدحرام جزیرہ عرب کے ایک شہر مکہ مکرمہ میں واقع ہے جوکہ سطح سمندرسے 330 میٹرکی بلندی پرواقع ہے ، مسجدحرام کی تعمیری تاریخ عھد ابراھیم خلیل اوراسماعیل علیہ السلام سے تعلق رکھتی ہے ، اوراسی شہرمیں ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ پیداہوئے اوریہی شہرمھبط وحی بھی ہے جہاں پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم پروحی کی ابتدا ہو‏ئ ۔
یہی وہ شہر ہے جس سے اسلامی نور پھیلا اوریہاں پرہی مسجد حرام واقع ہے جوکہ لوگوں کی عبادت کے لیے بنائ گئ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اللہ تعالی کا پہلا گھر جولوگوں کے لیے مقرر کیا گيا وہ ہی ہے جومکہ مکرمہ میں ہے جوتمام دنیا کے لیے برکت وھدایت والا ہے } آل عمران ( 96 ) ۔

اورصحیح مسلم میں ابوذررضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث مروی ہے کہ :

ابوذررضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوپوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائ گئ ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسجدحرام ۔

میں نے کہا کہ اس کے بعد کون سی ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسجداقصی ۔

میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنی مدت کا فرق ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چالیس برس ۔

کعبہ جوکہ مشرق ومغرب میں سب مسلمانوں کا قبلہ ہے مسجدحرام کے تقریباوسط میں پایا جاتا ہے جس کی بلندی تقریبا پندرہ میٹر ہے اوروہ ایک چوکور حجرہ کی شکل میں بنایا گيا ہے جسے ابراھیم علیہ السلام نے اپنے رب کے حکم سے بنایا ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اورجبکہ ہم ابراہیم علیہ السلام کوکعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کردی اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کوشریک نہ کرنا اورمیرے گھر کوطواف قیام رکوع کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا } الحج ( 26 ) ۔

اوربوانا کا معنی اس کی طرف راہنمائ کی اوراس کی تعمیر کی اجازت دی ۔ تفسیرابن کثیر ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ ابراہیم اوراسماعیل علیہ السلام علیہم السلام کعبہ کی دیواریں اٹھاتے جاتے اورکہتے جا رہے تھے } البقرۃ ( 127 ) ۔

وھب بن منبہ رحمہ اللہ تعالی کا کنہا ہے : کعبہ کوابراھیم علیہ السلام نے تعمیر کیا پھر ان کےبعد عمالقہ نے اورپھر جرھم اوران کے بعد قصی بن کلاب نے بنایا ، اورپھرقریش کی تعیر تومعروف ہی ہے ۔

قریش کعبہ کی تعمیر وادی کے پتھروں سے کرنے کے لیے ان پتھروں کو اپنے کندھوں پراٹھا کرلاتے اوربیت اللہ کی بلندی بیس ہاتھ رکھی ، کعبہ کی تعمیر اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم پروحی کے نزول کا درمیانی وقفہ پانچ برس اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ سے نکل کرمدینہ جانے اورکعبہ کی تعمیر کی درمیانی مدت پندرہ برس تھی ، اس کا ذکر عبدالرزاق نے عن معمر عن عبداللہ بن ‏عثمان عن ابی الطفیل سے کیا ہے ۔

اورعن معمر عن زھری رحمہم اللہ تعالی سے بیان کیا ہے کہ :

جب وہ اس کی بنیادیں اٹھا کر حجر اسود تک پہنچے تو قریشی قبا‏ئل کا حجر اسود میں اختلاف پیدا ہوگیا کہ اسے کون اٹھا کراس کی جگہ پررکھے گا حتی کہ لڑائ تک جاپہنچے تووہ کہنے لگے کہ چلو ہم اپنا منصف اسے بنائيں جوسب سے پہلے اس طرف سے داخل ہو تو ان کا اس پر اتفاق ہوگیا ۔

تووہ آنے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جوکہ اس وقت نوجوان تھے اورانہوں نے اپنے کندھوں پردھاری دارچادر ڈال رکھی تھی توقریش نے انہيں اپنا فیصل مان لیا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑامنگوا کرحجر اسود اس میں رکھا اورہرقبیلے کے سردارکوچادرکے کونے پکڑکراٹھانے کا حکم دیا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کواپنے ہاتھوں سے اٹھاکر اس کی جگہ پر نصب کردیا ۔ دیکھیں تارخ مکہ للازرقی ( 1 / 161 - 164 ) ۔

امام مسلم رحمہ اللہ تعالی لے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے حدیث بیان فرمائ ہے کہ :

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم ( کعبہ کے ساتھ چھوٹی سی دیوار میں گھری ہو‏ئ جگہ ) کے بارہ میں سوال کیا کہ کیا یہ بیت اللہ کا ہی حصہ ہے ؟

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جی ہاں ، ‏عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا کہ اسے پھر بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کيا گيا ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا کہ تیر قوم کے پاس خرچہ کے لیے رقم کم پڑگئ تھی ۔

میں نے کہا کہ بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تیری قوم نے اسے اونچا اس لیے کیا تا کہ وہ جسے چاہیں بیت اللہ میں داخل کریں اورجسے چاہیں داخل نہ ہونے دیں ۔

اوراگرتیری قوم نئ نئ مسلمان نہ ہوتی اوران کے دل اس بات کوتسلیم سے انکارنہ کرتے تومیں اسے ( حطیم ) کوبیت اللہ میں شامل کردیتا اوردروازہ زمین کے برابرکردیتا ۔

قبل ازاسلام کعبہ پرابرہہ حبشی نے ہاتھیوں کے ساتھ چڑھائ کردی ( یہی وہ سال ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوتی ہے ) اس کا سبب یہ تھا کہ ابرہہ نے ایک کنیسہ ( گرجا ) تعمیرکروایا تاکہ وہ عرب کواس طرف کھینچ سکے اوربیت اللہ کا حج کرنے کی بجائے وہ لوگ اس کا حج کیا کریں ، تو ایک ہاتھیوں کا لشکر عظیم لے کرچلا جب وہ مکہ کے قریب پہنچا تواللہ تعالی نے ابابیل پرندے جن کے منہ اورپنجوں میں تین تین چھوٹےچنے کے برابر کنکر تھے بھیجا وہ پتھر جسے لگتا وہ ہلاک ہو جاتا ۔

تواس طرح یہ مکمل لشکر اللہ تعالی کے حکم سے تباہ وبرباد ہوگيا اللہ تعالی نے اس حادثہ کو کتاب عزيز قرآن مجید میں کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے :

{ کیا تونے یہ نہیں دیکھا کہ آپ کےرب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا ؟ کیا ان کی سازش ومکرکو بے کار نہیں کردیا ؟ اوران پرپرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیئے ، جوانہیں مٹی اورپتھر کی کنکریاں ماررہے تھے ، پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا }الفیل ۔دیکھیں: السیرۃ النبویۃ لابن ھشام (1/ 44 )

اوربیت اللہ کے ارد گرد کو‏ئ چار دیورای نہیں تھی حتی کہ اس کی ضرورت محسوس کی گئ توپھربنائ گئيں ۔

یاقوت الحموی نے محجم البلدان میں لکھا ہے کہ :

کعبہ کے اردگرد چاردیواری سب سے پہلے عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے بنوا‏ئ یہ نہ تو دورنبوی صلی اللہ علیہ وسلم اورنہ ہی خلیفہ اول ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کے دورخلافت میں تھی ۔

اوریہ چاردیواری بنانے کا سبب یہ تھا کہ لوگوں نے مکانات بنا کر بیت اللہ کوتنگ کردیا اوراپنے گھروں کو اس کے بالکل قریب کردیاتو عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے :

بلاشبہ کعبہ اللہ تعالی کا گھر ہے اورپھرگھرکے لیے صحن کا ہونا ضروری ہے ، اور معاملہ یہ ہے کہ تم لوگ اس پرآئے ہو اورتجاوزکیاہے نہ کہ اس نے توعمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے ان گھروں کوخرید کرمنھدم کرکے اسے بیت اللہ میں شامل کردیا ۔

اورمسجدکے پڑوسیوں میں سے کچھ ان لوگوں کے گھربھی منھدم کردیئے جنہوں نے اپنے مکانات بیچنے سے انکار کردیا اوراسے کے بدلہ میں ان کی قیمت مقررکی جو کہ مالکان نے بعد میں لے لیے ۔

تواس طرح مسجد کے اردگرد قدسے چھوٹی دیوار بنا دی گئ جس پر چراغ رکھے جاتے تھے ، اس کے بعد عثمان رضي اللہ تعالی عنہ نے بھی کچھ اورگھر خریدے جس کی قیمت بھی بہت زیاد ادا کی ، اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ عثمان رضي اللہ تعالی عنہ ہے وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مسجد کی توسیع کرتے وقت ایک ستون والے مکان بنائے ۔

اورابن زبیررضي اللہ تعالی عنہ نے مسجد نے مسجد کی توسیع نہیں بلکہ اس کی مرمت وغیرہ کروائ اوراس میں دروازے زیادہ کیے اورپتھرکے ستون بنائے اوراس کی تزیین آرائش کی ۔

اور عبدالملک بن مروان نے مسجد کی چاردیواری اونچی کروائ اورسمندر کے راستے مصرسے ستون جدہ بھیجے اورجدہ سے اسے گاڑھی پررکھ کر مکہ مکرمہ پنچائے اورحجاج کوحکم دیا کہ وہ اسے وہاں لگائے ۔

جب ولید بن عبدالملک مسند پربیٹھا تواس نے کعبہ کے تزيین میں اضافہ کیا اورپرنالہ اورچھت میں کچھ تبدیلی کی ، اوراسی طرح منصوراوراس کے بیٹے مھدی نے بھی مسجد کی تزیین آرائش اورشکل میں اضافہ کیا ۔

اورمسجد حرام میں کچھ دینی آثاربھی ہیں ، جن میں مقام ابراھیم وہ پتھر ہے جس پرابراھیم علیہ السلام کھڑے ہوکربیت اللہ کی دیواریں تمعیرکرتے رہے ، اوراسی طرح مسجد میں زمزم کا کنواں بھی ہے جوایسا چشمہ ہے جسے اللہ تعالی نے اسماعیل علیہ السلام اوران کی والدہ ھاجر ہ کے لیے نکالاتھا ۔

اوراسی طرح یہ بھی نہیں بھولا جاسکتا کہ اس میں حجراسود اوررکن یمانی بھی ہے جوکہ جنت کے یاقوتوں میں سے دویاقوت ہیں جیسا کہ امام ترمذی اورامام احمد رحمہا اللہ تعالی نے حدیث بیان کی ہے :

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا :

بلاشبہ حجر اسود اورمقام ابراھیم جنت کے یاقوتوں میں سے یاقوت ہيں اللہ تعالی نے ان کے نوراورروشنی کوختم کردیا ہے اگراللہ تعالی اس روشنی کوختم نہ کرتا تومشرق ومغرب کا درمیانی حصہ روشن ہوجاتا ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 804 ) ۔

مسجد حرام کے ملحق میں صفااورمروہ پہاڑیا ں بھی ہیں ، اور صرف اکیلی مسجد حرام کی یہ خصوصیت ہے کہ زمین میں جس کا حج کیا جاتا ہے اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا :

{ صفا اورمروہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہیں اس لیے بیت اللہ کا حج وعمرہ کرنے والے پران کا طواف کرلینے میں بھی کوئ گناہ نہیں ، اپنی خوشی سے بھلائ کرنے والوں کا اللہ تعالی قدردان ہے اورانہیں خوب جاننے والا ہے } البقرۃ ( 158) ۔

اورمسجدحرام کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اسے امن کا گہوارہ بنایا ہے اوراس میں ایک نماز ایک لاکھ کے برابر ہے ، فرمان باری تعالی ہے :

{ ہم نے بیت اللہ کولوگوں کے لیے ثواب اورامن وامان کی جگہ بنائ ، تم مقام ابراھیم کوجائے نماز مقرر کرلو ، ہم نے ابراھیم اوراسماعیل علیہما السلام سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھرکوطواف کرنے والوں اوررکوع وسجدہ کرنےوالوں کے لیے پاک صاف رکھو } البقرۃ ( 125 ) ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

{ جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں مقام ابراھیم ہے اس میں جو آجائے امن والا ہو جاتا ہے ، اللہ تعالی نے ان لوگوں پر جواس کی طرف راہ پاسکتے ہوں اس گھرکا حج فرض کردیا ہے ،اورجوکو‏ئ کفر کرے تو اللہ تعالی ( اس سے بلکہ ) تمام دنیا سے بے پرواہ ہے } آل عمران ( 97 )

دیکھیں : آخبارمکہ للازرقی ۔ اوراخبارمکہ للفاکھی ۔

اوراللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا اورصحیح اورسیدھے راہ کی راہنمائ کرنے والا ہے ۔

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد
 

x boy

محفلین
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پربہتان لگانے والے کا حکم


الحمد للہ
عائشہ اوردوسری امہات المومنین عمومی طورپرصحابہ کرام میں شامل ہیں توجس نص میں بھی صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم پرسب وشتم سے منع کیا گيا ہے اس میں عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا بھی شامل ہیں ذیل میں ہم چند ایک احاديث پیش کرتے ہیں :
ابوسعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( میرے صحابہ پرسب وشتم نہ کرو اگرتم ميں سے کوئ ایک احدپہاڑ کے برابر سونا بھی اللہ کے راہ میں خرچ کردے تووہ ان کے ایک مٹھی ( مد ) یا اس کے نصف تک بھی نہیں پہنچ سکتا ) صحیح بخاری دیکھیں فتح الباری حدیث نمبر ( 3379 ) ۔

پھردوسری بات یہ بھی ہے کہ علماء اھل سنت اس پر متفق ہیں کہ جس نے عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا پراس معاملہ میں طعن کیا جس سے اللہ تعالی نے انہیں بری قرار دیا ہے تو وہ شخص کا فر ہے اورسورۃ النور میں اللہ تعالی کی ذکرکردہ برات کی تکذیب ہے ۔

امام ابن حزم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی سند سے ھشام بن عمار رحمہ اللہ تک بیان کیا ہے کہ ھشام کہتے ہیں میں نے امام مالک بن انس رحمہ اللہ تعالی کویہ فرماتے ہوئے سنا :

جس نے ابوبکر اورعمر رضي اللہ تعالی عنہما پرسب و شتم کیا اسے کوڑے مارے جائيں گے ، اورجس نے ام المومنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پرطعن اورسب وشتم کی اسے قتل کیا جائے گا ۔

امام مالک رحمہ اللہ کوکہا گیا کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے بارہ میں قتل کیوں کیا جائے گا ؟

انہوں نے جواب دیا ، اس لیے کہ اللہ تعالی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے بارہ میں فرماتے ہیں :

{ اللہ تعالی تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم پکے اورسچے مومن ہوتو پھرکبھی بھی ایسا کام نہ کرنا } النور ( 17 ) ۔

امام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں اب جس نے بھی ان پربہتان لگایا اس نے قرآن مجید کی مخالفت کی اورجوقرآن مجید کی مخالفت کرتا ہے وہ قتل کیا جائے گا ۔

حافظ ابن حزم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ : امام مالک رحمہ اللہ تعالی کا یہاں پریہ قول سوفیصد صحیح ہے اس لیے کہ یہ مکمل ارتداد کےساتھ ساتھ اللہ تعالی کی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بارہ میں قطعی برات کی تکذيب بھی ہے ۔

ابوبکرابن عربی کا کہنا ہے کہ :

اس لیے کہ بہتان ترازی کرنے والوں نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پر فحاشی کا بہتان لگایا تواللہ تعالی نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کواس سے بری کردیا ، تواب جوبھی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پرسب وشتم اوران پربہتان لگاتا ہے دراصل وہ اللہ تعالی کی تکذیب ہے اورجو اللہ تعالی کی تکذیب کرے وہ کافرہے ، امام مالک اوراہل بصیرت کا بھی یہی راہ ہے ۔

قاضی ابویعلی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اللہ تعالی کی برات نازل ہونے کے بعد جس نے بھی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پربہتان لگایا وہ اتفاقا کا فر ہے ، اوراس حکم پرکئ ایک نے اجماع بھی نقل کیا ہے اوراسی طرح کئ ایک آئمہ نے اس حکم بھی صراحت بھی کی ہے ۔

ابن ابی موسی رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بارہ میں اللہ تعالی کی برات نازل ہونے کے بعد جس نے بھی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پربہتان لگایا وہ دین اسلام سے خارج ہے اورکسی مسلمان عورت سے اس کا نکاح نہیں ہوسکتا ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اورام المومنین رضی اللہ تعالی عنہن جو کہ ہرفحش کام سے بری ہیں کے بارہ میں رضی اللہ تعالی عنہا کہنا سنت ہے ، ان میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد ہیں ۔

اورعائشہ صدیقہ بنت صدیق رضي اللہ تعالی عنہ وہ ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن مجید میں منافقوں کے بہتان سے بری قرار دیا ہے اوروہ دنیا آخرت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں اب جوبھی اللہ تعالی کی برات کے بعدان پربہتان لگائے اس نے تعالی کے ساتھ کفرکا ارتکاب کیا ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی بہتان سے برات قرآنی نص کے ساتھ قطعی ہے جوبھی اس میں شک کرے وہ مسلمانوں کے اجماع سے کافراور مرتد ہوگا اللہ تعالی اس سے بچا کے رکھے ۔

اورحافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

امت کا پراتفاق ہے کہ جوبھی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پربہتان لگے وہ کافر ہے ۔

حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

جمیع علماء کرام اس پرمجتمع ہیں کہ جس نے بھی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پرسب وشتم کیا اوراس آیت میں برات کا ذکر ہونے کےباوجود وہ بہتان لگائے تو کافر اورقرآن کا دشمن اورکافر ہے ۔

اوربدرالدین زرکشی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :

قرآن کریم میں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی صریحا برات کے باوجود جوشخص عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پربہتان لگائے وہ کافر ہے ۔

علماء کرام نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پربہتان لگانے والے کوکافر قرار دینے کی بنیادکئی ایک دلائل ہيں جن میں چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے :

1 - سورۃ النور میں نازل شدہ آيات سےعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی برات پرصریحا استدلال ، تواب اللہ تعالی کے بری کردینے کےبعد جو بھی ان پرتہمت لگاتا ہے وہ اللہ تعالی کی تکذیب کرتا ہے اوراللہ تعالی کی تکذيب کرنے والے کے کفر میں کسی قسم کا کوئ شک نہیں ۔

2 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں طعن تشنیع اوربہتان طرازي میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواذیت ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دینا بلاشک وشبہ اجماعا کفر ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواذیت دینا کفر ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ پرتہمت لگانا بھی اذیت ہے جس کی دلیل میں امام بخاری رحمہ اللہ الباری اورامام مسلم رحمہ اللہ المنعم نے اپنی اپنی صحیح میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سےحدیث افک نقل کی ہے :

عائشہ رضي اللہ تعالی بیان فرماتی ہيں کہ اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے بارہ میں عذر طلب کررہے تھے اوروہ منبر پر کھڑے ہوکر فرمانے لگے :

اے مسلمانوں کی جماعت کون ہے جو مجھے اس شخص کے بارہ میں کون مجھے معذورجانے گا جس نے مجھے میرے گھر والوں کے متعلق بہت زیا دہ اذیت دی ہے اور اللہ تعالی کی قسم میں نے تواپنی گھر والوں ( بیوی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا مراد ہیں ) کواچھائ‏ اوربھلائ پر ہی پایا ہے ۔۔۔ الحدیث ۔

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ( کون ہے جومیرا عذر مانے گا ) یعنی میرے ساتھ کون انصاف کرے گا اورجب میں اس کے ساتھ انصاف کا معاملہ کروں اس لیے کہ اسے نے مجھے میرے گھروالوں کے بارہ میں بہت ہی زیادہ تکلیف اوراذیت دی ہے ۔

تو اس سے ہمیں یہ علم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بہتان سے اذیت اورتکلیف محسوس کی ۔

امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی فرمان باری تعالی { اللہ تعالی تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم پکے اورسچے مومن ہوتو پھرکبھی بھی ایسا کام نہ کرنا } النور ( 17 ) کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں :

یعنی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے بہتان کے بارہ میں تم دوبارہ کوئ ایسی بات کرو ، اس لیے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی عزت اورگھروالوں کے بارہ میں اذیت پہنچتی ہے ، اوریہ کام جو بھی کرے وہ کافر ہے ۔

3 - اور یہ بھی کہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا میں طعن وتشنیع اصل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرہی طعن وتشنیع ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ { خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں } ۔

اس کی تفسیرمیں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہی اس لیے بنایا تھا کہ وہ طیب اورپاکبازتھیں ، اوراس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب انسانوں میں سے زیادہ پاکباز تھے ، اوراگر عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پاکباز نہیں تھیں توشرعی طورپروہ نبی صلی اللہ کی زوجیت کے لائق ہی نہیں تھی ۔

پھرآخرمیں ہمیں یہ بھی علم ہونا چاہيئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں محبوب ترین شخصیت عائشہ صدیقہ بنت صدیق رضي اللہ تعالی عنہا ہی ہیں جس طری کہ اس کا ذکر عمروبن عاص رضي اللہ تعالی عنہا کی حدیث میں بھی ملتا ہے :

عمرو بن عاص رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ذات السلاسل میں بھیجا وہ کہتے ہیں کہ میں واپس آیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا :

لوگوں میں سے آپکوسب سے زيادہ محبت کس سے ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائشہ ( رضي اللہ تعالی عنہا ) سے ، میں نے کہا کہ مردوں میں سے کون ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے والد ( ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ ) سے ، میں کہا کہ اس کے بعد پھر کون ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عمر بن الخطاب ( رضي اللہ تعالی عنہ ) اوربھی کئ آدمی گنے ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3662 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2384 ) ۔

تواب جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب شخصیت سے بغض رکھے وہ اس بات کا زيادہ حق رکھتا ہے کہ وہ روز قیامت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں مبغوض ترین شخص ہو ۔

اللہ تعالی ہی سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے ۔

دیکھیں کتاب :

عقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ الکرام تصنیف : ناصر الشیخ ( 2 / 871 )

اورمحمد الوھیبی کی کتاب : اعتقاد اھل السنۃ فی الصحاب۔ۃ ( ص 58 ) ۔

واللہ تعالی اعلم .
 

x boy

محفلین
محمد صلی اللہ علیہ وسلم
الحمدللہ

بنواسرائيل میں اختلاف پیدا ہوا اورانہوں نے اپنے عقیدے اورشریعت میں تبدیلی اورتحریف کرڈالی توحق مٹ گيا اورباطل کاظہورہونے لگا اورظلم وستم اورفساد کا دوردوراہوا امت اورانسانیت کوایسے دین کی ضرورت محسوس ہو‏ئ جو حق کوحق اورباطل کومٹائے اورلوگوں کوسراط مستقیم کی طرف چلائے تو رحمت الہی جوش میں آئ اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث فرمایا :

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

{ اس کتاب کوہم نے آپ پراس لیے اتارا ہے کہ آپ ان کے لیے ہر اس چيزکو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اور یہ ایمان داروں کے لیے راہنمائ اوررحمت ہے } النحل ( 64 ) ۔

اللہ تبارک وتعالی نے سب انبیاء ورسل اس لیے مبعوث فرمائے تا کہ وہ اللہ وحدہ کی عبادت کی دعوت دیں اورلوگوں کواندھیروں سے نور ھدایت کی طرف نکالیں ، توان میں سب سے پہلے نوح علیہ السلام اورآخری محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :

{ ہم نے ہرامت میں رسول بھیجا کہ ( لوگو) صرف اللہ وحدہ کی عبادت کرو اورطاغوت سے بچو } النحل ( 36 ) ۔

اورانبیاءورسل میں آخر اورخاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے بعد کوئ نبی نہیں ۔

اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

{ ( لوگو) تمہارے مردوں میں سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ تعالی کے رسول اور خاتم النبیین ہیں } الاحزاب (40)

اورہرنبی خاص طورپراس کی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا لیکن اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسب لوگوں کی طرف عام بھیجا گيا ہے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

{ اورہم نے آپ کوتمام لوگوں کے لیے خوشخبریاں سنانے والا اورڈرانے والا بنا کربھیجا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اسے کا علم نہیں رکھتی } سبا ( 28 ) ۔

اوراللہ تبارک وتعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرقرآن مجید نازل فرمایا تا کہ وہ انہیں ان کے رب کےحکم سے اندھیروں سے نوراسلام کی روشنی کی طرف نکالیں ۔

اللہ عزوجل نے فرمایا :

{ الر یہ عالی شان کتاب ہم نے آّپ کی طرف اس لیے اتاری ہے کہ آّپ لوگوں کوان کے رب کے حکم سےاندھیروں سے اجالے اورروشنی کی طرف لائيں ، زبردست اورتعریفوں والے اللہ کے راہ کی طرف } ابراھیم ( 1 ) ۔

محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب الھاشمی قریشی عام فیل جس میں ہاتھیوں والے کعبہ منھدم کرنے آئے تھے تواللہ تعالی نے انہيں نیست نابود کردیا میں مکہ مکرمہ کے علاقہ میں پیدا ہوئے ۔

آّپ ابھی ماں کے پیٹ میں ہی تھے توان کے والد کا انتقال ہوگيا اورآپ یتیمی کی حالت میں پیدا ہوئے اورانہیں حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلایا ، پھر والد آمنہ بنت وھب کے ساتھ اپنے مامووں کی زيارت کے لیے مدینہ آئے اورمدینہ سے مکہ واپس آتے ہوئے راستے میں ابواء نامی جگہ پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ فوت ہوگئيں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت عمر چھ برس تھی ، اس کے بعد دادا عبدالمطلب نے کفالت کا ذمہ لیا اور جب دادا فوت ہوا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر صرف آٹھ برس تھی ۔

پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت ان کے چچا ابوطالب نے لے لی تووہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگہبانی اورپرورش کرنے لگے اوران کی عزت وتکریم کرتے اورچالیس برس سےبھی زيادہ دفاع بھی کیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ابوطالب اس ڈرسے کہ آباء واجدادکے دین کوترک کرنے پر قریش اسے عار دلائيں گے اسلام قبول کیے بغیر ہی فوت ہوا ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹی عمرمیں مکہ والوں کی بکریا چرایا کرتے تھے ، پھر خدیجہ بنت خویلد رضي اللہ تعالی عنہا کا مال تجارت لے کر شام کی طرف گئے جس میں بہت زیادہ نفع ہوا ، اور خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائ وامانت ودیانت اوراخلاق بہت پسند آيا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کرلی اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچیس برس اور خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کی عمرچالیس برس تھی ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کی زندگی میں اورکوئ شادی نہیں کی ۔

اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اچھی پرورش فرمائ اوراحسن وبہتر ادب سکھایا ، ان کی تربیت فرماکر انہیں علم وتعلیم سے نوازا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اخلاقی و پیدائشی اعتبارسے قوم میں سے احسن واعلی قرارپائے ، اورعظیم مرو‎ؤت اوروسیع حلم بردباری اوربات کے پکے اورسچے اورامانت کی سب سے زیادہ حفاظت کرنے والے تھے جس کی بنا پرقریش انہیں صادق اورامین کے لقب سے پکارتے رہے ۔

پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوخلوت پسند ہونے لگی تووہ غار حراء میں کئ کئ دن رات گوشہ نشین رہ کراپنے رب کی عبادت بجالاتے اوراس سے دعائيں کرتے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بتوں ، شراب اوراخلاق رذیلہ سے نفرت اوربغض رکھتے اورپوری زندگی ان کی طرف التفات بھی نہیں فرمایا ۔

اورجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پینتیس 35 برس کی عمر کوپہنچے توسیلاب کی بناپرکعبہ کی دیواریں خستہ حال ہونے کی بنا پرقریش نے اس کی تعمیر نوکی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں شریک ہوئے ، جب حجر اسود کا مسئلہ آيا توقریش آپس میں اختلاف کرنے لگے جس میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم اورفیصل مانا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادرمنگوا کراس میں حجراسود رکھا پھر قبائل کے سرداروں کوحکم دیا کہ وہ اس کے کونے پکڑيں تواس طرح ان سب نے اسے اٹھایا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے حجراسود کواس جگہ پرلگا دیا اوراس پر دیورا بنائ گئ اوراس طرح سب کے سب راضی ہوئے اورجھگڑا ختم ہوا ۔

اہل جاھلیت میں کچھ اچھی خصلت بھی تھیں مثلا کرم وفا اورشجاعت وبہادری ، اورکچھ دین ابراھیم علیہ السلام کے بقایا مثلا بیت اللہ کی تعظیم اورطواف ، حج اورعمرہ ، اورقربانی ذبح کرنی وغیر بھی موجود تھیں ۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی خصیص اورذمیم گندی خصلتیں بھی ان میں موجود تھیں ، مثلا زنا ، شراب نوشی ، سود خوری ، لڑکیوں کوزنددرگور کرنا ، ظلم وستم ، اورسب سے قبیح اورشنیع کام بتوں کی عبادت تھی ۔

دینی ابراھیم میں تبدیلی کرنے اوربتوں کی عبادت کرنے کی دعوت دینے والا سب سے پہلا شخص عمروبن لحیی الخزاعی تھا جس نے مکہ مکرمہ وغیرہ میں بت درآمد کیے اورلوگوں کوان بتوں کی عبادت کی طرف دعوت دی ان بتوں میں ود ، سواع ، یغوث ، یعوق ، اورنسر شامل ہیں ۔

اس کے بعد عربوں نے کئ‏ اوربھی بت بنالیے جن کی عبادت کرنے لگے وادی قدید میں مناۃ ، اور وادی نخلہ میں عزي اورکعبہ کے اندر ھبل اورکعبہ کے ارد گرد بھی بت ہی بت اورلوگوں نے اپنے گھروں میں بھی بت رکھے ہوئے تھے اورلوگ اپنے فیصلے کاہنوں نجومیوں جادوگروں سے کرواتے ۔

جب اس صورت می‍ں شرک وفساد عام ہوچکا تھا تواللہ تعالی نے اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوان حالات میں مبعوث فرمایا توان کی عمر چالیس برس تھی بعثت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کوایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی طرف بلانے اوربتوں عبادت کوترک کرنے کي دعوت دینا شروع کی توقریش مکہ نے اس کا انکار کیا اورکہنے لگے :

{ کیا اس نے سب معبودوں کو ایک ہی معبودبنا دیا ہے بلا شبہ یہ تو بہت ہی عجیب سی چيز ہے } ص ( 5 ) ۔

تواس طرح ان بتوں کی اللہ تعالی کے علاوہ عبادت کی جانے لگي حتی کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوتوحید اسلام دے کرمبعوث فرمایا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام نے ان بتوں کوتوڑ کرنیت ونابود کیا توحق غالب اورباطل جاتا رہا ۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :

{ اورآپ کہہ دیجیئے کہ حق غالب ہوگيا اورباطل جاتا رہا اورپھرباطل توہے ہی مٹنے والا } الاسراء ( 81 ) ۔

توجب سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرغارحراء جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم وسلم عبادت کیا کرتےتھے فرشتہ آیا اوراس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوپڑھنے کا حکم دیا تورسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں توپڑھنا نہیں جانتا توفرشتے نے تکرار سے کئ بارکہا اورتیسری بار یہ وحی نازل ہوئ فرمان باری تعالی ہے :

{ اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پیدا فرمایا ، جس نے انسان کوخون کے لوتھڑے سے پیدا فرمایا ، توپڑھ۔ اورتیرا رب بڑے کرم والا ہے ، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا } العلق ( 1 - 4 ) ۔

تواس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم غارحراء سے واپس لوٹے توآپ کپکپاتے ہوئے اپنی بیوي خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کے پاس آئے اورانہیں سارا قصہ سنایا اورکہنے لگے مجھے تواپنی جان کاخطرہ محسوس ہورہا ہے تووہ انہیں اطمنان دلاتے ہوئے کہنے لگيں :

اللہ تعالی کی قسم اللہ تعالی آّپ کوکبھی بھی رسوا نہیں کرے گا ۔

اللہ کی قسم آپ توصلہ رحمی اور سچی بات کرتے ہیں ، اورآپ کمزوراور ضعیف لوگوں کا بوجھ اٹھاتے اورفقیر کی مدد کرتے اورمہمان کی مہان نوازی کرتے اور حق کی مدد کرتے ہیں ۔

توخدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا انہں لے کر چچازاد ورقہ بن نوفل کے پاس گئيں جو کہ جاھلیت میں نصرانی ہوگیا تھا ، جب انہوں ورقہ سے سارا قصہ بیان کیا تواس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوخوشخبری دیتے ہوئے کہا :

یہ تووہی پاکباز ناموس ہے جو موسی علیہ السلام پرنازل ہوا کرتا تھا ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوتلقین کہ جب انہیں ان کی قوم اذيت دیں اورانہیں وہاں سے نکال دیں تو وہ صبر سے کام لیں ۔

اور وحی کچھ۔ مدت کے لیے رک گئ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہوگئے ۔

وہ ایک دن چل رہےتھے تواچانک ایک بار پھر آسمان وزمین کے درمیان فرشتے کودیکھا توگھرواپس آ کر چادر اوڑھ لی تواللہ تعالی نے یہ آيات نازل فرمائيں

{ اے کپڑا اوڑھنے والے ! کھڑا ہوجا اورآگاہ کردے ، اوراپنے رب کی بڑائياں بیان کر ، اوراپنے کپڑوں کوپاک صاف رکھا کر، اورناپاکی کوچھوڑ دے } المدثر( 1-4 ) ۔

پھر اس کے بعد وحی کا سلسلہ چل نکلا اورمسلسل وحی آتی رہی ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تیرہ برس تک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی دعوت خاموشی سےدیتے رہے پھرا للہ تعالی نے کھل کراورظاہری دعوت دینے کا حکم نازل فرمایا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نرمی اوربڑے پیارسے لڑآئ وقتال کے بغیر حق کی دعوت دینی شروع کی اورسب سے پہلے اپنے عزیز اقارب اورپھر ان کے ارد گرد والے لوگوں کو اورپھر سب عرب کو اورپھر اس کے بعد پوری دنیا کے لوگوں کوحق کی دعوت دی ۔

اللہ تعالی نے دعوت حقہ کوظاہرکرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :

{ جس کا آپ کوحکم دیا گيا ہے اسے کھول کرسنا دیں اورمشرکوں سے اعراض کرتے رہيں } الحجر ( 94 ) ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے والوں میں غنی اورشرف والے اورکمزورو ضعیف ، فقراء اور تھوڑے سے مردوعورتیں شامل تھیں ، ان سب کودین اسلام کی بنا پر اذیتیں دی گئيں اوربعض کوتو قتل بھی کردیا گیا ، اورکچھ نے حبشہ کی طرف ھجرت کی تاکہ قریش کی اذيت سے فرار ہوں اورچھٹکارا حاصل ہوسکے ، اور ان کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی اذیت سے دوچارکیا گيا حتی کہ اللہ تعالی نے دین اسلام کوغلبہ عطا کیا ۔

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرپچاس برس کی ہو‏ئ اوربعثت کودس برس گذرگئے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کےچچا ابوطالب جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حمایت کرتا اورقریش کی اذیت وتکالیف سے بچاؤ تھا اس دنیا سے کوچ کرگیا ، پھر آّپ کی غمخوار بیوی خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا بھی اس دنیا سے اسی سال رخصت ہوگئيں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم پراذیتوں کے پہا‎ڑٹوٹ پڑے اورقریش کی جرات اوربڑھ گئ جو کہ ابوطالب کے ہوتے ہوئے کچھ نہیں کرسکتے تھے اب ہرطرح کی تکلیف دینے لگے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجروثواب کی نیت کرتے ہوئے صبر سے کام لیا ۔

لیکن جب قریش کی اذیت وتکالیف اورجرات میں اضافہ ہوا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے طائف کی جانب نکلے اوروہاں کے لوگوں کودعوت توحید دی لیکن کسی نے بھی وہ دعوت قبول نہ کی بلکہ الٹا اذيت و تکلیف دی اورپتھر برسائے حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں خوں الود ہوگئے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ واپس آکر حج وغیرہ کے موسم میں لوگوں کواسلام کی دعوت دینے میں مصروف ہوگئے ۔

پھر اللہ تعالی نے مسجد حرام سے لیکر مسجد اقصی تک براق پرسوار کر کے جبریل امین کی صحبت میں معراج کرائ اوروہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کرام کونمازپڑھائ اورپھر انہیں آسمان دنیا پرلےجایا گيا جہاں انہوں نے آدم علیہ السلام اوراچھے اورسعادت مند لوگوں کی روحوں کوان کے دائيں جانب اور بدبخت اورشقی لوگوں کی روحوں کوان کے بائيں جانب دیکھا ۔

پھر دوسرے آسمان پرلےجائےگئے تووہاں عیسی اوریحیی علیہم السلام اورتیسرے آسمان میں یوسف علیہ السلام اورچھوتھے آسمان میں ادریس علیہ السلام اورپانچویں میں ھارون علیہ السلام اورچھٹےمیں موسی علیہ السلام اورساتویں میں ابراھیم علیہ السلام کودیکھا پھر انہیں سدرۃ المنتہی تک لے جايا گيا اوراس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رب نے ان سے کلام فرمائ اوران کی امت پردن رات میں پچاس نمازيں فرض کیں ، پھر اس میں تخفیف کرکے پانچ رکھیں لیکن اجر پچاس کا ہے رہنے دیا ۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر اللہ تعالی کے فضل کرم سے پانچ نمازوں پراستقرار ہوا ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح ہونے سے قبل ہی مکہ واپس تشریف لائے توجوکچھ رات ہوا تھا اس کا قصہ ان کے سامنے بیان کیا ،تومومنوں نے اس کی تصدیق اور کافروں نے تکذیب کی ، اسی معراج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :

{ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کورات کے کچھ حصہ میں مسجد حرام سے مسجد تک کی سیر کرائ جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں کررکھیں ہں تاکہ ہم اپنی آیات دکھلائيں بلاشبہ وہ اللہ سننےاوردیکھنے والا ہے } الاسراء ( 1 )۔

پھر اللہ تعالی نے ایسے لوگ مہیا اورتیارکردیے جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد ونصرت کریں توموسم حج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے خزرج قبیلہ کے کچھ لوگوں سے ملے تووہ اسلام لائے اور مدینہ واپس جاکر اسلام کوپھیلایا اوردوسرے سال پھرموسم حج میں دس سے کچھ زيادہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوملے اورجب وہ واپس جانے لگے تونبی صلی اللہ علیہ وسمل نے ان کے ساتھ مصعب بن عمیررضي اللہ تعالی عنہ کوروانہ کیا تا کہ وہ لوگوں کوقرآن مجید کی تعلیم دیں اورانہیں اسلام سکھائيں تواس طرح مصعب رضي اللہ تعالی عنہ کے ھاتھو ں بہت سی خلقت مسلمان بن کراسلام میں داخل ہوئ جن میں قبیلہ اوس کے زعماء سعد بن معاذ اور اسید بن حضير رضي اللہ تعالی عنہم شامل تھے ۔

اس کے بعد آئندہ برس موسم حج میں اوس اورخزرج میں سے ستر70 سے زائد افراد آئے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کومدینہ ھجرت کر آنے کی دعوت دی کیونکہ اہل مکہ نے ان سے بائیکاٹ کیا اورانہیں تکالیف دے رکھی تھیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وعدہ فرمایا کہ میں تم سے ایام تشریق کی کسی رات عقبہ کے پاس ملوں گا ۔

جب رات کا تیسرا حصہ گذر گيا تووہ وعدہ کی جگہ پرآئے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے چجا عباس رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ موجود پایا عباس رضي اللہ تعالی اس وقت مسلمان تونہیں ہوئے تھے لیکن ان کی خواہش تھی کہ وہ بھتیجے کے اس معاملے میں ان ساتھ لازمی رہیں ، توعباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اوراسی طرح قوم نے بھی اچھی بات چیت کی ، پھر انہوں نے اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ھجرت کریں تو وہ ان کی مدد اوران کا دفاع کریں گے تو انہیں جنت ملے گی توہر ایک نے اس پربیعت کی اوراس کے بعد وہاں سے چلے گئے ۔

'اس کے بعد پھر قریش کو اس کا علم ہوا توانہوں نے انہیں پکڑنے کے لیےان کا پیچھا کیا لیکن اللہ تعالی نے انہیں نجات دی اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مدت تک مکہ میں رہے ۔

فرمان باری تعالی ہے :

{ اوریقینا اللہ تعالی بھی اس کی مدد و نصرت کرے گا جواس کی مدد کرتا ہے بلاشبہ اللہ تعالی قوی اورغالب ہے } الحج ( 40 ) ۔

پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کومدینہ ھجرت کرنے کا حکم دیا توانہوں نے ھجرت کی لیکن کچھ کومکہ کے مشرکوں نے روک دیا ، اورپھر مکہ میں صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکر ، علی رضی اللہ تعالی عنہ باقی بچے جب اہل مکہ کوصحابہ کرام کی ھجرت کا علم ہوا تووہ اس سے خوفزدہ ہوئے کہ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ جا ملیں گے لھذا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرنے کی سازش تیار کی ، تواللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کو بیھج کر اس کی خ۔بر کردی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضي اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان کے بستر پررات گزاریں اوران امانتوں کوجو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں واپس لوٹائيں ۔

تواس طرح مشرکین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پرکھڑے پہرہ دیتے رہے تا کہ انہیں قتل کیا جائے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان سے ہی نکل کرابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کے گھر پہنچے تواس طرح اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی مکروفریب اورسازشوں سے محفوظ رکھا ، اللہ تعالی نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

{ اورجب کافرآپ کے خلاف سازشیں کررہے تھے کہ آپ کوقید کردیں یا پھرقتل کردیں اوریاجلاوطن کردیں وہ توسازشیں کررہیں ہیں اوراللہ تعالی بھی تدبیرکررہا ہے اوراللہ تعالی سب سے بہتر تدبیرکرنے والا ہے } الانفال ( 30 ) ۔

پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ھجرت کا عزم کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ غارثور کی طرف جانکلے اوراس میں تین راتیں ٹھرے اورعبداللہ بن ابی اریقط کواجرت دے کر حاصل کیا تا کہ وہ انہیں راستہ بتائے جو کہ اس وقت مشرک تھا اپنی دونوں سواریاں بھی اس کے سپرد کردیں ۔

تواس طرح قریش میں کھلبلی مچ گئ کہ یہ کیا ہوا انہوں نے ہرجگہ تلاش کیا لیکن اللہ تعالی نے ان کی حفاظت فرمائ اورکفار سے محفوظ رکھا جب تلاش ٹھنڈی پڑ گئ تووہ دونوں مدینہ کی طرف چل نکلے جب قریش پرمایوسی چھا گئ توانہوں نے انعام کا اعلان کہ جو بھی ان دونو ں یا کسی ایک کو پکڑ لائے اسے دو سو اونٹ دیے جائيں گے تولوگ مدینہ کے راہ پر انہیں تلاش کرنے لگے ، سراقہ بن مالک کو علم ہوا جوکہ مشرک تھا تو اس نے انہیں پکڑنے کی کوشش کی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف دعا کی جس پراس کا گھوڑا گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا تواسے علم ہوگياکہ انہیں پکڑا نہیں جاسکتا تواس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی اپیل کی اورکہا کہ میں انہیں کوئ نقصان نہیں پہنچاؤں گا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائ توسراقہ واپس آگیا اوردوسروں کو بھی روکنے لگا پھر فتح مکہ کے بعدسراقہ بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ مسلمان ہوگئے ۔

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تومسلمانوں کوان کے آنے کی بہت زيادہ خوشی ہوئ اورانہوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا اورمردوں اورعورتوں اوربچوں خوشی اورفرحت سے نے ان کا استقبال کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم قباء میں ٹھرے اوروہاں پرمسلمانوں کے ساتھ مل کر مسجد قبا کی بنیاد رکھی اوروہاں دس راتوں سے زیادہ قیام فرمایا پھر جمعہ کے دن وہاں سےسوار ہوکر مدینہ کا رخ کیا اورنماز جمعہ بنوسالم بن عوف میں پڑھائ پھر اپنی اونٹنی پرسوار ہوکر مدینہ میں داخل ہوئے‎ تولوگوں نے انہیں گھیررکھا اوراونٹنی کی لگام پکڑے ہوئے تھے تا کہ وہ ان کے پاس ٹھریں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہرایک سے یہی کہتے جا رہے تھے اسے چھور دو یہ اللہ کے حکم کی تابع ہے حتی کہ اونٹنی جس جگہ پرآج مسجد نبوی ہے پر بیٹھ گئ ۔

اوراس طرح اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوایسے موقع فراہم کیا کہ آپ اپنے مامووں کے پاس مسجد کے قریب رہائش پذیرہوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے گھرمیں قیام فرمایا ، پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے اپنے اہل عیال اوربیٹیوں اورابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کے گھروالوں کومدینہ لانے کے لیے کچھ صحابہ کوروانہ کیا ۔

پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمان اس جگہ پرجہاں اونٹنی بیٹھی تھی مسجد نبوی بنانےمیں مشغول ہوئے اورمسجد کا قبلہ بیت المقد س بنایا اورکھجور کے تنوں کوستون اورچھت کھجور کی ٹہنیوں کی بنائ ، پھربعد میں کچھ مہینوں بعدتحویل قبلہ ہوا تونماز بیت المقدس کی بجائے بیت اللہ کی جانب منہ کرکے پڑھی جانے لگی ۔

پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اورمھاجرین کے درمیان مؤاخات قائم کی جوکہ مؤاخات مدینہ کے نام سے معروف ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یھودیوں کے ساتھ مصالحت کی اوراس پرایک معاھدہ لکھا جس میں صلح اورمدینہ کا دفاع شامل تھا ، اوریھودیوں کے عالم عبداللہ بن سلام رضي اللہ تعالی عنہ مسلمان ہوگئے لیکن عام یھودیوں نے اسلام لانے سے انکار کیا اوراسی سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کی ۔

اورھجرت کے دوسرے سال اذان مشروع ہوئ اور اللہ تعالی نے بیت اللہ کی طرف قبلہ کردیا اوررمضان کے روزے فرض کیے گئے ۔

اورجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں استقرار حاصل کرلیا اوراللہ تعالی نے اپنی مدد ونصرت سے تائيد فرمائ اورمھاجرین وانصار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہوگئے اوردلوں میں الفت ومحبت پیداہوکر دل جمع ہوگئے تودشمان اسلام یھودیوں منافقوں اورمشرکوں نے یک سو ہوکر ایک ہی کمان سے تیرو تفنگ چلانے شروع کردیے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کواذیت اورتکلیف اورلڑائ کی دعوت دینے لگے تواللہ تعالی انہیں صبر اوردرگزراور مہربانی کرنے کا حکم دیتا رہا لیکن جب ان کے ظلم و ستم میں اضافہ ہوا تواللہ تعالی نے بھی مسلمانوں کولڑآئ اورجہاد کی اجازت دیتے ہوئے یہ فرمان نازل فرمایا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ ان ( مسلمانوں ) لوگوں کوجن سے لڑآئ کی جارہی ہے انہیں بھی مقابلہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں بلاشبہ اللہ تعالی ان کی مدد کرنے پر قادر ہے } الحج ( 39 ) ۔

پھر اللہ تعالی نے ان مسلمان کوپرقتال فرض کردیا کہ جو بھی ان سے قتال کرے اس سے لڑائ کرنا فرض ہے :

{ اللہ تعالی کے راہ میں ان لوگوں سے لڑو جوتم سے لڑتے ہیں اورزیادتی نہ کرو بلاشبہ اللہ تعالی زيادتی کرنے والوں کوپسند نہیں کرتا } البقرۃ ( 190 ) ۔

پھراللہ تعالی نے مسلمانوں پر سب مشرکوں سے قتال فرض کردیا فرمان باری تعالی ہے :

{ اورتم تمام مشرکوں سے جھاد کرو جس طرح وہ تم سب سے لڑتے ہیں } التوب۔ۃ ( 36 ) ۔

تواس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام دعوت الی اللہ اورجھاد فی سبیل اللہ کے ذریعے حد سے تجاوز کرنے والوں کی سازشوں اورمظلوم لوگوں سے ظلم کوختم کرنے لگے تواللہ تعالی نے ان کی مدد ونصرت فرمائ حتی کہ سارے کا سارا دین اللہ ہی کا ہوجائے ۔

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان دوھجری میدان بدرکے میں مشرکوں سے جنگ کی تو اللہ تعالی نے مدد فرمائ اورمشرکوں کی کمر ٹوٹ گئ ، اورتین ھجری میں بنوقینقاع کے یھودیوں نے غداری اورمعاھدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک مسلمان کوقتل کردیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ سے شام کی طرف جلاوطن کردیا ۔

پھرقریش نے بدرمیں اپنے مقتولین کا بدلے لینے کے لیے شوال تین ھجری میں مدینہ کے قریب میدان احد میں پڑاو کیا اور دوران جنگ تیراندازوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی جس کی بنا پرمسلمانوں کی مدد اورنصرت مکمل نہ ہوسکی اورمشرکین مکہ کی بھاگ نکلے اورمدینہ میں داخل نہ ہوسکے ۔

پھر بنونضیر کے یھودیوں نے معاھدہ توڑا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک بڑا سا پتھر پھینک کر انہیں قتل کرنے کی کوشش کی تواللہ تعالی نے نجات دی بعدمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار ھجری میں ان کا محاصرہ کرکے انہیں خیبر کی طرف جلا وطن کردیا ۔

پانچ ھجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنومصطلق کی دشمنی ختم کرنے کے لیے ان پرچڑھائ کردی تواللہ تعالی نے ان کی مدد فرمائ اوران کے مال کوغنیمت اورانہیں قیدی بنایا ۔

پھر اس کے بعد یھودیوں کے زعماء نے مختلف قبائل اورگروہوں کومسلمانوں کے خلاف اکٹھا کیا تا کہ اسلام کو اس کے گھرمیں ہی ختم کردیا جائے تومدینہ کے گرد مشرک ، حبشی ، اورغطفان کے یھودی اکٹھے ہوگئے تواللہ تعالی نے ان کی سازشوں کونیست ونابود کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد و نصرت فرمائ اسی کے بارہ میں فرمان باری تعالی ہے :

{ اوراللہ تعالی نے کافروں کوغصے میں بھرے ہوئے ہی ( نامراد ) واپس لوٹا دیا انہوں نے کوئ فائدہ نہیں پایا اور اس جنگ اللہ تعالی خود ہی مومنوں کوکافی ہوگيا اللہ تعالی بڑي قوتوں والا اور غالب ہے } الاحزاب ( 25 ) ۔

پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ کا بھی ان کی غداری اورمعاھدہ توڑنے کی بنا پرمحاصرہ کیا تواللہ تعالی نے مدد فرمائ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کوقتل اوراولاد کوغلام اورمال کوغنیمت بنا لیا ۔

اورچھ ھجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی زيارت اورطواف کا قصد کیا لیکن مشرکوں نے انہیں روک دیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر دس سال تک لڑائ نہ کرنے پر صلح کی تا کہ اس میں لوگ امن حاصل کریں اورجوکچھ چاہیں اختیار کریں تواس کی بنا پرلوگ فوج درفوج اسلام میں داخل ہوئے ۔

سات ھجری می‍ں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پرچڑھائ کردی تا کہ یھودی کا قلع قمع کیا جاسکے جنہوں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کررکھا تھا توان کا بھی محاصرہ کیا اوراللہ تعالی کی مدد سے مال ودولت اورزمین غنیمت میں حاصل ہوا ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری دنیامیں بادشاہوں کو خطوط لکھ کر اسلام کی دعوت دی ۔

آٹھ ھجری ميں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کی قیادت میں ایک لشکر ترتیب دے کر حد سے تجاوز کرنے والوں کی سرکوبی کے ليے روانہ کیا لیکن رومیوں نے بہت عظیم لشکر جمع کیا اورمسلمانوں کے بڑے بڑے قائد شھید کر دیے گئے اورباقی مسلمانوں کواللہ تعالی نے ان کے شرسے محفوظ رکھا ۔

اس کے بعد مشرکین مکہ نے معاھدہ توڑدیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم لشکر لے کے ان کی سرکوبی کے لیے نکلے اورمکہ فتح ہوا توبیت اللہ بتوں اورکافروں سے پاک صاف ہوگیا ۔

پھرشوال آٹھ ھجری میں غزوہ حنین ہوا تاکہ ثقیف اورھوازن کو سبق سکھایا جائے تواللہ تعالی نے انہیں شکست سے دوچارکرکے مسلمانوں کو بہت سارے مال غنیمت سے نوازا ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے جا کر طائف کا محاصرہ کیا لیکن اللہ کے حکم سے اس کی فتح نہ ہو سکی تواللہ تعالی نے ان کے لیے دعا فرمائ اوروہاں سے چل پڑے تواہل طائف بعد میں مسلمان ہوگئے ، پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور مال غنیمت تقسیم کیا اور عمرہ کرنے کے بعد مدینہ کی طرف واپس نکل کھڑے ہوئے ۔

نوھجری کوسخت تنگ دستی اورشدید قسم کی گرمی کے موسم میں غزوہ تبوک ہوا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کی سرکوبی کے لیے تبوک کی طرف رواں دواں ہوئے اوروہاں پہنچ کرپڑاؤ کیا اورکسی سازش کا سامنا نہیں کرنا پڑا اوربعض قبائل کے ساتھ مصالحت ہوئ اورمال غنیمت لے کر مدینہ کی طرف واپس پلٹے ، تواس طرح غزوہ تبوک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری غزوہ ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنفس نفیس شرکت فرمائ ۔

اوراسی سال قبائل کے وفود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اوراسلام میں داخل ہوتے گئے جن میں وفد بنی تمیم ، وفد طئ ، وفد عبدالقیس ، اوروفد بنوحنیفہ شامل ہیں جو سب کے سب مسلمان ہوگئے ۔

پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کواس سال حج کا امیر بنا کر لوگوں کے ساتھ روانہ کیا اوران کے ساتھ علی رضي اللہ تعالی عنہ کوبھی روانہ کیا اورانہیں کہا کہ وہ لوگوں پرسورۃ البراۃ کی تلاوت کریں تا کہ مشرکوں سے برات ہوسکے ، اورانہیں یہ حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کردیں ، توعلی رضي اللہ تعالی عنہ نے یوم النحر ( عیدالاضحی کے دن ) کویہ کہا :

( ہے لوگو کوئ بھی کافر جنت میں نہیں داخل ہوسکتا اوراس سال کے بعدکوئ بھی مشرک حج کے لیے نہیں آسکتا اورنہ ہی بیت کا طواف ننگے ہوکر کیا جائے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جس کا بھی کوئ معاھدہ ہے وہ اپنی مدت تک رہے گا ) ۔

دس ھجری کونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا عزم کیا اورلوگوں کوبھی اس کی دعوت دی تومدینہ وغیرہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سے خلقت حج کے لیے نکلی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی الحلیفہ سے احرام باندھا اورذی الحجہ کے مہینہ میں مکہ پہنچے اور طواف ، سعی اورلوگوں کو مناسک حج سکھائے اورعرفات میں ایک عظیم اورجامع خطبہ ارشاد فرمایا جس میں عادلانہ اسلامی احکامات مقرر کرتے ہوئے فرمایا:

( لوگو میری بات سنو مجھے علم نہیں ہوسکتا ہے کہ میں آئندہ برس تم سے نہ مل سکوں ، لوگو بلاشبہ تمہارا مال اورخون اورعزت تم پراسی طرح حرام ہے جس طرح کہ آج کا یہ دن اور یہ مہینہ اورتمہارا یہ شہر حرام ہے ، خبردار جاہلیت کے سارے امور میرے قدموں کے نیچے ہيں اوراسی طرح جاھلیت کا خون بھی ختم اورسب سے پہلا جوخون معاف کیا جاتا ہے وہ ابن ربیعہ بن حارث کا خون ہے جس نے بنو سعد میں دودھ پیا تھا تواسے ھذیل نے قتل کردیا میں اسے معاف کرتا ہوں ۔

اورجاہلیت کا سود بھی ختم ہے اورسب سے پہلا جو سود ختم کرتا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے بلاشبہ یہ سب کا سب ختم کردیا گيا ہے ، تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہو اس لیے کہ تم نے انہیں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے اوران کی شرمگاہوں کوتم نے اللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ۔

اوران عورتوں پرتمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتے ہووہ تمہارا بستر نہ روندے ، اوراگر وہ یہ کام کریں توتم انہیں ایسی مار ماروجو کہ زخمی نہ کرے اورہڈی نہ توڑے اور تم پر ان کا کھانے پینے اورلباس اوررہائش کا اچھے طریقے سے انتظام کرنا ہے ۔

اورمیں تم میں وہ چھوڑ رہا ہوں اگر تم اسے تھامے رکھوگے تو گمراہ نہيں ہوسکتے وہ کتاب اللہ ہے ، اورتم سے میرے بارہ میں سوال ہوگا تو تم کیا کہوگے ؟

صحابہ نے جواب دیا ہے ہم اس کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے یقینی طور پرپہنچا دیااورتبلیغ کردی اوران کا حق ادا کردیا اورپھرآپ نے نصیحت بھی کردی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھا کر کہنے لگے اوراسے لوگو کی طرف بھی کررہے تھے اے اللہ گواہ رہ اے اللہ گواہ رہ یہ تین بار کہا ) ۔

اورجب اللہ تعالی نے دین اسلام کومکمل کردیا اوراس کے اصول مقرر کردیے توعرفات میں اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پریہ فرمان نازل کیا :

{ آج ميں نے تہارے دین کو کامل کردیا ہے اور تم پراپنا انعام تمام کردیا ہے اورتمہارے لیے اسلام کے دین کے ہونے پر راضی ہوگیا ہوں } الما‏ئدۃ ( 3 ) ۔

اوراس حج کوحجۃ الوداع کا نام دیا جاتا ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حج کے موقع پرلوگوں الوداع کہا اوراس کے بعد آپ نے کوئ اورحج نہیں کیا پھر حج سے فارغ ہونے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لے آئے ۔

گیارہ ھجری صفر کے مہینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسملم کومرض شروع ہوا توجب مرض شدت اختیارکرگياتونبی صلی اللہ علیہ وسملم نے ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کوحکم دیا کہ وہ لوگوں کونماز پڑھائيں ۔

اورربیع الاول میں مرض اورشدت اختیارکرگیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم بار12 ربیع الاول بروز سوموارچاشت کے وقت رفیق اعلی سے جاملے انا للہ وانا الیہ راجعون ، اس سے مسلمانوں کوبہت ہی زيادہ غم وحزن پہنچا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منگل والے دن بدھ کی رات غسل دیا گيا اورمسلمانوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اورعائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حجرہ میں دفن کردیاگیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تواس دنیا سے جاچکے لیکن ان کا دین قیامت تک باقی رہے گا ۔

پھرمسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی غار اورھجرت میں ان کے رفیق ابوبکرصدیق رضي اللہ تعالی عنہ کوخلیفہ چنا اوران کے بعد مسند خلافت پرعمربن خطاب اورپھر عثمان غنی اوران کے بعد علی رضي اللہ تعالی عنہم اجمعین خلیفہ بنے ، اورانہیں خلفاء راشدا کانام دیا جاتا ہے اوریہی خلفاء راشدین المھدیین ہيں ۔

اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت ساری نمعتوں کے ساتھ احسان کیا ہے اورانہیں اخلاق کریمہ کی وصیت اوردرس دیا جس طرح کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

{ کیا اس نے آپ کویتیم پاکر جگہ نہیں دی ؟ اورتجھے راہ سے بھولا ہوا پاکرھدایت نہیں دی ؟ اورتجھے نادار پاکر تونگر نہیں بنایا ؟ پس یتیم پرتو بھی سختی نہ کیا کر ، اورنہ سوال کرنے والے کوڈانٹ ڈپٹ ، اور اپنے رب کی نعمتوں کوبیان کرتا رہ } الضحی ( 6 – 11 ) ۔

اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسے اخلاق عظیمہ سے نوازا جو کہ ان کےعلاوہ کسی اورمیں نہیں پائے جاتے حتی کہ اس کی تعریف رب العزت نے کچھ اس طرح فرمائ ہے :

{ اوربلاشبہ آّپ توخلق عظیم کے مالک ہيں } القلم ( 4 ) ۔

تواس اخلاق کریمہ اورصفات حمیدہ کی بنا پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگو کے دلوں میں اپنے رب کے حکم سے الفت ومحبت ڈال دی اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اللہ تعالی کی رحمت کے با‏عث آّپ ان پر نرم دل ہیں اوراگر آپ بدزبان اورسخت دل ہوتے تویہ سب آپ کے پاس سے دورچلے جاتے توآّپ ان سے درگزر کریں اوران کے لیے استغفار کریں پھرجب آپ کا پختہ ارادہ ہوجائے تو اللہ تعالی پربھروسہ کریں بلا شبہ اللہ تعالی توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے } آل عمران ( 159 ) ۔

اوراللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسب لوگوں کی طرف رسول بناکرمبعوث کیا اوران پرقرآن مجید نازل فرماکر دعوت الی کا حکم دیا جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں فرمایا ہے :

{ اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) یقینا ہم نے آّپ کو (رسول بنا کر) گواہیاں دینے والا ، خوشخبریاں سنانےوالا اورآگاہ کرنے والا بھیجا ہے ، اوراللہ تعالی کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا روشن چراغ } الاحزاب ( 45 - 46 ) ۔

اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کودوسرے انبیاء پرچھ فضائل سے نوازا ہے جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( مجھے دوسرے انبیاء پرچھ چيزوں کے ساتھ فضیلت دی گئ ہے ، مجھے جوامع الکلم دیے گئے ہیں ، اورمیری رعب و دبدبہ کے ساتھ مدد کی گئ ہے ، اورمیرے لیے غنیمت حلال کی گئ ہے ، اورمیرے لیے زمین پاک اورمسجد بنائ گئ ہے ، اور میں سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گيا ہوں ، اور میرے ساتھ نبوت کا خاتمہ کیا گيا ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 523 ) ۔

تواس لیے سب لوگوں پرواجب ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائيں اوران کی شریعت کی اتباع کریں تا کہ انہیں جنت میں داخلہ مل سکے فرمان باری تعالی ہے :

{ اورجواللہ تعالی کی اوراس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرے گا اسےاللہ تعالی جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت ہی بڑی عظیم کامیابی ہے } النساء ( 13 ) ۔

اہل کتاب میں سے جوبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائے اللہ تعالی نے اس کی تعریف کی اوراسے اجرعظیم کی خوشخبری سنائ ہے جس طرح کہ اس فرمان میں ہے :

{ جن کو ہم نے اس سے پہلے کتاب عنائت فرمائ وہ اس پربھی ایمان رکھتے ہیں ، اورجب اس کی آيات ان کے پاس پڑھی جاتي ہیں تووہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا ایمان ہے کہ یہ ہمارے رب کی طرف سے حق ہیں تم تو اس سے پہلے ہی مسلمان ہیں ، یہ اپنے کیے ہوئے صبر کے بدلے میں دوہرا اجر دیئے جائيں گے ، یہ نیکی سے بدی کوٹال دیتے ہیں اورہم نے انہیں جوکچھ دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں } القصص ( 52- 54 ) ۔

اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تین قسم کے لوگوں کودوہرا اجر دیا جائے گا ، اہل کتاب میں سے وہ شخص جو اپنے نبی پرایمان لایا اورنبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوپایا توان پربھی ایمان لایا اوراس کی اتباع اورتصدیق کی تواسے درہرا اجر ہے ۔ الخ ) ۔

اورجوبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتا وہ کافر ہے ، اورکافر کی سزا جہنم ہے جس طرح کہ اللہ تعالی نے فرمایا :

{ اورجوبھی اللہ تعالی اوراس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پرایمان نہیں رکھتا توہم نے بھی ایسے کافروں کے لیے دہکتی ہوئ آگ تیار کررکھی ہے } الفتح ( 13 ) ۔

اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جان ہے کسی نصرانی اوریھودی تک میری دعوت پہنچے اوروہ اس پرایمان نہ لائے جو مجھے دے کر بھیجا گيا ہے اوروہ اسی حالت میں مرجائے توجہنمی ہے۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 154 ) ۔



شیخ محمد بن ابراھیم تویجری کی کتاب اصول الدین الاسلامی سے لیا گیا ۔
واللہ تعالی اعلم ۔
 

x boy

محفلین
سوال: کیا دیگر سیاروں پر یا شمسی کہکشاں کے علاوہ کسی اور کہکشاں میں زندگی پائی جاتی ہے؟

الحمد للہ:

سات آسمان فرشتوں سے آباد ہیں، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( ‏تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِهِنَّ وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ أَلَا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ )


ترجمہ: قریب ہے کہ تمام آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں درآنحالیکہ فرشتے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے اور زمین میں رہنے والوں کے لئے بخشش طلب کرتے رہتے ہیں۔ سن رکھو !! اللہ ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ الشورى/ 5


اسی طرح ایک مقام پر فرمایا:


( ‏فَإِنِ اسْتَكْبَرُوا فَالَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُونَ لَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْأَمُونَ )


ترجمہ: پھر اگر یہ لوگ اکڑ بیٹھیں تو آپ کے پروردگار کے پاس جو لوگ ہیں وہ رات دن اس کی تسبیح میں لگے رہتے ہیں اور کبھی نہیں اکتاتے۔ فصلت/7


اور ترمذی میں (2312)ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے، اور وہ کچھ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے، آسمان چرچراتا ہے اور اس کا چرچرانا حق ہے اس میں چار انگلی کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں ہے کہ وہاں کوئی فرشتہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیشانی رکھ کر سجدہ ریز نہ ہو اللہ کی قسم اگر تم لوگ وہ کچھ جاننے لگو جو میں جانتا ہوں تو کم ہنستے اور زیادہ روتے اور بستروں پر عورتوں سے لذت نہ حاصل کرتے جنگلوں کی طرف نکل جاتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے) اس روایت کو البانی نے صحیح ترمذی میں حسن قرار دیا ہے۔

حدیث میں مذکور(أَطَّتْ)"چِرچرانا"یعنی فرشتوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے آسمان سے آوازیں نکلتی ہیں۔

اور بخاری مسلم میں مالک بن صعصعہ کی روایت جس میں اسراء و معراج والا قصہ ہے: (۔۔۔ میرے لئے بیت المعموربلند کیا گیا، تو میں نے جبریل سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: یہ بیت المعمور ہے، روزانہ یہاں پر ستّر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں، اور جب یہاں سے چلے جاتے ہیں پھر اُنکی دوبارہ باری نہیں آتی)

بخاری (3207) ومسلم (164)

یہ تو ہے آسمانوں کے متعلق ، جبکہ سیاروں اور کہکشاؤں کے بارے میں ہم کہیں گے: اللہ ہی بہتر جانتا ہے .
 

x boy

محفلین
قرآن کریم کی تحریف کا دعوی

سوال:-
میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ میرے اس اہم سوال کا جواب ضرور دیں ، میں انٹرنیٹ میں اسلام کے مخالف ایک صفحہ پڑھ رہا تھا جس میں ایک عیسائ یہ کہتا ہے کہ شیخ سجستانی نے اپنی کتاب " المصاحف " میں یہ کہا ہے کہ :حجاج نے قرآن مجید کے حروف میں تغیر تبدل کیاہے اور کم از کم دس کلمات ایسے ہیں جو کہ بدلے ہوئے ہیں ۔
اور وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ سجستانی نے ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام " ماغیرہ الحجاج فی مصحف عثمان " ( حجاج نے مصحف عثمان میں جو تبدیلی کی ) رکھاہے ۔
اور اس نصرانی نے یہ دعوی کیا ہے کہ اس نے ان دس کلمات کوجن میں تبدیلی کی گئ ہے وہ عربی میں ہیں انہیں جمع کیا ہے ۔
میں نے اس کتاب کا نسخہ تلاش کرنے کی کوشش کی لکین کامیاب نہیں ہوسکا تو میں آپ سے اس کی وضاحت چاہتا ہوں ، میں یہ خیال بھی نہیں کرسکتا کہ سب علماء کرام اور حفاظ کرام کسی شخص کو اس بات کی اجازت دیں کہ وہ قرآن مجید میں تبدیلی کرتا پھرے اور اسے وہ کچھ بھی نہ کہیں حتی کہ اگر سجستانی نے بھی اگر یہ روایت کی ہو ؟
یہ معاملہ تو کبھی بھی عقل میں بھی نہیں آسکتا اس لئے کہ ہم یھودی اور عیسائیوں کی طرح نہیں کہ ہم اپنی کتاب کی حفاظت نہ کریں اور اسے صرف علمائے دین کے حوالے کردیں ، مسلمانوں میں سے تو بہت سارے اس قرآن کو حفظ کئے ہوئے ہیں اورسب ہی اسے پڑھتے ہیں تو یہ کبھی ہوہی نہیں سکتا کہ کسی کو یہ فرق اور اختلاف نظر نہ آئے ؟۔


جواب:-

الحمد للہ
اول :
کسی بھی مسلمان کوقرآن مجید کے صحیح ہونے میں شک پیدا نہیں ہوسکتا ، اس لئے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ لیتے ہوئے کچھ اس طرح فرمایاہے :

{ بیشک ہم نے ہی قرآن مجید کونازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفا ظت کرنے والے ہیں } الحجر ( 9 ) ۔

خلیفہ اول ابوبکر الصدیق رضي اللہ تعالی عنہ کے دورتک قرآن مجید حفاظ صحابہ کرام کے سینوں میں اور درختوں کی چھال اورباریک پتھروں پر محفوظ تھا ۔

جب مرتدین سے جنگيں شروع ہوئیں اور ان لڑائيوں میں بہت زيادہ قرآن مجید کے حفاظ صحابہ کرام جام شھادت نوش کرنے لگے تو ابوبکر رضی اللہ تعالی کویہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں قرآن کریم ان صحابہ کے سینوں میں ہی دفن ہو کر ضائع نہ ہوجائے ، لھذا انہوں نے قرآن مجید کو ایک جگہ پرجمع کرنے کے لیے کبار صحابہ کرام سے مشورہ کیا تاکہ اسے ضائع ہونے سے محفوظ کیا جاسکے ، اور اس کام کی ذمہ داری حفظ کے عظیم پہاڑ زید بن ثابت رضي اللہ تعالی عنہ وغیرہ کے کندھوں پر ڈالی گئ ۔

امام بخاری رحمہ الباری نے اس کو بیان کرتے ہوئے اپنی صحیح میں حدیث ( 4986 ) کا ذکرکچھ یوں کیا ہے :

زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے جنگ یمامہ کے بعد میری طرف پیغام بھیجا ( میں جب آیا تو ) عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے پاس دیکھا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ عمررضی اللہ تعالی میرے پاس آ کر کہنےلگے کہ جنگ یمامہ میں قرآء کرام کا قتل ( شہادتیں ) بہت بڑھ گیا ہے ، اور مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں دوسرے ملکوں میں بھی قرآء کرام کی شہادتیں نہ بڑھ جائيں جس بنا پر بہت سا قرآن ان کے سینوں میں ان کے ساتھ ہی دفن ہوجائے گا ، اور میری رائے تو یہ ہے کہ آپ قرآن جمع کرنے کا حکم جاری کردیں ۔

تومیں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کہا کہ تم وہ کام کیسے کرو گے جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟

تو عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا اللہ کی قسم یہ ایک خیر اور بھلائ ہے ، تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ بار بارمیرے ساتھ یہ بات کرتے رہے حتی کہ اللہ تعالی نے اس بارہ میں میرا شرح صدرکردیا ، اور اب میری رائے بھی وہی ہے جو عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ہے ۔

زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ تم ایک نوجوان اور عقل مند شخص ہو ہم آپ پر کوئ کسی قسم کی تہمت بھی نہیں لگاتے ، اور پھرتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی رہے ہو ، تو تم قرآن کو تلاش کرکے جمع کرو ۔

زید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کی قسم اگر وہ مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ کوئ پہاڑ منتقل کرنے کا مکلف کرتے تو مجھ پر وہ اتنا بھاری نہ ہوتا جتنا کہ قرآن کریم جمع کرنے کا کام بھاری اور مشکل تھا ، میں کہنے لگا تم وہ کام کیسے کروگے جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟ وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم یہ خیر اوربھلائ ہے ، تو ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ بار بار مجھ سے یہ کہتے رہے حتی کہ اللہ تعالی نے میرا بھی شرح صدر کردیا جس طرح ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا شرح صدر ہوا تھا ، تو میں قرآن کریم کو لوگوں کے سینوں اور چھال اور باریک پتھروں سے جمع کرنا شروع کردیا حتی کہ سورۃ التوبۃ کی آخری آیات ابو خزیمۃ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ کسی اور کس پاس نہ پائ { لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم ۔۔۔ } ( تمہارے پا‎س ایسا رسول تشریف لایا ہے جو تم میں سے ہے جسے تمہارے نقصان کی بات نہایت گراں کزرتی ہے ۔۔ ) ۔

تو یہ مصحف ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کی وفات تک ان کے پاس رہے پھر ان کے بعد تاحیات عمر رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس اور ان کے بعد حفصہ بنت عمررضی اللہ تعالی عنہما کے پاس رہے ۔

دوم :

حجاج نے خود تو قرآن مجید کو نہیں لکھا بلکہ اس نے کچھ ماہر اور ذھین علماء کو اس کا حکم ضرور دیا تھا ، ذیل میں اس کا مکمل واقع درج کیا جاتاہے۔

زرقانی کا قول ہے کہ :

یہ معروف ہے کہ مصحف عثمانی نقطوں کے بغیر تھا ۔۔۔۔ چاہے جو بات بھی ہو مشہور یہی ہے کہ قرآن مجید کے نقطوں کا آغاز عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں ہوا ہے اس لیے کہ جب اس نے یہ دیکھا کہ اسلام کی حدیں پھیل چکی اورعرب وعجم آپس میں گھل مل گئے اور عجمیت عربی زبان کی سلامتی کے لئے خطرہ بن رہی اور لوگوں کی اکثریت قرآن مجید کو پڑھنےمیں التباس اور اشکالات کا شکارہورہی ہے ، حتی کہ ان کی اکثریت قرآن مجید کے بغیر نقطوں والےحروف و کلمات کی پہچان میں مشکل کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں ۔

تو اس وقت اس نے اپنی باریک بینی اوردوراندیشی سے کام لیتے ہوئے اس مشکل اور اشکا لات کو ختم کرنے کا عزم کرتے ہوئے حجاج بن یوسف کو یہ معاملہ سونپا کہ اس کوحل کرے ، حجاج بن یوسف نے امیر المومنین کی اطاعت کرتے ہوئے اس مشکل کو حل کرنے کے لئے دوآدمیوں کوچنا اور یہ ذمہ داری نصربن عاصم اللیثی اور یحیی بن یعمر العدوائ جو عالم بامل اور زھدورع اور عربی زبان کے اصول وقواعدمیں ید طولی رکھنے کی بنا پر اس اہم کام کی اہلیت رکھتے تھے ، اوروہ دونوں قرآت میں اچھا خاصہ تجربہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ابوالاسود الدولی کے شاگرد بھی تھے ۔

اللہ تعالی ان دونوں علم کے عظیم سپوتوں پر اپنی رحمت برسائے یہ دونوں اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوئے اور قرآن مجید کے حروف کلمات پرنقطے لگائے اوراس میں اس کا خاص طور پر خیال رکھا گیا کہ کسی حرف پر بھی تین سے زیاد نقطے نہ ہوں ۔

بعد میں لوگوں میں یہ چیز عام ہوئ جس کا قرآن مجید کے پڑھنے میں پیدا شدہ اشکالات اور التباس کے ازالہ میں اثر عظيم پایا جاتا ہے ۔

اور یہ بھی کہا جاتا ہےکہ مصحف پرنقطے لگانے والا سب سے پہلا شخص ابوالاسود الدؤلی ہے ، اور ابن سیرین کے پاس وہ مصحف موجود تھا جس پر یحیی بن یعمر نے نقطے لگائے تھے ۔

تو ان اقوال کے درمیان تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے کہ انفرادی طور پر تو ابوالاسود الد‎ؤلی نے ہی نقطے لگائے لیکن عمومی اور رسمی طور پر نقطے لگانے والا شخص عبدالملک بن مروان ہے اور یہی وہ مصحف ہے جو کہ لوگوں کے درمیان عام مشہور ہوا اور تاکہ قرآن مجید میں التباس اوراشکالات کا خاتمہ ہوسکے ۔ مناھل القرآن ( 1 / 280-281 )

سوم :

اورسوال میں جو یہ ذکر کیا گياہے کہ ابوداود السجستانی نے اپنی کتاب " المصاحف " میں ایک روایت نقل کی ہے ذیل میں ہم اس روایت اور اس پر حکم کومکمل طورپر ذکر کرتے ہیں :

عن عباد بن صھیب عن عوف بن ابی جمیلۃ ان الحجاج بن یوسف غیر فی مصحف عثمان احد عشر حرفا ۔۔۔ الخ

عباد بن صھیب عوف بن ابی جمیلہ سے بیان کرتے ہیں حجاج بن یوسف نے مصحف عثمانی میں گیارہ حرف تبدیل کيے :

سورۃ البقرۃ میں آيت نمبر ( 259 ) { لم یتسن وانظر } ھا کے بغیر تھی تو اسے بدل کر لم یتسنہ کردیا ۔

سورۃ المائدۃ میں آيت نمبر ( 48 ) { شریعۃ ومنھاجا } تھی تو اسے بدل کر{ شرعۃ ومنھاجا } کردیا ۔

سورۃ یونس میں آيت نمبر ( 22 ) { ھوالذی ینشرکم } تھی تو اسے بدل کر{ یسیرکم } کردیا ۔

سورۃ یوسف میں آيت نمبر ( 45 ) { انا آتیکم بتاویلہ } تھی تو اسے بدل کر{ انا انبئکم بتاویلہ } کردیا ۔

سورۃ الزخرف میں آيت نمبر ( 32 ) { نحن قسمنا بینھم معایشھم } تھی تو اسے بدل کر{ معیشتھم } کردیا ۔

سورۃ التکویر میں آيت نمبر ( 24 ) { وماھو علی الغیب بظنین } تھی تو اسے بدل کر{ بضنین ۔۔ } کردیا ۔ الخ ۔۔۔۔ کتاب " المصاحف " ( ص 49 ) ۔

تو یہ روایت عباد بن صھیب کے متروک الحدیث ہونے کی بنا پربہت ہی کمزوراور ضعیف یا پھر موضوع ہے ۔

علی بن مدینی رحمہ اللہ تعالی نے اس کے متعلق " ذھب حدیثہ " کہا ہے اور امام بخاری اور امام نسائ رحمہما اللہ تعالی نے اسے متروک قرار دیا ہے اور ابن حبان رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ یہ قدری عقیدہ کا داعی تھا لیکن اس کے باوجود ایسی روایات بیان کرتا ہے جسے مبتدی شخص بھی سن لےتو وہ یہی کہےگا کہ یہ موضوع ہے اور امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کا بیان ہے یہ متروکین میں سے ہے ۔

دیکھیں میزان الاعتدال للذھبی ( 4 / 28 ) ۔

اس روایت کا متن منکر اور باطل ہے اس لئے کہ یہ بات تو عقل بھی ماننے سے قاصرہے کہ پوری دنیا میں قرآن مجید کے سب نسخوں میں اس طرح کا تغیروتبدل ہوجائے ، بلکہ بعض غیرمسلم لوگوں جیسا کہ رافضی شیعۃ وغیرہ تو اس کے متن کا انکار کرتے ہوئے اس پر تنقید کرتےہیں کہ قرآن مجید ناقص ہے مکمل نہیں :

خوئ جو کہ رافضی ہے کا کہنا ہے کہ : یہ دعوی تو بہکے ہوئے اورمجنون لوگوں اور بچوں کی خرافات وبہکی ہوئ باتوں کے مشابہ ہے ، حجاج تو بنوامیہ کا ایک گورنروکارندہ تھا ، اس میں تو اتنی ھمت نہیں تھی کہ وہ قرآن کریم میں کچھ کرسکتا ، بلکہ وہ تو اس سے بھی عاجزتھاکہ فروعات اسلامیہ میں کوئ‏ تغیروتبدل کرسکے تو یہ کیسے ہو سکتا کہ وہ اساس دین اور ستون شریعت میں تبدیلی کرسکے ؟

اور پھر اس کو سب اسلامی ممالک میں تو سلطہ و غلبہ حاصل نہیں تھا حالانکہ قرآن مجید ان سب ممالک میں پھیلا ہواتھا کہ وہ یہ کام کرسکے ؟

اور پھر اس چیزکے اتنی اھمیت کی حامل ہونے کےباوجود خطیب عظیم نے اپنی تاریخ میں کیوں نہیں ذکر کیا ، اور نہ ہی کسی ناقد نے اس پر تنقیدوجرح کی ہے ، اور پھر اس وقت کسی بھی مسلمان نے اس کی مخالفت کیوں نقل نہیں کی ؟ اور پھر حجاج کا دور اور طاقت ختم ہونے کےبعد مسلمانوں نے اس سے کس طرح چشم پوشی کیے رکھی ؟

اور بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ حجاج نے پووی دنیا میں دور دراز تک پھیلے ہوئے مصحف کے تمام نسخوں میں یہ کام کردیا اور کوئ ایک بھی نہ بچا توکیا یہ ممکن ہے کہ وہ مسلمانوں اور حافظوں کے سینوں سے بھی زائل کر دیا ہو جن کی تعداد اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے علم میں نہیں ۔

البیان فی تفسیر القرآن ( ص 219 )

اور سائل کا یہ کہنا کہ " ماغیرہ الحجاج فی مصحف عثمان " کے نام سے امام ابوداود السجستانی نے ایک کتاب لکھی یہ بات قطعی طورپر صحیح نہیں بلکہ یہ واضح طور پر کذب بیانی ہے ، امام سجستانی نے تو صرف مندرجہ بالا حجاج کے عمل والی روایت کا یہ کہ کر باب باندھا ہے ( باب ماکتب الحجاج بن یوسف فی المصحف ) حجاج بن یوسف نے مصحف میں جو کچھ لکھا اس کے متعلق بیان ۔

تو اس بنا پریہ روایت کسی بھی حالت میں قابل اعتماد نہیں ، اس کے پایہ ثبوت تک نہ پہنچنے اور جھوٹا ہونے میں صرف اتنی بات ہی کافی ہے کہ ابھی تک کوئ شخص اس میں ایک حرف کا بھی ردوبدل کرنے میں کا میابی حاصل نہیں کرسکا ۔

اور اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو اس میں تکرار ہوتا اور پھر خاص کر ان ادوار میں جب کہ مسلمان بہت ہی کمزور تھے اور دشمنان اسلام کی سازشیں عروج پرتھیں ، بلکہ اس طرح کہ شبھات تو اس دعووں کی باطل ہونے کی دلیل ہیں اور یہ کہ دشمنان اسلام قرآن مجید کے چیلنج اور اس کے دلائل کا جواب دینے سے عاجزآگئے تو انہوں نے اس میں طعن کرنا شروع کردیا ۔

واللہ تعالی اعلم .
 

x boy

محفلین
شیطان کا انسان کی اولاد میں شریک ہونا

الحمد للہ
بسم اللہ نہ پڑھنے سے شیطان کی مشارکت کے متعلق اللہ تعالی نےارشاد فرمایا ہے :
{ اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا }

قرطبی رحمہ اللہ کا قول ہے : یعنی اس میں اپنے لیے شراکت بنا لے ۔۔

{ اور اولاد } سے مراد یہ کہا گيا ہے کہ :

مجاھد ، ضحاک ، رحمہما اللہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کا قول ہے کہ اس سے مراد اولاد زنا ہے ،

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما یہ بھی مروی ہے : اس سے مراد وہ اولاد ہے جو انہوں نے قتل کردی اور ان میں جرائم کے مرتکب ہوئے ۔

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما یہ بھی مروی ہے : اس سے یہ مراد ہے کہ اولاد کے نام عبدالعزی ، عبدالشمس ، عبدالحارث ، عبدالات وغیرہ ہے ۔

اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ اس سے مراد اولاد کوکفر میں رنگنا حتی کہ انہیں یھودی ، عیسائ بنا ڈالا جیسا کہ عیسائ‏ اولاد کواپنے خاص پانی میں ڈبوتے ہیں ، یہ قول قتادۃ رحمہ اللہ تعالی سے منقول ہے ۔

اورمجاھدرحمہ اللہ تعالی سے پانچواں قول یہ ہے کہ :

جب آدمی بسم اللہ پڑھے بغیر جماع کرتا ہے تو جن اس کی بیوی سے لپٹ کروہ بھی اس کے ساتھ مل کرجماع کرتا ہے تو اللہ تعالی کا قول بھی یہی ہے :

{ ان کو ان سے قبل نہ توانسانوں اور نہ ہی جنوں نے ہاتھ لگایاہے } تفسیر قرطبی ( 10 / 289 ) ۔

ابن کثيررحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

اللہ تعالی کا فرمان { اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا }

اللہ تعالی کا قول { اور اولاد میں } عوفی رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ مجاھداور ضحاک رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے کہ یعنی اولاد زنا ۔

علی ابن ابی طلحہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ اس سے وہ اولاد مراد ہے جنہیں وہ بے علمی اوربیوقوفی کی بناپر قتل کردیتےتھے۔

اورقتادہ رحمہ اللہ نے حسن بصری رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے کہ ، اللہ کی قسم وہ یقینی طورپر اموال اور اولاد میں شریک ہے انہیں یھودی ، عیسائ ، اورمجوسی بنادیا اور اسلام کی علاوہ دوسرے رنگوں میں رنگا ، اور ان کےاموال میں سے شیطان کا حصہ رکھا ، اورقتادہ رحمہ اللہ نے بھی ایسے ہی کہا ہے ۔

اور صالح رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی اولاد کے نام عبدالحارث ، عبدالشمس ، اور فلاں کا بندہ وغیرہ رکھنا ۔

ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

ان اقوال میں سے اقرب الی الصواب یہ ہے کہ ہروہ مولود جس کے نام میں اللہ تعالی کی معصیت ہو اوراللہ تعالی کوناپسند ہو ، یاپھراسے اللہ تعالی کے پسندیدہ دین کوچھوڑ کرکسی اوردین میں داخل کردے ، یا اس کی ماں سے زنا کرکے ، یا اسے قتل اور زندہ درگورکرکے، یاان کے علاوہ دوسرے کاموں کے ساتھ اللہ تعالی کی نافرمانی کی جائے ۔

توجس سے وہ بچہ پیداہوا یا جس کا وہ ہے اس کی وجہ سے وہ ابلیس کی مشارکت میں داخل ہوگیا ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے اپنے اس قول { اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا } میں شرکت کےکسی معنی کوخاص نہیں کیا تو وہ کسی بھی لحاظ سے ہوسکتی ہے ، توجس میں اللہ تعالی کی نافرمانی ہو یااس کے ساتھ نافرمانی کی جائے ، یا اس کام میں شیطان کی بات مانی جائے ، یا اس کام سے شیطان کی اطاعت ہوتی ہو تواس میں شیطان کی مشارکت ہے ۔

متجہ کابھی یہی قول ہے اورسلف رحمہ اللہ نے مشارکت کی کچھ تفسیربھی بیان کی ہے ، اورصحیح مسلم میں ہے کہ :

عیاض بن حماررضی اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ تعالی فرماتا ہے " بیشک میں نے اپنے بندوں کوحنفاء توحید والا بنایا توان کے پاس شیطان آیا اور انہیں ان کے دین سے علیحدہ کردیا اورمیں نے جو اشیاء ان پرحلال کی تھیں اس نے ان کے لیے حرام کردیا ۔صحیح مسلم ( 2865 )

اور صحیحین میں ہے کہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ان میں سے اگرکوئ اپنی بیوی کے پاس جانے سے پہلے یہ دعا پڑھے اور اللہ تعالی انہیں اولاد دے تو شیطان کبھی بھی اسے نقصان نہیں دے سکےگا (بسم اللہ جنبنا الشیطان وجنب الشیطان مارزقتنا ) اللہ تعالی کے نام سے اے اللہ ہمیں شیطان سے بچا اورہمیں جو (اولاد ) عطا کرے اسے بھی شیطان سے بچا کررکھ ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3271 ) صحیح مسلم ( 1434 ) ۔

دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 3 / 50 - 51 ) ۔

اور امام طبری رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

ان اقوال میں سے اقرب الی الصواب یہ ہے کہ ہروہ مولود جس کے نام میں اللہ تعالی کی معصیت ہو اوراللہ تعالی کوناپسند ہو ، یاپھراسے اللہ تعالی کے پسندیدہ دین کوچھوڑ کرکسی اوردین میں داخل کردے ، یا اس کی ماں سے زنا کرکے ، یا اسے قتل اور زندہ درگورکرکے، یاان کے علاوہ دوسرے کاموں کے ساتھ اللہ تعالی کی نافرمانی کی جائے ۔

توجس سے وہ بچہ پیداہوا یا جس کا وہ ہے اس کی وجہ سے وہ ابلیس کی مشارکت میں داخل ہوگیا ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے اپنے اس قول { اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا } میں شرکت کےکسی معنی کوخاص نہیں کیا تو وہ کسی بھی لحاظ سے ہوسکتی ہے ، توجس میں اللہ تعالی کی نافرمانی ہو یااس کے ساتھ نافرمانی کی جائے ، یا اس کام میں شیطان کی بات مانی جائے ، یا اس کام سے شیطان کی اطاعت ہوتی ہو تواس میں شیطان کی مشارکت ہے ۔ تفسیر طبری ( 15 / 120 - 121 ) ۔

شیخ عبدالرحمن السعدی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں :

{ اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا } اس فرمان میں ہرقسم کی وہ معصیت جو اموال اوراولاد کے متعلق ہے شامل ہوتی ہے ، چاہے وہ زکاۃ کی ادائیگی نہ کرکے کی جائے ، اوریاپھر کفارات اورواجب حقوق کی ادائیگی نہ کی جائے ، اوریا اولاد کو ادب اورخیروبھلائ کی تعلیم نہ دے کرہو اور یا انہیں شرسے بچنا نہ سکھایا جائے ، اورلوگوں کا مال ناحق چھینا جانا یا اموال کو ناحق جگہ پرخرچ کرنا ، اور یا پھر ردی قسم کے کام کرنا ۔

بلکہ اکثر مفسرین نے اولاد و اموال میں شیطان کی مشارکت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کھانے پینے اورجماع کے وقت بسم اللہ نہ پڑھنا بھی مشارکت میں داخل ہے ، اس لیے کہ جب بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو اس میں شیطان شرکت کرتا ہے جیسا کہ یہ حدیث میں بھی بیان کیا گيا ہے ۔ تیسیر الکریم الرحمن ( 414 )۔

میرا کہنا ہے کہ : جماع میں بسم اللہ نہ پڑھنے والے کے جماع میں شیطان کی مشارکت کے متعلق حدیث کا ذکرہوچکا ہے جو کہ ابن کثیر رحمہ اللہ کے حوالہ سے بیان کی جاچکی ہے ، اور اسی طرح مجاھد رحمہ اللہ تعالی کی کلام بھی بیا ن کی جاچکی ہے ۔

خلاصہ :

اس آیت کی تفسیرمیں صحیح قول یہ ہے کہ اسے ان وجوھات پرمحمول کیا جائے جواوپربیان کی جا چکی ہیں ، جب کہ ان کے معانی میں کسی قسم کی کوئ منافات نہیں ، اورسلف نے ان میں سے ہرایک معنی کوانفرادی طور پرذکر کیا ہے ، اور ان معانی کے درمیان کوئ تضاد بھی نہیں ہے ۔

تو اس جیسی حالت میں قاعدہ یہ ہے کہ آیۃ کواس کے سب معانی پر محمول کیا جائے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

سلف کاتفسیرمیں اختلاف بہت ہی کم ہے ، اوران کا احکام میں جو اختلاف پایا جاتا ہے وہ تفسیر کی نسبت بہت ہی زیادہ ہے ، اورپھروہ اختلاف غالب طورپر نوع کا اختلاف ہے نا کہ اختلاف تضاد ، اوراس کی دوقسمیں ہیں :

پہلی قسم :

ان میں سے ہرایک اس کی مراد دوسرے کی عبارت سے علاوہ کرے جو مسمی میں پائے جانے والے معنی پردلالت کررہی ہو اور یہ معنی دوسرے معنی کے علاوہ ہو لیکن مسمی ایک ہی رہے ، ان اسماء کی جگہ جومترادف اور متباین کے درمیان ہیں ، جیسا کہ تلوار کے نام میں کہا جاتا کہ : الصارم ، المھند ؛ کاٹنے والی تلوار کو کہا جاتا ہے ۔

اور یہ اللہ تعالی کے اسماء حسنی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں اور قرآن کے ناموں کی طرح ہے ، کیونکہ سب کے سب اسماء حسنی ایک ہی مسمی پردلالت کرتے ہیں ، تو ان میں کسی ایک اسم کے ساتھ پکارنا دوسرے اسم کے مخالف ہیں ، بلکہ معاملہ اس طرح ہی ہے جس طرح کہ اللہ تبارکہ وتعالی نے فرمایا ہے :

{ کہہ دیجئے کہ تم اللہ تعالی کویا رحمن کوپکارو جس کوبھی پکارواللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں }

تو اللہ تعالی کے اسماء میں سے ہراسم مسمی ذات اور اس اسم میں پائ جانے والی صفت پردلالت کرتا ہے ، مثلا العلیم ، اللہ تعالی کی ذات اورعلم اور القدیر اللہ تعالی کی ذات اور قدرت ، اور الرحیم اللہ تعالی کی ذات اور رحمت پر دلالت کرتا ہے ۔

دوسری قسم :

یہ کہ ان میں سے ہرایک عمومی اسم کی کچھ انواع کو بطور مثال اور نوع کوسننے والے کی تنبیہ کے لیے بیان کرے نہ کہ تعریف کے طریقے پر جوکہ عموم وخصوص میں تعریف کی گئ چیز کے مطابق ہو ، مثلا کسی عجمی نے سوال کیا کہ خبز کیا ہے تو اس سے روٹی دکھا کراسے کہا یہ ہے ، تو یہ اشارہ اس کی نوع کی طرف ہے نہ کہ اس اکیلی روٹی کی طرف ۔

مجموع الفتاوی ( 13 / 333 - 337 ) ۔

واللہ تعالی اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد
 

x boy

محفلین
کافرکو اُنکے تہوار پر یہ کہنا کہ"میں آپکے لئے خیر یا افضل کی امیدرکھتا ہوں" کیا یہ بھی مبارکبادی شمار ہوگا؟

سوال: میں جانتا ہوں کہ اہل کتاب کو انکے تہواروں پر مبارکباد دینا حرام ہے، کیونکہ یہ انکے باطل عقائد کا اقرار ہوگا، لیکن کیا میرے لئے یہ جائز ہے کہ میں جان پہچان والے لوگوں کو انکے تہواروں میں ایسے پیغام بھیجوں جس میں مبارکبادی نہ ہو، مثلاً " میں آپکے لئے خیر کی امیدرکھتا ہوں" یا " میں آپکے لئے بہتر کی امیدرکھتا ہوں" اور نیت انکی ہدایت مانگنے کی ہو؟


جواب:-
الحمد للہ:

کفار کو انکے تہواروں میں مبارکباد دینا حرام ہے، جیسا کہ آپ نے خود ہی اسکا تذکرہ کیا ہے، آپ اس کےلئے سوال نمبر (947) اور (81977)کا بھی مطالعہ کریں۔

اور اپنی جان پہچان والے افراد کو انکے تہواروں میں یہ پیغامات بھیجنا کہ "میں آپکے لئے بہتر / خیر کی امیدرکھتا ہوں"ظاہری طور پر یہ بھی مبارکباد ہی ہے۔

لیکن اگر یہی پیغام تہوار سے ہٹ کر کسی اور دن دعوت، اور انکی ہدایت کی امید سے بھیجا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

چنانچہ ابو موسی کہتے ہیں کہ یہود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھوٹی چھینکیں لیتے ، اِس امید سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کیلئے دعا کردیں، " يَرْحَمُكُمْ اللَّهُ " اللہ تم پر رحم کرے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت کی دعا کی بجائے انکے کیلئے فرماتے: " يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ " اللہ تعالی تمہیں ہدایت دے، اور تمہاری حالت درست فرمائے۔

اسے امام احمد نے (19089) ابو داود نے (503 ترمذی نے (2739) روایت کیا ہے اورالبانی نے ارواء الغلیل (1277) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

صاحبِ عون المعبود کہتے ہیں کہ: "مقصود یہ ہے کہ انکے لئے رحمت کی دعا نہ کرتے، کیونکہ رحمت مؤمنین کیلئے خاص ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکی ہدایت اور ایمان کیلئے توفیق کے ذریعے اصلاحِ احوال کی دعا کرتے"

چنانچہ کافر کیلئے ہدایت کی دعاکرنا، یا ایمان و ہدایت کے ذریعے اصلاح احوال مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بھی ثابت ہے۔

واللہ اعلم .
 

x boy

محفلین
ہر انسان کا جنوں میں سے ایک ہم نشین ہے

سوال:-

کیا الاسلام میں قرین (ہم نشین) نامی کسی چیز کا وجود ہے؟ میری خواہش ہے کہ اگر میرا کوئی ہم نشین ہے تو میں اسے پہچانوں تو اسلام اس کے متعلق کیا کہتا ہے یا کہ اصلا اس کا وجود ہی نہیں؟



جواب:-
الحمد للہ
جی ہاں جسے ہم نشین یا قرین کا نام دیا جاتا ہے اسکا وجود ہے جسے اللہ تعالی نے انسانوں میں سے ہی ایک کے ساتھ لگا رکھا ہے اور یہ وہی ہے جو اپنے ساتھی کو شر اور گناہ کی طرف دھکیلتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ جسکا ذکر آئندہ چل کر آئے گا۔
ارشاد باری تعالی ہے۔

"اسکا ہم نشین کہے گا (شیطان) اے ہماری رب میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود ہی دور دراز کی گمراہی میں تھا۔ اللہ تعالی فرمائے گا بس میرے سامنے جھگڑے کی بات مت کرو میں تو پہلے ہی تمہاری طرف وعید (عذاب کا وعدہ) بھیج چکا تھا میرے ہاں بات بدلتی نہیں اور نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھر ظلم کرنے والا ہوں"

ق27-29

ابن کثیر کا قول ہے کہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد اور قتادہ وغیرہ کا قول ہے کہ یہ شیطان ہے جسے اس کام پر لگایا گیا ہے۔ "ربنا ما اصغیتہ" یعنی ما اظللۃ میں نے انہیں گمراہ نہیں کیا۔ "ولکن کان فی ضلال بعید" یعنی بلکہ وہ خود ہی گمراہ اور باطل کو قبول کرنے والا اور حق کا دشمن تھا جس طرح کہ اللہ تعالی نے دوسری آیات میں خبردی ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے۔

"اور جب کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے تو شیطان کہے گا کہ اللہ نے تو تمہیں سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کئے تھے انکی وعدہ خلافی کی ہے میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے مان لی پس اب تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو نہ تو میں تمہاری فریاد رسی کرنے والا اور نہ تم میری فریاد تک پہنچنے والے میں تر سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے یقینا ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔" ابراہیم 22

اور اللہ تعالی کا یہ فرمان "بس میرے سامنے جھگڑے کی بات مت کرو" تو اللہ جل جلالہ انسان اور جنوں میں سے انکے قرین کو فرمائے گا کیونکہ وہ اللہ تعالی کے سامنے جھگڑا کررہے ہوں گے تو انسان کہے گا اے رب مجھے حق آجانے کے بعد اس نے گمراہ کیا تھا اور شیطان یہ کہے گا "ربنا ما اطغیتہ ولکن کان فی ضلال بعید" (اے ہمارے رب میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود ہی دور دراز کی گمراہی میں تھا) یعن منہج حق سے دور تھا۔

تو اللہ عزوجل فرمائے گا "لا تختصموا لدی" (بس میرے سامنے جھگڑے کی بات مت کرو) یعنی میرے پاس "میں تو پہلے ہی تمہاری طرف وعید (عذاب کا وعدہ) بھیج چکا تھا" یعنی میں نے تمہارا یہ عذر رسول بھیج کر اور کتابیں نازل کرکے ختم کردیا اور تم پر حجت اور دلیل اور برہان قائم ہوچکا۔ "میرے ہاں بات بدلتی نہیں" مجاہد کہتے ہیں یعنی میں نے فیصلہ کرنا تھا وہ کرچکا۔ "اور نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھر ظلم کرنے والا ہوں" یعنی میں کسی کو کسی دوسرے کے گناہ کے بدلے میں عذاب نہیں دونگا لیکن ہر ایک پر حجت قائم ہونے کے بعد اسے اسکے گناہ کا عذاب ہوگا۔ دیکھیں تفسیر ابن کثیر (4/227)

اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (تم میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے مگر اسکے ساتھ ایک جنوں میں سے ہم نشین لگایا گیا ہے تو صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول کیا آپ کے ساتھ بھی؟ تو آپ نے فرمایا میرے ساتھ بھی لیکن یہ اللہ تعالی نے اس پر میری مدد کی ہے تو وہ مسلمان ہوگیا ہے اور مجھے صرف نیکی کا حکم کرتا ہے۔

اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے ساتھ ایک ہم نشین جنوں میں سے اور ایک فرشتوں میں سے۔

اسے مسلم نے (2814) روایت کیا ہے۔

اور امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب یہ باندھا ہے (باب تحریش الشیطان وبعثہ سرایاہ لفتنۃ الناس وان مع کل انسان قرینا) باب ہے شیطان کے برانگیختہ کرنےاور دھوکہ دینے اور اپنے لشکر کو لوگوں میں فتنہ میں ڈالنے کے لئے روانہ کرنا اور ہر انسان کے ساتھ ایک ہم نشین (قرین) ہے۔

امام نووی کہتے ہیں کہ (فاسلم) میم کو فتح اور ضمہ کے ساتھ اور یہ دونوں روایتیں مشہور ہیں تو جو رفع پڑھے گا اسکا معنی ہوگا کہ میں اس کے فتنہ اور شر سے محفوظ ہوگیا ہوں۔ اور جو فتح کے ساتھ پڑھتا ہے تو اسکا معنی یہ ہوگا کہ وہ قرین مسلمان اور مومن ہوگیا تو مجھے خیر کے علاوہ کوئی حکم نہیں دیتا۔

اور راجح کے متعلق اختلاف ہے۔ خطابی کا قول ہے کہ صحیح اور مختار یہی ہے کہ رفع (پیش) پڑھا جائے اور قاضی عیاض نے فتح کو راجح قرار دیا ہے اور وہ اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ وہ مجھے خیر کے علاوہ کوئی حکم نہیں دیتا۔ اور فتح کی روایت پر معنی میں اختلاف ہے۔ کہا گیا ہے کہ اسلم تسلم اور انقاد کے معنی میں ہے یعنی میرا مطیع ہوگیا ہے اور یہ مسلم کی روایت کے علاوہ روایات میں لفظ بھی آئے ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ اسکا معنی یہ ہے کہ وہ مسلمان اور مومن ہوگیا ہے اور یہی ظاہر ہوتا ہے قاضی کا کہنا ہے کہ جان لو کہ امت اس پر مجتمع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شیطان سے جسمانی اور زبانی اور حواس کے اعتبار سے بھی بچائے گئے ہیں۔

تو اس حدیث میں ہم نشین (قرین) کے فتنہ اور وسوسہ اور اسکے اغوا کے متعلق تخدیر ہے یعنی اس سے بچنا چاہئے کیونکہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے تو ہم اس سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کریں۔

دیکھیں شرح مسلم (17/157-180)

اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اگر کوئی آپ میں نماز پڑھ رہا ہو تو کسی کو آگے سے نہ گزرنے دے اگر وہ انکار کرے تو اس سے لڑائی کرے کیونکہ اسکے ساتھ قرین ہے۔ اسے مسلم نے (506) روایت کیا ہے۔

شوکانی کا قول ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اسکے ساتھ قرین ہے۔ اور قاموس میں ہے کہ القرین۔ المقارن ساتھ ملے ہوئے۔ الصاحب ہم نشین کو کہتے ہیں اور شیطان انسان کے ساتھ ملا ہوا ہے اور اس سے جدا نہیں ہوتا اور یہاں سے مراد بھی یہی ہے دیکھیں نیل الاوطار (3/7)

واللہ اعلم .
 

x boy

محفلین
تخلیق آدم علیہ السلام کا معمہ !

قرآن پڑھو تو لگتا ھے اللہ پاک نے انسان نام کی ایک مخلوق براہ راست مٹی سے بنائی ! اس کو اپنا خلیفہ یا وائسرائے بنایا جو زمین کو اس کے بنائے گئے قوانین کے مطابق چلائے گا !

لگتا کچھ یوں ھے کہ یہ نہایت ھی اھم موقع تھا،، کائنات میں پہلی دفعہ اور آخری دفعہ اتنا بڑا مگر پروقار جشن منایا جا رھا تھا !ایک نئ مخلوق کا تعارف اس شان سے کرایا جا رھا تھا کہ یہ اللہ کا نائب ھو گا ! پہلی دفعہ کسی مخلوق کو رب کی روح میں سے کچھ چکھایا جا رھا تھا اور اس کی صفات میں سے کچھ کا بارِ امانت اس کے کندھوں پر لادھا جا رھا تھا ! اس سے پہلے کوئی مخلوق اس بار کو اٹھانے کی متحمل نہیں تھی،، ادھر یہ نووارد اس اعزاز سے نوازا جا رھا تھا،، اس سیاق و سباق کے ساتھ کہ پہلے اللہ پاک نے ناکام رہ جانے والوں کا ذکر کچھ اس طرح کیا " ھم نے اس سے پہلے آسمانوں کو دعوت دی اور انہیں پیش کش کی کہ وہ اس امانت کو اٹھائیں،، یہی پیش کش زمین کو کی اور پہاڑوں سے بھی کہا کہ تم میں سے کون کون اس بارِ امانت اور محاسبے کے مرحلے کو اپنے ذمے لینے کو تیار ھے،،کچھ نے تو صاف صاف دوٹوک انکار کر دیا اور کچھ نے پیش کش پرکشش ھونے کے باوجود محاسبے والی شرط سے خائف ھو کر ھاتھ کھڑے کر دیئے ! اور اس انسان نام کی نووارد مخلوق نے جسے جمعہ جمعہ آٹھ دن ھوئے تھے وجود پائے ھوئے اسے پرشوق انداز میں اٹھانے پر آمادگی ظاھر کر دی ،، ھمیں تو یہ نہایت بھولا ، سادا اور انجام سے بےخبر لگا ھے !

سورہ بقرہ میں جس کو خلافت کہا گیا ھے ان ھی ذمہ داریوں کو سورہ الاحزاب 72 میں بارِ امانت ( freedom of choice ) اور پھر آزادئ اختیار و ارادہ کے مضمرات ( responsibility ) کا سامنا کرنا ھے !

انسان سے پہلے کوئی مخلوق اس کائنات میں اس عہدے کی حامل نہیں تھی جس کا خلیفہ( successor ) انسان کو سمجھا جائے ! یہ بات سورہ الاحزاب کی ایت 72 سے بالکل واضح ھے،، اگر یہاں خلافت سے مراد اللہ کی نیابت کی بجائے جانوروں میں بعد میں آنے والا مراد لیا جائے تو پھر یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ " جب بھی نئ تخلیق ارتقاء کے مراحل سے گزر کر تکمیل کو پہنچتی تھی تو اللہ تعالی اسی طرح ایک محفل سجایا کرتے تھے،جس میں آسمان کے چپے چپے کو بھر دینے والے فرشتوں کو اکٹھا کیا جاتا تھا اور عزازیل عرف ابلیس کو بھی اور اعلان کیا جاتا تھا کہ یہ نیو ورلڈ منکی(New world monkey ) ھے جو اپنے سے پہلوں کا خلیفہ بنایا جا رھا ھے ! پھر صدیوں بعد نئے سرے سے ایک جشن خلافت منایا جاتا اور تمام مہمانوں کو بتایا جاتا کہ " یہ اولڈ ورلڈ منکی( Old world monkey) ھے جو میری نئ پراڈکٹ اور پچھلوں کا خلیفہ ھے ؟

آخر آدم کے ساتھ ھی خلیفہ لگا کر انہیں اپنے سے پہلے حیوانات کا خلیفہ قرار دینے کا کیا مقصد تھا ؟ جبکہ ان ذمہ داریوں کا تعین تک کیا جا رھا ھے جو آدم علیہ السلام نے اللہ کے behalf پر سر انجام دینی ھیں ! اس میں خلیفہ سے مراد vicegerent ھے جو ملکہ برطانیہ کے وائسرائے کے طور پر ھند میں حکومت کرتا تھا ! امانت سے مراد وہ اختیاراتِ مفوضہ ھیں جنہیں Delegated Powers کہا جاتا ھے !

دوسری طرف کی کہانی کچھ یوں ھے کہ جب بندروں کی ایک نسل کو درختوں سے لپٹنے کی ضرورت نہ رھی اور اس نے زمین پر بسنا سیکھ لیا تو قانونِ فطرت کے مطابق انہیں دم کی ضرورت بھی نہ رھی، کیونکہ دم کی ضرورت تو درختوں پر بیلنس بنانے کے لئے تھی،، جب غاروں میں رھنا شروع کیا تو دم نسل در نسل کم ھونا شروع ھو گئ ،، آخرکار ایک اچھا بھلا ریوڑ ان اولڈ ورلڈ بندروں اور بندریوں کا وجود میں آیا جو بغیر دم کے تھے،، اس ریوڑ میں سے ایک اچھے صحتمند بے دُم کے بندر کو چنا گیا اور اس کا نام آدم رکھا گیا اور پھر اسے بندروں کی پچھلی نسل کا successor یا خلیفہ قرار دیا گیا ،، نہ کہ اللہ کا خلیفہ ! مزے کی بات یہ ھے کہ بعد میں آنے والا کسی کے خلیفہ بنانے یا اعلان کرنے کا محتاج نہیں ھوتا وہ تو خود بخود بعد میں آنے والا ھوتا ھے !!

اس تھیوری پہ جسے لوگ حقیقت سمجھتے اور حقیقت کے طور پہ پیش کرتے اور حقیقت کے طور پہ منوانا چاھتے ھیں ،، کچھ سوالات اٹھتے ھیں ! میں نے یہی سوالات ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے سامنے بھی رکھے تھے،، جن کا جواب دینا انہوں نے قبول نہیں کیا تھا اور پہلے قمر قریشی صاحب ،پھر اعوان صاحب کے ذریعے یہی جواب دیا تھا کہ میں اس پہ کوئی مناظرہ کرنے کو تیار نہیں ھوں ، یہ میرا ذوق ھے اور اس کو مانے بغیر بھی تنظیم میں رھا جا سکتا ھے ،،مگر میں نے تنظیم چھوڑ دی تھی کیونکہ ایک عام آدمی تو اس طرح گزارا کر سکتا ھے ،مگر صاحب منبر جسے لوگوں کے سوالات کا سامنا کرنا ھوتا ھے اس کا خود مطمئن ھونا اور لوگوں کو مطمئن کرنا ضروری ھوتا ھے،، اس کے علاوہ مجھے ڈاکٹر صاحب مرحوم اور ان کی تنظیم سے کوئی خاص شکایت نہیں تھی !
اگرچہ قرآن کی بعض آیات سے استدلال کیا جا سکتا ھے ، مگر وھی آیات پہلی صورت کے حق میں بھی استدلال کا ذریعہ بن سکتی ھیں !

1 - آدم کو بطور آدم رحم مادر ( کسی بندریا کی رحم ) میں ھی قرار دیا گیا تھا،یعنی ان میں روح اسی طرح چوتھے ماہ میں رحم مادر میں پھونکی گئ تھی؟
2- اگر ایسا آدم علیہ السلام کے جوان ھونے کے بعد کیا گیا تھا تو کیا بلوغت سے پہلے کی آدم کی زندگی حیوانی زندگی تھی اور اس میں وہ ایک حیوان ھی کی طرح ماں بہن کا فرق کیئے بغیر معاملات چلاتے رھے ؟ کیونکہ یہ واقعہ کم از کم اس وقت پیش آیا ھے جب آدم علیہ السلام شادی کے قابل ایک میچور مرد تھے جو فرشتوں کے مجمعے میں بھی سراسیمہ نہیں ھوئے اور انہیں فر فر سبق پڑھ کر سناتے رھے،،

3 یہودیوں کو حضرت عیسی علیہ السلام کے بغیر باپ کے پیدا ھونے کا یقین نہیں تھا،وہ انہیں یوسف نجار کی ناجائز اولاد قرار دیتے تھے ! اور سوال کرتے تھے کہ کیا آج تک کوئی بغیر باپ کے پیدا ھوا بھی ھے ؟ یہ تو اللہ کی سنت کے خلاف ھے کہ وہ کسی کو بغیر باپ کے پیدا کرے!
اس کا جواب قرآن نے جو دیا ھے وہ نظریہ ارتقاء کے منہ پر طمانچہ ھے !
انۜ مثل عیسی عنداللہ کمثل " آدم " خلقہ من ترابٍ ثمہ قال لہ کن فیکون ( العمران 59 ) the case of Jesus is just like case of Adam ,whom he created out of Dust and said be and he was)
یہاں یہود کا اشکال بائیولاجیکل باپ پر تھا ! اگر آدم علیہ السلام کا بھی کوئی بائیولاجیکل باپ تھا چاھے وہ کوئی بندر ھی تھا ،،تو کیا آدم کی مثال عیسی جیسی ھو سکتی تھی اور کیا اللہ کو معاذاللہ دلیل دینا بھی نہیں آیا ؟ یا کیا اللہ پاک نعوذ باللہ یہود کو دھوکا دے رھا تھا کہ چونکہ یہ ڈارون کی تھیوری سے واقف نہیں ھیں اور آدم کو بن باپ کی تخیلق سمجھتے ھیں لہذا ان کے منہ بند ھو جائیں گے کہ عیسی کی ماں تو ھے،،آدم کی تو نہ ماں تھی نہ باپ !! کیا اللہ کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ مسقبل میں ڈارون یہ جھوٹ پکڑ لے گا ؟

4- اعتراض یہ ھے کہ جناب یہ کیسے ھو سکتا ھے کہ ایک مٹی کا پُتلا بنایا جائے اور پھر اس میں پھونک ماری جائے اور وہ گوشت میں تبدیل ھو کر آدم بن جائے ؟
مجھے تعجب ان حضرات پر ھے جو یہ مانتے ھیں کہ یہود کے اس اعتراض کا جواب عیسی علیہ السلام کے ذریعے دیا گیا کہ وہ گارے سے پرندے کی ایک مورت بناتے پھر اس میں پھونکتے تھے تو وہ ان کے ھاتھ میں ھی گوشت میں تبدیل ھوتا اس کے پر بھی اسی لمحے نکلتے اور وہ ان کے ھاتھ سے اڑ جاتا !
تخلق من الطین کہیۃ الطیر،، تم مٹی سے پرندے کا اسٹرکچر بناتے ھو،،فتنفخ فیہ ،، پھر تم اس میں پھونک مارتے ھو،، فتکون طیراً باذن اللہ ،،تو وہ پرندہ ھو جاتا ھے اللہ کے اذن سے( with Allah,s Delegated powers ) اب عیسی علیہ السلام کی پھونک سے جو کہ اللہ کی ادھار دی ھوئی قوت یا اختیار ھے مٹی گوشت میں تبدیل ھو جاتی مانتے ھو ! پھر اللہ کی براہ راست پھونک سے مٹی کے آدم کا گوشت میں تبدیل ھونا کیوں ناممکن سمجھتے ھو ؟ یا تو اس معجزے کی بھی تاویل کردو اور انکار کر دو،، یہ حسی معجزہ دیا ھی یہ ثابت کرنے کے لئے تھا کہ اللہ کی پھونک مٹی کو براہ راست گوشت میں تبدیل کر سکتی ھے،، چاھے وہ پھونک تمہارے جیسے انسان کو تفویض کر دی جائے !!
از:-
قاری حنیف ڈار ابوظہبی
 

x boy

محفلین
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ہرمزان ، نہاوند کا ایرانی گورنر تھا اور مسلمانوں کا کٹر دشمن تھا . اسکی وجہ سے مسلمانوں اور ایرانیوں میں کئی لڑائیاں هوئیں۔

آخر ایک لڑائی میں ہرمزان گرفتار ہوا . اسے یقین تھا کہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا . لیکن امیر المومنین حضرت عمر رضی الله عنہ نے اسے اس شرط پر رہا کر دیا کہ وه آئیندہ جزیہ دے گا .

آزاد ہو کر وه اپنے دارلخلافہ پہنچا ، بہت بڑی فوج اکٹھی کی اورمسلمانوں کے مقابلے میں اتر آیا . لیکن اس بار بهی اسے شکست ہوئی اور ہرمزان دوبارہ سے گرفتار ہو کر خلیفہ کے سامنے پیش کیا گیا .

ہرمزان کے چہرے سے صاف ظاہر تھا که وه خود کو صرف کچھ لمحوں کا مہمان سمجھتا ہے .
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نے ہمارے ساتھ کئی بار عہد شکنی کی ہے . تم جانتے ہو کہ اس جرم کی سزا موت ہے ؟
ہرمزان نے کہا ہاں میں جانتا ہوں . اور مرنے کیلئے تیار ہوں .

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اسلام قبول کرنے کو کہا لیکن اس نے انکار کردیا اور کہا کہ میری ایک آخری خواہش ہے .
آپ نے پوچھا : کیا ؟
ہرمزان نے کہا میں شدید پیاسا ہوں اور پانی پینا چاہتا ہوں .

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم پر اسے پانی کا پیالہ پیش کیا گیا .

ہرمزان نے پیالہ ہاتھ میں پکڑ کر کہا: مجھے خوف ہے کہ پانی پینے سے پہلے ہی مجھے قتل نہ کر دیا جائے .

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اطمینان رکھو ، جب تک تم پانی نہ پی لو گے کوئی شخص تمہارے سر کو نہ چھوئے گا .

ہرمزان نے کہا: آپ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ جب تک میں پانی نہ پیوں گا ، مجھے قتل نہ کیا جائے گا . میں یہ پانی کبھی نہیں پیوں گا . یہ کہہ کر اس نے پیاله توڑ دیا اور کہنے لگا اب آپ مجھے کبھی قتل نہیں کر سکتے .

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسکرا کر فرمایا
تم نے عجیب چال چلی ہے لیکن عمر کو اپنے لفظوں کا پاس ہے . جاؤ تم آزاد ہو .

ہرمزان شکرگزاری اور حیرانی کے تاثرات کے ساتھ چلا گیا .

چند دن بعد ہی ہرمزان اپنے کچھ ساتھیوں سمیت خلیفہ کے سامنے حاضر ہوا اور درخواست کی کہ ہمیں اسلام میں داخل کرلیجئے

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نے اس وقت اسلام قبول کیوں نہ کیا جب میں نے تمہیں دعوت دی تھی

ہرمزان نے کہا کہ صرف اس لیے کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں نے موت کے خوف سے کلمہ پڑھ لیا ہے ۔ اب میں اپنی رضا سے اسلام قبول کرتا ہوں

( اسلامی واقعات کی کتاب"بصائر"سے اقتباس ).
 

x boy

محفلین
میں اللہ سے کیوں ڈروں ؟

1- کیا وہ ظالم ھے ؟

2- کیا وہ میری نیکیاں کسی اور کو دے دے گا ؟

3- کیا وہ کسی کے گناہ مجھ پر لاد دے گا ؟

4- کیا وہ کسی ایسے آدمی کی وجہ سے جو میری نسبت نفل زیادہ پڑھتا ھے اور میرے ساتھ اس کی ان بن ھو گئ ھے تو اللہ اس ادمی کی حمایت میں میری فائلوں میں وہ گناہ ڈال دے گا جو نہیں کیئے یا ان گناھوں کا ریٹ اور ویٹ بڑھا دے گا ؟

5- کیا وہ جج کی طرح کسی کے نفلوں کے آگے بِک جائے گا ؟

6- کیا وہ کسی کرپٹ وکیل کی طرح مخالف پارٹی سے مل جائے گا؟

7- کیا وہ پولیس کی طرح چرس کی پڑیا میرے نامہ اعمال میں گھسا کر حدود کا پرچہ بنا دے گا ؟

8- کیا وہ پٹواری کی طرح میری جنت کسی اور کے نام کر دے گا ؟

9- جس طرح ماں اپنی بیٹیوں کی خاطر بیٹوں سے اور بیٹوں کی خاطر بیٹیوں سے ناجائز ناراض ھو جاتی ھے ، اللہ بھی کسی سے ناجائز ناراض ھو جاتا ھے ؟

10- جس طرح ایک چاپلوس اور نکمہ بیٹا والدین کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے رام کر کے اور مسکہ پالش کر کے ایک مخلص اور خدمتگار بیٹے کے بارے میں بدظن کر نے میں کامیاب ھو جاتا ھے، اسی طرح کوئی میرے بارے میں میرے رب کو بھی ورغلا دے گا ؟؟

تلک عشرۃٓ کاملہ !! مجھے کوئی ایک وجہ بتائی جائے کہ میں کیوں اپنے اللہ سے ڈروں ؟

یہ سارا کیا دھرا ھماری زبان کا ھے !

اتقوا اللہ کا ترجمہ اللہ سے ڈرو،،کر دیا ھے،، حالانکہ اس کا مطلب ھے اللہ کا خیال رکھو ! جو بات کرو جو کام کرو، بس اللہ کی پسند ناپسند اور رضا کا خیال رکھو،، جہاں جس ماحول میں ھو اللہ کا خیال رکھو ،، بے خدا ھو کے مت جیو،کوئی لمحہ بے خدا مت گزارو ،، روزے اس لئے فرض کیئے کہ تم کو اللہ کا خیال رکھنا آ جائے !

جو دم غافل ، سو دم کافر ،مرشد اے فرمایا ھُ۔۔و !

ڈر اپنے کرتوتوں کا ھوتا ھے،، بدنام اللہ کو کر دیا کہ اللہ سے ڈر لگتا ھے !

آپ سڑک پر جا رھے ھیں ! ٹریفک پولیس کی گاڑیاں آپ کے دائیں بائیں سے گزر رھی ھیں ،آپ کو پولیس سے ذرا ڈر نہیں لگ رھا بلکہ آپ پولیس گاڑیوں کو اور ٹیک بھی کر رھے ھیں !!

اچانک آپ نو انٹری میں داخل ھو گئے یا سرخ اشارہ جمپ کر دیا ،، اب آپ کی نظریں بیک مرر پر جم گئیں،، پولیس کی گاڑی دیکھ کر آپ کی ٹانگیں کانپنا شروع ھو گئیں،، رنگ پیلا پڑ گیا، بلڈ پریشر لو ھو گیا،، آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا ،،پسینے کی تریلیاں آنے لگیں ،، اور آپ کہہ رھے ھیں کہ یہ سب کچھ پولیس کے ڈر سے ھوا؟ کیوں اشارہ جمپ کرنے کے بعد پولیس کی گاڑی کے سینگ نکل آئے تھے،، آپ اپنے کارنامے کے نتائج سے خوفزدہ تھے نہ کہ پولیس سے،،یہی معاملہ ھم اللہ کے ساتھ کرتے ھیں !

قاری حنیف ڈار
 

x boy

محفلین
یہ ایک عالم کا فرمان ھے،، اسے سمجھنے میں ان کے قریبی دوستوں کو بھی پسینے آ گئے ھیں اور وہ اس سے اختلاف کر رھے ھیں،، حالانکہ عالم بھی عربی ھے اور ان کے دوست بھی عربی ھیں !

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ساری حیثیتیں ھیں،، آپﷺ شارع بھی ھیں اور چیف جسٹس بھی ھیں اور داعی اور مبلغ بھی ھیں،، آپ جب کوئی بات فرماتے تھے تو یہ دیکھنا پڑتا تھا کہ یہ فرمان کس حیثیت سے دیا جا رھا ھے،،مبلغ کی حیثیت سے گفتگو فرما رھے ھیں تو یہ ترغیب و ترھیب ھے،، یا جج کی حیثیت سے پہلے سے موجود کسی قانون کی وضاحت فرما رھے ھیں یا مقنن کی حیثیت سے کوئی نیا قانون دے رھے ھیں،، اب یہاں سے اختلاف کی بنیاد پڑتی ھے،، ایک فقیہہ اس کو مقنن کی گفتگو سمجھتا ھے تو دوسرا کہتا ھے کہ نہیں یہ تو عدالت بول رھی تھی جو فلاں قانون کی تشریح کر رھی تھی،، تیسرا فقیہہ کہتا ھے کہ نہیں جناب یہاں آپﷺ بطور مقنن بات کر رھے تھے اور فلاں قانون کی فلاں شق میں ترمیم کر کے اسے خاص یا عام کر رھے تھے ! چوتھا فقیہہ کہتا ھے کہ نہیں جناب یہ تو ایک مبلغ کا خطاب تھا جو لوگوں کو جھنجوڑ رھا تھا اور بس ،، اس سے کوئی چیز واجب یا فرض نہیں ھوتی !

الغرض حدیث کے حدیث ھونے میں کسی کو اختلاف نہیں بلکہ اس حدیث کی حیثیت پر اختلاف ھے ،،
کلام کی یہی تینوں قسمیں خود کلام الہی میں بھی موجود ھیں کہیں ترغیب و ترھیب ھے تو کہیں وضاحت و تشریح ھے تو کہیں قانون سازی کی جارھی ھے ! قرآن کی ترغیب و ترھیب اور دعوت و تبلیغ ، وجود باری تعالی کے دلائل اور توحید کے دلائل نہایت واضح اور عام اسلوب میں ھیں جن کو " ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر "کے طور پر متعارف کرایا ھے،،مگر قانون اور قانونی وضاحتیں اپنے پرت کھولنے کے لئے راتوں کا رت جگا اور جگر کا خون مانگتے ھیں اور قیامت تک مانگتے رھیں گے !

کچھ لوگ ایک حدیث مولانا گوگل سے لیتے ھیں اور شیخ الحدیث بن کر لوگوں پر منکر حدیث ھونے اور کافر ھونے کے فتوے لگانا شروع کر دیتے ھیں ! اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے کلام کو بہت ایزی لیتے ھیں گویا وہ ان کے کلاس فیلو کی بات ھے !! علماء اگر چاھئیں تو عربی عبارت پر رائے دے سکتے ھیں !
 

x boy

محفلین
گدھا اور انسان !!

اپنا پیدل سفر چونکہ لیاقت باغ سے سیٹلائٹ ٹاؤن ایف بلاک نیوکٹاریاں تک ھوتا تھا تو رستے میں تین چار سینموں کے پاس سے گزرنا پڑتا تھا،،موتی محل ،، شبستان نازسینما اور نادر سینما !!

اس زمانے میں آدھی فلم تو بڑے بڑے بورڈوں پہ پینٹ کر کے باھر ھی دکھا دی جاتی تھی ! جو غالباً دین کے خلاف ایک سازش تھی تا کہ مستقبل کی مذھبی قیادت کے ایمان پر ڈاکا ڈالا جائے ! ھم چونکہ اس زمانے میں مرفوع القلم واقع ھوئے تھے اس لئے بغور سب کو دیکھتے ھوئے جاتے تھے تا کہ سند رھے !

خیر پنجابی کم از کم فلموں کے بارے میں کافی بدذوق واقع ھوئے ھیں اور اسی کا نتیجہ ھے کہ پنجابی فلموں کے ھیرو اور ولن عموماً غیر فطری موت مرتے دیکھے گئے ھیں ! وہ تمام پنجابی گانے جو ھم ریڈیو سینے پر رکھ کر مغرب اور عشاء کے درمیاں چھت پر لیٹ کر باوضو سنا کرتے تھے ،، اور خود کو ھیرو والی جگہ تصور کر کے فلم کی ڈبنگ چھت پر ھی کر لیتے تھے،، بعد میں پتہ چلتا کہ اس گانے کا دلبر جانی تو رنگیلا تھا ! اتنے خوبصورت گانے کا اتنا بدذوق انجام دیکھ کر ھمارے معصوم دل سے جو بدعا نکلتی وہ پنجابی ھیرو کو کھا جاتی ،، جو کہ بعد میں خود کشی کی نذر ھو جاتے ! کیونکہ ھماری دعا کسی کو لگے نہ لگے بدعا ضرور لگتی تھی !( واضح رھے مسلمان وضو کے معاملے میں کافی فراخدل واقع ھوا ھے،دیہات میں لوگ عصر کے بعد وضو کی حالت میں کسی کی فصل چوری کاٹ کر اپنے مویشیوں کو ڈالتے ھیں اور اسی عصر والے وضو سے مغرب بھی پڑھتے ھیں ،، جبکہ شہروں میں لوگ سر کی ٹوپی کی ھوا نکلے بغیر اسی ٹوپی سمیت با وضو ھو کر دوددھ میں پانی ڈالتے،، مرچوں میں اینٹیں پیس کر ڈال دیتے ھیں اور اسی وضو میں نماز پڑھ لیتے ھیں،، اور مسئلہ پوچھتے ھیں کہ سگریٹ پینے سے وضو ٹوٹ جاتا ھے ؟)

تو جناب ھم نے سینماؤں کے باھر " گدھا اور انسان " کے بورڈ دیکھے جن میں ایک گدھا بہت سارے گدھوں کو خطاب کر رھا ھوتا ھے ! بھٹو صاحب کا زمانہ تھا انہوں نے اس فلم کو اپنے خلاف سمجھ کر اس پر ایکشن بھی لیا جس پر لوگوں کی توجہ خواہ مخواہ ان کی طرف ھو گئ اور انہیں لینے کے دینے پڑ گئے ! مگر ھمیں آج اس فلم گدھا اور انسان پر بات نہیں کرنی بلکہ فلمی کی بجائے اصلی گدھے کا تعارف کرانا ھے !

جس طرح انسانوں میں لیڈر ھوتے ھیں ایسے ھی گدھوں میں بھی لیڈر ھوتے ھیں !! تفصیل اس اجمال کی یوں ھے کہ اینٹ کے بھٹوں پر آپ نے دس دس یا بیس بیس گدھوں کی لائنیں چلتی دیکھیں ھونگی جو بغیر کسی آدمی کے انتہائی منظم انداز میں چلتی نظر آتی ھیں اور کچی اینٹ لؤڈ کر کے متعلقہ آدمی تک لے جاتے ھیں جو آگے انہیں ترتیب سے رکھتا جاتا ھے جہاں آگ جلانی ھوتی ھے ،، اینٹ کی پکائی کے بعد میں بالکل اسی طرح وہ گدھے اینٹ بغیر کسی انسان کے لے کر واپس میدان تک پہنچاتے ھیں، 20 گدھوں کی لائن میں ایک لیڈر گدھا ھوتا ھے جو باقاعدہ سدھایا جاتا ھے ! یعنی Origin سے لے کر Destination تک ساری ذمہ داری لیڈر گدھے کی ھوتی ھے وہ آگے آگے چلتا ھے باقی گدھے اسی کے تابع ھوتے ھیں،یوں 200 گدھوں میں 10 گدھے لیڈر ھوتے ھیں ! رات کو جب گدھوں کو باندھا جاتا ھے تو صرف لیڈر گدھے کے پاؤں میں رسی ڈالی جاتی ھے ،، باقی گدھوں کے صرف ٹخنے دبا دیئے جاتے ھیں اور یوں وہ سمجھتے ھیں کہ ان کو بھی رسی ڈال دی گئ ھے،،، چونکہ رسی زدہ لیڈر گدھا رات بھر ایک جگہ مقیم رھتا ھے ،، یوں سارے بے رسی کے گدھے بھی اپنے خیال سے بندھے ایک ھی جگہ جمع رھتے ھیں !

الغرض 18 کروڑ عوام کو غلام بنانے کے لئے بیس پچیس لیڈروں کو رسی ڈال کر قوم کو غلامی کے عذاب سے دوچار کیا جا سکتا ھے،،یہ رسی ڈالرز اور پونڈ کی بھی ھو سکتی ھے اور دیگر مفادات کی بھی ،، بلیک میلنگ کی بھی ھو سکتی ھے اور جان کے خطرے کی بھی !! عوام کے صرف گٹے دبا دیئے گئے ھیں اور وہ سمجھتے ھیں کہ وہ بھی بندھے ھوئے ھیں،، جس دن قوم اس خیال سے آزاد ھو گئ اس دن حقیقی آزادی کا مزہ بھی چکھ لے گی !
 
Top