ایک فطری تذبذب۔۔!

بھلکڑ

لائبریرین
ریلوے لائن پر ٹھہرے ہُوئے اُسے قریباََ آدھ گھنٹہ ہوچلا تھا۔دورسے گاڑی کے سیٹی کی آواز سُنائی دی۔ بے خیالی کے عالم میں وہ اپنی زندگی کے ماضی قریب کے شب و روز کی تصویر ایک بار پھر ذہن میں لانے لگا۔ اُس نے یاد کیا کے اپنے دوسرے ہم عُمروں کی طرح وہ بھی اب سے کچھ گھنٹے پہلے تک کس قدر سکون میں تھا۔
اُس کی پُر سکون زندگی میں اضطراب کا باعث ایک نوعمر تھا۔آج سے کچھ عرصہ قبل ایک روز جب وہ یونیورسٹی جا رہا تھا تو شدید بارش اور کیچڑکیوجہ سے اُس کے جوتوںپر گارا لگ گیا تھا۔ یونیورسٹی کے باہر اُس نے ایک لڑکے کو جوتے پالش کرتے ہوئے دیکھا تو اُس کی جانب بڑھا۔ جوتا صاف کروانے کے بعد وہ یونیورسٹی کی طرف بڑھ گیا۔اگلے ہفتے میں وہ تین چار مرتبہ وہاں رُک کر جوتے صاف کروا چکا تھا۔ اُ س لڑکے کی آنکھوں کی چمک تھی شاید یا اپنی کام چوری وہ باقاعدگی سے وہاں آنے لگا۔دونوں کے درمیان دوستی کا تعلق استوار ہوا،کچھ عرصہ ہچکچاہٹ کے بعد وہ ایک دوسرے سے گرمجوشی سے ملنے لگے ،لڑکے کے پاس کچھ دیر خوش گپیوں میں اُس کا وقت اچھا گُزرنے لگا۔اُس کے پوچھنے پر لڑکے نے بتایا کہ وہ لوگ تین بہن بھائی ہیں اور اُن کا والد وفات پاچکا ہے، ماں کپڑے سلائی کرتی ہے اور وہ یوں کچھ پیسے جمع کرکے اپنے اور باقی گھر والوں کےکھانے کاسامان پیدا کرتا ہے۔پڑھنے لکھنے کا اُسے بہت شوق تھا ، کچھ کتابیں پاس ضرور تھیں مگر کسی اسکول میں باقاعدہ داخل نہ تھا۔

ریلوے گاڑی کی سیٹی کی آواز کافی قریب آچکی تھی۔

ایک روز جب وہ اُس کے پاس پہنچا ،تو وہ تھوڑا سا مُرجھایا ہوا لگ رہا تھا، استفسار پر اُس نے کہا کہ "میں بیمار ہوں اور منہ سے بہت خون آرہا ہے،ر ڈاکٹر کو دکھانے کے لئے کچھ روپوں کی ضرورت ہے ، چند روز تک لوٹا دوں گا"، اُسے دلاسا دلاتے ہوئے کہنے لگا "پریشانی کی کوئی بات نہیں میں تمہیں خود ڈاکٹر کے پاس لے چلوں گا"۔اس تسلی سے شاید وہ کچھ مطمئن ہوگیا تھا۔
پتہ نہیں 'اُسے' یہ دلاسا کیوں دلایا،مگر اُسی وقت اُسے غصہ آنے لگاکہ اُس کی اپنی غلطی تھی کہ وہ اتنا فری ہوگیا تھا۔ یہ سبھی اسی طرح کے ہوتے ہی پیسوں کے لالچی، اسے بھلا اب کیا بیماری ہے،چنگا بھلا تو ہے۔ خود کو کوستا ہوا وہ پھر یونیورسٹی چلا گیا۔
چند روز دوسرے دروازے سے داخل ہونے کے بعد وہ پھر سے اسی طرف آگیا۔اور بلا جھجک وہ اُ س لڑکے کے سامنے سے گزرتے ہوئے یونیورسٹی داخل ہوجاتا۔
پھر ایک دن جب وہ آرہا تھا تو ایک جگہ چند لوگوں کو کھڑے ہوئے دیکھا۔ ہجوم کو چیرتے ہوئے تھوڑا سا آگے بڑھا تو سامنے خون سے لُتھڑی ،پیوند لگی ،سُرمئی سی قمیص میں وہ اُوندھا پڑا ہوا تھا۔اُس کے بعد کی ہوش اُسے نہ رہی ۔چلتے چلتے وہ شہر کے باہر کی جانب بڑھا اور یہاں آ پہنچا۔
ٹرین ڈرائیور نے بہتیری سیٹیاں بجائیں مگر وہ شاید اپنے ضمیر پر یہ بوجھ برداشت نہ کرسکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
ایک تجویز ہے۔ توجہ فرمائیے گا۔۔
جہاں جہاں لفظ ہارن آیا ہے وہاں وہاں سیٹی یا سیٹیاں حسبِ موقع لگا دیجئے اور افسانے کا عنوان بھی یہی دے دیں "سیٹیاں" ۔۔۔۔۔ ایک لفظ نوٹ کر لیجئے "بہتیرے"
ع: "سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے"
،،،
 
آخری تدوین:

بھلکڑ

لائبریرین
مختصر ، پُر اثر
اچھا لکھتے ہیں آپ
بس اسی طرح حوصلہ افزائی کیتے رہا کیجئے :)
سچا المیہ.
آپ کی تحریر پڑه کر بہت اچها محسوس ہوتا ہے باسم. اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!
:) :)
بہت خوب ، تھوڑا سا طول دے سکتے تھے ۔ لکھتے رہا کریں ۔
جی سر! انشاءاللہ!
:)
ایک مکمل اور بھرپور افسانہ !! چست، مختصر اور نشتری!! زبان بھی سادہ رکھی، اچھا کیا۔
بہت خوب۔
سر ! :)
دعا کرتے رہا کیجئے! :)
:)
 

بھلکڑ

لائبریرین
ایک تجویز ہے۔ توجہ فرمائیے گا۔۔
جہاں جہاں لفظ ہارن آیا ہے وہاں وہاں سیٹی یا سیٹیاں حسبِ موقع لگا دیجئے اور افسانے کا عنوان بھی یہی دے دیں "سیٹیاں" ۔۔۔۔۔ ایک لفظ نوٹ کر لیجئے "بہتیرے"
ع: "سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے"
،،،
بہتر سر!:)
سیٹی میں کررہا ہوں اور عنوان کے لئے قیصرانی چاچو!:)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
خوبصورت، مختصر افسانہ اور عمدہ اندازِ بیاں۔۔۔ بہت خوب باسم۔۔۔ جب بھی لکھتے ہو بہت اچھا لکھتے ہو۔ ماشاءاللہ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بہتر سر!:)
سیٹی میں کررہا ہوں اور عنوان کے لئے قیصرانی چاچو!:)
اچھا لکھا۔ تاہم اختتام کو کچھ طول مل جاتا یعنی چند فقرے اضافی تو بہت اچھا تائثر مزید اچھا ہو جاتا :)
یہاں ایک دم صیغہ بدل جاتا ہے:
اُسے دلاسا دلاتے ہوئے کہنے لگے
عنوان کے بارے استادِ محترم یا نین بھائی سے بہتر کون بتا سکتا ہے :)
 
افسانے کا مرکزی خیال اچھا ہے
کچھ جزیات نگاری اور مکالموں پر بھی توجہ دیں
تھوڑا سا طول دیا جا سکتا تھا
انداز تحریر سادہ اور پر اثر ہے
اللہ کرے زور قلم زیادہ
 

بھلکڑ

لائبریرین
خوبصورت، مختصر افسانہ اور عمدہ اندازِ بیاں۔۔۔ بہت خوب باسم۔۔۔ جب بھی لکھتے ہو بہت اچھا لکھتے ہو۔ ماشاءاللہ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
:) :)
اچھا لکھا۔ تاہم اختتام کو کچھ طول مل جاتا یعنی چند فقرے اضافی تو بہت اچھا تائثر مزید اچھا ہو جاتا :)
یہاں ایک دم صیغہ بدل جاتا ہے:

عنوان کے بارے استادِ محترم یا نین بھائی سے بہتر کون بتا سکتا ہے :)
:) :) جی ! ٹھیک کر دیا ہے!
اُستاد محتر م نے ہی "سیٹیاں تجویز کیا ہے! :)
افسانے کا مرکزی خیال اچھا ہے
کچھ جزیات نگاری اور مکالموں پر بھی توجہ دیں
تھوڑا سا طول دیا جا سکتا تھا
انداز تحریر سادہ اور پر اثر ہے
اللہ کرے زور قلم زیادہ
مشکور سر ! :)
جی انشاءاللہ!
بس یونہی دُعا کرتے رہا کیجئے! :)
 

نایاب

لائبریرین
مختصر مگر مکمل ابلاغ کی حامل بہترین تحریر ۔ بلاشبہ
شاید طوالت کے سبب اثر سے محروم ہوجاتی ۔۔
بہت دعائیں
 

سیما علی

لائبریرین
ریلوے لائن پر ٹھہرے ہُوئے اُسے قریباََ آدھ گھنٹہ ہوچلا تھا۔دورسے گاڑی کے سیٹی کی آواز سُنائی دی۔ بے خیالی کے عالم میں وہ اپنی زندگی کے ماضی قریب کے شب و روز کی تصویر ایک بار پھر ذہن میں لانے لگا۔ اُس نے یاد کیا کے اپنے دوسرے ہم عُمروں کی طرح وہ بھی اب سے کچھ گھنٹے پہلے تک کس قدر سکون میں تھا۔
اُس کی پُر سکون زندگی میں اضطراب کا باعث ایک نوعمر تھا۔آج سے کچھ عرصہ قبل ایک روز جب وہ یونیورسٹی جا رہا تھا تو شدید بارش اور کیچڑکیوجہ سے اُس کے جوتوںپر گارا لگ گیا تھا۔ یونیورسٹی کے باہر اُس نے ایک لڑکے کو جوتے پالش کرتے ہوئے دیکھا تو اُس کی جانب بڑھا۔ جوتا صاف کروانے کے بعد وہ یونیورسٹی کی طرف بڑھ گیا۔اگلے ہفتے میں وہ تین چار مرتبہ وہاں رُک کر جوتے صاف کروا چکا تھا۔ اُ س لڑکے کی آنکھوں کی چمک تھی شاید یا اپنی کام چوری وہ باقاعدگی سے وہاں آنے لگا۔دونوں کے درمیان دوستی کا تعلق استوار ہوا،کچھ عرصہ ہچکچاہٹ کے بعد وہ ایک دوسرے سے گرمجوشی سے ملنے لگے ،لڑکے کے پاس کچھ دیر خوش گپیوں میں اُس کا وقت اچھا گُزرنے لگا۔اُس کے پوچھنے پر لڑکے نے بتایا کہ وہ لوگ تین بہن بھائی ہیں اور اُن کا والد وفات پاچکا ہے، ماں کپڑے سلائی کرتی ہے اور وہ یوں کچھ پیسے جمع کرکے اپنے اور باقی گھر والوں کےکھانے کاسامان پیدا کرتا ہے۔پڑھنے لکھنے کا اُسے بہت شوق تھا ، کچھ کتابیں پاس ضرور تھیں مگر کسی اسکول میں باقاعدہ داخل نہ تھا۔

ریلوے گاڑی کی سیٹی کی آواز کافی قریب آچکی تھی۔

ایک روز جب وہ اُس کے پاس پہنچا ،تو وہ تھوڑا سا مُرجھایا ہوا لگ رہا تھا، استفسار پر اُس نے کہا کہ "میں بیمار ہوں اور منہ سے بہت خون آرہا ہے،ر ڈاکٹر کو دکھانے کے لئے کچھ روپوں کی ضرورت ہے ، چند روز تک لوٹا دوں گا"، اُسے دلاسا دلاتے ہوئے کہنے لگا "پریشانی کی کوئی بات نہیں میں تمہیں خود ڈاکٹر کے پاس لے چلوں گا"۔اس تسلی سے شاید وہ کچھ مطمئن ہوگیا تھا۔
پتہ نہیں 'اُسے' یہ دلاسا کیوں دلایا،مگر اُسی وقت اُسے غصہ آنے لگاکہ اُس کی اپنی غلطی تھی کہ وہ اتنا فری ہوگیا تھا۔ یہ سبھی اسی طرح کے ہوتے ہی پیسوں کے لالچی، اسے بھلا اب کیا بیماری ہے،چنگا بھلا تو ہے۔ خود کو کوستا ہوا وہ پھر یونیورسٹی چلا گیا۔
چند روز دوسرے دروازے سے داخل ہونے کے بعد وہ پھر سے اسی طرف آگیا۔اور بلا جھجک وہ اُ س لڑکے کے سامنے سے گزرتے ہوئے یونیورسٹی داخل ہوجاتا۔
پھر ایک دن جب وہ آرہا تھا تو ایک جگہ چند لوگوں کو کھڑے ہوئے دیکھا۔ ہجوم کو چیرتے ہوئے تھوڑا سا آگے بڑھا تو سامنے خون سے لُتھڑی ،پیوند لگی ،سُرمئی سی قمیص میں وہ اُوندھا پڑا ہوا تھا۔اُس کے بعد کی ہوش اُسے نہ رہی ۔چلتے چلتے وہ شہر کے باہر کی جانب بڑھا اور یہاں آ پہنچا۔
ٹرین ڈرائیور نے بہتیری سیٹیاں بجائیں مگر وہ شاید اپنے ضمیر پر یہ بوجھ برداشت نہ کرسکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوب صورت
 

سیما علی

لائبریرین
بڑے سالوں کی بات ہے ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا دعا کریں مجھے کام مل جائے
میں نے کہا، تم یقین سے کہتے ہو تمھیں کام کی تلاش ہے؟
کہنے لگا حد کرتے ہو میں پچھلے دو سال سے بیکار ہوں، اگر مجھے کام کی تلاش نہ ہوگی تو کسے ہوگی؟
میں نے کہا، اچھا اگر تمھیں کام مل جائے اور اگر معاوضہ نہ ملے تو پھر۔۔۔۔۔؟
وہ حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگا، تو میں نے کہا!
اچھا اگر تمھیں کام مل جائے اور کام کرنے کی تنخواہ نہ ملے پھر۔۔۔۔۔؟
گھبرا کر کہنے لگا، مجھے ایسا کام نہیں چاہئے جیسا کہ تم کہ رہے ہو مجھے نوکری والا کام چاہیے- ایسا کام جس کے دام ملیں-
میں نے کہا اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
اگر تم کو تنخواہ ملتی رہے اور کام نہ کرنا پڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ؟
کہنے لگا سبحان الله ایسا ہو جائے تو اور کیا چاہئے-
میں نے کہا پھر تمھیں کام کی تلاش نہیں، تنخواہ کی اور معاوضے کی تلاش ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی طرح ہم خدا کے ساتھ کرتے ہیں بظاہر عبادت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باطن کسی اور شے کا طلبگار ہوتا ہے!!!!!!
 
Top