ایک غزل تنقید، تبصرہ اور رہنُمائی کیلئے، '' یار میں سپنا بُن بیٹھا ہوں''

یار میں سپنا بُن بیٹھا ہوں
اُس کو ساتھی چُن بیٹھا ہوں

نسبت اُس کو موسیقی سے
میں بھی چھیڑے دھُن بیٹھا ہوں

اُٹھ جاؤں گا، وہ مل جائے
دل میں لے کر دھُن، بیٹھا ہوں

ہر باری اک لطف نیا ہے
اُسکی باتیں سُن بیٹھا ہوں

ہجر تُجھے تو موت آ جائے
پوچھے ہے کیوں ٹُن بیٹھا ہوں

اُٹھا تھا میں گن لوں اپنے
گن کر سارے گُن بیٹھا ہوں

پاپ کمائے سوچ کے اُٹھا
گنتے گنتے پُن بیٹھا ہوں




 

طارق شاہ

محفلین
اچھی ہے ، الفاظ کی نشست فطری رکھیں (تعقید لفظی کا خیال رکھیں) تو قاری کو اور ہی مزہ آئے

یار کا سپنا بُن بیٹھا ہوں
اُس کو ساتھی چُن بیٹھا ہوں

پیار اُسے جو موسیقی سے
چھیڑکے میں بھی دھُن بیٹھا ہوں

مل جانے پر ہی چھوڑوں گا
ٹھان کے اب یہ دھُن، بیٹھا ہوں

لطف نیا ہر بار دے سُننا
اُس سے کیا کیا سُن بیٹھا ہوں

ہجر کو آ ئے موت نہ دیکھو
پوچھتا ہے کیوں ٹُن بیٹھا ہوں

یاد ہے کتنے لے کے اُٹھنا !
گِن کر اپنے گُن بیٹھا ہوں

پاپ مِٹانے کی سوچوں پر !
جیب میں لے کے پُن بیٹھا ہوں
آپ ذرا سی محنت سے اس سے بہتر سوچ لیں گے :):)


 
آخری تدوین:
عدم روانی کا شکار ہے غزل، بلکہ یہی بات طارق شاہ کی اصلاح پر بھی کہہ سکتا ہوں
اُستاد محترم یوں کہا جائے تو

اب تو سپنا بُن بیٹھا ہوں
اُس کو ساتھی چُن بیٹھا ہوں

نسبت اُس کو موسیقی سے
چھیڑے میں بھی دھُن بیٹھا ہوں

اُٹھ جاؤں گا، مل جائے وہ
دل میں لے کر دھُن، بیٹھا ہوں

چاہوں اتنا پھر سے کہ دے
ساری باتیں سُن بیٹھا ہوں

ہجر تُجھے تو موت آ جائے
دیکھ رہا ہے ٹُن بیٹھا ہوں

نقص زیادہ نکلے میرے
گن کر اُس کے گُن بیٹھا ہوں

گاہک اکا دُکا اظہر
آج کمانے پُن بیٹھا ہوں​
 

الف عین

لائبریرین
اب تو سپنا بُن بیٹھا ہوں
اُس کو ساتھی چُن بیٹھا ہوں
÷÷اب تو سے بات واضح نہیں ہوتی
پھر سے سپنا بُن۔۔۔ کر دو

نسبت اُس کو موسیقی سے
چھیڑے میں بھی دھُن بیٹھا ہوں
÷÷اس میں روانی نہیں،
اس کو ہے سنگیت سے نسبت
میں بھی چھیڑے
لیکن نسبت کی جگہ کچھ اور نہیں ہو سکتا؟

اُٹھ جاؤں گا، مل جائے وہ
دل میں لے کر دھُن، بیٹھا ہوں
÷÷بس وہ مل جائے، اٹھ جاؤں
کیسا رہے گا؟


چاہوں اتنا پھر سے کہ دے
ساری باتیں سُن بیٹھا ہوں
۔۔کہہ دے، کو کہ دے‘ لکھنا غلط ہے۔
چاہتا ہوں وہ پھر سے کہہ دے
سب کچھ اگرچہ سن ۔۔

ہجر تُجھے تو موت آ جائے
دیکھ رہا ہے ٹُن بیٹھا ہوں
÷÷ٹن بیٹھنا فصیح محاورہ نہیں، پہلا مصرع اتنا زبردست ہے، کوئی دوسرا مصرع گرہ لگاؤ۔

نقص زیادہ نکلے میرے
گن کر اُس کے گُن بیٹھا ہوں
۔۔خوب

گاہک اکا دُکا اظہر
آج کمانے پُن بیٹھا ہوں
واضح نہیں۔ کمانے بیٹھے ہو تو بیچ کیا رہے ہو
 
اب تو سپنا بُن بیٹھا ہوں
اُس کو ساتھی چُن بیٹھا ہوں
÷÷اب تو سے بات واضح نہیں ہوتی
پھر سے سپنا بُن۔۔۔ کر دو
اُستاد محترم اگر پھر سے کہا تو سوال اُٹھتا ہے کہ کیا پہلے بھی کہا تھا ، اگر یارو ہی استعمال ہو تو زیادہ بہتر نہ ہو گا کیا؟

نسبت اُس کو موسیقی سے
چھیڑے میں بھی دھُن بیٹھا ہوں
÷÷اس میں روانی نہیں،
اس کو ہے سنگیت سے نسبت
میں بھی چھیڑے
لیکن نسبت کی جگہ کچھ اور نہیں ہو سکتا؟
یوں دیکھ لیجئے جناب
اس کو ہے سنگیت سے رغبت


اُٹھ جاؤں گا، مل جائے وہ
دل میں لے کر دھُن، بیٹھا ہوں
÷÷بس وہ مل جائے، اٹھ جاؤں
کیسا رہے گا؟
اگر یوں ہو تو جناب؟
اُس سے مل کر اُٹھ جاؤں گا



چاہوں اتنا پھر سے کہ دے
ساری باتیں سُن بیٹھا ہوں
۔۔کہہ دے، کو کہ دے‘ لکھنا غلط ہے۔
چاہتا ہوں وہ پھر سے کہہ دے
سب کچھ اگرچہ سن ۔۔
چاہتا تو فاعلن نہیں ہو جاتا جناب؟، یوں بھی دیکھ لیجئے
خواہش ہے وہ پھر سے کہہ دے
سب کچھ گرچہ سُن بیٹھا ہوں


ہجر تُجھے تو موت آ جائے
دیکھ رہا ہے ٹُن بیٹھا ہوں
÷÷ٹن بیٹھنا فصیح محاورہ نہیں، پہلا مصرع اتنا زبردست ہے، کوئی دوسرا مصرع گرہ لگاؤ۔
ردیف کی مجبوری ہے ، یوں کہیں تو
پیتا ہوں اور ٹُن بیٹھا ہوں


نقص زیادہ نکلے میرے
گن کر اُس کے گُن بیٹھا ہوں
۔۔خوب

گاہک اکا دُکا اظہر
آج کمانے پُن بیٹھا ہوں
واضح نہیں۔ کمانے بیٹھے ہو تو بیچ کیا رہے ہو
پاس نہیں جو بیچوں اظہر
اور کماؤں پُن، بیٹھا ہوں


گویا اب صورتحال کچھ یوں بنی

یارو سپنا بُن بیٹھا ہوں
اُس کو ساتھی چُن بیٹھا ہوں

اس کو ہے سنگیت سے رغبت
چھیڑے میں بھی دھُن بیٹھا ہوں

اُس سے مل کر اُٹھ جاؤں گا
دل میں لے کر دھُن، بیٹھا ہوں

خواہش ہے وہ پھر سے کہہ دے
سب کچھ گرچہ سُن بیٹھا ہوں


ہجر تُجھے تو موت آ جائے
پیتا ہوں اور ٹُن بیٹھا ہوں

نقص زیادہ نکلے میرے
گن کر اُس کے گُن بیٹھا ہوں

پاس نہیں جو بیچوں اظہر
اور کماؤں پُن، بیٹھا ہوں

 
Top