ایک غزل برائے اصلاح

تشنہ لب اور دل جلے سارے
تیری محفل میں کل ملے سارے

یہ ستوں یعنی یہ ستودہ صفات
ہائے اندر سے کھوکھلے سارے

پائے رفتن نہ جائے ماندن سو
قافلے رہ میں لٹ گئے سارے

شل ہوئے پائوں پر نہ شوق گیا
پھوٹ کر روئے آبلے سارے

جائیں‌ پچھم کہ جائیں اب دکھن؟
ہوئے بیگانےراستے سارے

جونک لگتی نہیں ہے پتھر پر
دے چکے ہم بھی واسطے سارے

اڑ گئے قید سے کبوتر بھی
اور پتنگ اپنے کٹ گئے سارے

میں اکیلا نہ دار پر پرہوتا
سچ اگر مل کےبولتے سارے

وہ ملا مجھکو ایک نقطے میں
جو بناتا ہے زاویے سارے
 

الشفاء

لائبریرین
تشنہ لب اور دل جلے سارے
تیری محفل میں کل ملے سارے

یہ ستوں یعنی یہ ستودہ صفات
ہائے اندر سے کھوکھلے سارے

میں اکیلا نہ دار پر پرہوتا
سچ اگر مل کےبولتے سارے

وہ ملا مجھکو ایک نقطے میں
جو بناتا ہے زاویے سارے

واہ۔۔۔ بہت خوب کہا ہے بھیا۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
محفل میں خوش آمدید۔
ماشاء اللہ اچھی غزل ہے۔
تعجب ہے کہ بلال نے کچھ نہیں کہا، یہ اصلاح سخن میں پوسٹ ہوئی ہے۔ اس لئے اس سقم کی طرف تو اشارہ کر ہی ددں کہ مطلع میں ایطا ہے۔ یعنی اس سے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ قافیہ ’لے‘ پر ختم ہوتا ہے۔ بلکہ شروع کے دونوں اشعار سے یہی لگتا ہے۔
تشنہ لب اور دل جلے سارے
تیری محفل میں کل ملے سارے

یہ ستوں یعنی یہ ستودہ صفات
ہائے اندر سے کھوکھلے سارے
لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ حرف روی محض ُے‘ ہے۔ اس لئے مطلع بدل دیں۔
اس کے علاوہ پتنگ کی تذکیر و تانیث کے بارے میں دوسروں کا کیا خیال ہے؟ میں تو مؤنث پسند کرتا ہوں!!
 
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
پتنگ ابلیس کا تارا ہوا جاتا ہے گردوں کا
خدایا اس کو ڈور اتنی پلائی جا رہی کیوں ہے
( 1924ء، پیغام حیات، 5 )
 
Top