ایک غزل برائے اصلاح عرض۔

ایم اے راجا

محفلین
اساتذہ کرام السلام علیکم۔
آج کافی دنوں بعد پھر یہاں آمد ہوئی ہے، تو عرض کرتا چلوں کے میرے ایک دوست نے دو روز پہلے مجھ سے بحرِ متقارب مثمن سالم سیکھنے کا اظہار کیا اب استاد تو میں تھا نہیں بس وارث صاحب کی رٹی تقطیع سمجھائی اور اسنے آج مندرجہ ذیل غزل لا کر دی اور اصلاح کے لیئے کہا، غزل فنی اعتبار سے تو ٹھیک ہی ہے مگر اصلاحی اعتبار سے تو میں کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں ہوں تو یہاں ارسال کرنے کا کہہ کر حاضر ہوا ہوں، سو اصلاح فرمادیجیئے۔ شکریہ۔

خدا گر مجھے یہ جدائی نہ دیتا
سوا تیرے کچھ بھی دکھائی نہ دیتا

نہ رستہ نکلتا نہ منزل ہی ملتی
سرِ دشت کچھ بھی سجائی نہ دیتا

میں چیخا بہت ہوں ترے غم میں ورنہ
کسی کو کبھی میں سنائی نہ دیتا

مجھے رھ بھٹکنے کی عادت بہت تھی
خضر آ کے جو رہنمائی نہ دیتا

مجھے درد سارے تھے منظور لیکن
سرِ شہر یوں بے ردائی نہ دیتا

میں الجھا رہا اسکے دامن سے لوگو
وگرنہ کسی کو رسائی نہ دیتا

مجھے خضر کی تقطیع پر شک ہیکہ اسی لیئے اسے سرخ کر دیا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خضر کے وزن پر آپ کا شک صحیح ہے راجا صاحب، یہ خِضَر، غَلَط ہے، صحیح خض،ر ہے یعنی ض ساکن ہے سو موجودہ شکل میں مصرع بے وزن ہے۔

جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ غزل کا ہر ایک شعر اپنے آپ میں ایک مکمل بیان ہوتا ہے اور اسے غزل سے علیحدہ کر کے بھی پڑھیں تو وہ اپنا مطلب پورا دے لیکن یہ شعر

نہ رستہ نکلتا نہ منزل ہی ملتی
سرِ دشت کچھ بھی سجائی نہ دیتا

مطلعے کے ساتھ تو شاید کچھ نہ کچھ مطلب رکھتا ہو لیکن صرف شعر کی صورت میں کچھ مطلب نہیں دے رہا کہ کیوں رستہ نہ نکلتا کیوں منزل نہ ملتی کیوں کچھ سجھائی نہ دیتا، ان سب چیزوں کی کوئی وجہ بیان نہیں ہوئی شعر میں، نظرِ ثانی کا مقتضی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
وارث سے متفق ہوں میں بھی۔مزید اشعار بھی ایسے ہیں جن کی تفہیم مکمل نہیں ہوتی۔
خدا گر مجھے یہ جدائی نہ دیتا
سوا تیرے کچھ بھی دکھائی نہ دیتا

مجھے درد سارے تھے منظور لیکن
سرِ شہر یوں بے ردائی نہ دیتا

میں الجھا رہا اسکے دامن سے لوگو
وگرنہ کسی کو رسائی نہ دیتا
یہ اشعار توجہ چاہتے ہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
اچھی غزل ہے راجا بھائی یہ کون سا دوست ہے جس کے بارے میں میں نہیں جانتا

خرم بھائی بہت شکریہ، یہ دوست نیا ہے بلکہ یوں کہیں کہ دوست کم اور آفس کا ساتھی زیادہ ہے آجکل اسے شاعری کا بخار چڑھا ہوا ہے، کچھ لکا تھا مجھے دکھایا تو بات میں نے چھیڑ دی بحر و عروض کی اور پھر اسے اس بحر کے متعلق بتایا تو اسنے اس میں مندرجہ بالا غزل کہہ ڈالی۔
 

ایم اے راجا

محفلین
خضر کے وزن پر آپ کا شک صحیح ہے راجا صاحب، یہ خِضَر، غَلَط ہے، صحیح خض،ر ہے یعنی ض ساکن ہے سو موجودہ شکل میں مصرع بے وزن ہے۔

جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ غزل کا ہر ایک شعر اپنے آپ میں ایک مکمل بیان ہوتا ہے اور اسے غزل سے علیحدہ کر کے بھی پڑھیں تو وہ اپنا مطلب پورا دے لیکن یہ شعر

نہ رستہ نکلتا نہ منزل ہی ملتی
سرِ دشت کچھ بھی سجائی نہ دیتا

مطلعے کے ساتھ تو شاید کچھ نہ کچھ مطلب رکھتا ہو لیکن صرف شعر کی صورت میں کچھ مطلب نہیں دے رہا کہ کیوں رستہ نہ نکلتا کیوں منزل نہ ملتی کیوں کچھ سجھائی نہ دیتا، ان سب چیزوں کی کوئی وجہ بیان نہیں ہوئی شعر میں، نظرِ ثانی کا مقتضی ہے۔

بہت شکریہ وارث صاحب، میں اسے اس بات کا پابند بنانے کی کوشش کروں گا اور یہ بھی کوشش کروں گا کہ وہ یہاں آئے اور آپ سے ملے۔ شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث سے متفق ہوں میں بھی۔مزید اشعار بھی ایسے ہیں جن کی تفہیم مکمل نہیں ہوتی۔
خدا گر مجھے یہ جدائی نہ دیتا
سوا تیرے کچھ بھی دکھائی نہ دیتا

مجھے درد سارے تھے منظور لیکن
سرِ شہر یوں بے ردائی نہ دیتا

میں الجھا رہا اسکے دامن سے لوگو
وگرنہ کسی کو رسائی نہ دیتا
یہ اشعار توجہ چاہتے ہیں۔

بہت شکریہ استادِ محترم بہت عنایات، میں اسے یہ اشعار دوبارہ کہنے، اور یہاں کھینچ لانے کی پوری کوشش کروں گا۔
 
Top