ایک غزل آپ کی نذر

مغزل

محفلین
محترمی اعجاز عبید صاحب
آداب۔۔

میرے خیال میں روایت سے کسی حد تک گریز کیا جاسکتا ہے ۔۔۔
(دیکھئے ایک مثال ۔۔ کیا اس میں کوئی قباحت ہے ؟)

دن رات اس نظیر کا منظر ہی سوچیئے
جس میں چمن میں کوئی بھی صیّاد نہ رہے
( اس شعر کے مصرع ثانی میں گو نہ =نا ہورہا ہے۔۔۔۔۔۔ مگر یہ صرف مثال کے طور پر پیش کیا ہے)
 

گرو جی

محفلین
حضور میرے ذہن میں آیا ہیکہ جب بندہ غفلت میں ہوتا ہے تو وہ کچھ نہیں سوچتا سو شعر میں تبدیلی کی ہی ذرا توجہ فرمائیے گا۔

میں غفلت میں سویا رہا عمر ساری
نہ سوچا کبھی وہ حسابوں کا منظر
اسکی تفہیم میرا ذہن کچھ اس طرح کرتا ہے کہ، میں غفلت میں رہا اور کبھی حسابوں کے دن کے منظر کے بارے میں سوچا ہی نہیں، پچھتاوا ہے، اب ذرا دیکھیئے گا۔



غفلت میں گذاری اپنی عمر ساری
جہاں‌تک میرا اندازہ ہے کہ آپ نے خوابِ غفلت سے غفلت کا استعمال کیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ مغل۔ مثال تو دے دی ہے تم نے۔ لیکن کیا یہ مستند کہی جا سکتی ہے؟ کس کا شعر ہے۔ میں تےو نہ کو بطور نا بھی قبول نہیں کرتا۔ ذرا ڈھیٹ ہوں اس معاملے میں۔
 

مغزل

محفلین
بات سند کی نہیں ہے ۔۔ میں صرف ایک بات پوچھنا چاہ رہا تھا کہ
کیا اس شعر میں منظر کا سوچا جانا خوبصورت نہیں‌لگ رہا ۔۔؟؟؟؟
(شعر میں نے فی البدیہہ کہا تھا)
 

ایم اے راجا

محفلین
میرا خیال ہیکہ منظر کے بارے میں سوچنا اور منظر کا سوچنا ان دونوں میں زیادہ فرق نہیں
منظر کے بارے میں سوچنا: وہ کیا منظر تھا، کیا خوبصورت آبشاروں بھرا، ٹھنڈی ہواؤں کا مسکن، جہاں بجلی نہیں جاتی تھی:)
منظر سوچنا۔ قیامت میں جب حساب لیئے جائیں گے تو کیا منظر ہو گا، جب وہ مجھ سے سرِ بازار ادھار لوٹانے کا اصرار کرے گا تو کیا منظر ہو گا، خدا کرے کے ایسا منظر نہ دیکھوں وغیرہ۔
سر آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
جناب میرا کام ہے صرف نشاندہی کرنا تا کہ استاد ُاسے صیح کر سکیں
اب اگر سارا کام ہی میں‌کردوں‌ تو اس سے اچھا اپنی غزلیں لکھنا نہ شروع کر دوں
راجا بھائی تنقید برائے اصلاح ہوتی ہے، مجھے آپ پر تنقید کر کے کوئی اعزاز نہیں مل جانا
لیکن تنقید ایسی ہونی چاہئیے جس سے اصلاح ہو فنا نہ ہو، اور تنقید بھی اسی قاعدے اور قانون کے دائرے میں ہوتی ہے جس کے بارے میں کوئی بات کہی جائے، اب متقارب غزل کو آپ اصلاح کرے کسی دوسری بحر یا بے بحر تو نہیں کر سکتے ناں اور نہ ہی ایسی اصلاح کو اصلاح کہا جاسکتا ہے۔ برا نہ منائیے گا۔ شکریہ۔
 

گرو جی

محفلین
لیکن تنقید ایسی ہونی چاہئیے جس سے اصلاح ہو فنا نہ ہو، اور تنقید بھی اسی قاعدے اور قانون کے دائرے میں ہوتی ہے جس کے بارے میں کوئی بات کہی جائے، اب متقارب غزل کو آپ اصلاح کرے کسی دوسری بحر یا بے بحر تو نہیں کر سکتے ناں اور نہ ہی ایسی اصلاح کو اصلاح کہا جاسکتا ہے۔ برا نہ منائیے گا۔ شکریہ۔

لگتا ہے کچھ زیادہ ہی دباو میں آ گئے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
گرو جی کے مراسلات کے حوالے سے دوسری جگہ ایک بات لکھ چکا ہوں۔ گرو جی کا مقصد راجا کی تذلیل نہیں ہے، یہ میں سمجھتا ہوں، بس یہ کہ وہ خود اس کے زیادہ اہل نہیں ہیں۔ لیکن گرو جی رائے دیتے رہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ بات آپ کی بھی دل کو لگے۔۔۔ لیکن کون سا لفظ درست فٹ نہیں ہے، کس خیال میں الجھاؤ ہے وغیرہ۔ یوں نہیں کہ آپ مصرعوں کو بدل کر کہیں کہ میں نے اصلاح کر دی ہے، یہ بتائے بغیر کہ اصل مصرع میں کیا برائ تھی جو اس اصلاح کی ضرورت پیش آئ۔
اور راجا۔۔۔۔ بھئ میں ذرا پرانا آدمی ہوں۔ منظر نہیں سوچ سکتا۔ ’منظر کو سوچ سکتا ہوں، منظر کا سوچ سکتا ہوں، منظر کے بارے میں ‘ سوچ سکتا ہوں۔۔ لیکن منظر۔۔ بشمول مغل کے فی البدیہ شعر کے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
گرو جی کے مراسلات کے حوالے سے دوسری جگہ ایک بات لکھ چکا ہوں۔ گرو جی کا مقصد راجا کی تذلیل نہیں ہے، یہ میں سمجھتا ہوں، بس یہ کہ وہ خود اس کے زیادہ اہل نہیں ہیں۔ لیکن گرو جی رائے دیتے رہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ بات آپ کی بھی دل کو لگے۔۔۔ لیکن کون سا لفظ درست فٹ نہیں ہے، کس خیال میں الجھاؤ ہے وغیرہ۔ یوں نہیں کہ آپ مصرعوں کو بدل کر کہیں کہ میں نے اصلاح کر دی ہے، یہ بتائے بغیر کہ اصل مصرع میں کیا برائ تھی جو اس اصلاح کی ضرورت پیش آئ۔
اور راجا۔۔۔۔ بھئ میں ذرا پرانا آدمی ہوں۔ منظر نہیں سوچ سکتا۔ ’منظر کو سوچ سکتا ہوں، منظر کا سوچ سکتا ہوں، منظر کے بارے میں ‘ سوچ سکتا ہوں۔۔ لیکن منظر۔۔ بشمول مغل کے فی البدیہ شعر کے۔
استادِ محترم ہم بھی پرانے بندوں کے شاگرد ہیں سو ویسا ہی سوچیں گے ناں، بہت شکریہ۔
 

مغزل

محفلین
میں بھی پرانا بندہ ہوں لیکن روایت کی پاسداری کرتے ہوئے
مصرعے کو نئے انداز میں لکھنے میں مضائقہ خیال نہیں کرتا
لیکن محض روایت کی پاسداری فرسودگی کی انتہا کو چھونے
لگی ہے ۔۔۔ برس ہا برس قبل غزل جب ایران سے برِ صغیر میں آئی
تھی تو ایسی نہیں تھی جیسی متاخرین، متوسطین اور مقدمین کے
ہاں نظر آتی ہے ۔۔ غالب نے آکر غزل کو حدیثِ دلبری سے نکال باہر
کیا اور اسے حدیثِ زندگی بھی بنادیا ۔۔۔ لفظوں کو نئے معانی دیئے
نئی تراکیب دیں۔۔۔۔ اقبال نے اس سلسلے کو اور آگے بڑھایا ۔۔ اقبال
کے بعد فیض نے تو لفظ اور لفظی تراکیب کو وہ نیا اسلوب دیا کے آج
غزل بجائے ایران کے صرف اور صرف ہماری ہوکر رہ گئی ہے۔۔

دل مکان کی ترکیب دیکھئے ۔۔ یہ دل کے مکان کے متبادل کے طور پر لائی
گئی ہے ۔۔۔ اور زیادہ نہیں صرف 5 برس قبل پنجاب میں متعارف کرائی
گئی تھی جو آج مضافات سے نکل کر شہری دبستانوں کی زینت بنی ہے۔

سو اعجاز صاحب کی بات مقدم ۔ مگر میں اسے روا جانتا ہوں (سینئرز کی آراء کے طفیل)
 
Top