ایک غزل، تنقید، تبصرہ اور اصلاح کی غرض سے،'' ہنگامہء محشر ہے؛؛

ہنگامہء محشر ہے، میداں میں کھڑا ہوں میں​
کر دے گا شفاعت وہ، جس در پہ پڑا ہوں میں​
اتنی تھی خطا میری، ہم زانو تھے بوسیدہ​
اور ساتھ نبھانا تھا، اس کار سڑا ہوں میں​
رغبت اُسے نظموں سے، غزلوں سے محبت ہے​
میں بھی تو مرصع ہوں، وصفوں سے جڑا ہوں میں​
ہر بار کے ذلت تھی، ہر بار تری خاطر​
خود ہی کو منایا ہے، خود ہی سے لڑا ہوں میں​
کیوں مجھ کو بچایا تھا، پھر تُم نے ڈبویا بھی​
بولا تھا مجھے یہ کیوں؟ پاؤں پہ کھڑا ہوں میں​
سوہنی کو ڈبو بیٹھا، پھر دریا کنارے پر​
یہ مجھ سے کہا اظہر، بے کار گھڑا ہوں میں​
 
ہنگامہء محشر ہے، میداں میں کھڑا ہوں میں​
کر دے گا شفاعت وہ، جس در پہ پڑا ہوں میں​
اتنی تھی خطا میری، ہم زانو تھے بوسیدہ​
اور ساتھ نبھانا تھا، اس کار سڑا ہوں میں​
رغبت اُسے نظموں سے، غزلوں سے محبت ہے​
میں بھی تو مرصع ہوں، وصفوں سے جڑا ہوں میں​
ہر بار کے ذلت تھی، ہر بار تری خاطر​
خود ہی کو منایا ہے، خود ہی سے لڑا ہوں میں​
کیوں مجھ کو بچایا تھا، پھر تُم نے ڈبویا بھی​
بولا تھا مجھے یہ کیوں؟ پاؤں پہ کھڑا ہوں میں​
سوہنی کو ڈبو بیٹھا، پھر دریا کنارے پر​
یہ مجھ سے کہا اظہر، بے کار گھڑا ہوں میں​

بہت عمدہ غزل ہے اظہر بھائی۔
ماشا اللہ استاد ہوتے جا رہے ہیں آپ۔
 

الف عین

لائبریرین
بحر و اوزان کے حساب سے مکمل درست۔
اتنی تھی خطا میری، ہم زانو تھے بوسیدہ​
اور ساتھ نبھانا تھا، اس کار سڑا ہوں میں​
پہلے مصرع میں ’ہم زانو‘ سمجھ میں نہیں آیا،ا اور دوسرے میں ’کار سڑا‘۔ اس باعث شعر سمجھنے سے قاصر ہوں۔​
رغبت اُسے نظموں سے، غزلوں سے محبت ہے​
میں بھی تو مرصع ہوں، وصفوں سے جڑا ہوں میں​
بیانیہ واضح نہیں، اور رواں بھی نہیں۔ ہاں اگر ا قسم کا کچھ کہا جائے​
شعروں سے محبت ہے اس کو تو مجھے دیکھے،​
اور​
ہر بار کے ذلت تھی،​
سے مراد؟ یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔​
 
کیوں مجھ کو بچایا تھا، پھر تُم نے ڈبویا بھی​
بولا تھا مجھے یہ کیوں؟ پاؤں پہ کھڑا ہوں میں​
سوہنی کو ڈبو بیٹھا، پھر دریا کنارے پر​
یہ مجھ سے کہا اظہر، بے کار گھڑا ہوں میں​

یہاں بولا تھا کہنے کے معانی میں اردو محاورے سے کسی قدر ہٹا ہوا ہے، گویا کراچی کے مقامی لہجے کا اثر ہو۔
تجویز: مجھ سے یہ کہا کیوں تھا، تب مجھ سے کہا کیوں تھا ۔۔۔
دریا ۔ اخفاء کی رعایت لینا بجا، تاہم یہاں یہ رعایت کچھ اچھا تاثر نہیں دے رہی۔

ہر بار کے ذلت تھی، ہر بار تری خاطر
خود ہی کو منایا ہے، خود ہی سے لڑا ہوں میں
آج کل کے زائد کا استعمال بہت دیکھنے میں آ رہا ہے۔ مثلاً: کے جیسا ۔۔۔ مجھے تو یہ اچھا نہیں لگتا، آپ جانیں۔
یہاں ممکن ہے شاعر کی مراد کے نہیں کہ ہو، جو زیادہ قرینِ قیاس ہے۔

مزید جناب الف عین کے ارشادات بہت مناسب اور قابلِ توجہ ہیں۔

بحر و اوزان کے حساب سے مکمل درست۔
اتنی تھی خطا میری، ہم زانو تھے بوسیدہ​
اور ساتھ نبھانا تھا، اس کار سڑا ہوں میں​
پہلے مصرع میں ’ہم زانو‘ سمجھ میں نہیں آیا،ا اور دوسرے میں ’کار سڑا‘۔ اس باعث شعر سمجھنے سے قاصر ہوں۔​
رغبت اُسے نظموں سے، غزلوں سے محبت ہے​
میں بھی تو مرصع ہوں، وصفوں سے جڑا ہوں میں​
بیانیہ واضح نہیں، اور رواں بھی نہیں۔ ہاں اگر ا قسم کا کچھ کہا جائے​
شعروں سے محبت ہے اس کو تو مجھے دیکھے،​

دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
 
یہاں بولا تھا کہنے کے معانی میں اردو محاورے سے کسی قدر ہٹا ہوا ہے، گویا کراچی کے مقامی لہجے کا اثر ہو۔
تجویز: مجھ سے یہ کہا کیوں تھا، تب مجھ سے کہا کیوں تھا ۔۔۔
دریا ۔ اخفاء کی رعایت لینا بجا، تاہم یہاں یہ رعایت کچھ اچھا تاثر نہیں دے رہی۔


آج کل کے زائد کا استعمال بہت دیکھنے میں آ رہا ہے۔ مثلاً: کے جیسا ۔۔۔ مجھے تو یہ اچھا نہیں لگتا، آپ جانیں۔
یہاں ممکن ہے شاعر کی مراد کے نہیں کہ ہو، جو زیادہ قرینِ قیاس ہے۔

مزید جناب الف عین کے ارشادات بہت مناسب اور قابلِ توجہ ہیں۔



دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔

تہہ دل سے شکر گزار ہوں محترم اُستاد، کوشش کرتا ہوں تبدیلیاں کرنے کی
 
بحر و اوزان کے حساب سے مکمل درست۔
اتنی تھی خطا میری، ہم زانو تھے بوسیدہ​
اور ساتھ نبھانا تھا، اس کار سڑا ہوں میں​
پہلے مصرع میں ’ہم زانو‘ سمجھ میں نہیں آیا،ا اور دوسرے میں ’کار سڑا‘۔ اس باعث شعر سمجھنے سے قاصر ہوں۔​
رغبت اُسے نظموں سے، غزلوں سے محبت ہے​
میں بھی تو مرصع ہوں، وصفوں سے جڑا ہوں میں​
بیانیہ واضح نہیں، اور رواں بھی نہیں۔ ہاں اگر ا قسم کا کچھ کہا جائے​
شعروں سے محبت ہے اس کو تو مجھے دیکھے،​
اور​
ہر بار کے ذلت تھی،​
سے مراد؟ یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔​

اُستاد محترم یوں دیکھ لیجئے

ہنگامہ محشر ہے، میداں میں کھڑا ہوں میں​
کر دے گا شفاعت وہ، جس در پہ پڑا ہوں میں​
اتنی تھی خطا میری، ہم راہی تھے بوسیدہ
بس ساتھ نبھانے کو ہر بار سڑا ہوں میں
شعروں سے محبت ہے، اُسکو تو مجھے دیکھے
میں بھی تو مرصع ہوں، وصفوں سے جڑا ہوں میں
ہر بار ملا تُجھ سے، ہر بار تھی رسوائی
خود ہی کو منایا پھر، خود ہی سے لڑا ہوں میں
کیوں مجھ کو بچایا تھا، پھر تُم نے ڈبویا بھی
تب مجھ سے کہا کیوں تھا، پاؤں پہ کھڑا ہوں میں
سوہنی کو ڈبویا تھا، نادم تھا بہت ہی وہ
بس مجھ سے کہا اظہر، بے کار گھڑا ہوں میں
 

الف عین

لائبریرین
سڑا ہوں قافیہ پسند نہیں آیا۔ اس کے علاوہ ساتھی بوسیدہ کس طرح ہو سکتے ہیں۔ اس شعر کو نکال ہی دو
ہر بار ملا تُجھ سے، ہر بار تھی رسوائی
کو
جب جب بھی ملا تُجھ سے، رسوائی ملی مجھ کو

اور اس مصرع کو
تب مجھ سے کہا کیوں تھا، پاؤں پہ کھڑا ہوں میں
یوں کر دو
تب مجھ سے کہا کیوں تھا، پیروں پہ کھڑا ہوں میں

مقطع پھر کہو، یہ واضح نہیں
 
اُستاد محترم یوں دیکھ لیجئے

شعروں سے محبت ہے، اُسکو تو مجھے دیکھے
میں بھی تو مرصع ہوں، وصفوں سے جڑا ہوں میں

یہاں ایک باریک سی بات ہے، جناب الف عین سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے۔

بہ ظاہر یہ قافیہ ’’جَڑا‘‘ ہے۔ موتیوں سے، وصفوں سے، جب ’’جَڑا‘‘ کہنا مقصود ہو تو ’’سے‘‘ نہیں لاتے۔ ایک عام سی پہیلی ہے کہ:
ہری تھی، من بھری تھی
نو لاکھ موتی جَڑی تھی
لالہ جی کے باغ میں
دوشالہ اوڑھے کھڑی تھی

مندرجہ بالا شعر میں ’’سے‘‘ کا ہونا قاری کا گمان ’’جُڑا‘‘ کی طرف لے جاتا ہے، حالانکہ شاعر کا مقصود یہ نہیں۔ اس مصرعے میں سے کسی طور اس ’’سے‘‘ کو ہٹایا جا سکے تو مذکورہ احتمال ختم ہو سکتا ہے۔

بہت آداب۔
 
یہاں ایک باریک سی بات ہے، جناب الف عین سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے۔

بہ ظاہر یہ قافیہ ’’جَڑا‘‘ ہے۔ موتیوں سے، وصفوں سے، جب ’’جَڑا‘‘ کہنا مقصود ہو تو ’’سے‘‘ نہیں لاتے۔ ایک عام سی پہیلی ہے کہ:
ہری تھی، من بھری تھی
نو لاکھ موتی جَڑی تھی
لالہ جی کے باغ میں
دوشالہ اوڑھے کھڑی تھی

مندرجہ بالا شعر میں ’’سے‘‘ کا ہونا قاری کا گمان ’’جُڑا‘‘ کی طرف لے جاتا ہے، حالانکہ شاعر کا مقصود یہ نہیں۔ اس مصرعے میں سے کسی طور اس ’’سے‘‘ کو ہٹایا جا سکے تو مذکورہ احتمال ختم ہو سکتا ہے۔

بہت آداب۔

اگر یوں کہیں جناب

شعروں سے محبت ہے، اُسکو تو مجھے دیکھے
میں بھی تو مرصع ہوں، اوصاف جڑا ہوں میں
 

الف عین

لائبریرین
میرے خیال میں ’جَڑا‘ کے ساتھ ’سے‘ آنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ہاں اس صورت میں ’جُڑا‘ کا شبہ ہو سکتا ہے۔ لیکن با قاعدہ زبر لگانے سے اس شبہ کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ ’اوصاف جڑا‘ سے بہتر تو مجھے ’وصفوں سے جڑا‘ ہی لگتا ہے۔@محمد یعقوب آسی
 
میرے خیال میں ’جَڑا‘ کے ساتھ ’سے‘ آنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ہاں اس صورت میں ’جُڑا‘ کا شبہ ہو سکتا ہے۔ لیکن با قاعدہ زبر لگانے سے اس شبہ کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ ’اوصاف جڑا‘ سے بہتر تو مجھے ’وصفوں سے جڑا‘ ہی لگتا ہے۔@محمد یعقوب آسی

یوں کہیں تو اُستاد محترم

ہنگامہ محشر ہے، میداں میں کھڑا ہوں میں​
کر دے گا شفاعت وہ، جس در پہ پڑا ہوں میں​
بزدل سا بنایا ہے کیوں تیری محبت نے
کیا بات ہے کیا جانوں، ویسے تو کڑا ہوں میں
شعروں سے محبت ہے، اُسکو تو مجھے دیکھے​
میں بھی تو مرصع ہوں، وصفوں سے جڑا ہوں میں​
ہر بار ملا تُجھ سے، ہر بار تھی رسوائی​
خود ہی کو منایا پھر، خود ہی سے لڑا ہوں میں​
کیوں مجھ کو بچایا تھا، پھر تُم نے ڈبویا بھی​
تب مجھ سے کہا کیوں تھا، پاؤں پہ کھڑا ہوں میں​
اظہر میں بھی سوہنی کو منجدھار میں چھوڑ آیا
دیکھو میں بھی کچا ہوں ، بے کار گھڑا ہوں میں
 

الف عین

لائبریرین
مقطع میں سوہنی کی واؤ، اور دوسرے مصرع میں ‘میں بھی ‘ محض ’مَ بَ‘ تقطیع ہونا پسند نہیں آیا۔ الفاظ بدلنے کی گنجائش ہے۔ ’دیکھو‘ بہر حال بھرتی کا لفظ ہے۔
 
مقطع میں سوہنی کی واؤ، اور دوسرے مصرع میں ‘میں بھی ‘ محض ’مَ بَ‘ تقطیع ہونا پسند نہیں آیا۔ الفاظ بدلنے کی گنجائش ہے۔ ’دیکھو‘ بہر حال بھرتی کا لفظ ہے۔

اظہر میں بھی سوہنی کو منجدھار میں چھوڑ آیا
دیکھو میں بھی کچا ہوں ، بے کار گھڑا ہوں میں

مقطع میں محمد اظہر نذیر بھائی نے بحر بدل دی ہے۔
اگر یوں ہو تو وہی بحر ہوسکتی ہے؟؟؟
اظہر میں سوہنی کو منجدھار میں چھوڑ آیا​
آخر میں کچا ہوں، بے کار گھڑا ہوں میں​
 
مقطع میں سوہنی کی واؤ، اور دوسرے مصرع میں ‘میں بھی ‘ محض ’مَ بَ‘ تقطیع ہونا پسند نہیں آیا۔ الفاظ بدلنے کی گنجائش ہے۔ ’دیکھو‘ بہر حال بھرتی کا لفظ ہے۔

اُستاد محترم حسرت جے پوری کا ایک شعر ہے اُس میں بھی سوہنی فعلن ہی تقطیع ہو رہا ہے،
جہان عشق میں سوہنی کہیں دکھائی دے
ہم اپنی +نکھ میں کتنے چناب رکھتے ہیں
اور مصرع ثانیہ میں صوتی اعتبار سے یوں دیکھئے ذرا
اظ ہر م ------ب سہ نی کو-----مج دا ر ----- م چو ڑو گا
کچ چا س ---- ب نا یا ہے ----- بے کا ر ----- گ ڑا ہو مے
اظہر میں بھی سوہنی کو، منجدھار میں چھوڑوں گا
کچا سا بنایا ہے، بے کار گھڑا ہوں میں
 

الف عین

لائبریرین
مقطع میں محمد اظہر نذیر بھائی نے بحر بدل دی ہے۔
اگر یوں ہو تو وہی بحر ہوسکتی ہے؟؟؟
اظہر میں سوہنی کو منجدھار میں چھوڑ آیا​
آخر میں کچا ہوں، بے کار گھڑا ہوں میں​

بحر تو خلیل میاں نے بدل دی ہے، اظہر کی بحر کے افاعیل ہیں
مفعول مفاعیلن دو بار
 

الف عین

لائبریرین
اور اظہر، ’کچا سا بنایا ہے‘ بہتر ہے۔لیکن اگر ’کچا ہی بنایا ہے‘ کہو تو۔۔۔۔
اور پہلا مصرع اگر یوں ہو تو سوہنی بھر پور عورت نظر آئے گی، ننھی منی بچی نہیں
میں سوہنی کو اظہر۔۔۔۔
 
اور اظہر، ’کچا سا بنایا ہے‘ بہتر ہے۔لیکن اگر ’کچا ہی بنایا ہے‘ کہو تو۔۔۔ ۔
اور پہلا مصرع اگر یوں ہو تو سوہنی بھر پور عورت نظر آئے گی، ننھی منی بچی نہیں
میں سوہنی کو اظہر۔۔۔ ۔

اگر یوں کہوں تو اُستاد محترم
سوہنی فاع

میں سوہنی کو اظہر جی، منجدھار میں چھوڑوں گا
کچا ہی بنایا ہے، بے کار گھڑا ہوں میں
 
Top