ایک عروضی سوال۔۔

صبر اے (فعل-فع) کو شعری ضرورت تحت 'ا' کو نکال کر 'رے' پڑھے جانے میں تو کسی قسم کی قباحت کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسے فعلن پڑھا جا سکتا ہے، یعنی صَ۔بَ۔رَے؟

یہ سوال اس لئے ذہن میں ابھرا کہ عربی میں جب ب پر جزم آتا ہے تو قلقلہ واقع ہو جاتا ہے۔ نیز، نیچے پیش کردہ مطلع پر بھی تنقید فرما دیں۔

صبر اے قیامتِ ناگہاں، ابھی وارِ یار تھما نہیں
ابھی سینہ چاک ہوا نہیں، دل ابھی ستم سے بھرا نہیں​


شکریہ۔

الف عین
مزمل شیخ بسمل
 

الف عین

لائبریرین
صبر کا درست تلفظ صب ر ہے، یعنی ب پر جزم۔ ’صبر اے‘ کو ’ صبرے‘ بر وزن فعلن یقیناً کہا جا سکتا ہے لیکن دی ہوئی مثام میں نہیں، جہاں صبر کی ب مفتوح استعمال ہوئی ہے۔ یں بھی یہاں فعلن ہے ہی نہیں۔ بحر ہے
متفاعلن چار بار
وار فارسی الاصل ہے؟ محمد یعقوب آسی
 
صبر اے (فعل-فع) کو شعری ضرورت تحت 'ا' کو نکال کر 'رے' پڑھے جانے میں تو کسی قسم کی قباحت کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسے فعلن پڑھا جا سکتا ہے، یعنی صَ۔بَ۔رَے؟

یہ سوال اس لئے ذہن میں ابھرا کہ عربی میں جب ب پر جزم آتا ہے تو قلقلہ واقع ہو جاتا ہے۔ نیز، نیچے پیش کردہ مطلع پر بھی تنقید فرما دیں۔

صبر اے قیامتِ ناگہاں، ابھی وارِ یار تھما نہیں
ابھی سینہ چاک ہوا نہیں، دل ابھی ستم سے بھرا نہیں​


شکریہ۔

الف عین
مزمل شیخ بسمل

استاد جی الف عین اوپر اپنی رائے کا اظہار بہت درست انداز میں فرما چکے ہیں کہ صبر اے کو صبرے باندھنا بالکل درست ہے، کوئی قباحت نہیں۔ جہاں چاہیں باندھیں۔
دوسرا یہ کہ وار، پکار وغیرہ ہندی الفاظ ہیں اس لئے وارِ یار کی ترکیب کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
تیسرا یہ کہ میرے مطابق پہلا مصرع صبر ب ساکن کے ساتھ بھی درست وزن میں ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
متَفاعلن کی متَفا کو فعلن کے وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے مثلاً
خلق العلیٰ بکمالہ صلّو علیہ و آلہ
اسی طرح اس بحر میں صبرے بر وزن فعلن بھی جائز ہے۔
 
جنابِ الف عین نے طلب فرمایا تو بندہ حاضر ہو گیا۔
صبر اے (فعل-فع) کو شعری ضرورت تحت 'ا' کو نکال کر 'رے' پڑھے جانے میں تو کسی قسم کی قباحت کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسے فعلن پڑھا جا سکتا ہے، یعنی صَ۔بَ۔رَے؟

یہ سوال اس لئے ذہن میں ابھرا کہ عربی میں جب ب پر جزم آتا ہے تو قلقلہ واقع ہو جاتا ہے۔ نیز، نیچے پیش کردہ مطلع پر بھی تنقید فرما دیں۔

صبر اے قیامتِ ناگہاں، ابھی وارِ یار تھما نہیں
ابھی سینہ چاک ہوا نہیں، دل ابھی ستم سے بھرا نہیں​


شکریہ۔

الف عین
مزمل شیخ بسمل

صبر (وتد مفروق) ۔ مگر اس سے پہلے یہ فرمائیے کہ ’’وار‘‘ یعنی حملہ کی ترکیبِ اضافی لفظ ’’یار‘‘ کے ساتھ زیرِ اضافت کے ساتھ درست ہو گی؟ میرا خیال ہے کہ یہاں لفظ ’’وار‘‘ فارسی یا عربی والا نہیں ہندی اردو والا ہے۔ ۔۔ جناب الف عین ، جناب محمد خلیل الرحمٰن ، جناب فاتح سے راہنمائی کا خواہاں ہوں۔

صبر (صَب ر) وتد مفروق ہے اس میں کسی کو کلام نہیں۔
یہاں ایصال کے نتیجے میں منظور صوتیت ’’صَب رَے‘‘ فِع لُن (دو سبب خفیف) بنتی ہے نہ کہ فَعِلن (فاصلہ صغرٰی)۔ سو، شعر کی عروضی صورت یہ ہوئی:
مستفعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن​
مجھے یہاں اس کو ’’صَ بَ رَے‘‘ (فاصلہ صُغرٰی) ماننے میں یوں تامل ہے کہ قلقلہ وغیرہ اردو شاعری میں اپنا عربی جیسا اثر نہیں رکھتے۔

دعا کا طالب ہوں۔
 
ایک بات اور عرض کروں کہ ’’متفاعلن‘‘ بحرِ کامل کا رکن ہے اور ’’مستفعلن‘‘ بحرِ رجز کا۔

میں نے بر سرِ مطالعہ کہیں پڑھا تھا (قطعی حوالہ مجھے نہیں یاد) کہ بحرِ کامل میں ’’مستعفلن‘‘ آ جائے تو کوئی قباحت نہیں، ہاں! بحرِ رجز میں ’’متفاعلن‘‘ کی گنجائش نہیں ہے۔
اس تناظر میں جناب فاتح کا ارشاد اور ’’صلوا علیہ وآلہٍ‘‘ والی مثال بہت مناسب ہے۔

جناب مزمل شیخ بسمل کی رائے یہاں بہت اہم ہو گی۔
 
ایک بات اور عرض کروں کہ ’’متفاعلن‘‘ بحرِ کامل کا رکن ہے اور ’’مستفعلن‘‘ بحرِ رجز کا۔

اس تناظر میں جناب فاتح کا ارشاد اور ’’صلوا علیہ وآلہٍ‘‘ والی مثال بہت مناسب ہے۔

جناب مزمل شیخ بسمل کی رائے یہاں بہت اہم ہو گی۔
جناب نے درست ارشاد فرمایا:
میں نے بر سرِ مطالعہ کہیں پڑھا تھا (قطعی حوالہ مجھے نہیں یاد) کہ بحرِ کامل میں ’’مستعفلن‘‘ آ جائے تو کوئی قباحت نہیں، ہاں! بحرِ رجز میں ’’متفاعلن‘‘ کی گنجائش نہیں ہے۔
در اصل حرکات کے معاملے میں عروض میں زحافات اور علتوں کا مکمل حاصل صرف اتنا ہے کہ آپ محض متحرک کو ساکن کر سکتے ہیں۔ لیکن ساکن کو متحرک کرنے کا کوئی طریقہ عروض میں موجود نہیں۔ اس ضمن میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہم مفاعلتن (اصل) کو مفاعیلن (مزاحف) تو بنا سکتے ہیں، لیکن مفاعیلن (اصل) کو مفاعلتن نہیں کرسکتے، فعِلن کو فعلن کرنا ممکن ہے مگر فعلن کو فعِلن کرنا ممکن نہیں۔
یہاں یہ بات یاد رکھنا اچھا ہے کہ غزل یا قصیدے کا مطلع اگر یہ ثابت کرتا ہے کہ غزل بحر کامل یا وافر میں ہے (چاہےمطلعے میں ایک آدھ رکن تسکین یا اضمار سے ساکن کیا ہو مگر متحرک کا اعتبار ہوگا۔ یعنی اگر کسی مطلعے میں متفاعلن اور مستفعلن دونوں شامل ہوں تو متفاعلن کا اعتبار ہوگا مستفعلن کو تصرف قرار دیا جائے گا) تو اس صورت میں تصرفات یعنی حسب ترتیب مستفعلن اور مفاعیلن کا استعمال جائز ہے۔ اس کے برعکس اگر مکمل مطلع کسی غزل کا بحرِ رجز یا ہزج میں ہے اور ایک رکن بھی بحرِ کامل یا وافر کا نہیں تو ضروری ہے کہ اب بحر کی پابندی کی جائے، مطلعے کے بعد کے شعر یا مصرعے میں مستفعلن کی جگہ متفاعلن یا مفاعیلن کی بجائے مفاعلتن لانا جائز نہ ہوگا کہ مطلعے میں ہی ساکن کی قید لگا کر بحر متعین کرلی گئی ہے۔

والسلام۔
 
آخری تدوین:
آداب بجا لاتا ہوں، جنابِ شیخ!

گویا زیرِ مطالعہ شعر ’’صَب رَے‘‘ کی صوتیت کے ساتھ عروضی حوالے سے بھی درست ہے ، اگر غزل کی بحر ’’بحرِ کامل‘‘ ہے۔
بہ الفاظِ دیگر اس کو ’’صَ بَ رَے‘‘ پڑھنے کا تکلف ضروری نہیں۔

جناب الف عین
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
صبر اے (فعل-فع) کو شعری ضرورت تحت 'ا' کو نکال کر 'رے' پڑھے جانے میں تو کسی قسم کی قباحت کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسے فعلن پڑھا جا سکتا ہے، یعنی صَ۔بَ۔رَے؟

یہ سوال اس لئے ذہن میں ابھرا کہ عربی میں جب ب پر جزم آتا ہے تو قلقلہ واقع ہو جاتا ہے۔ نیز، نیچے پیش کردہ مطلع پر بھی تنقید فرما دیں۔
صبر اے قیامتِ ناگہاں، ابھی وارِ یار تھما نہیں
ابھی سینہ چاک ہوا نہیں، دل ابھی ستم سے بھرا نہیں​
شکریہ۔
الف عین
مزمل شیخ بسمل
صبر کی ب کو مفتوح باندھنا اور قلقلہ کے صوتی چڑہاؤ کا سہارا لیا جانا درست معلوم نہیں ہو رہا۔۔۔یہاں صبر کی بجائے ٹھہرہو سکتا تھا۔۔۔ اور ایک طویل (مگر مفید :)) بحث کو جنم دے رہا ہے ۔۔۔میرے ذاتی خیال میں سب عروضی قواعد کو عموما" کسی تمثیل کے بغیر واضح نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان الفاظ کے لفظی لغوی صرفی صوتی اور معنوی پہلوؤں کو مد نظر رکھے بغیر لاگو کرنے کا قطعی حکم لگایا جانا چاہئے جنہیں شعر میں شاعر نے برتا ہو۔صلّو علیہ والی مثال انتہائی بر محل ہے لیکن کیا اس قاعدے کو ہر اس بحر میں لاگو کیا جا سکے گا جہاں متَفاعلن پڑرہا ہو؟
کیا رائے ہے۔ محترم احباب کی ۔ الف عین محمد یعقوب آسی فاتح مزمل شیخ بسمل اور دیگر شرکاء۔
 
آپ تمام حضرات کا بے حد ممنون ہوں۔ واقعی 'وار' کے عربی یا فارسی نہ ہونے کا خیال میرے ذہن میں آیا ہی نہیں!

شعر کی اصلاح تو بڑی آسانی سے یوں ہو سکتی تھی:

"ٹھہر اے قیامتِ ناگہاں، ابھی ظلمِ یار تھما نہیں"

لیکن سوال دلچسپ لگا سو کر ڈالا۔ 'وار' کے ساتھ اضافت لگانے کی چوک واقعی ہو گئی۔
 
صبر کی ب کو مفتوح باندھنا اور قلقلہ کے صوتی چڑہاؤ کا سہارا لیا جانا درست معلوم نہیں ہو رہا۔۔۔ یہاں صبر کی بجائے ٹھہرہو سکتا تھا۔۔۔ اور ایک طویل (مگر مفید :)) بحث کو جنم دے رہا ہے ۔۔۔ میرے ذاتی خیال میں سب عروضی قواعد کو عموما" کسی تمثیل کے بغیر واضح نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان الفاظ کے لفظی لغوی صرفی صوتی اور معنوی پہلوؤں کو مد نظر رکھے بغیر لاگو کرنے کا قطعی حکم لگایا جانا چاہئے جنہیں شعر میں شاعر نے برتا ہو۔صلّو علیہ والی مثال انتہائی بر محل ہے لیکن کیا اس قاعدے کو ہر اس بحر میں لاگو کیا جا سکے گا جہاں متَفاعلن پڑرہا ہو؟
کیا رائے ہے۔ محترم احباب کی ۔ الف عین محمد یعقوب آسی فاتح مزمل شیخ بسمل اور دیگر شرکاء۔

بہ ظاہر تو ایسا ہی ہے، جناب سید صاحب! آپ کے سوال کا تیکنیکی جواب تو ’’ہاں‘” میں ہے۔ تاہم میری ترجیح یہ ہے کہ ہم اس کو رعایت تک محدود رکھیں،
اور ہر جگہ فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔

میں اپنے کسی شعر میں اس رعایت سے فائدہ اٹھاؤں تو اصولی بحث تو شاید میں جیت جاؤں گا، مگر شعر کا لطف غارت ہو جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ اوزان و بحور شعر کی جمالیات کا حصہ ہیں۔ جمالیات مجروح ہو جائے تو شعر مجروح ہو جاتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہ ظاہر تو ایسا ہی ہے، جناب سید صاحب! آپ کے سوال کا تیکنیکی جواب تو ’’ہاں‘” میں ہے۔ تاہم میری ترجیح یہ ہے کہ ہم اس کو رعایت تک محدود رکھیں،
اور ہر جگہ فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔
میں اپنے کسی شعر میں اس رعایت سے فائدہ اٹھاؤں تو اصولی بحث تو شاید میں جیت جاؤں گا، مگر شعر کا لطف غارت ہو جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ اوزان و بحور شعر کی جمالیات کا حصہ ہیں۔ جمالیات مجروح ہو جائے تو شعر مجروح ہو جاتا ہے۔ جمالیات کے لئے کوئی حسابی فارمولا نہیں ہوسکتا۔
میں ذاتی طور پر دراصل شعر کو شعر کے لطف کا حامل ہونے میں شعر کہلائے جانے کا قائل ہوں۔ عروضی قواعد کو لفظی نزاکتوں کےمحل وقوع کے اور الفاظ و تراکیب کے برتاؤ کے تمام پہلؤوں کو مد نظر رکھے بغیرغیر مشروط طور پر لاگو کرنا بسا اوقات شعر کے لطف اورمعانی کی روح کو قید کرنے کے مترادف ہو جانے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ تاہم اسے عمومی قواعد کی اہمیت کے منافی نہ سمجھنا چاہئے۔بحور کےڈھانچے پر ہی شعرکا سراپا استوار ہوتا ہے۔
 
میں ذاتی طور پر دراصل شعر کو شعر کے لطف کا حامل ہونے میں شعر کہلائے جانے کا قائل ہوں۔ عروضی قواعد کو لفظی نزاکتوں کےمحل وقوع کے اور الفاظ و تراکیب کے برتاؤ کے تمام پہلؤوں کو مد نظر رکھے بغیرغیر مشروط طور پر لاگو کرنا بسا اوقات شعر کے لطف اورمعانی کی روح کو قید کرنے کے مترادف ہو جانے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ تاہم اسے عمومی قواعد کی اہمیت کے منافی نہ سمجھنا چاہئے۔بحور کےڈھانچے پر ہی شعرکا سراپا استوار ہوتا ہے۔
آپ نے بہت عمدہ بات کی۔ خوش رہئے۔
 

الف عین

لائبریرین
عزیزی مزمل شیخ بسمل اپنے علم کی مناسبت سے ایسے نکات لے کر آتے ہیں کہ اکثر باتیں۔ قوافی، بحر وغیرہ درست ہو جاتی ہیں، جسے قبول تو بہر حال کرنا پڑتا ہے لیکن دل نہیں مانتا، اب اسے شعری جمالیات کا نام دیا جائے چاہے کچھ اور۔ یہاں صَبَر اے‘ ہی پسندیدہ لگتا ہے مجھ کو تو۔ "وار" کے بارے میں بھی سوچا کہ لغت کے ماہرین سے بھی رائے لے لی جائے،
 
Top