تعارف ایک عام قاری

آداب محترمین و محترمات!

لشکر سے پہلا تیر چلانا پڑا مجھے
اپنا تعارف آپ کرانا پڑا مجھے

رستے میں اک اور زمانہ پڑا مجھے
شرمندہ ہوں کہ دیر سے آنا پڑا مجھے


دوسری شخصیات پر لکھنا قدرے آسان ہے لیکن خود پر لکھنے کے لئے خود آگہی اور خود شناسی چاہئے۔

ہم ساری زندگی اپنی ذات کے لئے جیتے ہیں اپنی ذات سے محبت کرتے ہیں لیکن اس میں پوشیدہ محاسن اور معائب کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم میں بہت سے لوگوں کو خدائے لم یزل نے بے اندازہ نعمتیں عطا کی ہیں لیکن انہیں خبر تک نہیں کہ وہ کیا ہیں۔ دنیا میں جینے کے لئے اپنی ذات کی عرفیت اور اس کے بعد کی زندگی کے لئے اپنے خالق کی عرفیت ضروری ہے۔


میں آج بہت خوش ہوں کہ اردو محفل فورم میں میں رکنیت ملی۔ اردو محفل سے میری شناسائی تقریباً دوسال دیرینہ ہے۔ اکثر محمد وارث سر اور دیگر محفلین کے مضامین پڑھنے آتا رہا ہوں۔

میں ہندوستان کے شہر ممبئی سے متعلق ہوں۔ اردو ادب اور شاعری سے خاصا شغف رہا ہے جو رفتہ رفتہ جنون کی شکل لیا چاہتا ہے۔

مجھے مطالعے کا کافی شوق ہے کئی مرتبہ بیت بازی مقابلوں میں صاحبِ بیت کے اعزاز سے نوازا گیا ہوں۔ کبھی کبھی تک بندی بھی کرلیتا ہوں لیکن میں صرف ایک عام قاری بننا چاہتا ہوں۔ تنقید و تحقیق کا بھی شوق ہے۔ برقی و موصلاتی انجنیرنگ سال دوم میں زیرِ تعلیم ہوں۔

اس فورم میں اور دیگر سائیٹس کے استعمال کا مقصد اپنے ذوق کو جلا دینا اور اپنی وحشت کا سامان کرنا ہے۔


دیگر سوالات کے لئے دریچۂ گفتگو وا کریں۔


تشکر زیاد
 

نایاب

لائبریرین
محترم احسن عثمانی بھائی محفل اردو میں دلی خوش آمدید
جہاں جاگے وہیں سویرا ۔۔۔۔۔۔۔ تو دیر کوئی کرتا نہیں جان بوجھ کر
بس دیر ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ یہ تو " باعث " ہی جانے ۔۔ اس کی حکمت وہ ہی جانے ۔۔

خاص قاری کیسے ہوتے ہیں محترم بھائی
خاص " عام " میں کیسے بدلتا ہے ۔۔؟
عام " خاص " کیسے قرار پاتا ہے ۔؟
تنقید و تحقیق کا بھی شوق
غوروفکر کرنے والے پہلے درجہ میں ناقد اور دوسرے درجے میں محقق کہلائیں گے ؟۔
یاکہ پہلے درجہ میں محقق دوسرے درجہ میں ناقد ۔؟
یہ " تنقید و تحقیق " کا آپس میں کیا رشتہ ہے ۔۔ کیوں لازم و ملزوم ہیں یہ ۔۔۔۔؟
خود آگہی اور خود شناسی چاہئے
اپنی ذات کی عرفیت اور اس کے بعد کی زندگی کے لئے اپنے خالق کی عرفیت
یہ طلب کہاں سے ابھرتی ہے ۔ کہ خود کو جانا جائے اپنے خالق کو پہچانا جائے ۔کس " عرف " کے پیچھے بھاگیں کہ سچ مل جائے ۔؟
دیگر سوالات کے لئے دریچۂ گفتگو وا کریں۔
آپ کی اجازت نے حوصلہ دیا ۔ سو کچھ " بے تکے " سوال آپ کے سامنے رکھ دیئے ۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
محترم نایاب بھائی آپ نے بے حد محبت اور توجہ سے تعارف نامہ پڑھا گویا تعارف ہوگیا۔۔۔۔۔۔ بہت امتنان!

آپ نے کچھ سوالات کئیے ہیں جن میں اکثر ذاتیات پر مبنی نہیں ہیں لیکن چونکہ میں نے جملۂ معترضہ کے طور پر ان باتوں کا ذکر کیا ہے لہٰذا میں کوشش کرونگا کہ اطمینان بخش جوابات دوں۔

1. عام قاری سے مراد وہ قارئین جو سمجھ کر پڑھنے پر زور نہیں دیتے یا اگر کتاب سے کچھ سیکھا تو اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ المختصر مطالعے سے ان کا منشا اپنے کلیکشن میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ دراصل انہیں علم کی قدروقیمت نہیں ہوتی۔ اور جب قدرو قیمت پیدا ہوجاتی ہے تو وہ خاص ہوجاتے ہیں۔ مثال ایسی ہے کہ تمام مسلمان ایمان والے ہیں مگر جس کو ایمان کامل مل جائے وہ مردِ مومن کہلاتا ہے۔

2. تنقیدوتحقیق لکھیں تحقیق و تنقید ایک ہی بات ہے۔ عطف اور معطف کے درمیان ایسا کوئی اصول نہیں۔ ہاں بالترتیب یا علی الترتیب سے مملو الفاظ استعمال ہوتے تو بات ہوتی۔ تنقید و تحقیق کا شوق ہے سے مراد تنقید کا شوق ہے اور تحقیق کا بھی۔ ان دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس سے پہلے آپ کو بتا دوں کہ علم کی دو اقسام ہیں ایک وہبی اور دوسری اکتسابی۔ جب تنقید بلا تحقیق ادھوری ہے اور تحیق کی تحریک کے لئے تنقید کا شوق ہونا چاہئے۔ایسا ضروری تو نہیں لیکن اکثر ایسا دیکھنے میں آتا ہے۔

خود شناسی ہی وہ کلیہ ہے جو ترقی کی راہ پر لے جاتا ہے۔ یعنی اپنے پاس موجود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے مسائل کو سہل سے سہل انداز میں حل کرنے کی سعی کرنا۔

3. اللہ تعالی نے اپنی صفاتی خوبیوں کو قدرت میں ظاہر کیا اور ان پر غور فکر کرنے کی دعوت دی ہے اور دعا مانگنے کی تلقین کی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کے واقعے سے آپ واقف ہیں۔

۔ والسلام
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
ماشاءاللہ ۔۔۔۔!

اچھا لگا آپ کا تعارف۔

محفل میں آپ کا خیر مقدم ہے ۔ آتے رہیے انشاءاللہ کچھ نہ کچھ سیکھنے سکھانے کی فضا بنی رہے گی۔
 

نایاب

لائبریرین
آپ نے کچھ سوالات کئیے ہیں جن میں اکثر ذاتیات پر مبنی نہیں ہیں
محترم احسن عثمانی بھائی
میرا کوئی بھی سوال اگر ذاتیات پر مبنی محسوس ہوا ہے تو اس کے لیئے انتہائی معذرت ۔
آپ کے جواب سے کچھ سوال مزید سامنے آئے مگر " ذاتیات " نے محتاط کر دیا ۔
بہت دعائیں
 
محترم احسن عثمانی بھائی
میرا کوئی بھی سوال اگر ذاتیات پر مبنی محسوس ہوا ہے تو اس کے لیئے انتہائی معذرت۔
-------------------------
برادرِ مکرم!
ہمیں توقع تھی کے تعارف نامے پر ذاتیات سے متعلق سوالات پوچھے جائیں گے۔

کسی قسم کا کوئی ارباط نہیں۔ آپ جو کچھ پوچھنا چاہیں پوچھ سکتے ہیں۔

شخصیات سے بہتر ہے تشخصات کا تعارف ہو۔

شکریہ
 
یہاں اردو فورم پر دوسرے فورمز کی بہ نسبت ایک عام قاری کو جس قدر التفات اور محبتیں ملی ہیں اس سے اس خیال کو تقویت ملی ہے کہ اردو محبت کی زبان ہے۔

بہت محبتیں مرے ہم صفیرو مرے ہم زبانو!
 

نایاب

لائبریرین
برادرِ مکرم!
ہمیں توقع تھی کے تعارف نامے پر ذاتیات سے متعلق سوالات پوچھے جائیں گے۔

کسی قسم کا کوئی ارباط نہیں۔ آپ جو کچھ پوچھنا چاہیں پوچھ سکتے ہیں۔

شخصیات سے بہتر ہے تشخصات کا تعارف ہو۔

شکریہ
میرے محترم بھائی
میں غلط سمجھا اس کے لیئے بہت معذرت
" ذاتیات " پر بات کرنا مجھے کبھی بھی اچھا نہیں لگا ۔
آپ کی ذاتیات بارے سوال کیا کرنا کہ آپ " خود ہی کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں "


نہیں علم کی قدروقیمت نہیں ہوتی
یعنی کہ " عام قاری " سے مراد وہ جو " اس جہاں سے سرسری گزرے " ۔۔۔؟
یہ " علم " کی " قدروقیمت " کیسے جانی جا سکتی ہے ۔ ؟
کیا " علم " کو تولا جاسکتا ہے ۔۔۔؟
کیا " حواس خمسہ " کے حامل سب ہی " عام قاری " کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں ۔؟
یا صرف " پڑھنے " والے ہی قاری کہلاتے ہیں ۔۔۔؟
علم کی دو اقسام ہیں ایک وہبی اور دوسری اکتسابی
وہبی اور اکتسابی ۔۔۔۔
یہ وہب و کسب ۔ ان دونوں میں قدر مشترک کیا ہو سکتی ہے ۔۔؟
ان میں سے کونسا علم " نافع " ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔؟
کیا وہب کو کسب میں اور کسب کو وہب میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔۔؟
فی الحال اتنے ہی " بے تکے " بے سر پیر " سوال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

اوشو

لائبریرین
اردو محفل پر خوش آمدید احسن عثمانی جی
اردو زبان سے محبت آپ کے مراسلات سے صاف جھلکتی ہے۔ امید کرتا ہوں آپ کو یہاں اپنے ذوق کی سیرابی کا خاطر خواہ سامان میسر ہو گا۔ اور ہمیں بھی آپ کی طرف سے اسی طرح کی خوبصورت اردو پر مبنی مراسلات موصول ہوں گے۔
خوش رہیں
بہت جئیں
 
احسن بھائی اردو محفل میں آپ کا خیر مقدم ہے۔ آپ نے جس خوبصورتی سے اپنا تعارف کرایا اس نے مجھے آپ کا گرویدہ بنا لیا۔ تعجب کی بات یہ کہ آپ انجینرنگ کے میدان سے ہیں اور اردو اتنی عمدہ!
 
آخری تدوین:
1. جی بلکل۔
2۔ علم کب قدروقیمت کا احساس شوق اور ذوق سے ہوتا ہے۔ شوق سے مراد وہ طلب جو اسکو دیکھ کر پیدا ہو۔ اور ذائقہ دراصل ذوق سے مشتق یعنی وہ طلب جو چکھ کر پیدا ہو۔ شوق اور ذوق کے درمیان بہت مبہم فاصلہ ہے۔

ایک مثال ہے شاعری کی جس کے ساتھ ذوق کا لفظ رائج ہے۔

3۔ علم کو تولا نہیں جاسکتا۔
وہ لطیفہ تو شاید آپ نے پڑھا ہوگا جس میں ایک عالم ایک ملاح کی کشتی میں سفر کرتا ہے اس دوران وہ ملاح پر اپنی علمیت جھاڑتے ہوئے پوچھتا ہے تم نے فلسفہ اور فلاں فلاں علم حاصل کیا ہے اور کہتا ہے تو نے اتنی اتنی عمر گنوا دی۔ اس دوران طوفان آجاتا ہے اور عالم اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اس ضمن میں نیوٹن کی بلیوں اور بڑھئی والا واقعہ بھی دلچسپ ہے۔

4۔ حواس کے حامل تمام افراد قاری کے زمرے میں آئینگے۔ لیکن چونکہ قوتِ باصرہ و قوتِ ناطقہ علم کی ترسیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور قوت تحریر کو استعمال میں لاتے ہوئے ہم علم کو محفوظ بھی کرسکتے ہیں۔ لہذا قاری سے کتاب پڑھنے والا مراذ لیا جاتا ہے۔

5۔ وہبی علم۔۔۔۔ اللہ کا ایک صفاتی نام ھے الوہاب بہ معنیٰ عطا کرنے والے کہ یہ دراصل علم نہیں ذہانت اور قوتِ احساس کی ایک قسم ہے۔ اور اکتسابی علم وہ ہے جو دوسروں سے حاصل کیا جائے جیسے کچھ شعرا طبعِ موزوں قدرتی رکھتے اور کچھ محنت کے ذریعہ طبیعت کو موزوں کرتے ہیں۔

6۔ بھائی حکمأ کا قول ہے۔۔۔۔ علم نافع وہ ہے جو قبر کے تین سوال حل کردے۔ باقی رزق حاصل کرنے کے وسیلے ہیں۔
 
آخری تدوین:
محسن بھائی اردو محفل میں آپ کا خیر مقدم ہے۔ آپ نے جس خوبصورتی سے اپنا تعارف کرایا اس نے مجھے آپ کا گرویدہ بنا لیا۔ تعجب کی بات یہ کہ آپ انجینرنگ کے میدان سے ہیں اور اردو اتنی عمدہ!
--------------------------------------------------------
محسن؟
 
Top