ایک طویل نظم برائے اصلاح و تنقید "چلو سپنے دکھاتے ہیں"

اسد قریشی

محفلین
ایک طویل نظم برائے اصلاح و تنقید:

"چلو سپنے دکھاتے ہیں"
چلو آؤ!
تمہیں سپنے دکھاؤں میں
تمہیں ہسنا سکھاؤں میں
کہ پھولوں کی طرح کھلنا مہکنا
پرندوں کی طرح سے چہکنا سکھاؤں میں
تمہیں میں بادلوں ارٹنا سکھاؤں میں

ہمارے اس سفر میں
پھول، کلیاں، تتلیاں، جگنو،
پہاڑوں، آبشاروں، ندی، جھرنوں
کے نغمے بھی ہونگے
کبھی گرمی، کبھی سردی،
کہیں پتھر، کہیں کانٹے بھی ہونگے
میں تم کو ہر سرد و گرم سے کانٹوں سے
بچا لوں گا کبھی ٹھوکر لگی تو
تمھارے ہاتھ تھاموں گا
مگرتم کو ٹھوکروں سے خود کو
بچانا ہے، خود ہی سنبھلنا ہے،
اندھیروں سے نکلنا ہے
نئے رستے پہ چلنا ہے،
نیا رستہ جو ریشمی خوابوں
کی شاہراہ ہے،
جہاں پر جا بجا،
محبت رنگا رنگ گل کہلاتی ہے
جہاں خوشبو گیت گاتی ہے
جہاں جسموں کی قربت روح
کو سرشار کرتی ہے
جہاں محبت خود سے ہی
محبت ہر بار کرتی ہے
جہاں ہاتھوں کو ہاتھوں سے جدا کرنا
کہ جیسے خوشبو_گل کو گل سے جدا کرنا
جہاں ہر لمحہ سحر آفریں معلوم ہوتا ہے
بہت دلکش بڑا ہی دل نشیں معلوم ہوتا ہے

مگر اس راستے کی انتہا
کبھی بھی
کہیں پر بھی ممکن ہے
بس اک لمحہ ہی لگتا ہے
کہ سب منظر حقیقت کی سرحد پار جاتے ہیں
جہاں پر خواب اپنے جسم سے روح چھوڑ دیتے ہیں
جہاں الفت کے سب ہی راستے اپنا رخ موڑ لیتے ہیں
جہاں سپنے حقیقت کی چٹانوں سے ٹکراتے ہی دم توڑ دیتے ہیں
جہاں تاریکیاں بس ایک ہی لمحے میں ڈیرے جماتی ہیں
جہاں تا عمر آنکھیں آنسو بہاتی، سوکھ جاتی ہیں
جہاں پر جسم سے جاں نکل جاتی ہے پھر بھی دل دھڑکتا ہے
جہاں پر روح کے زخموں سے بس لہو ٹپکتا ہے
جہاں لب پر دعائیں آکے پھر سے لوٹ جاتی ہیں
جہاں پر بے یقینی کی صدائیں ناچتی، گاتی ہیں اور پھر اک دن
یہ سب منظر، یہ سب جذبے، یہ سب لمحے یہ سب آہیں، صدائیں،
بس اک پل میں، اک چھناکے سے دم توڑ دیتے ہیں
یہ مٹی سے بنا جسم چھوڑ دیتے ہیں

مگر یہ جسم مٹی کا، اسے مٹی میں ملنا ہے
قفس سے روح کو اک دن نکلنا ہے
تو پھر ہم کیوں یہ زندگی
ہمیشہ رو رو کے سسکتے ہوئے کاٹیں
چلو پھر ہم کیوں نہ اک دوسرے کے دکھ درد ہی بانٹیں
چلو ہم اک دوسرے کو جینا سکھاتے ہیں
رنگوں سے، تتلیوں سے گلوں سے
یہ جیون سجاتے ہیں
چلو اک دوسرے کو سپنے دکھاتے ہیں
 
بس اک پل میں، اک چھناکے سے دم توڑ دیتے ہیں​
یہ مٹی سے بنا جسم چھوڑ دیتے ہیں​

مگر یہ جسم مٹی کا، اسے مٹی میں ملنا ہے​
قفس سے روح کو اک دن نکلنا ہے​
تو پھر ہم کیوں یہ زندگی​
ہمیشہ رو رو کے سسکتے ہوئے کاٹیں​
چلو پھر ہم کیوں نہ اک دوسرے کے دکھ درد ہی بانٹیں​
چلو ہم اک دوسرے کو جینا سکھاتے ہیں​
رنگوں سے، تتلیوں سے گلوں سے​
یہ جیون سجاتے ہیں​
چلو اک دوسرے کو سپنے دکھاتے ہیں​

واہ واہ بہت خوبصورت جی ، داد قبول کیجیے اسد صاحب​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ایک طویل نظم برائے اصلاح و تنقید:

"چلو سپنے دکھاتے ہیں"
چلو آؤ!
تمہیں سپنے دکھاؤں میں
تمہیں ہسنا سکھاؤں میں
کہ پھولوں کی طرح کھلنا مہکنا
پرندوں کی طرح سے چہکنا سکھاؤں میں
تمہیں میں بادلوں ارٹنا سکھاؤں میں
÷÷÷ سرخ مصرعے روانی سے پڑھنے میں نہیں آتے۔۔۔ دوسرے مصرع میں میں ڈبل ہوگیا ہے۔
ہمارے اس سفر میں
پھول، کلیاں، تتلیاں، جگنو،
پہاڑوں، آبشاروں، ندی، جھرنوں ÷÷÷ ندی کا د مشدد پڑھنا پڑتا ہے۔۔۔
کے نغمے بھی ہونگے
÷÷÷ وہی روانی کا مسئلہ ہے۔۔
کبھی گرمی، کبھی سردی،
کہیں پتھر، کہیں کانٹے بھی ہونگے
میں تم کو ہر سرد و گرم سے کانٹوں سے ÷÷ اس کے ہر کو مشدد پڑھئے تو روانی آئے گی، جو اصولا درست نہیں۔
بچا لوں گا کبھی ٹھوکر لگی تو
تمھارے ہاتھ تھاموں گا
مگرتم کو ٹھوکروں سے خود کو ÷÷÷ تمہیں خود کو مگر بچنا ہے اور خود ہی سنبھلنا ہے۔۔۔ (وہی روانی کا مسئلہ)
بچانا ہے، خود ہی سنبھلنا ہے،
اندھیروں سے نکلنا ہے
نئے رستے پہ چلنا ہے،
نیا رستہ جو ریشمی خوابوں ÷÷ نیا رستہ وہی جو ریشمی خوابوں کی شاہ راہ ہے۔۔۔ (اس میں راہ کی بجائے را پڑھنا ہوگا، کیا یہ درست ہے؟)
کی شاہراہ ہے،
جہاں پر جا بجا، ÷÷÷ جہاں پر جا بجا چاہت نئے رنگوں کے اجلے گل کھلاتی ہے۔۔۔۔
محبت رنگا رنگ گل کہلاتی ہے
جہاں خوشبو گیت گاتی ہے ÷÷÷ جہاں اضافی ہے۔۔۔
جہاں جسموں کی قربت روح
کو سرشار کرتی ہے
جہاں محبت خود سے ہی ÷÷÷ محبت جس جگہ خود سے محبت۔۔۔۔
محبت ہر بار کرتی ہے ÷÷÷÷ ہر بار کرتی ہے۔۔۔
جہاں ہاتھوں کو ہاتھوں سے جدا کرنا
کہ جیسے خوشبو_گل کو گل سے جدا کرنا ÷÷÷ کہ جیسے گل سے خوشبو کو جدا کرنا۔۔۔۔
جہاں ہر لمحہ سحر آفریں معلوم ہوتا ہے ÷÷÷÷ سحر آفریں کے تلفظ پر شک ہے۔۔
بہت دلکش بڑا ہی دل نشیں معلوم ہوتا ہے
مگر اس راستے کی انتہا
کبھی بھی ÷÷÷÷ کبھی اور بھی کا استعمال ایک ساتھ نہیں کرنا چاہئے، میرے خیال میں، یہی ابھی بھی کا مسئلہ ہے۔۔
کہیں پر بھی ممکن ہے÷÷÷یہ ممکن ہے کہیں پر بھی۔۔۔
بس اک لمحہ ہی لگتا ہے
کہ سب منظر حقیقت کی سرحد پار جاتے ہیں ÷÷نامکمل ہے، سمجھوں تو کچھ لکھوں۔۔۔
جہاں پر خواب اپنے جسم سے روح چھوڑ دیتے ہیں ÷÷÷ روح کا تلفظ؟؟ رُح درست ہے؟؟
جہاں الفت کے سب ہی راستے اپنا رخ موڑ لیتے ہیں ÷÷÷ اپنا زائد ہے۔۔
جہاں سپنے حقیقت کی چٹانوں سے ٹکراتے ہی دم توڑ دیتے ہیں÷÷ جہاں سپنے حقیقت کی چٹانوں سے جوٹکراتے ہیں تو دم توڑ دیتے ہیں
جہاں تاریکیاں بس ایک ہی لمحے میں ڈیرے جماتی ہیں÷÷÷ ڈیرے کے بعد آ لگانے سے روانی آئے گی۔
جہاں تا عمر آنکھیں آنسو بہاتی، سوکھ جاتی ہیں ÷÷÷ جہاں تا عمر آنکھیں غم سے بس آنسو بہاتی سوکھ جاتی ہیں
جہاں پر جسم سے جاں نکل جاتی ہے پھر بھی دل دھڑکتا ہے۔۔۔جہاں پر جسم کو جاں چھوڑ جاتی ہے مگر دھڑکن نہیں تھمتی۔۔۔
جہاں پر روح کے زخموں سے بس لہو ٹپکتا ہے۔۔۔ جہاں پر بس لہو بہتا ہے روح کے سارے زخموں سے۔۔لیکن کیا آپ یہی کہنا چاہتے تھے؟
جہاں لب پر دعائیں آکے پھر سے لوٹ جاتی ہیں
جہاں پر بے یقینی کی صدائیں ناچتی، گاتی ہیں اور پھر اک دن۔۔ ایک دن۔۔
یہ سب منظر، یہ سب جذبے، یہ سب لمحے یہ سب آہیں، صدائیں،، سب کی جگہ سبھی ہوگا، ہرجگہ
بس اک پل میں، اک چھناکے سے دم توڑ دیتے ہیں ۔۔ ایک پل میں اک چھناکے سے وہیں دم توڑ دیتے ہیں
یہ مٹی سے بنا جسم چھوڑ دیتے ہیں

مگر یہ جسم مٹی کا، اسے مٹی میں ملنا ہے
قفس سے روح کو اک دن نکلنا ہے
تو پھر ہم کیوں یہ زندگی
ہمیشہ رو رو کے سسکتے ہوئے کاٹیں
چلو پھر ہم کیوں نہ اک دوسرے کے دکھ درد ہی بانٹیں
چلو ہم اک دوسرے کو جینا سکھاتے ہیں
رنگوں سے، تتلیوں سے گلوں سے
یہ جیون سجاتے ہیں
چلو اک دوسرے کو سپنے دکھاتے ہیں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میری اصلاح ابھی جاری ہے۔۔۔ یہ سب سطور باقی ہیں۔۔۔
یہ مٹی سے بنا جسم چھوڑ دیتے ہیں

مگر یہ جسم مٹی کا، اسے مٹی میں ملنا ہے
قفس سے روح کو اک دن نکلنا ہے
تو پھر ہم کیوں یہ زندگی
ہمیشہ رو رو کے سسکتے ہوئے کاٹیں
چلو پھر ہم کیوں نہ اک دوسرے کے دکھ درد ہی بانٹیں
چلو ہم اک دوسرے کو جینا سکھاتے ہیں
رنگوں سے، تتلیوں سے گلوں سے
یہ جیون سجاتے ہیں
چلو اک دوسرے کو سپنے دکھاتے ہیں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ایک پل میں اک چھناکے سے وہیں دم توڑ دیتے ہیں
یہ مٹی سے بنا جسم چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔ یہ مٹی کا کھلونا جسم سب ہی چھوڑ دیتے ہیں

مگر یہ جسم مٹی کا، اسے مٹی میں ملنا ہے ۔۔۔ ÷÷÷مگر کا استعمال درست ہے یانہیں؟؟
قفس سے روح کو اک دن نکلنا ہے
تو پھر ہم کیوں یہ زندگی ۔۔۔۔ ÷÷تو پھر ہم کیوں بھلا یہ زندگی
ہمیشہ رو رو کے سسکتے ہوئے کاٹیں ۔۔۔ ÷÷روروکے ہی کاٹیں ۔۔۔ سسکتے کیوں رہیں ہر دم؟
چلو پھر ہم کیوں نہ اک دوسرے کے دکھ درد ہی بانٹیں۔۔۔ ÷÷÷چلو پھر کیوں نہ ہم اک دوسرے کے درد ہی بانٹیں
چلو ہم اک دوسرے کو جینا سکھاتے ہیں ۔۔۔ ÷÷چلو اک دوسرے کو آج ہم جینا سکھاتے ہیں
رنگوں سے، تتلیوں سے گلوں سے ۔۔۔ ÷÷÷گلوں سے ، رنگوں سے اور تتلیوں سے
یہ جیون سجاتے ہیں÷÷÷ اپنا یہ جیون سجاتے ہیں
چلو اک دوسرے کو سپنے دکھاتے ہیں÷÷÷ چلو اک دوسرے کو آج ہم سپنے دکھاتے ہیں
÷÷÷÷ خیال کیسا ہے اور کیا ہے؟ یہ آپ جانئے یا استاد محترم الف عین ÷÷÷
ذاتی طور پر میں آزاد نظم کے خلاف ہوں ، کیونکہ اس میں یاد رہ جانے والا کوئی ایک شعر دکھائی نہیں دیتا۔یہی اس کی خرابی ہے، لیکن اس کا مطلب نہیں کہ آپ پر کوئی فتویٰ عائد کیا جائے۔۔۔
اس میں جتنی بھی تصحیح یا تبدیلی کی گئی ہے، وہ ایک تسلسل کو مدنظر رکھتے ہوئے اور روانی کا خیال رکھتے ہوئے کی گئی ہے ، پوری نظم کا ربط کہیں بھی، کسی بھی جگہ ٹوٹنا یا ڈگمنانا نہیں چاہئے، میں نے آزاد نظم کے کچھ شعراء سے یہی بات سیکھی ہے۔۔۔
 

اسد قریشی

محفلین
جناب شاہد شاہنواز صاحب،

اس کاوش خام پر آپ نے اپنا اس قدر قیمتی وقت صرف کیا آپ کا بیحد ممنون ہوں. حقیقت یہ ہے کہ نظم کہنا وہ بھی آزاد نظم میرے لئے الجبرا کا سوال حل کر کی مترادف ہے. یہ وہ خیالات ہیں جو کہ ایک ہی نشست میں وارد ہوئے اور من و عن تحریر کر دے، بہت دن سے اس پر کوشش کر رہا تھا لیکن بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آئی سوچا احباب سے مشورہ کیا جائے جو کہ یقیناً سود مند ثابت ہوا. آپ کی بیشتر اصلاحات دل میں گھر کر گئیں لیکن کچھ مقامات پر اتفاق نہ کر سکوں گا..جس کہ لئے مزید اعجاز صاحب کی رائے کا انتظار ہے


چلو آؤ!
تمہیں سپنے دکھاؤں میں
تمہیں ہسنا سکھاؤں میں
کہ پھولوں کی طرح کھلنا مہکنا
پرندوں کی طرح چہکنا سکھاؤں میں
میں تم کو بادلوں میں ارٹنا سکھاؤں دوں

ہمارے اس سفر میں
پھول، کلیاں، تتلیاں، جگنو،
پہاڑوں، آبشاروں، ندی، جھرنوں
ندی کا د مشدد پڑھنا پڑتا ہے۔۔۔ (متفق نہیں)
کے نغمے بھی ہونگے
کبھی گرمی، کبھی سردی،
کہیں پتھر، کہیں کانٹے بھی ہونگے
میں تم کو ہر سرد و گرم سے کانٹوں سے ÷÷ اس کے ہر کو مشدد پڑھئے تو روانی آئے گی، جو اصولا درست نہیں۔ یہاں ہر کو مشدد نہیں بلکہ "ر" کو ساکن پڑھا جا رہا ہے پھر سے دیکھئے...
بچا لوں گا کبھی ٹھوکر لگی تو
تمھارے ہاتھ تھاموں گا
مگرتم کو ٹھوکروں سے خود کو
( تمہیں خود کو بچانا ہے خود ہی سنبھلنا ہے)
اندھیروں سے نکلنا ہے
نئے رستے پہ چلنا ہے،
نیا رستہ وہی جو ریشمی خوابوں کی شاہ راہ ہے۔۔۔ (اس میں راہ کی بجائے را پڑھنا ہوگا، کیا یہ درست ہے؟)
کی شاہراہ ہے،
جہاں پر جا بجا چاہت نئے رنگوں کے اجلے گل کھلاتی ہے۔۔۔ ۔
جہاں خوشبو گیت گاتی ہے
جہاں جسموں کی قربت روح
کو سرشار کرتی ہے
محبت جس جگہ خود سے محبت
ہر بار کرتی ہے
جہاں ہاتھوں کو ہاتھوں سے جدا کرنا
کہ جیسے گل سے خوشبو کو جدا کرنا
جہاں ہر لمحہ سحر آفریں معلوم ہوتا ہے ÷÷÷÷ سحر آفریں کے تلفظ پر شک ہے۔۔
بہت دلکش بڑا ہی دل نشیں معلوم ہوتا ہے
مگر اس راستے کی انتہا
کبھی بھی ÷÷÷÷ کبھی اور بھی کا استعمال ایک ساتھ نہیں کرنا چاہئے، میرے خیال میں، یہی ابھی بھی کا مسئلہ ہے۔۔
یہ ممکن ہے کہیں پر بھی
بس اک لمحہ ہی لگتا ہے
کہ سب منظر حقیقت کی سرحد پار جاتے ہیں ÷÷نامکمل ہے، سمجھوں تو کچھ لکھوں۔۔۔
جہاں پر خواب اپنے جسم سے روح چھوڑ دیتے ہیں ÷÷÷ روح کا تلفظ؟؟ رُح درست ہے؟؟
جہاں الفت کے سب ہی راستے رخ موڑ لیتے ہیں ÷÷÷
جہاں سپنے حقیقت کی چٹانوں سے جوٹکراتے ہیں تو دم توڑ دیتے ہیں
جہاں تاریکیاں بس ایک ہی لمحے میں ڈیرے آ جماتی ہیں÷÷÷
÷÷÷ جہاں تا عمر آنکھیں غم سے بس آنسو بہاتی سوکھ جاتی ہیں
۔۔۔ جہاں پر جسم کو جاں چھوڑ جاتی ہے مگر دھڑکن نہیں تھمتی۔۔۔
جہاں پر روح کے زخموں سے بس لہو ٹپکتا ہے۔۔۔
جہاں لب پر دعائیں آکے پھر سے لوٹ جاتی ہیں
جہاں پر بے یقینی کی صدائیں ناچتی، گاتی ہیں اور پھر ۔۔ ایک دن۔۔
یہ سب منظر، یہ سبھی جذبے، یہ سبھی لمحے یہ سب آہیں، صدائیں،،
بس ایک پل میں، اک چھناکے سے وہیں دم توڑ دیتے ہیں ۔۔

ابھی جاری ہے۔
 

اسد قریشی

محفلین
متفق۔۔۔۔۔۔۔ غیر متفق

ایک پل میں اک چھناکے سے وہیں دم توڑ دیتے ہیں
یہ مٹی سے بنا جسم چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔ یہ مٹی کا کھلونا جسم سب ہی چھوڑ دیتے ہیں

مگر یہ جسم مٹی کا، اسے مٹی میں ملنا ہے ۔۔۔ ÷÷÷مگر کا استعمال درست ہے یانہیں؟؟
قفس سے روح کو اک دن نکلنا ہے​
تو پھر ہم کیوں یہ زندگی ۔۔۔ ۔ ÷÷تو پھر ہم کیوں بھلا یہ زندگی "پھر کے ساتھ بھلا کا استمعال مشکوک لگ رہا ہے "
ہمیشہ​
روکے ہی کاٹیں،
سسکتے کیوں رہیں ہر دم؟​
÷÷÷چلو پھر کیوں نہ ہم اک دوسرے کے درد ہی بانٹیں
چلو اک دوسرے کو آج ہم جینا سکھاتے ہیں
گلوں سے ، رنگوں سے اور تتلیوں سے​
اپنا یہ جیون سجاتے ہیں
چلو اک دوسرے کو آج ہم سپنے دکھاتے ہیں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اسد قریشی صاحب ۔۔۔ بہتر ہوگا اگر آپ اس پوری نظم کو دوبارہ لکھ دیں اور جو اصلاح آپ نے قبول فرمائی، وہ اس میں کرتے ہوئے اور جسے رد کیا ، اسے چھوڑتے یا مناسب ترمیم کرتے ہوئے جہاں آپ کو مناسب لگی ہو، تاکہ بات مزید آگے بڑھ سکے۔
 

اسد قریشی

محفلین
ترمیم کے بعد
چلو آؤ!
تمہیں سپنے دکھاؤں میں
تمہیں ہسنا سکھاؤں میں
کہ پھولوں کی طرح کھلنا مہکنا
پرندوں کی طرح چہکنا سکھاؤں میں
میں تم کو بادلوں میں ارٹنا سکھاؤں دوں

ہمارے اس سفر میں
پھول، کلیاں، تتلیاں، جگنو،
پہاڑوں، آبشاروں، ندی، جھرنوں
کے نغمے بھی ہونگے
کبھی گرمی، کبھی سردی،
کہیں پتھر، کہیں کانٹے بھی ہونگے
میں تم کو ہر سرد و گرم سے کانٹوں سے
بچا لوں گا کبھی ٹھوکر لگی تو
تمھارے ہاتھ تھاموں گا
مگرتم کو ٹھوکروں سے خود کو
تمہیں خود کو بچانا ہے خود ہی سنبھلنا ہے
اندھیروں سے نکلنا ہے
نئے رستے پہ چلنا ہے،
نیا رستہ وہی جو ریشمی خوابوں کی شاہ راہ ہے
کی شاہراہ ہے،
جہاں پر جا بجا چاہت نئے رنگوں کے اجلے گل کھلاتی ہے
جہاں خوشبو گیت گاتی ہے
جہاں جسموں کی قربت روح
کو سرشار کرتی ہے
محبت جس جگہ خود سے محبت
ہر بار کرتی ہے
جہاں ہاتھوں کو ہاتھوں سے جدا کرنا
کہ جیسے گل سے خوشبو کو جدا کرنا
جہاں ہر لمحہ سحر آفریں معلوم ہوتا ہے
بہت دلکش بڑا ہی دل نشیں معلوم ہوتا ہے
مگر اس راستے کی انتہا
کبھی بھی
یہ ممکن ہے کہیں پر بھی
بس اک لمحہ ہی لگتا ہے
کہ سب منظر حقیقت کی سرحد پار جاتے ہیں
جہاں پر خواب اپنے جسم سے روح چھوڑ دیتے ہیں
جہاں الفت کے سب ہی راستے رخ موڑ لیتے ہیں
جہاں سپنے حقیقت کی چٹانوں سے جوٹکراتے ہیں تو دم توڑ دیتے ہیں
جہاں تاریکیاں بس ایک ہی لمحے میں ڈیرے آ جماتی ہیں
جہاں تا عمر آنکھیں غم سے بس آنسو بہاتی سوکھ جاتی ہیں
جہاں پر جسم کو جاں چھوڑ جاتی ہے مگر دھڑکن نہیں تھمتی
جہاں پر روح کے زخموں سے بس لہو ٹپکتا ہے
جہاں لب پر دعائیں آکے پھر سے لوٹ جاتی ہیں
جہاں پر بے یقینی کی صدائیں ناچتی، گاتی ہیں اور پھر ایک دن
یہ سب منظر، یہ سبھی جذبے، یہ سبھی لمحے یہ سب آہیں، صدائیں،،
ایک پل میں اک چھناکے سے وہیں دم توڑ دیتے ہیں
یہ مٹی سے بنا جسم چھوڑ دیتے ہیں
مگر یہ جسم مٹی کا، اسے مٹی میں ملنا ہے
قفس سے روح کو اک دن نکلنا ہے
تو پھر ہم کیوں یہ زندگی
ہمیشہ روکے ہی کاٹیں،
سسکتے کیوں رہیں ہر دم؟
چلو پھر کیوں نہ ہم اک دوسرے کے درد ہی بانٹیں
چلو اک دوسرے کو آج ہم جینا سکھاتے ہیں
گلوں سے ، رنگوں سے اور تتلیوں سے
اپنا یہ جیون سجاتے ہیں
چلو اک دوسرے کو آج ہم سپنے دکھاتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
مجھ کو تو ترمیم نظر نہیں آ رہی۔ املا کی اغلاط بھی ویسی ہی ہیں، اڑنا کی جگہ ارٹنا، ویسے ڈ ا ک ٹ ر کو تو میں نے اکثر ڈ ا ک ڑ لکھا دیکھا ہے، لیکن ایسی غلطی نہیں دیکھی!
 

اسد قریشی

محفلین
قبلہ اعجاز عُبید صاحب عجلت پر شرمندہ ہوں، جلدی جلدی میں دیکھ ہی نہ سکا کہ بہت سی جگہ ترمیم مکمل نہ ہو سکی تھی۔ایک مرتبہ پھر سے زحمت کیجیئے:


ترمیم کے بعد
چلو آؤ!
تمہیں سپنے دکھاؤں میں
تمہیں ہسنا سکھاؤں میں
کہ پھولوں کی طرح کھلنا مہکنا
پرندوں کی طرح چہکنا سکھاؤں میں
میں تم کو بادلوں میں اڑنا سکھاؤں دوں

ہمارے اس سفر میں
پھول، کلیاں، تتلیاں، جگنو،
پہاڑوں، آبشاروں، ندی، جھرنوں
کے نغمے بھی ہونگے
کبھی گرمی، کبھی سردی،
کہیں پتھر، کہیں کانٹے بھی ہونگے
میں تم کو ہر سرد و گرم سے کانٹوں سے
بچا لوں گا کبھی ٹھوکر لگی تو
تمھارے ہاتھ تھاموں گا
مگرٹھوکروں سے
تمہیں خود کو بچانا ہے خود ہی سنبھلنا ہے
اندھیروں سے نکلنا ہے
نئے رستے پہ چلنا ہے،
نیا رستہ وہی جو ریشمی خوابوں کی شاہرہ ہے
جہاں پر جا بجا چاہت نئے رنگوں کے اجلے گل کھلاتی ہے
خوشبو گیت گاتی ہے
جہاں جسموں کی قربت روح
کو سرشار کرتی ہے
محبت جس جگہ خود سے محبت
ہر بار کرتی ہے
جہاں ہاتھوں کو ہاتھوں سے جدا کرنا
کہ جیسے گل سے خوشبو کو جدا کرنا
جہاں ہر لمحہ سحر آفریں معلوم ہوتا ہے
بہت دلکش بڑا ہی دل نشیں معلوم ہوتا ہے
مگر اس راستے کی انتہا
ممکن ہے کہیں پر بھی ہو جائے
بس ایک ہی لمحےمیں
سب منظر حقیقت کی سرحد کے پار جاتے ہیں
جہاں پر خواب اپنے جسم سے روح چھوڑ دیتے ہیں
جہاں الفت کے سب ہی راستے رخ موڑ لیتے ہیں
جہاں سپنے حقیقت کی چٹانوں سے جوٹکراتے ہیں تو دم توڑ دیتے ہیں
جہاں تاریکیاں بس ایک ہی لمحے میں ڈیرے آ جماتی ہیں
جہاں تا عمر آنکھیں غم سے بس آنسو بہاتی سوکھ جاتی ہیں
جہاں پر جسم کو جاں چھوڑ جاتی ہے مگر دھڑکن نہیں تھمتی
جہاں پر روح کے زخموں سے بس لہو ٹپکتا ہے
جہاں لب پر دعائیں آکے پھر سے لوٹ جاتی ہیں
جہاں پر بے یقینی کی صدائیں ناچتی، گاتی ہیں اور پھر ایک دن
یہ سب منظر،سبھی جذبے، سبھی لمحے یہ سب آہیں، صدائیں،،
ایک پل میں اک چھناکے سے وہیں دم توڑ دیتے ہیں
مٹی سے بنا یہ جسم چھوڑ دیتے ہیں
مگر یہ جسم مٹی کا، اسے مٹی میں ملنا ہے
قفس سے روح کو اک دن نکلنا ہے
تو پھر ہم کیوں یہ زندگی
ہمیشہ روکے ہی کاٹیں،
سسکتے کیوں رہیں ہر دم؟
چلو پھر کیوں نہ ہم اک دوسرے کے درد ہی بانٹیں
چلو اک دوسرے کو آج ہم جینا سکھاتے ہیں
گلوں سے ، رنگوں سے اور تتلیوں سے
اپنا یہ جیون سجاتے ہیں
چلو اک دوسرے کو آج ہم سپنے دکھاتے ہیں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اس بار تنقید ذرا کم ہے لیکن میرے خیال میں گزشتہ تنقید کی تکرار بھی موجود ہوگی۔ بہرحال یہ میرا خیال ہے۔ آگے جو آپ کو مناسب لگے۔۔۔
قبلہ اعجاز عُبید صاحب عجلت پر شرمندہ ہوں، جلدی جلدی میں دیکھ ہی نہ سکا کہ بہت سی جگہ ترمیم مکمل نہ ہو سکی تھی۔ایک مرتبہ پھر سے زحمت کیجیئے:


ترمیم کے بعد
چلو آؤ!
تمہیں سپنے دکھاؤں میں
تمہیں ہسنا سکھاؤں میں
کہ پھولوں کی طرح کھلنا مہکنا ÷÷÷ کہ کے معنی یہاں ’’یا‘‘ کے بھی لیے جاسکتے ہیں۔۔۔
پرندوں کی طرح چہکنا سکھاؤں میں ÷÷÷÷ اوپر کی لائن دیکھئے اور اسے دیکھئے، ملا کر پڑھنے پر بھی کیا یہ رواں لگتا ہے؟ اگر ان دونوں کے درمیان ’’اور‘‘ کا اضافہ کیجئے تو پھر بات طرح پر آکر رک جاتی ہے کیونکہ چہکنا اس کے بعد نہیں آنا چاہئے۔ اب میرا خیال ہے اس کی صورت کچھ یوں ہونی چاہئے"
میں پھولوں کی طرح کھلنا مہکنا اور
پرندوں کی طرح تم کو چہکنا بھی سکھا دوں۔۔۔۔ اس میں خیال کے حوالےسے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن شاید روانی متاثر نہیں ہوتی۔۔۔
میں تم کو بادلوں میں اڑنا سکھاؤں دوں ÷÷÷ یہ لکھا ہی غلط گیا، دوبارہ لکھئے گا۔۔۔

ہمارے اس سفر میں
پھول، کلیاں، تتلیاں، جگنو، ÷÷÷ ’’پھولوں، کلیوں ، تتلیوں اور جگنوئوں ‘‘ کا مقام ہے۔۔۔
پہاڑوں، آبشاروں، ندی، جھرنوں ÷÷÷ پہاڑوں آبشاروں اور ندی جھرنوں کے نغمے۔۔۔
کے نغمے بھی ہونگے ÷÷÷ ہمارے ساتھ ہوں گے۔۔۔
کبھی گرمی، کبھی سردی،
کہیں پتھر، کہیں کانٹے بھی ہونگے
میں تم کو ہر سرد و گرم سے کانٹوں سے ÷÷÷ ہر پر آکر ٹوٹتا ہے تسلسل ۔۔۔
بچا لوں گا کبھی ٹھوکر لگی تو
تمھارے ہاتھ تھاموں گا
مگرٹھوکروں سے ÷÷ مگر ان ٹھوکروں سے ۔۔۔
تمہیں خود کو بچانا ہے خود ہی سنبھلنا ہے ÷÷÷ خود ہی سنبھلنا والی لائن الگ کردیجئے÷÷÷
اندھیروں سے نکلنا ہے
نئے رستے پہ چلنا ہے،
نیا رستہ وہی جو ریشمی خوابوں کی شاہرہ ہے
جہاں پر جا بجا چاہت نئے رنگوں کے اجلے گل کھلاتی ہے
خوشبو گیت گاتی ہے
جہاں جسموں کی قربت روح
کو سرشار کرتی ہے
محبت جس جگہ خود سے محبت
ہر بار کرتی ہے
جہاں ہاتھوں کو ہاتھوں سے جدا کرنا
کہ جیسے گل سے خوشبو کو جدا کرنا
جہاں ہر لمحہ سحر آفریں معلوم ہوتا ہے ÷÷÷ سحر آفریں ٹھیک ہے؟
بہت دلکش بڑا ہی دل نشیں معلوم ہوتا ہے
مگر اس راستے کی انتہا
ممکن ہے کہیں پر بھی ہو جائے ۔۔ مگر اس راستے کی انتہا، ۔۔۔۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہیں پر بھی ہو اور ۔۔۔۔بس ایک ہی لمحے میں
بس ایک ہی لمحےمیں
سب منظر حقیقت کی سرحد کے پار جاتے ہیں ÷÷÷ سب منظر حقیقت کی جو سرحد ہے، اسی کو پار کر جائیں ۔۔۔
جہاں پر خواب اپنے جسم سے روح چھوڑ دیتے ہیں
جہاں الفت کے سب ہی راستے رخ موڑ لیتے ہیں
جہاں سپنے حقیقت کی چٹانوں سے جوٹکراتے ہیں تو دم توڑ دیتے ہیں
جہاں تاریکیاں بس ایک ہی لمحے میں ڈیرے آ جماتی ہیں
جہاں تا عمر آنکھیں غم سے بس آنسو بہاتی سوکھ جاتی ہیں
جہاں پر جسم کو جاں چھوڑ جاتی ہے مگر دھڑکن نہیں تھمتی
جہاں پر روح کے زخموں سے بس لہو ٹپکتا ہے ۔۔۔ خوں ہی ٹپکتا ہے۔۔۔
جہاں لب پر دعائیں آکے پھر سے لوٹ جاتی ہیں
جہاں پر بے یقینی کی صدائیں ناچتی، گاتی ہیں اور پھر ایک دن
یہ سب منظر،سبھی جذبے، سبھی لمحے یہ سب آہیں، صدائیں،،یہ سب مناظر ۔۔۔ اور’’ سبھی جذبے‘‘ سے الگ کردیجئے۔۔
ایک پل میں اک چھناکے سے وہیں دم توڑ دیتے ہیں
مٹی سے بنا یہ جسم چھوڑ دیتے ہیں ÷÷÷مٹی سے بنا یہ جسم سب ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
مگر یہ جسم مٹی کا، اسے مٹی میں ملنا ہے
قفس سے روح کو اک دن نکلنا ہے
تو پھر ہم کیوں یہ زندگی ÷÷÷تو پھر ہم کیوں بھلا یہ زندگی۔۔۔
ہمیشہ روکے ہی کاٹیں،
سسکتے کیوں رہیں ہر دم؟
چلو پھر کیوں نہ ہم اک دوسرے کے درد ہی بانٹیں
چلو اک دوسرے کو آج ہم جینا سکھاتے ہیں
گلوں سے ، رنگوں سے اور تتلیوں سے
اپنا یہ جیون سجاتے ہیں
چلو اک دوسرے کو آج ہم سپنے دکھاتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
شاہد کی بہت سی ترمیمات درست ہیں، لیکن کچھ سے میں متفق نہیں۔ ندی، شد کے ساتھ، اردو میں بھی مستعمل ہے، بلکہ زیادہ عام ہے، بغیر شد کے تو محض ہندی کا تلفظ ہے۔
میں اس پوری نظم کا اصلاح شدہ روپ بعد میں پوسٹ کرتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
میں نے سرخ کرنے کی کوشش نہیں کی ہے، میری ترمیمی صورت ذیل میں ملاحظہ ہو۔
چلو آؤ!
تمہیں سپنے دکھاؤں میں
تمہیں ہنسنا سکھاؤں میں
گلوں کی طرح کھلنا اور مہکنا
پرندوں کی طرح نغمے سنانا
میں تم کو آسماں میں/ بادلوں ٕ میں دور تک پرواز کرنا
سب سکھاؤں میں

ہمارے اس سفر میں
پھول، کلیاں، تتلیاں، جگنو،
پہاڑوں، آبشاروں، ندی، جھرنوں
کے حسیں نغمےبھی ہونگے
کبھی گرمی، کبھی سردی،
کہیں پتھر، کہیں کانٹے بھی ہونگے
میں تم کو سارے سرد و گرم سے کانٹوں سے
بچا لوں گا کبھی ٹھوکر لگی تو
تمھارے ہاتھ تھاموں گا
مگر ان ٹھوکروں سے
تمہیں خود کو بچانا ہے
تمہیں خود ہی سنبھلنا ہے
اندھیروں سے نکلنا ہے
نئے رستے پہ چلنا ہے،
نیا رستہ وہی جو ریشمی خوابوں کا رستہ ہے
جہاں پر جا بجا چاہت نئے رنگوں کے اجلے گل کھلاتی ہے
خوشبو گیت گاتی ہے
جہاں جسموں کی قربت روح
کو سرشار کرتی ہے
محبت خود جہاں
ہر بار کرتی ہے محبت
جہاں ہاتھوں کو ہاتھوں سے جدا کرنا
کہ جیسے پھول سے خوشبو جدا کرنا
جہاں ہر پل سحر انگیز سا معلوم ہوتا ہے
بہت دلکش بڑا ہی دل نشیں معلوم ہوتا ہے
مگر اس راستے کی انتہا
یہ ممکن ہے کہیں ہو جائے گی
بس ایک لمحے میں
جہاں سارے منظر اصلیت کی سرحدوں کے پار جاتے ہیں
جہاں پر خواب بھی جسموں سے روحیں چھوڑ دیتے ہیں
جہاں الفت کے سارےراستے رخ موڑ لیتے ہیں
جہاں سپنے حقیقت کی چٹانوں سے جو ٹکراتے ہیں تو دم توڑ دیتے ہیں
جہاں تاریکیاں بس ایک ہی لمحے میں ڈیرے آ جماتی ہیں
جہاں تا عمر آنکھیں غم سے بس آنسو بہاتی سوکھ جاتی ہیں
جہاں پر جسم کو جاں چھوڑ جاتی ہے مگر دھڑکن نہیں تھمتی
جہاں پر روح کے زخموں سے جیسے خوں ٹپکتا ہے
جہاں لب پر دعائیں آ کے پھر سے لوٹ جاتی ہیں
جہاں پر بے یقینی کی صدائیں ناچتی، گاتی ہیں اور پھر ایک دن
یہ سب مناظر،سبارے جذبے اور سبھی لمحے
یہ سب آہیں، صدائیں،
ایک پل میں اک چھناکے سے وہیں دم توڑ دیتے ہیں
مٹی سے بنا یہ جسم یکسر چھوڑ دیتے ہیں
مگر یہ جسم مٹی کا، اسے مٹی میں ملنا ہے
قفس سے روح کو اک دن نکلنا ہے
تو پھر ہم کیوں یہ اپنی زندگانی
ہمیشہ روکے ہی کاٹیں،
سسکتے کیوں رہیں ہر دم؟
چلو پھر کیوں نہ ہم اک دوسرے کے درد ہی بانٹیں
چلو اک دوسرے کو آج ہم جینا سکھاتے ہیں
گلوں سے ، رنگوں سے اور تتلیوں سے
اپنا یہ جیون سجاتے ہیں
چلو اک دوسرے کو آج ہم سپنے دکھاتے ہیں
 

اسد قریشی

محفلین
بہت شکریہ قبلہ اعجاز عُبید صاحب، آپ کی مجوّزہ اصلاحات کے بعد نظم کی صورت کافی بہتر ہوگئی ہے، اب آپ سے ایک اور گزارش ہے، ایک تو اس کا عنوان تجویز کیجئے، دوسرا یہ کہ مجموعی طور پر آپ کا اس نظم کی بابت کیا تاثر ہے، آیا ایسی غلطی دوبارہ کرنی چاہیئے یا اس سلسلے کو یہیں موقوف کرنا مناسب ہوگا۔
 

اسد قریشی

محفلین
محترم شاہد شاہنواز صاحب،

آپ کا بھی بیحد ممنون ہوں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت میری اس سعیِ ناقص پر صرف کیا اور اپنے گَراں قدر مشورے سے نوازہ۔گو کہ آپ کے سُرخ نشانات نے میری ہمت پست کردی تھی، لیکن اپنے دل کو مطمئن کرنے میں کچھ ہی دیر لگی کہ مجھے نظم کا شعور نہیں لہٰذا آپ کی تجاویز دل کے قریں پائیں۔

ایک مرتبہ پھر سے شکرگُزار ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ ہمارا ساتھ یوں ہی چلتا رہے گا۔
 
Top