پانچویں سالگرہ ایک صفحہ کتنی دیر میں ۔ ۔ ۔

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شگفتہ بہت اچھا سلسلہ شروع کیا ہے۔

یہ بتائیں اگر ایک ہی وقت میں دو یا تین اراکین نے ایک ہی صفحہ لے کر ٹائپ کرنا شروع کر دیا تو کیا ہو گا؟ ایسے تو کئی ایک محنت ضائع چلی جائے گی۔

میں نے یہ اوپر والا صفحہ سات منٹ میں ٹائپ کیا ہے کہ ساتھ ساتھ اس قدیم اردو کے مزے لے رہا تھا۔

پسندیدگی کے لیے شکریہ شمشاد بھائی ۔

آپ نے جس جانب لکھا ہے یہ صورت پیش آ سکتی ہے ۔ فی الحال اس کا حل یہی ذہن میں آیا کہ جو رکن لکھنا چاہیں وہ یہاں لکھنے سے پہلے ہی نشاندہی کر دیں تاکہ دوسرے کوئی رکن اس صفحہ پر کام نہ کریں ۔ آغاز کی پوسٹ میں اس بارے میں ذکر کر دیا تھا ۔

دوسرا ایک حل یہ ذہن میں آیا کہ دورانیہ کم سے کم رکھا جائے تو اس طرح ایسی صورت پیش آنے کا امکان بھی کافی کم ہو جائے گا ۔ پہلے میں نے اس کا دورانیہ دو گھنٹے سوچا تھا لیکن پوسٹ میں پھر تین گھنٹے لکھا تاہم موجودہ ریسپانس کو دیکھتے ہوئے خیال ہے کہ دورانیہ کم کر کے دو گھنٹے یا ایک گھنٹہ کر دیا جائے ، اس بارے میں آپ سب اپنی رائے دیں یا اس کا کوئی بہتر حل تجویز کر سکیں ، شکریہ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اگلا صفحہ

Tadbeer_page_0008.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 4

انسانیت کے ساتہہ تم برتاؤ کرو گو تمہارے پاس ایک کوری بہی نہو کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آدمیت کے کسی شخص کے عزت نہین ہو سکتی۔" میں نے صاف اور عمدہ ترین عادات کے ایک آدمی کو دیکہا ہے جو چہوٹے سے موضع مین انگلستان کے شمالی جانب سکونت گزین تہا اور مزدوری کر کے ہفتہ مین صرف دس شلنگ پیدا تہا اور اسی قلیل رقم مین اپنے سارے خاندان کے ساتہہ عزت سے زندگی بسر کرتا تہا گو اوس شخص نے عام مدرسہ مین معمولی تعلیم پائی تہی لیکن دانشمند اور دور اندیش تہا۔ اوس نے اپنی غریبانہ زندگی جب محنت اور عبادت مین ختم کی تو اپنے عقل اور عمدہ کامونکے بدولت ایسی یادگار چہوڑی جسپر بڑے بڑے عالی مرتبہ اور دولتمند لوگ رشک کرتے تہے۔

لُوتہر نے بہی مرنیکے بعد دولت یا روپیہ کچہہ نہین چہوڑا کیونکہ وہ اپنے زمانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا مفلس تہا کہ گہری سازی اور باغبانی کر کے اپنی اوقات بسری کرتا لیکن اوسی مشقت کی حالت میں وہ اپنے ملک والونکے اطوار کی تربیت کرتا اور دینداری کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیال ۔۔۔۔۔۔ جانا کہ جرمنی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ سہی اوننی عزت نہین ہوتی تہی۔ چال چلن مثل ایک ملکیت کے ہے جو تمام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے افضل اور اعلے ہے۔

یہہ ایک عام رضامندی اور عزت کی جائداد ہے اور جو لوگ اسکو اختیار کرتے ہین گو وہ دنیاوی اسباب مین دولتمند نہون لیکن اونکو اسکا نعم البدل عزت و شہرت بطریقِ احسن حاصل ہے۔ صرف کاروبار کی ایمانداری ہے جو انسانکی زندگی کے ساتہہ شامل ہے اگر اوسکی بنیاد ٹہیک اندازہ اور قاعدہ کے مطابق ہو جسے وہ صحیح جانے اور درست خیال کرے یہی ایمانداری ہے جو آدمی کو مستقل رکہتی ہے قوت دیتی ہے اسباب راحت مہیا کرتی ہے اور اسی سے مشکل کامونکا انجام بخیر ہوتا ہے۔ سربن جامن رڈیارڈ کا قول ہے "کہ کسی شخص کو یہہ ضرورت نہین ہے کہ وہ عالی مرتبہ یا دولتمند ہو بلکہ یہ بہی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ۷

شریڈن کے ملک کا رہنے والا برک نامی ایک شخص عمدہ چال چلن کا آدمی تہا۔ پورا پینتیس ۳۵ برس کا بہی نہ ہوا تہا کہ اوس نے پارلیمنٹ مین جگہہ حاسل کر لی اور انگلستان کی انتظامی تاریخ مین بڑی ناموری پیدا کی۔ باوجودیکہ برک فیاض اور اعلے درجہ کے چال چلن کا آدمی تہا لیکن اسومین بہی ایک جزو کی ایسی کمی تہی جس بہت کچہہ نقص واقع ہا گیا یعنی اوسکی طبیعت مین نرمی نہین تہی وہ ہمہ تن تنک مزاج تہا۔ اس ادنی صفت کی کمی سے اوسکی بری بڑی داد دہش اور بخششین بالکل بے سود اور بے نتیجہ اثر رکتی تہین۔ چال چلن کی تکمیل چہوٹے چہوٹے مختلف واقعات سے ہوتی ہے جو تہوڑے بہت انضباط اور اختیار کے ساتہہ ہون۔ جسطرح کوئی ایسا بال نہین ہے جو سایہ فگن نہو اوسیطرح ادنے سے ادنے کام بہی ایسا نہین ہے جسکا کچہہ نتیجہ نہو۔

جملہ خیالات ۔ محسوسات اور امورات کا انحصار طبیعت۔ عادت اور قوت مدرکہ کی درستی پر ہے جنکی ناگزیر تاثیرات آیندہ زندگی کے کل کامون پر حاوی ہین۔ اسیطرح چال چلن کا معمولی تغیر بہلائی اور برائی دونون جانب ہوتا ہے جس سے یہہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خواہ نیکی کر کے اوسمین ترقی دین یا بدی کر کے اوسے تنزلی کی حالت ڈالدین۔

مسٹر رسکن کا قول ہے کہ میرے زندگی مین کوئی ایسی بیوقوفی اور حماقت باقی نہیں رہی جس نے میرے خلاف میرے مسرتونکوزایل اور قوت مدرکہ کو باطل کرنا نہ چاہا ہو۔ لیکن میری زندگی کی گذشتہ کوششین جنمین راستی اور عمدگی کی شعائین نمایان تہین میری معین رہین اور مجھے اپنے ہُنر کے قایم رکنے میں بہت کچہہ مدد دی۔

اعلے درجہ کا چال چلن بغیر کوشش کے کسی طرح نہین قایم ہو سکتا اور جسکے واسطے دایماً اپنے تہین کی نگرانی۔ طبیعت کی پابندی اور مزاج پر خود اختیاری حاسل کرنیکی مشافی بہت ضروری ہے۔ اگرچہ اس کے عملدرآمد مین بہت سے اسباب
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵

ضروری نہیں کہ وہ عقلمند ہو لیکن یہ لازم اور واجب ہے کہ ایماندار ہو۔

علاوہ ایمانداری کے عمدہ اصول کی پابندی بہت ضروری ہے کیونکہ جو شخص اصول اور قواعد کا پابند نہین ہے وہ مثل ایک ایسے جہازکے ہے جسمین نہ تو باد بان ہے نہ مستول ہے اور وہ ہوا کے جہونکون سے تہ و بالا ہو رہا ہے۔

ایک بڑا مقرر جو کسی مقدمہ میں بحث کرنیکے واسطے روم کو جاتا تہا ایک ٹیٹس سے ملا اور اوس سے چند اصول فلسفہ حاسل کرنا چاہا ایک ٹیٹس نے اوسکے کلام کا اعتبارنکیا اور خلق سے پیش نہین آیا بلکہ کہا کہ تم کچہہ سیکنا نہین چاہتے صرف میرا امتحان کرنا تمہین مقصود ہے۔ مقرر نے جواب دیا کہ اگر مین اس قسم کی چیزونکی طرف متوجہ ہوتا تو مین یہی مثل تمہارے مفلس بغیر کسی ساز و سامان کے ہو جاتا۔ ایک ٹیٹس نے جوابدیا کہ مجھے ان چیزون کی ضرورت نہیں ہے اور باوجود اسکے تم مجہسے ۔۔۔۔۔۔ بہت زیادہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی پرواہ نہین ہے اور تمکو ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ مین خوشامد کرتا ہون۔ یہی سب چیزین ہین جو میرے پاس رہتی ہین اور جنکو مین تمہارے سونے چاندی کے اسباب سے زیادہ تر معزز خیال کرتا ہون۔ میرا دماغ میرے واسطے مثل ایک بادشاہت کے ہے۔ جسے بجائے تمہارے مضطربانہ کاہلی کے قسم قسم کی لامحدود راحت و آسایش حاصل کرتا ہوں۔ تمہارے مقبوضات تمہین قلیل المقدار معلوم ہوتی ہین اور میرے محلوکات مجہے بہت عظیم الشان نظر آتے ہین۔ تمہاری خواہشات بالکل ناکافی ہین اور مین ہرطرح سیر ہون۔

طباعی اور ذہانت دنیا مین کمیاب نہین ہین لیکن کیا انپر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ کبہی نہین تاوقتیکہ انکی بنیاد صداقت اور راستبازی پر نہو۔ سب سے زیادہ یہی صفت ہے جس سے آدمی کو عزت اور وقعت حاصل ہوتی ہے دوسرونکو اوسپر اعتبار ہوتا ہے۔
 

فہیم

لائبریرین
صحفہ 9

خیالات اپنے دل میں مجمع کرتا ہے۔ اور زندگی میں ایسے آدمیوں کے افعال کی شہرت ہوتی ہے اور دوسرں کے واسطے تمثیل قائم ہوتی ہے اور ان کے اقوال ہمیشہ قائم رہتے ہیں اور انہیں احکام کے مطابق عملدرآمد کیا جاتے ہے جس طرح لوتہر نے اپنے اقوال کی شہرت کا نقارہ جرمنی میں بچایا اور اپنی زندگی کو ملک والوں کے طرز معاشرت کے واسطے نظیر قائم کردیا جسکی مثال اب تک جرمنی میں موجود ہے۔
لیکن موثرانہ قوت بغیر راست بازی اور نیکی کے مخزن عیوب ہے۔
نوالس کا قول ہے کہ اخلاقی تکمیل کے خیال کا خطرناک مخالف تحکمانہ اور موثرانہ زندگی کا خیال ہے جسمیں کبرو حسد خود غرضی اور جملہ خباثت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ اس قسم کے آدمیوں میں جابرون اور دنیا کے برباد کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے جنکو قادر مطلق نے اپنے ممتنع النقبش منشار سے خلق میں جبر و ظلم کا کام انجام دینے کے واسطے پیدا کیا ہے۔
تحکمامہ خیال کا آدمی اوس نیک طینت شخص سے بالکل جداگانہ ہے جس کے افعال راتبازی پر منحصر ہیں اور جو قانون قدرت کی پابندی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ وہ معمولی کاروبار۔ امور متعلق عامہ خلالق اور اپنے خانکی زندگی میں راستبازی اور ایماندار اپنے جملہ امور اور اقوال و افعال میں سچا رہتا ہے۔ وہ اپنے دشمنوں اور عاجزون کے ساتھ رحمدلی اور فیاضی سے پیش آتا ہے جس اصول کا مصداق شریڈن تھا جو باوجود اپنے ناعاقبت اندیشوں کے فیاض تھا اور کسی کو تکلیف نہیں دی۔
چال چلن والا آدمی ایماندار ہوتا ہے وہ اپنے اقوال اور نیز کل حرکات و سکنات میں قوت ایمانی کا شمول رکھتا ہے۔ چال چلن والا آدمی معرز
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 6

یہہ چال چلن کے پیرایہ مین اپنے کو دکہلاتی ہے یہی راستبازی اور کامونکی سچائی ہے جو اپنے کو اقوال اور افعال کے ساتھ ظاہر کرتی ہے۔ اسکے معنی اعتبار کے ہین یہی دوسرونپر ثابت کرتی ہے کہ ایسے چال چلن کا آدمی قابل اعتبار ہے۔

وہی شخص دنیا مین قابل قدر ہے جو معتبر سمجہہ لیا گیا ہے کیونکہ تیقن ہے کہ وہ نادانستہ بات زبان سے نہ نکالیگا اور جو بات کہیگا اوسکو وہ کر سکتا ہے۔ کرتا ہے اور کریگا۔ پس راستبازی بنی نوع انسان کی عزت اور اعتبار کا ایک عمدہ ذریعہ ہے۔

دنیا میں بسر اوقات کے واسطے چال چلن۔ تحمل۔ بردباری۔ اور اصول کی پابندی زیادہ ضروری ہے بہ نسبت جودت۔ ذہانت اور دماغی قوت کے۔ پس خاص یا عام طور پر زندگی بسر کرنیکے واسطے ایسی دانست کی بہت کچہہ احتیاج ہے جو بالکل راستی پر مبنٰی ہو۔ گو صحیح چال چلن والے آدمی کی شہرترقی پذیر نہو لیکن اوسکے سچے اوصاف باالکلیہ پوشیدہ نہین رہ سکتے۔ اگرچہ بدقسمتی اور نامساعدت زمانہ سے اکثر اشخاص ایسے لوگونکی جانب سے بدظن اور بدگمان ہونگے لیکن اونکا تحمل استقلال اونہین فایز المرام کریگا اور باالاخر وہ اپنے کو دوسرونکے نزدیک اوس عزت اور بزرگی کے لائق تسلیم کرا لینگے جسکی وہ فی الحقیقت مستحق ہین۔

کہا جاتا ہے کہ اگر شریڈن کے چال چلن مین راستبازی ہوتی تو وہ سارے دنیا کا حکمران ہو جاتا لیکن اس کمی سے اوسکی نمایشی داد دہش بالکل فضول ثابت ہوئی۔ ایک مرتبہ ڈلپنی نے اسے اپنے بقیہ تنخواہ کے واسطے تقاضا کیا تو شریڈن نے اوسکو سخت سرزنش کی اور کہا تم اپنا درجہ بالکل بہول گئے۔ ڈلپنی نے فوراً جواب دیا کہ "مجہہ مین اور آپ مین جو فرق ہے اسوے مین بخوبی جانتا ہون بلحاظ نسل خاندان اور تعلیم کے آپ مجہسے مرجح ہین لیکن مین بہ اعتبار زندگی۔ عادات اور چال چلن کے مجہکو آپ پر بدرجہا فوق ہے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 8

مانع اور سدراہ ہونگے چند روزہ ناکامی کا سامنا ہو گا طرح طرح کی دقتون اور مشکلونکا ۔۔۔۔ بانہ طور پر مقا بلہ ہو گا لیکن انسان کو دلجمعی اور مستقل مزاجی سے کام کرنا لازم ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کامیابی سے کبہی مایوس نہونا چاہیے۔ اسی قسم کی کوششون سے ہم چال چلن کے اوس زینہ تک جا سکتے ہین جہان ابتک ہمارا قدم نہین پہونچا ہے۔ اور گو اس مین کچہہ کمی رہجائے لیکن راستبازی کے ساتہہ جو کوششین منزل مقصود تک پہونچنی مین ہو سکتی ہین اوسکے صرف کرنے سے ہم باز نہین رہ سکتے۔ انسان کو صرف یہہ لازم نہین بلکہ اوسکا فرض ہے کہ عمدہ چال چلن حاصل کرے۔ یہی نہین کہ دولتمند ہو دل کا بہی امیر ہونا چاہیے۔ دنیاوی درجون مین معزز ہونا کافی نہین ہے بلکہ سچی عزت حاصل کرنی چاہیے۔ بے انتہا ذہانت نہین بلکہ خدا ترسی عمدہ صفت ہے۔ ذی اختیار اور مقتدر ہونے کے ساتہہ ایماندار۔ راستباز۔ اور دیندار بہی ہونا ضروری ہے۔

پرنس کنسرٹ جو ایک پاکیزہ خیال آدمی تہا اوسکی عادت تہی کہ لوگونکو محض اپنے طبعیت کی عمدگی سے تحریک اور ترغیب دیتا کہ جب ملکہ وکٹوریا ولنگٹن کالج مین سالانہ انعام تقسیم کرین تو اون لڑکوں کو انعام نہین ملنا چاہیے جو تیز ہون۔ محنتی یا چالاک ہون یا باالکل کتاب کے کیڑے ہون بلکہ انعام کا اون لڑکوں کو استحقاق حاصل ہے جو شریف ہین یا جنسے یہہ امید ہو کہ وہ عمدہ طبیعت اور نیک خصلت مین اپنے کو ظاہر کرینگے۔

جب چال چلن کے اصول پر باالتصمیم ارادے سے عملدرآمد ہوتا ہے اور بڑے بڑے کامونسے اثر پہونچایا جاتا ہے۔ تو ایسی حالت مین گویا انسان نہایت دلیری سے اور استقلال کے ساتھ اپنا فرض پورا کرتا ہے اور نب کہا جا سکتا ہے کہ انسان اپنے وجود کے باعث کو سمجہا ہے۔

پس چال چلن کی صورت وہ بلا پس و پیش ظاہر کرتا ہے اور بہادری کے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 10


یہی ہوتا ہے۔ کیونکہ عزت نوع انسان کی خوشی کے واسطے بہت ضروری ہے بغیر اسکے نہ تو خدا پر اور نہ انسان پر یقین اعتماد ہو سکتا ہے۔ عزت کو مذہب کا مترادف سمجہنا چاہیے کیونکہ یہہ آپسمین ایک دوسرے کو متفق کر کے باریتعالے کی جانب رجوع کرتا ہے۔

سر نہامس اور بری کا قول ہے کہ دانشمند آدمی واقعات کا تجربہ کرتا ہے اور وارش و تجربہ مین ایک ایسا باہمی تعلق ہے جسکے اتفاق سے افعال کے نتیجے ظاہر ہوتے ہین۔ وہ کسی اثر کے واسطے نہین جبکہ قوت تاثیری سے راغب ہو کر شہرت حاصل کرتا ہے لیکن بوجہ توحد خیال ایک حالت سے عملدرآمد کرتا ہے۔ اور قوت مدرکہ کو قدرت کا بیش بہا عطیہ سمجہکر عقلمندونکا دوست بے پروا اشخاص کا نمونہ۔ برائیو کا علاج ہے اور خود اپنے ارادونکی رہنمائی کرتا ہے۔ وہ اپنے مجمع مین مثل میزتابان کے ہے جسکی شعاع اونہین راہ راست دکہلاتی ہے۔

پس و تمت اوس سے بہاگتا نہین بلکہ ساتہہ جاتا ہے وہ زمانہ مین اپنی دماغی قوت سے بہ نسبت جسمانی طاقت کے زیادہ کام لیتا ہے۔

ارادے کی مضبوطی اور کوشش کی قوت کو چال چلن کی روح خیال کرنا چاہیے۔ جہان یہہ سب صفتین ہونگی وہان تو کامیابی ہو سکتی ہے اور جہان یہہ اوصاف نہین ہین تو وہان ہر طرح کی مایوسی۔ اور ناامیدی کا سامنا ہے۔

مضبوط آدمی کی مثال آبشار سے دی جاتی ہے جسطرح پانی کی نہر اپنے واسطے خود راستہ بنا لیتی ہے۔ مستقل مزاج اور پاکیزہ خیال آدمی صرف خود ہی اپنے مقاصد مین کامیاب نہین ہوتا بلکہ دوسرونکی بہی فایز المرام
 

خواجہ طلحہ

محفلین
[FONT=&quot]کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ اسکا ہر ایک کام ذاتی وقعت اعتبار اور ارادے سے ہوتا ہے۔اور ہر طرح قابل قدروتحسین ہے۔لو تہر کرامول،واشنگٹن پٹ اور ولنکٹن میں البتہ اس قسم کی ہمت و دلیری موجود نہیں ۔۔۔۔ راشن نے سابق لارڈ یاشرٹمن کی تعریف میں ایک دفعہ ہاوس آف کامنس میں بیاں کیا تھا کہ مجھے اچھی طرح یقین ہے کہ صرف ارادہ کی مضبوطی اور فرائض کی سمجھ نے اس میں اتنی قابلیت پیدا کردی کہ وہ ہم لوگوں کے واسطے مثل ایک نمونہ کے تھا۔جسکی ہم تھوری بہت انجام فرائض میں تقلید کرتے ہیں۔یہاں ارادہ کی ہی مضبوطی تھی جس نے پیرانہ سالی کے صعف کو انصرام امور عظمہ میں قریب نہیں آنے دیا۔ لارڈ موصوف کی ایک اور صفت یاد رکھنے کے قابل ہے۔کہ اسکے مزاج میں غیظ و غضب بالکل نہیں تھا۔یہ اسکی کوششوں کا نتیجہ نہیں تھا۔بلکہ دماغی قوت کا گراں نما اثر اور قدرت کی بیش بہا بخشش تھی۔[/FONT]​
[FONT=&quot]یہ صفت ہمیشہ یاد رکھنے اور تقلید کے لائق ہے،جو انجام فرائض و حقوق میں ہماری مدد گاری کا ذریعہ ہے۔اور اس عمدہ مثال پر عملدآمد کرکے ہم کو لارڈ موصوف کی تعریف و تحسین کرنی چاہیے،جس کے وہ ہر طرح مستحق ہیں۔[/FONT]​
[FONT=&quot]ہر گروہ کا پیشوا اپنے ہم طریق آدمیوں کو کشش مقناطیسی کے مانند اپنے جانب رجوع کرلیتا ہے جس طرح سرجان مور نے اپنے کثیر التعداد سردارون کے مجمع میں سےٹیسر کومع تینوں بہاونکے منتخب کرلیا اور ان لوگوں نے بھی اس کو اپنےحسن کارگزاری سے بہت کچھ خوش کیا۔[/FONT]​
[FONT=&quot]سرجان مور کی خوش اخلاقی ،بہادری اور بے مطلبی نے ان لوگو ں کو کامل طور پر اپنا مطیع بنا لیا تھا،وہ ان لوگو نکے واسطے مثل ایک نمونہ کے تھا،جسکی تقلید میں یہ خود بھی حتی الا مکان کوشش کرتے تھے۔[/FONT]​
 

شمشاد

لائبریرین
خواجہ صاحب بہت شکریہ ٹائپ کرنے کا لیکن آپ نے تو اسے اپنی املاء میں ٹائپ کر دیا ہے جبکہ پرانی املاء تھوڑی مختلف ہے۔مثلاً آپ نے

مین کو میں
اچہا کو اچھا
بہی کو بھی

ٹائپ کر دیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ بالکل ویسے ہی ٹائپ کرتے۔
 
Top