پانچویں سالگرہ ایک صفحہ کتنی دیر میں ۔ ۔ ۔

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صفحہ : 54

Tadbeer_page_0058.jpg

 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 54

کہ اسکا جواب دینے والا تو ہمارے قوم مین کوئی زندہ نہین ہے لیکن کیا اسکے جواب نہ ملنے سے مایوس ہو کر خاموش بیٹہہ جانا چایئے، کبہی نہین۔ اگرچہ اس وقت ہمارے قوم مین قابل اقتدا کوئی نہین ہے۔ لیکن ہمارے مقدس پیشواونکی کتابین موجود ہین اونکی تواریخ ہم کو دیکہیے چاہیے اور سابق کے واقعات کو موجودہ حالت سے مقابلہ کر کے سبق حاسل کرنا چاہئے۔ اس موقع پر ہمکو اپنے قدما کی مدح و ثنا کرنے کی ضرورت نہین ہے لیکن یہہ بے شک کہینگے کہ کوئی قوم اوسوقت تک ترقی نہین کر سکتی جب تک کہ وہ اپنے زمانہ سلف کی تواریخ سے واقفیت نہ حاصل کر لے اور خاصکر انگلستان والون نے تو اس مین جس قدر غلو پیدا کیا ہے کہ وہ لوگ اپنے بزرگونکی شبیہونکا بہی اپنے پاس رکہنا ترقی اور عروج کا ذریعہ خیال کرتے ہین لیکن ہمارے لئے صرف یہی کافی ہے کہ ہم اونکے اقوال کو یاد کر لین اور اشال کے مطابق کاربند ہون اگرچہ اس سے ہم کو کئی فوری اور ۔۔۔۔۔۔ فائدہ نہ معلوم ہو لیکن ممکن نہین کہ اس فعل کا کچہہ اثر نہو اگر اس وقت نہین تو آیندہ زمانہ مین ہمارے دوسرے نسلونکے حق مین سفید و کارآمد ہو گا اور بلا شبہہ یہہ قوم کے فخر و مباہات کی وجہ ہے اگر ہم خود اپنے وقت مین مستفید نہوسکے تو کوئی افسوس کی بات نہین ہے اسوجہ سے کہ

برکتین یہان چہوڑ کر ہم اپنی جائین گے بہت
ہم نہونگے پر نصیحت ہم سے پائین گے بہت
********************************************
******************************​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 55

چوتھا باب
محنت

عملی چال چلن کی تربیت کے واسطے محنت ایک جزو اعظم ہے کیونکہ اس سے انسان مین اطاعت۔ بُردباری۔ مستعدی۔ توجہ اور ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے۔ اوسکو اپنے خاص مشاغل مین واقفیت و قابلیت اور لوازمات زندگی کے انجام مین لیاقت و مشاقی حاصل ہو جاتی ہے۔

مشغلہ ہمارے ہستی کا ایک ایسا قانون ہے کہ جسکے موجودہ اصول کے مطابق نوع انسان اوور اقوام کو اوسکا پابند ہونا پڑتا ہے۔ اگرچہ بہت سے لوگ بمجبوری اوقات بسری کے واسطے اپنے ہاتھون سے مشقت کرنی گوارا کرتے ہین لیکن دنیا مین جو لوگ قانون قدرت کے مطابق زندگی سے مستفید ہونا چاہتے ہین تو اونھین کسی نکسی طرح کی محنت ضرور کرنی چاہئے۔

محنت اگرچہ ایک قسم کا بوجہ اور جبر ہے لیکن یہی عزت و شہرت کی وجہ ہے بغیر اسکے کسی امر کی تکمیل بالکل غیر ممکن ہے۔ انسان کو جو اعزاز حاصل ہوتا ہے وہ صرف محنت کے باعث سے اور یہ مثل ایک ایسے درخت کے ہے جسکے پھل کا نام تہذیب ہے۔ پش اگر دنیا سے محنت کا نام مٹا دیا جاے تو بنی آدم سے اخلاقی صفت بالکل زائل ہو جائے۔ کاہلی سے انسان کو طور لعنت اپنے گلے مین پھننا پڑتا ہے اور یہ اسطرح آدمی کو مٹی و بیکار کر دیتی ہے جسطرح لوہے کو مورچہ خراب کر دیتا ہے۔ جب سکندر نے فارس کو فتح کیا تو وہانکے باشندونکے طور طریقے دیکھکر یہہ تجربہ حاصل کیا کہ وہ لوگ اس امر سے بالکل واقف نہین ہین کہ لہو و لعب مین زندگی بسر کرنی بدترین
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 56

حالت ہے اور محنت و مشقت مین اوقات گزاری عمدہ ترین زندگی ہے۔

شاہنشاہ سردس نے بستر موت پر اپنے سپاہیون سے صرف یہی وصیت کی کہ تم لوگ ہمیشہ محنت کے عادی رہو۔ اور یہہ محض دائمی محنت کا سبب تھا کہ سرداران روم نے اپنی قوت و حکومت کو بہت کچھ وسیع کر لیا تھا۔

پلنی ملک اٹلی کے اندرونی حالات سابق کی نسبت لکھتا ہے کہ وہانکے برے بڑے آمرا اور سردار غلبہ رانی کرتے تھے اور یہہ فعل اوس زمانے مین بہت اچھا سمجھا جاتا تھا لیکن اخیر مین محنت و مشقت کے کل صیغے غلامونکے سپرد کئے گئے اور اس قسم کے افعال کو لوگ ذلیک و مذموم خیال کرنے لگے اوسیطرح روم کے وہ لوگ جنکا شمار حکمرانونکے طبقہ مین کیا جاتا تھا جب عیش و عشرت اور آرام طلبی مین محو ہو گئے تو سلطنت کی ناگزیر تنزلی کا نشان ظاہر ہونے لگا۔ قدرت کا منشا ہے کہ نہایت ہوشیاری سے اس امر کی نگہداشت کرنی چاہئے کہ آرام طلبی کی عادت نہو جائے۔ مسٹر گرنے نے ایک دانشمند سیاح سے سوال کیا "آپنے دنیا مین کسی ایسی چیز کا بھی تجربہ کیا ہے جسے ہر خاص و عام پسند کرتا ہو تو اوسنے جواب دیا کہ ہان وہ کاہلی ہے جسے ہرکس و ناکس عزیز رکھتا ہے" انسان مین اس امر کی کوشش کی یہہ قدرتی تحریک ہوتی ہے کہ اوسکو بلا دقت و محنت فوائد حاصل ہون۔ اور یہہ ایک ایسی عالمگیر خواہش ہے کہ جیمس مل نے اسکی بابت یہہ بحث کی ہے کہ محض انسداد آرام طلبی کی غرض سے ابتدا ہی مین سلطنت کا ذریعہ قائم کیا گیا۔

آرام طلبی سے جسطرح شخصی نقصان ہوتا ہے اوسیطرح قومی مفرت بھی متصور ہے۔ کاہلی سے نہ تو دنیا مین کوئی کام ہوا ہے اور نہوگا۔ آرام طلبی سے دنیا مین
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 57

ہمیشہ نقصان ہوا ہے اور ہو گا یہہ قدرت کا منشا ہے کہ اس سے کسی امر مین کامیابی نہو۔ کاہلی جسم و دماغ کے واسطے بالکل زہر کی خاسیت رکھتی ہے۔ اس سے صدہا قسم کے ضرر و نقصان ہوتے ہین اور یہہ جملہ عیوب کی باعث ہے۔ جسمانی کی بہ نسبت دماغی کاہلی زیادہ تر مضرت رسان ہے۔ دماغ کو بیکار رکھنا ایک ایسی بیماری ہے جس سے روحانی کاہش ہوتی ہے اور خود اوسکی موجودگی ایک عذاب ہے۔ جسطرح آپ بستہ مین کیڑے مکوڑے پیدا ہو جاتے ہیں اوسیطرح کاہل آدمی کے دماغ میں بھی قبیح مذموم خیالات بھرے رہتے ہین جسکے باعث روح سی لطیف شَی ناپاک اور آلودہ ہو جاتی ہے۔

مین اسبات کو نہایت دلیری سے کہتا ہون کہ جو لوگ کاہل ہین چاہے اونھین دنیا کی نعمت ملجائے لیکن وہ کبھی خوش اور سیر نہین ہونگے۔ اونکے دلکی سب تمنائین برآئین کل مرادین پوری ہون اور ہر طرحکا اطمینان حاسل ہو لیکن جب تک وہ کاہل رہینگے اوسوقت تک اونکو دماغی جسمانی ہر قسم کی تکلیف محسوس ہو گی۔ ہمیشہ مجہول۔ افسردہ۔ پژمردہ۔ حزین و غمگین اور بیچین رھینگے۔ برٹن کا قول ہے کہ انسان کو کبھی بیکار و کاہل نہین ہونا چاہیے۔

سچی خوشیان کاہلی سے نہین حاصل ہوتین بلکہ محنت و مشغلہ سے۔ آرام طلبی سے آدمی تھک جاتا ہے۔ محنت سے نہین کیونکہ اس سے تو روح کو فرحت و مسرت حاصل ہوتی ہے۔ گو ہر وقت مشغول رہنے سے دماغ کچھہ ضعیف ہو جاے لیکن کاہلی سے یہہ بالکل ضایع و بیکار ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر ماشل ہال کا قول ہے کہ کوئی چیز ایسی مضرت رسان نہین ہے۔ جیسا کہ وقت کا فضول ضائع کرنا ہے۔ اوسکا مقولہ ہے کہ انسان کا دل مثل ایک چکی کے ہے جسمین اگر گیہون پیسا جاے تو آٹا ہو اور اگر خالی گھمائی جاے تو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 58

خود اوسکا نقصان ہو۔

کسی چیز کے حاصل کرنیکی خواہش کرنی اور پھر اوسکے حصول مین جو دقتین ہوتی ہین اوسکو نہ برداشت کرنا نہایت پست ہمتی ہے۔ اسکو صاف لفظونمین یون سمجھنا چاہیے کہ کوئی چیز بغیر قیمت کے نہین ملسکتی۔ یہانتک کہ فرصت کا وقت بھی عمدہ طور پر نہین صرف ہو سکتا جب تک کہ وہ کوشش سے حاصل نکیا جاے۔ کیونکہ بغیر محنت کے جو وقت فرصت کا لوگ خیال کرتے ہین وہ مثل ایک ایسی شے کے ہے جسکی قیمت نہین دیگئی۔

فرصت کی قدر اوسیوقت معلوم ہو گی جب محنت کیجائیگی کیونکہ بغیر محنت کے فضول بیٹھے رہنے سے طبیعت گھبر اوٹھے گی پس ایسی فرصت سے کچھ تفریح نہین ہو سکتی۔ ایسے کاہل دولتمند اور کاہل غریت دونوکی زندگی قابل نفرت ہے جسے اپنے مشغلہ کے واسطے کوئی کام نہین ملتا یا جسے کام ہے لیکن وہ نہین کرتا۔ فرانس مین ایک فقیر کے داہنے بازو پر جسکی عمر چالیس برسکی تھی اور آٹھوین مرتبہ قید خانہ میں گیا تھا یہہ الفاظ لکھے ہوے تھے جسے کاہلون کا مقولہ سمجھنا چاہئے "گزشتہ زمانہ سے مجھے دھوکھا ہوا۔ موجودہ سے تکلیف ہے۔ اور آیندہ سے دہشت ہے۔"

محنت ایک ایسا فرض ہے جو ہر طبقہ اور ہر گروہ کے واسطے واجب کیا گیا ہے۔ ہر شخص کو اپنی جداگانہ حالت کے مطابق کام کرنا لازم ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب۔ بلحاظ خاندان اور تعلیم یافتہ ہونے کے ایسا شخص جو دولتمند ہی کیون نہو اپنے اس فرض میں کوشش کرنیکا پابند کیا گیا ہے جسمین وہ خود بھی شریک ہے۔ یعنی عامہ خلائق کے ساتھ بھلائی کیجاے۔ ایسے شخص کو اپنے ذاتی آرام و آسایش سے جو دوسرونکی بدولت اوسے حاصل ہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 59

کبھی اطمینان نہین ہو سکتا تا وقتیکہ وہ اوس سوسایٹی کو جسمین وہ قائم ہے اسکا کوئی عمدہ صلہ نہ دے لے۔

کوئی ایماندار اور عالی دماغ آدمی فضول لہو و لعب مین مصروف رہنا کبھی پسند نہین کر سکتا۔ فضول اور بیکار بیٹھے رہنے سے نہ تو کوئی فائدہ ہو سکتا ہے اور نہ عزت اور گو کوئی چھوٹے خیال کا آدمی اسپر قناعت کرے۔ لیکن جو شخص عالی دماغ ایماندار اور مستعد ہے وہ کبھی اسحالت کو سچی عزت اور اصلی وقعت کے مقابل نہین خیال کر سکتا۔

لارڈ ڈربی کا قول ہے "کہ مین کبھی نہین یقین کر سکتا کہ کسی بیکار آدمی کو حقیقی خوشی حاصل ہو سکے۔ کام ہماری زندگی کے مانند ہے۔ تم مجھے بتلاؤ کہ کون کام کر سکتے ہو اور تب مین ظاہر کرونگا کہ تم کسی قسم کے آدمی ہو۔ محنت کا شوق انسا کو خراب و ذلیل مذاق سے باز رکھتا ہے۔ وقت اور مشکلونسے محفوظ رکھتا ہے۔ لوگونکا یہہ خیال ہے کہ تکلیفات اور مصائب سے نجات ہو سکتی ہے لیکن تجربہ سے یہہ بات خلاف ثابت ہوئی کیونکہ قدرتی طور پر انسان کے واسطے محنت و مشقت قائم کی گئی ہے۔ پس جسقدر لوگ مشکلونکے مقابلہ کرنیسے بھاگتے ہین اوسیقدر مشکلین اونکا پیچھا نہین چھوڑتین۔"

کم سے کم ذاتی آسایش کے واسطے کسی عمدہ شغل مین مصروف رہنا بہت ضروری ہے۔ جو لوگ کہ محنت نہین کرتے وہ اوسکے صلہ سے نہین مستفید ہو سکتے۔

سر والٹر اسکاٹ کا قول ہے "کہ خواب راحت کے بعد جب ہم بیدار ہوتے ہین تو اوسی حالت مین محظوظ رہ سکتے ہین کہ جب ہم کچھ کام کرین۔ اور ہمین اوقات فرصت سے اوسی حالت مین آسایش ملیگی کہ جب ہم محنت سے اپنے کام انجام دین اور فرایض پورا کرین۔"
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 60

اگرچہ یہہ صحیح ہے کہ اکثر لوگ حد سے زیادہ محنت کرنیکی وجہ سے مر جاتے ہین لیکن اون لوگونکی تعداد زیادہ ہے جنکی موت کاہلی۔ نفس پرستی۔ اور آرام طلبی کی حالت مین ہوئی ہے۔ جو لوگ بے انتہا محنت کرنے سے مر جاتے ہین اوسکی یہہ وجہ ہے کہ وہ باقاعدہ اپنی زندگی بسر کرنی نہین جانتے اور جسمانی صحت کا بالکل نہین خیال کرتے۔

لارڈ ڈربی کا یہہ مقولہ بیشک بہت ٹھیک ہے "کہ کیسا ہی سخت و مشکل کام ہو لیکن جب اصول و قواعد کے مطابق کیا جائیگا تو ممکن نہین کہ اوسے کچھہ ضرر پہنچ سکے۔" وسعت ایام امتحان زندگی کا کوئی صحیح پیمانہ نہین ہے۔ بلکہ انسان کی زندگی کا اسطرح اندازہ کرنا چاہیے کہ اوسنے اپنی حیات مین کونسے کام کیئے اور کس قسم کی واقفیت پیدا کی۔ پس دنیا مین رہکر جسقدر جس شخص نے زیادہ کام کئے۔ واقفیت حاصل کی۔ خیالات ظاہر کیئے تو سمجھا چاہیے کہ حقیقت مین وہ اوسیقدر زیادہ زندہ رہا۔ کاہل اور فضول آدمی کی عمر کتنی ہی زیادہ ہو لیکن دراصل وہ بالکل عبث ہے۔

سینٹ یونیفس جب مملکت برطانیہ مین داخل ہوا تو اوسکے ایک ہاتھ مین انجیل تھی اور دوسریمن آلات نجاری تھے۔ اسیطرح جب وہ انگلستان سے جرمنی مین گیا تو وہان بھی اپنے ساتھ فن عمارت لے گیا۔ لوتھر بھی حصول معیشت کے واسطے اپنی تمام عمر اہل حرفہ کے مجمع مین بیٹھکر باغبانی اور گھڑی سازی کرتا رہا۔

یہہ بات نیپولین کی عادت مین داخل تھی کہ جب وہ کوئی عمدہ دستکاری دیکھتا تو اوسکے موجد کی بہت عزت کرتا۔ کسی موقع پر وہ ایکمرتبہ لیڈی بیلکم کے ساتھ سیر کر رہا تھا کہ اتفاقاً اوسطر سے چند مزدور بوجھا لئے ہوے گزرے۔ لیڈی صاحبہ نے غصہ ہو کر مزدورونکو ڈانٹا کہ اسطرفسے مت جاؤ۔ تب نیپولین
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 61

نے کہا کہ انکے بوجھون کی عزت کرنی چاہیے کیونکہ ان بیچارونکی محنت عام گروہ کے فائدونپر مشتمل ہے۔ عمدہ مشاگل کی عادت جسطرح مردونکے واسطے باعث مسرت ہے اوسیطرح عورتون کے لیئے بھی فرحت کا سبب ہے۔ اسکے بغیر عورتین بے پروائی اور بے شغلی کی خراب حالت مین مبتلا ہو جاتی ہین اور علاسہ اسکے جسمانی عوارض بھی اونھین گھیر لیتے ہین۔ کبیرولاین پرتہیس نے اپنی کتخدا بیٹی کو بناکید آگاہ کیا کہ کبھی بے پروائی اور بے خبری نہین کرنی چاہیے۔ وہ خود اپنی نسبت کہتی ہے کہ اگرچہ مین تعطیلونمین ایسی بیکار و فضول رہتی جیسے دن کے وقت الو رہتا ہے لیکن کبھی انسان کو ایسا نہین کرنا چاہیے۔ اور خاص کر نوکتخدا لڑکیونمین کم و بیش یہہ عادت ہو جاتی ہے۔عمدہ ترین آسایش کام کرنے سے حاصل ہوتی ہے لیکن جب شوق اور محنت کے ساتھ کیا جاے۔ عمدہ مشاغل کی پابندی سے صرف جسمانی راحت نہین ہوتی بلکہ دماغی فرحت بھی ہوتی ہے۔ کاہل آدمی اپنی زندگی بالکل مجہولانہ طور پر بسر کرتا ہے اور اپنی خلقت کے بیش بہا جزو کو اگرچہ قطعی طور پر نہین معدوم کر دیتا لیکن خواب غفلت مین ضایع کر دیتا ہے۔ مستعد آدمی مثل ایک ایسے طبع کے ہے جسے مختلف اقسام کے عمدہ مشاغل نکلتے ہین اور جہانتک حد اختیار مین ہے وہ سب کامونکو کرتا ہے۔ کسی قسم کی معمولی محنت و مشقت بھی بہ نسبت کاہلی کے بہت اچھی ہے۔ فُلر کا بیان ہے کہ سر فرینس ڈریک جو ابتدا ہی مین بحری خدمت پر متعین کیا گیا تھا وہ اپنے افسر کی ماتحتی مین کام کرنے اور سختیان برداشت کرنے سے نہایت متحمل اور جفاکش ہو گیا۔ اسکلر کہتا ہے کہ روزانہ صنعت و حرفت کے کامونمین مصروف رہنا بھی بہت مفید خیال کرتا ہون۔
 
Top