پانچویں سالگرہ ایک صفحہ کتنی دیر میں ۔ ۔ ۔

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صفحہ : 38

Tadbeer_page_0042.jpg

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صفحہ : 12 - 17


12

سر ولیم پینہر کی سوانح عمری لکہنے والا بیان کرتا ہے کہ ان لوگونکے چال چلن کی پختگی اور تکمیل کا باعث سرجان مور ہے اور یہہ اون کے لئے کچہہ کم فخر کی بات نہین ہے کیونکہ پینہر کی دماغی اور طبعی قوت کے جدید نتائج عین سرجان مور کے ذکاوت اور فراست کا ثبوت ہے ۔

مضبوط چال چلن والے آدمیونمین ایک قسم کی متعدی قوت ہوتی ہے ۔ جو دوسروں کے اوپر بہی اثر کراتی ہے ۔ جس طرح دلیرونکو دیکہہکر کم ہمتونکو بہی کچہہ نہ جوش پیدا ہو جاتا ہے اور اونکی متابعت کے واسطے مجبور ہو جاتے ہین ۔ پینہر کا بیان ہے کہ ویرا کی لڑائی مین اسپین والونکی شکست کے بعد اثنائے ہزیمت مین ایک شخص ہولک نامی اپنا گہوڑا دوڑا کر بے تامل فرانسیسی فوج کے سامنے آیا اور ٹوپی اوتار کر اپنی فوج کی ہمت اور جرات بڑہائی تا کہ وہ فرانسیسیونکا مقابلہ کرین اوسکے اس فعل سے اسپین والونمین ایسا جوش پیدا ہو گیا کہ ساری فوج نے اوسکی مدد مین حملہ کیا اور ایکبارگی فرانس والونکو شکست دیکر پس پا کر دیا ۔

اور یہہ ایک معمولی بات ہے کہ بزرگ اور عالی مرتبہ لوگ دوسرونکو بہی اپنے ہی مانند کر دیتے ہین ۔ مثلا کوئی عمدہ اور مستحکم چال چلن والا آدمی کسی معزز عہدہ پر مقرر ہو جائے تو جو لوگ اوسکے ماتحت ہین اونکی ایسی حالت ہو جائگی کہ گویا اپنی ترقی سے واقف ہو گئے ۔

جب کنہیتم وزیر مقرر ہوا تو اوسکی ذاتی حکومت کل محکمنونکے ہر ایک شعبونمین پہیل گئی اسیطرح جتنے جہازران نلسن کے زیر حکم تہے سب مین اوس بہادر کی جرات کا پرتو موجود تہا ۔

جب وشنگٹن نے کمانڈر انچیف کے عہدہ پر کام کرنا منظور






13

کر لیا تو ایسا معلوم ہوا کہ گویا امریکہ کی طاقت دونی ہو گئی ۔

۱۷۹۸ مین واشنگٹن نے بوجہ پیرانہ سالی کے دنیا کے کامونسے علیحدہ ہو کر ورنن کی پہاڑی پر عزلت نشینی اختیار کر لی تھی لیکن جب امریکہ کے پریسیڈنٹ اڈمس کو فرانس کے حملہ کا اندیشہ ہوا تو اوس نے واشنگٹن کو لکہا کہ اگر آپ اجازت دین تو مین آپکا نام فوج مین لکہہ لون صرف آپکا نام داخل کر لینا زیادہ موثر اور کار آمد ہو گا بہ نسبت اسکے کہ مین بہت سی فوج تیار کرون ۔ یہ واشنگٹن کے اعلٰے درجہ کے چال چلن اور قابلیت کا باعث تہا کہ ملک والے اوسکی اسقدر عزت اور وقعت کرتے تہے ۔

ذاتی رعب داب کا ایک واقعا اور بہی بیان کیا جاتا ہے جو ایک کمانڈر سے ظہور پذیر ہوا ۔ برٹش فوج سرورن کے مقمام مین پڑی ہوئی تہی اور اوسوقت سولٹ اونپر حملہ کی تیاری کر رہا تہا ۔ ولنگٹن فوج کا کمانڈر اتفاق سے کہین چلا گیا تہا ۔ اوسکی آمد کا بیتابی کے ساتہہ فوج مین انتظار ہو رہا تہا کہ ناگہان ایک سوار تنہا پہاڑ پر نمودار ہوا ۔ یہہ ڈیوک ولنگٹن تہا جو اپنی فوج مین شامل ہونے کے واسطے آ رہا تہا ۔ فوج کے کسی جنگ آزما سپاہی نے اوسے غور سے دیکہکر پہچان لیا اور خوشی سے چلا اوٹہا ڈیوک ولنگٹن ایسے مقام پر ٹھہر گیا جہانسے دونون فوجین اوسے اچہی طرح مشاہدہ کر لین ۔ سولٹ کے جاسوس نے اوسکو ڈیوک کے آمد سے مطلع کیا ۔ ولنگٹن نے سولٹ کی ہیبت ناک صورت دیکہکر اپنے دل مین کہا کہ مین حملہ کر کے اوسے پس پا کرونگا جنانچہ ایسا ہی کیا ۔

شخصی چال چلن سے بعض موقعونپر طلسمی کارروائی معلوم ہوتی ہے ۔ پامپی کا قول تہا کہ اگر مین اٹلی کی کسی جگہہ پر قدم جما کر کہڑا ہو جاؤن تو میرے


14


ذات واحد کا جبروت ایک فوج کے برابر ہو گا ۔

خلیفہ عمر کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اونکی چمڑی سے لوگونکو اتنی دہشت معلوم ہوتی تہی کہ اوتنی کسی تلوار سے نہین ہو سکتی ۔ اسی قسم کے آدمیونکا نام مثل کوس لمن المک کے مشہور ہے ۔

اوٹرن برن کے میدان جنگ مین جب ڈگلس مہلک زخم کہا کر زمین پر گرا تو اوس نے وصیت کی کہ مرنے کے بعد میرا نام اس طرح بلند کیا جائے کہ مردہ ڈگلس نے لڑائی فتح کی ۔ اس فعل سے اوسکے ساتہیونکو ایسے جوش کے ساتہہ جرات ہوئی کہ اونہون نے حملہ کیا اور اپنے دشمنوں کو مغلوب کر دیا ۔

اکثر لوگ ایسے گذرے ہین جنکی شہرت بہ نسبت زندگی کے مرنے کے بعد زیادہ ہوئی ہے ۔ ملکٹ کہتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ کی ہیبت اور طاقت لوگونکے دلونپر اوسکی حالت حیات مین ایسی طاری نہین تہی جیسی کہ موت کے بعد ہوئی ۔ ولیم آرنج نے جو شہرت اپنے قتل کے بعد حاصل کی وہ زندگی مین نصیب نہین ہوئی ۔

تاریخ اور اخلاق سے ایسی ہی تمثیلین قائم کی جاتی ہین ۔ انسان کا طرز عمل اوسکی اثبات قابلیت کے واسطے مثل ایک دایمی یاد گار کے باقی رہتا ہے ۔ انسان مرنے کے بعد مفقود ہو جاتا ہے لیکن اوسکے خیالات اور افکار موجود موجود رہتے ہین اور اوسکی نسل کے واسطے نقش لازوال کی طرح قایم رہتے ہین اونکی ارواح آیندہ لوگونکے خیالات اور خواہشات کو درست کر کے چال چلن کی تربیت کرتی ہے انہین لوگونکی وجہ سے اعلٰے درجہ اور برتر مرتبہ کی جانب توجہہ ہوتی ہے ۔ پس انہین کو نوع انسان کی ترقی کا سچا سبب سمجہنا چاہیےجس طرح کسی پہاڑی پر چارونطرف روشنی پہیل جاتی ہے اسی طرح خیالت کی روشنی آیندہ نسلونکے واسطے اپنی چمک جاری رکہتی ہے ۔


15

عالی مرتبہ لوگونکی عزت و عظمت کرنا ایک قدرتی بات ہے اگر چہ جس قوم سے اونکو تعلق ہے اوسے چھوڑ دیتے ہین لیکن وہ صرف اپنے ہمعصرونکو اعلٰے درجہ تک نہین پہونچاتے بلکہ اونکے بعد جو آنیوالے ہوتے ہین اونمین بہی ترقی کی راہ بتائے جاتے ہین ۔ اونکی بڑی بڑی مثالین اونکے ورثہ دارونکی میراث ہین اونکے کارنامے اور خیالات نوع انسان کے واسطے جلیل القدر متروکے ہین ۔ وہ لوگ گزشتہ اور موجودہ زمانہ کی مطابقت کرتے ہین آیندہ زمانہ کے آنیوالونکو ترقی کرنے مین مدد دیتے ہین چال و چلن کی عزت قایم کرنے کے اصول مرتب کر کے ہمارے دماغ مین نصایح اور دانشمندانہ افعال کی تاثیر پیدا کرتے ہین جو زندگی کے واسطے ایک قابل قدر اور بیش قیمت چیز ہے ۔

خیالات اور افعال سے جب چال چلن کی ایک شکل قایم ہو گی تو اوسکو لازوال سمجہنا چاہیے ۔ کسی غور کرنیوالے کے خیالات انسان کے دماغ مین صدہا برس تک قایم رہتے ہین یہانتک کہ زندگی کے روزانہ کاروبار مین شامل کیے جاتے ہین ۔ انسان کے مرنے کے بعد بہی یہ اوسی طرح گفتگو کرتے ہین اور اپنا اثر ظاہر کرتے ہین ۔ گو کہ موسٰی ، داؤد ، سلیمان ، فلاطون ، سقراط ، ڈنوفن ، سینکاسسٹر اور ایکٹیسٹیس مر گئے ہین لیکن ابتک ہمسے کلام کرتے ہین ۔ کام کرنے والے اور خیال کرنے والے گویا تاریخ کے اصل مصنف ہین کیونکہ چال چلن والے بادشاہ ، سردار ، پیشوائے دین ، فلسفی ، مدبر ، ملک دوست لوگون نے علے الاتصال انسانیت قایم کی ۔ مسٹر کارلایل صاف طور پر بیان کرتے ہین کہ معزز طبقہ کے



16

لوگونکی تاریخ زیادہ ضروری ہے ۔ بہ نسبت دنیاوی تاریخ کے اون سے زمانہ کی قومی زندگی کا طرز معاشرت اچہی طرح ظاہر اور ثابت ہوتا ہے ۔ اگر چہ اونکا عمل اونہین کے زمانہ کا نتیجہ ہے لیکن خیالات عامہ بہی اونہین کے پیدا کردہ ہین ۔ اونکے دماغ مین بڑے بڑے خیالات جاگزین ہوتے ہین جنہین وہ ظاہر کرتے ہین اور انہی خیالات سے واقعات پیدا ہوتے ہین جسطرح حال کے مصلھان قوم نے موجودہ خیال کو آزادی سے درست کیا ۔

امرسن کا قول ہے کہ بڑے کام ذی وقعت آدمیونکی محنت سے ہوتے ہین جس طرح اسلام کی بنیاد محمد سے ہوئی اور پوریٹزم کو کالون نے جاری کیا ۔

ذی وقعت لوگ اپنے خیالات کو قوم مین مثل ایک نقش کے قایم کر دیتے ہین جس طرح لوتہر نے جرمنی مین کیا اور ناکس نے اسکاٹ لینڈ مین ۔ اور اٹلی کے واسطے اگر کوئی شخص ہو سکتا ہے کہ جس نے اپنی عمدہ یاد گار قایم کی ہو تو وہ ڈینٹی ہے ۔ اٹلی کی حالت تنزلی مین اوسکے دلسوز اقوال نے قوم کی بہت کچہہ مدد و اعانت کی وہ اپنی قومی آزادی کا وکیل تہا اور اوسکی محنت مین موت و جلا وطنی کا دلیری سے متحمل تہا ۔ اوسکے مرنے کے بعد اٹلی کے تعلیم یافتہ لوگون نے اوسکی کتاب زبانی یاد کر لی تہی اور ہر وقت سوتے جاگتے اوسکا ذکر کرتے اور فی الحقیقت وہ انہین تعریف و توصیف کا مستحق بہی تہا ۔

انگلستان مین بہی ملکہ الزبیتہہ کے عہد حکومت مین اسی قسم کے بڑے بڑے علما اور حکما کا مجمع ہو گیا تہا جنکے اسمائے گرامی ذیل مین درج کئے جاتے ہین ۔ شکپیر ، ایلی ، برلی ، سڈنی ، بیکن ، ملٹن ، ۔ ۔ ۔ ، ۔ ۔ ،





17



ہمپٹدن ، پایم ، البٹ ، دین ، کرامول اور اوسوقت ان لوگونکا شمار قدرت کی نایاب نعمتون مین تہا ۔ گزشتہ زمانہ نے ان لوگونکے اقوال اور خیالات مثل ایک بیش بہا اور گران قیمت میراث کے ہمکو عطا کئے ہین ۔ واشنگٹن بہی اپنی ایمانداری ، راستبازی اور عمدہ افعال سے اپنے بعد ملک مین گویا ایک گرانبہا خزانہ جمع کر گیا ہے اور اپنی قوم کے واسطے قابل تقلید نمونہ قایم کر گیا ۔ واشنگٹن کی عظمت صرف بلحاظ ذہانت ، طباغی اور پوشیاری کے نہین ہے بلکہ بوجہ اوسکی عزت ، ایمانداری ، راستبازی اور انجام فرایض کے جسکا مفہوم ایک لفظ مین چال چلن ہوتا ہے قابل قدر ہے ۔

اس قسم کے لوگ ملک کے واسطے اسقدر ضرروی ہین جس طرح جسم کو روح اور آنکہہ کو بصارت ، کیونکہ انکی وجہ سے ملک کی ترقی ہوتی ہے ۔ حفاظت ہوتی ہے اور اپنی زندگی کی تمثیل سے ملک کے واسطے ایک معقول متروکہ چہوڑ جاتے ہین ۔ کسی مصنف کا قول ہے کہ ایسے لوگونکی یادگار مثل ایک نعمت غیر مترقبہ کے ہے جو کسی حالت بیچارگی ، بربادی ، تباہی یا غلامی مین بہی ہاتہہ سے نہین جاتی ۔ ہر ایک قوم اوسی حالت مین ترقی کر سکتی ہے جب وہ اپنے بزرگونکے ایجاد کردہ یادگاریونکی تقلید کرے اور اس طرح پیری کرے کہ گویا اونکی ارواح پیش نظر ہین ۔ پس اوس ملک پر کبہی ادبار کی ہوا اثر نہین کر سکتی جو اپنے رفارمر کو اس طرح مشاہد کرے کیونکہ وہ لوگ موت کے بعد بہی اپنے ملک کے واسطے ویسے ہی مفید ہین جیسے زندگی مین تہے ۔ جو کچہہ اون لوگون نے اپنے وقت مین کیا اوسکی متابعت کا اونکی آیندہ نسلونکو ہر طرحسے حق ہے اور اونکی تمژیل ملک والونکی ہمت و جرات بڑہانے کے واسطے مثل ایک قومہ الاثر دوا کے باقی ہے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 35

اور دوسرے کہانا پکانے کی کوئی کتاب عورتونکی تعلیم و درستی کے واسطے یہہ خیالات بہت تنگ و تاریک ہین اور قدرت کی منشاٗ کے باالکل خلاف ہین۔ عورتونکی تعلیم کسی طرح مرد سے کم نہین ہونی چاہئے اور سواے جنسیت کے کسی قسم کی کوئی تفریق نہین جایز ہے۔ اونکے حقوق مرد کے برابر اور خواہش مساوی ہونی چاہیین۔

عورتونکی تعلیم کے بابت کہا جا سکتا ہے کہ جس قسم کی تعلیم مرد کے واسطے مفید ہو گی اوسی طرح کی تربیت عورتونکو بہی فائدہ مند ہو گی۔ اسوقت تک جسقدر دلایل مرد کی اعلٰے تعلیم کے معرض بحث مین بیان کئے گئے ہین اسطرح عورتونکی اعلٰے تعلیم کے واسطے بہی وہ مباحث نہایت مضبوطی کے ساتہہ مفید ثابت کئے جا سکتے ہین۔تعلیم سے اونکے خیال مین دور اندیشی پیدا ہو گی۔ ضروریات زندگی مہیا کرنے مین اونہین مدد ملیگی۔ امور خانہ داری کے انتظام مین ترقی ہو گی اور ہر طرح کے کامونمین اونہین آسانی ہو گی۔ مذہبی پابندیون سے اونہین اچہی طرح آگاہی ہو گی جس سے اونکے اخلاق پر عمدہ اثر پڑیگا۔ اور اونکو اپنے خاندان کے آرام و آسایش کے سچے ذریعے معلوم ہونگے۔

لیکن جب عورتونکی تعلیم اونکی ترقی کی غرض سے ہو تو نہایت آزادی سے ہونی چاہئے۔ مردونکے دماغ و اخلاق کبہی درست نہین ہو سکتے اگر عورتین کندہ ناتراش ہون کیونکہ اخلاق کی تہذیب تو صرف عورتون ہی کی تربیت سے ہمکو حاصل ہوتی ہے۔ پس عورتونکی تعلیم قومی ضرورت کے لحاظ سے بہی لازمی ہے۔ صرف اخلاقی نہین بلکہ دماغی قوت کی ترقی و تربیت عورتونکی اخلاقی و دماغی تعلیم پر منحصر ہے اور جب ان دونونمین زیادتی کی جایگی تو سوسایٹی مہذب و شایستہ ہوتی جائیگی جس سے آیندہ ترقی اور عروج کا ہر طرح سے یقین ہے۔

پچاس برس نیپولین اول کا قول تہا کہ فرانس والونکو ماں کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 36

ضرورت ہے اس سے اوسکایہہ مطلب تہا کہ فرانس والونکو اون عورتونسے تعلیم پانیکی ضرورت ہے جو نیک۔ ایماندار اور دانشمند ہین۔

فی الحقیقت فرانس میں جو پہلا انقلاب ہوا اوسکی یہی وجہ تہی کہ عورتونمین اخلاقی تعلیم کا مادہ باالکل نہین تہا۔ قومی تغیر کے ساتہی ہر ایک سوسایٹی بدکاریون اور بدفعلیونمین ڈوب گئی مذہبی اور اخلاقی نیکیاں نفس پرستی کے دلدل میں پھنسکر رہگئین۔ عورتونکی چال چلن خراب ہو گئے ان و شوہر مین اعتبار نہین رہا۔ ماورانہ لحاظ جاتا رہا یہانتک کہ ہر ایک خاندان تباہ و برباد ہو گیا۔

لیکن فرانس والے پہر بہی اوس خوفناک واقعے کو بہول گئے اور فرانس والونکو اُسوقت تک جس چیز کی ضرورت ہے نیپولین اول کا قایم کردہ اصول ہے یعنی بچونکی تعلیم اونکی نیک ماؤن سے ہونی چاہئے۔

عورتونکی تعلیم کا اثر ہر جگہہ اور ہر ملک مین یکسان ہے جہانکی عورتین ناپاک ہو نگی وہانکی سوسایتی پر خراب اثر پڑیگا اور جہانکی عورتونکا اخلاق پاک و صاف ہو گا وہانکی سوسایٹی پر خراب اثر پڑیگا اور جہانکی عورتونکا اخلاق پاک و صاف ہو گا وہانکی سوسایٹی ترقی اور عروج کریگی۔ کیونکہ عورتونکی تربیت گویا مرد کی تعلیم ہے۔ اونکے چال چلن کی درستی اپنے ہی طرزِ معاشرت مین ترقی دیتی ہے۔ اونکی دماغی قوت بڑہانی اپنے ہی لئے مفید ہے۔ لیکن جس طرح یہہ معلوم ہے کہ عورتونکی تہذیب و شایستگی پر قومی ترقی منحصر ہے اوسی درجہ مین یہہ امر مشتبہ ہے کہ عورتونکا مردونکے ساتہہ ملکی کامونمین شریک ہونا کچہہ فائدہ بخش ہے۔ عوتین مردونکے کامونمین اوس کامیابی کے ساتہہ حصہ نہین لے سکتین جیسا کہ مرد عورتونکے کامونمین لے سکتے ہین اور جب عورت اس امور خانہ داری کے انتظام سے نکالکر دوسرے کامونمین مصروف کی گئی تو نتیجہ ہمیشہ خراب ظاہر ہوا۔ اس وجہ سے اکثر قوم کے بہی خواہ اسکے انسداد مین ساعی و نگران رہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 37

عورتونکے جملہ فرایض مین سے یہہ نہایت ضروری ہے کہ وہ کفایت شعاری اور انتظام غذا کی جانب اپنی کوشش مبذول کرین۔ کیونکہ اصول طباخی کی عدم واقفیت سے بڑی تکلیف اوٹہانی پڑتی ہے۔ غذا ایک ایسی چیز ہے جس سے دماغی قوت اور محنت کی عادت قایم رہ سکتی ہے۔ اور مختصر یہہ کہ زندگی کا دار و مدار اسی پر ہے۔ پس اگر ہماری قوم کی اصلاح کرنیوالی عورتین اس جانب اپنی قا بلیت کو متوجہ کرین اور عمدہ نتیجہ پیدا کرین تو سارا خاندان اون عورتونکا شکر گزار ہو اور قوم کے برے ہمدرد و بہی خواہونمین اونکا شمار ہو۔

(مترجم حضرات دوسرے باب کا ترجمہ یہی ختم ہوا۔ اسمین عورتونکی تعلیم کا مسئلہ بحث طلب ہے کیونکہ صرف ہندوستان مین نہین بلکہ ممالک یورپ مین بہی اس مضمون پر شد و مد سے مباحثے ہوئے ہین۔ لیکن آخر کو قول فیصل یہی قرار پایا کہ عورتونکو بہی مردونکے برابر اعلٰے درجہ کی تعلیم دینی چاہئے۔ انکی تعلیم سے جو عمدہ نتائج آیندہ نسلونکے واسطے مترتب ہو سکتے ہین وہ بخوبی اس باب کے دیکہنے سے آپ کے ذہن نشین ہو گئے ہونگے پہر کونسی وجہ ہے کہ آپ لوگ بہی اسمین دل و جان سے کوشش نکرین۔ عورتونکو تعلیم سے محروم رکہنا فی الحقیقیت قدرت کے خلاف ہے اور صریحی بے انصافی ہے۔ بعض کوتہ اندیش یہ خیال کرتے ہین کہ عورتین پڑہ لکہکر آوارہ ہو جاتی ہین اگرچہ اس خیال مین تہوڑی بہت صداقت ضرور ہے لیکن کیا تعلیم یافتہ مرد آوارگی و فسق و فجور مین نہین مبتلا ہو جائے۔ پس اگر اس خیال سے علم کی نعمت سے محروم رکہی جاتی ہین تو مردونکو بہی اس سے ممنوع کرنا چاہئے لیکن حقیقت یہہ ہے کہ علم سے کسی قسم کا خراب اثر اخلاق پر نہین پڑتا انسان کی جیسی فطرت ہوتی ہے اوسکے مطابق عادت پڑ جاتی ہے جسطرح آب نسیان سانپ کے منہہ مین پڑتا ہے تو زیر کی خاصیت ہو جاتی ہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 38

اور جب وہی قطرہ سیپ مین پڑتا ہے تو موتی بن جاتا ہے۔ عورتونکی طبیعت ابتدا مین دینی تعلیمات سے اسدرجہ متاثر کر دینی چاہئے کہ اونمین نیکی اور بہلائی کا مادہ پیدا ہو جائے تا کہ وہ کسی افعال قبیحہ کی جانب راغب نہون۔ اب وہ زمانہ نہین رہاکہ ہمارے قوم کے نوجوان تعلیم یافتہ پرانے گر۔۔۔۔۔۔ کی کندہ ناتراش عورتونسے دلچسپی حاصل کر سکین لا محالہ اونہین اپنا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمنشین بنانے کے لئے مغربی ملک کی تعلیم یافتہ عورتونکے ساتہہ متاہل ہونا پڑیگا پس اوسوقت قوم مین کیسی خرابی واقع ہو گی۔ لہٰذا آیندہ زمانہ کے حالات پیش نظر کرنے سے اپنے ہانکی عورتونکی تعلیم کس قدر ضروری اور لازمی معلوم ہوتی ہے۔

تیسرا باب

صحبت کا اثر اور اوسکی تقلید

گہر پر جو ایک قسم کی قدرتی تعلیم ہوتی ہے اگرچہ وہ سب سن رسیدہ ہونیکے بعد بااالکیہ نہین ضائع ہو جانی لیکن جسقدر سن زیادہ ہوتا جاتا ہے اوسیقدر گزشتہ تعلیم کا اثر بہی کم ہوتا جاتا ہے بجاے اوسکے اسکول کی ساختہ تعلیم قایم ہوتی جاتی ہے اور دوست احباب کی صحبت کا اثر اونکے افعال مطبوع ہونے شروع ہوتے ہین۔

آدمی چاہے بوڑہا ہو یا نوجوان اوسپر صحبت کا ضرور اثر ہوتا ہے البتہ اس قدر فرق کے ساتہہ کہ بوڑہون پر کم اور نوجوانون پر زیادہ۔ ہربرٹ کی مانکا اوسکی تعلیم کے بابت یہہ قول تہا کہ جسطرح جسمانی صحت کا دار و مدار غذا پر ہے اوسیطرح روھانی تربیت نیکی یا برائی کے ساتہہ جلیس و ہمنشین کے اقوال اور افعال پر منحصر ہے۔

یہہ باالکل غیر ممکن ہے کہ جو لوگ ہمارے صحبت مین رہتے ہین اونکا اثر چال چلن پر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 39

نہ پڑے گا۔ کیونکہ انسان مین تقلید کرنے کا ایک قدرتی مادہ ہوتا ہے پس تہوڑی بہت تاثیر ہمارے احباب کے کلام ۔۔۔۔۔۔۔ فتار حرکات اور خیالات کی ہم مین ضرور آ جاتی ہے۔ برک کا قول تہا کہ انسان کے لئے خیال ایک مدرسہ کے مانند ہے اوسکے مندرجہ ذیل مقولے بہی قابل یادداشت ہین۔ ذہن نشین رکہنا۔ مشابہت پیدا کرنا ثابت قدم رہنا۔

جن امور کی تقلید کی جاتی ہے وہ اسطرح پوشیدہ رہتے ہین کہ اونکے نتایج پر کچہہ یہی خیال نہین جاتا لیکن اونکا اثر دائمی ہو جاتا ہے۔ اور اسی چال چلن مین جو تبدیلی ہو جاتی ہے اوس سے کوئی غور کرنے والا شخص البتہ واقف ہو سکتا ہے۔ کمزور سے کمزور شخص کا اثر اونکے جلیس و ہمنشین پر پڑتا ہے اور جملہ خیالات و محسوسات و عادات صحب ت اور افعال کی تقلید سے باالاستقلال قایم ہو جانیکی قوت حاصل کرتے ہین۔

سرچارلس بل کہتا ہے کہ میرے واسطے اعلٰے درجہ کی تعلیم میرے بہائی کی تمثیل تھے علاوہ اسکے میرے خاندان کے لوگ راستباز تہے جنکی مین نے پوری تقلید کی۔

چال چلن کے درست کرنے مین جن امور کی ضرورت ہوتی ہے اون اصول کا اثر ابتدا ہین ڈالنا چاہئے کیونکہ جسقدر دن گزرتے جائنیگے عملی اور تقلیدی افعال ہمارے عادت مین قایم ہوتے جائنیگے جو ایسے قوی الاثر ہوتے ہین کہ قبل اسکے کہ ہم اونکی ماہیت سے آگاہ ہون ہمارے ذاتی آزادی کو وہ پابند کر لینگے۔

فلاطون کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اوس نے کسی موقع پر ایک لڑکے کو بیہودہ کہیل کی وجہ سے سخت ملامت کی۔ لڑکے نے کہا کہ آپ ایک ذرا سی بات پر مجہے اسقدر سرزنش کرتے ہین۔ فلاطون نے جواب دیا کہ یہہ ذرا سی بات نہین ہے جب اسکی عادت پڑ جائیگی تو سخت مضرت ہو گی اور کسی امر کا عادی ہو جانا ایسا ضرر رسان ہے کہ اکثر اشخاص افعال قبیحہ کے مرتب ہو جاتے ہین باوجودیکہ وہ اونہین
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 40

بُرا سمجہتے ہین۔ وہ لوگ بہی عادت کے مطیع ہو گئے ہین جنکی طاقت کا کوئی مقا بلہ نہین کر سکتا۔ لاک کا قول ہے کہ دماغ مین ایسی قوت پیدا کر لینی جو عادت کا مقابلہ کر سکے اخلاقی تعلیم کا اعلٰے اصول ہے۔

اگرچہ چال چلن کی درستی تمثیل سے لازمی ہے لیکن کسی نوجوان کو یہہ ضرورت نہین ہے کہ وہ اندہون کی طرح دوسرونکا مقلد ہو جاے۔ اوسکا خود ذاتی چال چلن اوسکے ساتہیونسے زیادہ اصول زندگی کے مطابق قایم ہو سکتا ہے۔ ہر شخص کو اپنی خواہش اور آزادی کے مطابق کام کرنیکا ایسا مادہ حاصل ہے کہ اگر وہ اوسپر دلبری سے عملدرآمد کرے تو اپنے دوست احباب مین انتخاب کے قابل ہو سکتا ہے۔ بوڑہے اور نوجوان مرد و زن کے واسطے بزدلی کی بات ہے کہ اپنی خواہشات کے مطیع ہو جائین یا اپنے کو دوسرنکی کمینہ تقلید کا حاوی کر لین۔

مشہور بات ہے کہ آدمیونکی شناخت اوس جلسہ سے کی جاتی ہے جسمین وہ شریک ہون۔ ممکن نہین کہ کوئی متقی و پرہیز گار قدرتی طور پر مدہوش شرابی کی صحبت پسند کرے تعلیم یافتہ جاہل کے ساتہہ رہنا قبول کرے۔ یا کوئی وضعدار۔ آوارہ و بدوضع کی دوستی اختیار کرے۔ ذلیل آدمیونکے ساتہہ رہنے مین مذاق خراب ہو جاتا ہے اور مذموم افعال کی خواہش ہوتی ہے اونکی سوسایٹی مین شرکت کرنے سے چال چلن مین ایک لاعلاج تنزلی ہو جاتی ہے۔ سنیکا کا قول ہے کہ اونکی گفتگو نہایت ضرر رسان ہے اگرچہ اوسوقت کوئی فوری نقصان نہ ظاہر ہو لیکن اونسے علٰحدہ ہونیکے بعد کچہہ نکچہہ ذہن میں خیال رہتا ہے اور مثل ایک ایسے وبا کے ہے جسکے واسطے گمان ہو سکتا ہے کہ شاید آ۔۔۔۔ سحر مین سہیل جاے۔

اگر نوجوان آدمیونکی دانشمندی سے تعلیم و تربیت کی جاے تو اونمین یہہ قوت اور مادہ پیدا ہو جائیگا کہ وہ اپنے سے اچہی سوسایٹی تلاش کر کے اوس مین داخل ہون اور
 
Top