پانچویں سالگرہ ایک صفحہ کتنی دیر میں ۔ ۔ ۔

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صفحہ : 188

Tadbeer_page_0192.jpg

 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 183

علاوہ اور دوسرے حکما بہی اپنے ذہن و جودت کے بدولت دشمنونکے غیظ و غضب سے مخطوط نرہ سکے۔ چنانچہ پیلی اور لوسیز جو علم ہیئت اور کمسٹری کے جاننے والے تہے فرانس کے پہلے بلوہ مین اونکے سر قلم کئے گئے۔ لوسیز کو جب موت کا حکم سنایا گیا تو اوس نے یھہ درخواست کی کہ مجھکو چند روز کی مہلت ملے تا کہ مین اون تجربات کے نتائج کی بخوبی آزمایش کراون جنکو مین نے اپنے قید کے زمانہ مین ایجاد کیا ہے لیکن اوسکی یہہ درخواست نامنظور ہوئی اور ججون نے فیصلہ کیا کہ نہین تم ابہی قتل کئے جاؤ گے اور ایک جج نے کہا کہ ہماری گورنمنٹ کو فلاسفر کی ضرورت نہین ہے۔ انگلستان مین بہی ڈاکٹر پرسٹلی جسکو جدید کمسٹری کا موجد کہنا چاہیے وہ اپنے کتب خانہ اور مکان کے اندر جلا دیا جاتا اگر اپنا شہر چہوڑ کر بہاگ نہ جاتا۔

بڑے بڑے نمود کے کام اکثر حالت تکلیف و صعوبت مین ہوئے ہین چنانچہ جب کالمبس نے نئی دینا کو ظاہر کیا تو اون لوگون نے اوسکو سخت اذیت پہونچائی جنکو اوس نے اکثر فواید پہونچائے تہے۔ منگو پارک کے دریاے افریقہ مین ڈوبنے کی حالت جسکو اوس نے ظاہر کیا تہا نہایت ہی دردناک ہے۔ افسوس ہے کہ وہ اوسکے بیان لکہنے کے واسطے زندہ نرہا۔ کلیرٹن کا مہلک بخار بہی بہت کچہہ قابل تاسف ہے کیونکہ وہ ایک براعظم کے تلاش مین مصروف تہا جسکو بعد اوسکے دوسرے لوگون نے ظاہر کیا۔ فرینکلن کا برف کی ڈہیر مین جان دینا جبکہ وہ اوس راستہ کی صفائی مین مشغول تہا بے انتہا افسوس ناک ہے اس قسم کے پُر حسرت افسانے دنیا کی تاریخ مین بہت ہین۔

فلنڈر جاز ران نے جو چہہ برس فرانس کے جزیرہ مین قید کی تکلیف برداشت کی وہ بہی ایک خاص قسم کی سختی ہے ۱۸۰۱ عیسوی مین اوس نے اس قصد سے جہاز رانی شروع کی کہ فرانس کے بحری گزرگاہونکی پیمایش کرے اور اس کام کے واسطے اوس نے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 184

فرانس کے حاکمونسے مدد مانگی۔ اثناے سفر مین اوس نے اسٹریلیا کے اکثر حصے اور قرب و جوار کے جزاییر کی بہی پیمایش کی۔ اسی عرصہ مین وہ ملزم ٹہرایا گیا کہ شاید انگلستان کی مخالفت مین کوئی کاروائی کرتا ہو اس خیال سے اوسکو یہہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنی تین برس کی محنت کے نتایج کو امیر البحر کے سامنے پیش کرے اسکے بعد واپسی کے وقت فلنڈر کا جہاز بحر جنوبی مین تباہ ہو گیا۔ پس وہ مع اور چند جہاز رانونکے ایک کشتی مین بیٹہکر بندرگاہ جیکسن کی طرف جو وہانسے ۷۵۰ میل کے فاصلہ پر تہا روانہ ہوا اور بہ اطمینان منزل مقصود تک پہونچ گیا۔ یہان آ کر اوس نے ایک دوسرا چھوٹا جہاز مہیا کیا تاکہ اپنے بقیہ رفیق جہاز رانون کو بھی بحفاظت تمام پہونچادے۔ اسکے بعد وہ پہر انگلستان کی جانب روانہ ہوا جہان کہ اوسکا جہاز پھر غارت ہوا اور مع اپنے رفقاٗ کے قید کر لیا گیا۔ قید خانہ مین فلندر کو صرف یہی اندیزہ ہوا کہ باڈن جہاز ران جس سے اسٹریلیا مین ملاقات ہوئی تہی یورپ مین پہلے پہونچیگا اور جو تجربے نئے مین نے پیدا کئے ہین وہ سب اپنے نام سے مشتہر کر دیگا۔ لیکن یہہ بدگمانی اوسکی غلط ثابت ہوئی کیونکہ فلنڈر ابہی قید مین تہا کہ فرانس کی جدید تحقیقات و ایجادات کا نقشہ شایع ہوا اور جو مقامات کہ فلنڈر نے ظاہر کئے تہے وہ سب اوسکے نام سے مشتہر ہوئے۔ آخرکار چہہ برس کے بعد فلنڈر کو قید سے رہائی ہوئی اس عرصہ مین اوسکی صحت بالکل خراب ہو گئی تہی لیکن تاہم اوس نے اپنے نقشونکو مرتب کرنا اور واقعات کا قلمبند کرنا اپنے اخیر وقت تک جاری رکہا۔ وہ اوسوقت تک زندہ رہا جب تک کہ اپنا اخیر کاغذ مطبع مین چہپنے کے واسطے نہ بہیج چکا لیکن جس تاریخ مین اوسکی تصنیف شایع ہوئی اوسی دن وہ دنیا سے کوچ کر گیا۔

کام کرنے کے واسطے اکثر دلیر آدمیون نے تنہائی پسند کی ہے کیونکہ صرف تنہائی ایک ایسی حالت ہے جہان روحانی ریاضت عمدہ طرحپر ہو سکتی ہے لیکن کسیکا اس ۔۔۔۔۔۔ پر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم ، جی شمشاد بھائی یہ کتاب یہاں اختتام پذیر ہو رہی ہے یہ آخری اسکین صفحہ تھا اس کا ربط یہاں آج یعنی ماہ جولائی کی آخری تاریخ کو ارسال کرنا تھا ۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 185

مستفید ہونا یا نقصان اوٹھانا خاصکر اوسکی طبیعت تعلیم اور چال چلن پر منحصر ہے۔ تنہائی مین بلند خیال آدمی کی طبیعت اور زیادہ پاکیزہ ہوتی جائیگی لیکن چھوٹے خیال کا آدمی روز بروز بدترین حالت مین ہوتا جائیگا۔ پس گو تنہائی اعلٰے طبیعتونکے حق مین مفید ثابت ہو لیکن کمینہ خصلتونکے واسطے تو مفرت رسان ہے۔

بویٹس نے قید خانہ مین فلسفہ کی کتابین تصنیف کین اور گروٹین نے اسی حالت مین انجیل کی شرح لکہی۔ ریلے تیرہ برس تک قید رہا اور اس عرصہ مین اوس نے دنیا کی تواریخ مرتب کی۔ لوتہر جب تک قید رہا اوس زمانہ تک انجیل کا ترجمہ کرتا رہا اور مختلف قسم کے مضامین منتخب کرتا رہا جسکی وجہ سے اوس نے مملکت جرمنی کو ایک بڑا فیض پہونچایا۔

جان نبین نے قید خانہ مین چند کتابین تصنیف کین اور جب اوسے لکہنے کا موقع نہ ملتا تو وہ اکثر غور و خوض کیا کرتا جس زمانہ مین کہ نپن مقید تھا اوسوقت ملکی جماعت نے اپنے کل مخالفونکو قید کر لیا تھا۔ چارلس دویم کے عہد مین نبین محبوس ہوا تھا لیکن اسکے قبل چارلس اول کے عہد مین بہی جان الیٹ ہمپڈن۔ سلڈن۔ پران قید خانہ مین تہے جنکا شمار برے بڑے مصنفین کے زمرہ مین ہے اور اس حالت مین بھی یہہ لوگ تصنیفات سے باز نہین رہے۔ کامن ولتہ کے عہد حکومت مین بہی طبقہ علما کے لوگ مقید رہے ہین چنانچہ ولیم ڈیونٹ اور لوسیزاونہین بدنصیبونمین ہین۔

علاوہ ودر ونبین کے چارلس دویم نے بکسٹر۔ ہرنگٹن اور نبین وغیرہ کو بہی قید مین بہی اپنی تصنیفات کا سلسلہ مسدود نہین کیا۔

اوس زمانہ کے بعد انگلستان مین پہر اس قسم کے قیدیونکی تعداد قریب قریب
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 186

معدوم ہو گئی۔ ڈیفو جو ایک مشہور مصنف ہے اس نے رابنسن کروسو کا قصہ اور مختلف کتابین قید خانہ ہی مین تصنیف کین۔ اسمالٹ۔ جیمس مانٹگمری نے بہی اسی حالت مین متعدد کتابین تصنیف کین۔ سلوبرسکو جو ملک اٹلی کا مشہور و معروف مصنف ہے دس برس تک اسٹریا کے قیدخانہ مین مقید رہا وہان وہ اپنے دلچسپ مضامین لکہا کرتا اور اپنی جدید تحقیقات قلمبند کیا کرتا۔

کیزنکائی سات برس تک قید خانہ مین رہا اور اس عرصہ مین وہ برابر اپنا روزنامچہ لکہتا گیا اور مختلف کتابونکا ترجمہ بہی کرتا رہا اور دو برس کے عرصہ مین اوس نے انگریزی زبان اسطرحسے حاصل کر لی کہ شیکسپیر کی تصنیفات اچہی طرح پڑہ لیتا۔

جو لوگ کہ اس قسم کے امور پسند کرتے ہین اونہین قانونی تعزیر برداشت کرنی پڑتی ہے اور بادی النظر مین اونکی ناکامیابی ظاہر ہوتی ہے لیکن فی الحقیقت وہ ناکام نہین ہوتے۔ اکثر لوگ جو ظاہر مین ناکام معلوم ہوتے ہین اونہون نے اپنی کوششونسے آیندہ نسلونکے واسطے ایک قسم کی دوامی اور مضبوط تاثیر پیدا کر رکہی ہے بمقابلہ اون لوگونکے جنکا سلسلہ علے التواتر کامیابیونسے مسلسل رہا۔ کسی انسان کی چال چلن کا اسپر انحصار نہین ہے کہ اوسکی کوششونسے کس قسم کا نتیجہ ظاہر ہوا آیا فوری ناکامی یا کامیابی۔ کوئی شہید ناکام نہین کہا جا سکتا اگر اوس نے اثبات امر حق کے واسطے اپنا فدا ہونا گوارا کیا ہے۔ ایسا ہمدرد جو اپنے مقاصد کے واسطے زندگی کی پرواہ نکرے گویا کامیابی کی طرف عجلت کر رہا ہے اور جو لوگ کہ اپنی زندگی کو بڑے بڑے مشاغل کی ابتدا مین صرف کرتے ہین وہ گویا اون کے واسطے ایک راہ قایم کرتے ہین جو اونکے پیچہے آنے والے ہین اور اونکے مردہ اجسام سے عبور کر کے فیروز مندی تک پہونچتے ہین۔ امر حق کی کامیابی دیر مین ظہور پذیر ہوتی ہے لیکن جب اوسکا وقت آ جاتا ہے تو وہ اون لوگونکے واسطے جو اپنی پہلی کوششونمین
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 187

ناکام رہے اوسیدرجہ مین مناسب حال ہوتی ہے جسدرجہ مین اون لوگون کے واسطے موزون ہے جو اپنی اخیر کوشش مین کامیاب ہوئے ہین۔

کسی بڑی شخص کی موت سے بہی دوسرونکو ویسی ہی عبرت ہوتی ہے جیسی کسی عمدہ زندگی کی تمثیل کا اثر ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص نے کوئی اچہا کام کیا ہے تو وہ مرنکے بعد معدوم نہین ہو جاتا بلکہ اپنی اسلی ھالت مین اونکے جانشینونکے پاس بطور یادگار کے حاضر و موجود رہتا ہے۔ البتہ بعض بعض عالی درجات اشخاص کی نسبت یہہ بہی کہا جا سکتا ہے کہ اونہون نے اوسوقت تک اپنی زندگی نہین شروع کی جب تک کہ مر نہین چکے۔

جس لوگون نے کہ راستبازی۔ علم اور مذہب کی وجہ سے تکلیفین گوارا کین اونکو بنی نوع انسان نہایت عزت اور وقعت کے ساتہہ یاد کرتے ہین۔ اونہون نے خود تو موت اختیار کی لیکن اونکی راستبازی زندہ و موجود ہے۔ اگرچہ وہ ناکام معلوم ہوئے لیکن تاہم ہمیشہ کے واسطے کامیاب ثابت ہوئے۔ وہ مقید رہے لیکن اونکے خیالات قید خانہ کی دیوارونمین کبہی محدود نہین رہے۔

ملٹن کا قول ہے "کہ جو شخص اچہی طرح تکلیفونکا متحمل ہو سکتا ہے وہی عمدہ طور پر کامونکو انجام کر سکتا ہے" برے بڑے آدمیونکو فرایض کے لحاظ سے انصرام ۔۔۔۔۔ کا جوش اکثر مشکل وقتون اور وقت کی حالتونمین پیدا ہوا ہے۔ اون لوگون نے ہر قسم کے سخت موانعات کا مقابلہ کیا اور ساحل مراد تک پہونچے۔ انجام فرایض کے بعد وہ لوگ سفر آخرت کے واسطے مستعد ہو بیٹہے۔ لیکن اونکے اوپر موت کی طاقت کارگر نہین ہو سکتی کیونکہ اونکے خیالات یادگار کے طور پر ہمارے پاس خیر و برکت کے واسطے باقی رہین گے۔ گوتیہ کا قول ہے کہ "تمامتر تکلیفات کا نام زندگی ہے جسے بجز باریتعالے کے کوئی شخص شمار نہین کر سکتا پس جو لوگ کہ اس دنیا سے کوچ کر چکے ہین اونکی ناکامی اور تکلیفون پر اونہین کسی قسم کا الزام نہین دینا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 188

بلکہ جو کچہہ وہ کر گئے ہین اونکے جانشینون کو لازم ہے کہ اونہین یاد رکہین۔"

پس سہولت اور آسانی کے کام سے اسقدر انسان کی جانچ اور آزمایش نہین ہو سکتی اور اوسکی خوبیان نہین ظاہر ہو سکتین جسقدر کہ مشل اور اہم امور سے۔ تکلیف و مصیبت چال چلن کی ایک معیار ہے۔ جسطرح نباتاتی چیزین اسواسطے کچلی جاتی ہین تا کہ اونکی فرحت بخش خوشبو ظاہر ہو۔ اسیطرح انسان کا مشکلات کے ساتہہ اسوجہ سے امتحان لیا جاتا ہے تاکہ اونمین جو قابلیت ہے وہ ظاہر ہو۔ اکثر دیکہا گیا ہے کہ کاہل و مجہول آدمی بہی جب وقت و جواب دہی کی حالت مین پڑ گئے ہین تو اونہون نے بالکل توقع کے خلاف اپنی چال چلن ظاہر کئے اور بجاے اسکے کہ آرام طلبی و کہولت مین پڑے رہین اونسے ہمت و دلیری کے کام ہوئے ہین اور خواہشات نفسانی کے خلاف امور ظہور پذیر ہوئے۔

کوئی ایسی برکت نہین ہے جو بارئیونسے الودہ نہ ہو جاے اور کوئی ایسی مشکل نہین ہے جو آسان نہوسکے۔ یہ سب اوسی طریقہ پر منحصر ہے جسطرح کہ ہم اونسے مستفید ہون۔ اصلی خوشی اس دنیا مین نہین میسر ہو سکتی اور اگر مہیا بہی کیجاے تو بالکل گیر مفید ثابت ہو گی۔ یہان کا عیش و آرام ایک دفتر باطل ہے۔ مشکلات اور ناکامی بہی عمدہ ترین معلم ہین۔ سر ہمفری ڈیوی کا بیان ہے کہ بہت زیادہ کشادگی و فراغدستی اخلاقی آدمی کیواسطے مضرت رسان ہے اور ایسی حالت کی جانب رجوع کرتی ہے جس سے اخیر مین تکلیف اوٹہانی پڑتی ہے یا لوگ اوس سے حسد و بغض کرتے ہین اور تہمت لگاتے ہین۔

ناکامیونسے طبیعت و مزاج مین قوت و ترقی پیدا ہوتی ہے۔ رنج مین بہی مخفی طور پر ایک راحت و خوشی کا سلسلہ مضمہر ہے۔ جان نبین نے ایک مرتبہ کہا کہ اگر یہہ امر ناجایز نہوتا تو مین سخت تکلیفونکی دعا مانگا کرتا تا کہ زیادہ تر راحت و آسایش نصیب ہو۔

جسطرح خدا نے راحت کو خلق کیا اوسیطرح تکلیف کو بہی پیدا کیا اور اس سے چال چلن کی درستی مین بہت کچہہ اثر ہوتا ہے۔ اس سے طبیعت نرم و شایستہ ہوتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 189

مزاج مین تحمل و استقلال پیدا ہوتا ہے اور بلند خیالی کے ساتہہ دقیق النظری مین بہی ترقی ہوتی ہے۔

تکلیف ایک ایسا ذریعہ ہے جسکے سبب سے بڑے بڑے لوگونکی طبیعتین شایستہ و مرتب ہو گئی ہین۔ خوشی کی نسبت اگر تسلیم کر لیا جاے کہ یہہ جمیع موجودات کا نتیجہ ہے تاہم بغیر رنج کی ناگزیر حالت برداشت کئے ہوئے اسکا حصول غیر ممکن ہے۔

اکثر مرد و عورت نے بہت سے مفید و کارآمد کام مصیبت کی حالت مین انجام دئے ہین بعض مرتبہ تو اس حالت سے مخلصی پانیکی غرض سے اور کبہی فرض منصبی سمجہکر۔

ڈاکٹر ڈارون نے اپنے ایک دوست کو لکہا کہ اگر مین اپنے کو کاہل و کمزور نہ سمجہتا تو جسقدر کام مین نے اوسقت تک کئے ہین کبہی نکر سکتا۔

اسکلر نے بہت سی کتابین اوس حالت مین تصنیف کین جبکہ اوسکی جسمانی صحت بالکل خراب ہو گئی تہی۔ ہیڈل نے بہی علم موسیقی کے پہلے اکثر کتابین اوسوقت مین لکہین جب وہ عارضہ فالج مین گرفتار تہا اور قریب المرگ ہو گیا تہا۔ موزرٹ کی تصنیفین اوسقت مین ہوئین جب وہ مقروض تہا اور ایک مہلک بیماری مین مبتلا تہا۔ بیہتاون نے بہی اپنی تصنیفات ایک اندوہناک حالت مین مرتب کی اور علاوہ اسکے بہرا بہی ہو گیا تھا۔

ولسٹن جسکو علم طبیعات کا بہت شوق تہا اپنی مسلک بیماری مین بہی تصنیف سے باز نہین رہا چنانچہ جسقدر اوسکو روز نئے تجربہ ہوتے جاتے اوسکو وہ ایک جگہہ قلمبند کرتا جاتا تا کہ جو معلومات اوس نے حاصل کئے ہین اوس سے دوسرونکو بہی فائدہ پہونچے۔

تکلیف سے فائدہ ضرور ہوتا ہے لیکن ایک دوسری صورت مین۔ فارس کے کسی بزرگ کا قول ہے کہ "تاریکی و ظلمت سے اندیشہ نکرنا چاہیے ممکن ہے کہ اوسمین چشمہ حیوان پوشیدہ ہو۔" تجربہ اگرچہ نہایت تلخ ہوتا ہے لیکن اسکا نتیجہ خوشگوار ہوتا ہے صرف
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 190

اسکی تعلیم سے ہم متحمل اور بردبار ہو جاتے ہین۔ اعلٰے درجہ کا چال چلن اوسیوقت مین قایم ہو سکتا ہے جب امتحان و آزمایش کے بعد مرتب ہو اور مشکلات کے بعد مکمل ہو۔ بے انتہا غم و اندوہ سے بہی ایک متحمل اور دانشمند آدمی ایسے عمدہ نتائج پیدا کریگا جو خوشی کے حالتمین بہی نہ حاصل ہوئے ہونگے۔

جرمی ٹیلر کا مقولہ ہے کہ اندوہناک حادثات اور افسوسناک حالات سے نیکیونکی بنیاد قایم ہوتی ہین۔ اس سے ہمارے طبیعت مین سنجیدگی پیدا ہوتی ہے۔ ارادونمین اعتدال ظاہر ہوتا ہے یہہ ہمکو خود پسندی اور گناہونسے باز رکہتی ہے۔

بہرہ مندہ اور کامیابی سے ہمیشہ عام طور پر کوشی نہین ہوتی کیونکہ گوتیہ سے زیادہ کسی دوسرے شخص کو عیش و آرام۔ عزت و وقعت اور کافی طور پر سامان شادی نہ میسر ہو گا لیکن تاہم اوسکا بیان ہے کہ مجہے اپنی تمام عمر مین صرف پانچ ہفتے حقیقی خوشی مین بسر کرنیکی نوبت آئی۔ خلیفہ عبد الرحمٰن اپنے پچاس برس کے عہد حکومت مین لکتہا ہے کہ مجہے صرف چودہ 14 دن خالص اور حقیقی کوشی کے میسر ہوئے۔ پس ان واقعات کے بعد کیا یہ نہین کہا جا سکتا کہ خوشی کی تلاش و کوشش ایک خیال باطل ہے۔

جسطرح یہہ ناممکن ہے کہ آفتاب کی روشنی مین عکس نہو اوسیطرح ایسی زندگی ہرگز زندگی نہین ہے جسمین خوشی بغیر رنج کے ہو اور راحت بغیر تکلیف کے میسر ہو اور کم سے کم ایسی زندگی کا انسانی زندگی مین شمار نہین ہو سکتا۔ خوشیونکا ایک ذخیرہ فرض کر لو۔ لیکن یھہ صرف ایک پیچدار افسانہ ہے جو حسرت و مسرت سے غلو ہے اور حسرت کی وجہ سے مسرت مین زیادہ تر لطف معلوم ہوتا ہے۔ محرومی و کامگاری سے مالا مال ہے جو یکے بادیگرے ظاہر ہوتی ہین اور اپنی اپنی باری مین ہمکو خرم و محظوظ کرتی ہین۔ موت بہی زندگی کو بہت عزیز کر دیتی ہے جسوقت کہ ہم دنیا مین رہتے ہین انہین ایک قسم کا نہایت مستحکم رستہ رہتا ہے۔ ڈاکٹر تہامس براون نے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 191

اس مسئلہ پر بحث کی ہے کہ انسانی خوشی کے واسطے موت لوازمات ضروری سے ہے اور وہ اپنے دعوی کی فصیح و مستحکم دلایل سے تائید کرتا ہے۔ لیکن جب کسی خاندان مین موت آتی ہے تو ہم اوسپر فلسفانہ طور سے نہین غور کرتے بلکہ صرف اوسے محسوس کر لیتے ہین۔ جن آنکہونمین کہ آنسو ڈبڈبائے ہوئے ہین وہ تو اوسے نہین دیکہتے لیکن انہین آنکہون نے کسی وقت مین بہ نسبت اون لوگونکے نہایت صاف اور واضح طور سے دیکہا ہے جو رنج و تکلیف سے بالکل ناواقف ہین۔

عقلمند آدمی زندگی سے کسی بُرے امید کا سبق نہین حاسل کرتا جس حالت مین وہ کسی عمدہ ذریعہ سے کامیابی کے واسطے کوشش کرتا ہے تو نامرادی کے واسطے بہی تیار رہتا ہے۔ جسطرح عیش و آسایش کا خیر مقدم کہتا ہے اوسیطرح تکلیف و ایذا کی بہی پیشوائی کرتا ہے۔ زندگی کی گریہ و زاری سے کبہی کچہہ فائدہ نہین ہو سکتا البتہ زندہ دلی سے علے الاتصال راستی کے ساتہہ کام کرنا مفید ہے۔

زندگی ہر حال مین اوس درجہ تک پہونچ سکتی ہے جس حد تک ہماری خواہش ہو۔ ہر شخص اپنے خیال کے مطابق ایک جداگانہ دنیا قایم کر سکتا ہے۔ زندہ دل آدمی اوسے فرحت بخش و راحت افزا کرتا ہے اور افسردہ دل اوسے خراب و شکستہ حال بنا دیتا ہے۔

"میرا خیال میرے واسطے مثل ایک سلطنت کے ہے" اس مقولہ کا برتاؤ ایک ہی طور پر کسان و بادشاہ دونون کر سکتے ہین۔ ایک تو اپنے خیال کے مطابق بادشہ دران حالیکہ دوسرا صرف ایک غلام ہے۔ زندگی گویا ہماری ذات کا آئینہ ہے۔ ہمارے چال چلن مین چاہے وہ اعلے ہو یا ادنٰے ہمارے خیال کے مطابق ظاہر ہوتی ہے۔ اچہونکے حق مین دنیا اچہی ہے اور برونکے واسطے بری۔ اگر ہماری زندگی کے مقاصد مرتفع و ممتاز ہون اور اگر ہم ایسے فائدہ مند کوششونکا ایسا احاطہ تسلیم کرین جسمین ہم دوسرونکے واسطے بہی اوسیطرح عمدہ خیالات و عمدہ جذبات پیدا کرین تو یہ ہمارے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 192

لئے مسرت بخش۔ فرحت افزا۔ اور خیر و برکت کی جگہہ ہے۔ لیکن اگر برخلاف اسکے ہم اپنی ہی ترقی۔ عیش و فواید پر نظر ڈالین تو یہ ہمارے واسطے تکلیف و مصیبت اور مایوسی کا مقام ہے۔

زندگی مین ایسی باتین بہی ہین جنکو ہم اس حالت مین کبہی نہین سمجہہ سکتے اور فی الحقیقت وہ مثل ایک راز پنہان کے ہے ٹہیک ٹہیک اسیطرح پر جیسے تاریکی مین ہم آینہ دیکہین۔ اور گو ہم اون قواعد و مشکلات کے مطالب کو نہ ذہن نشین کر سکین جنکے ذریعہ سے اعلٰی درجہ کے لوگونکو یہ راہ طے کرنی ہے لیکن تاہم ہمارا اعتقاد ہے کہ ہم اوس ارادہ کو پورا کرینگے جس سے کہ ہمارے حقیر و ناچیز زندگی مشترک ہے۔

ہم مین سے ہر شخص کو زندگی کے اوس طبقہ کے مطابق جسمین کہ وہ قایم کیا گیا ہے اپنا فرض منصبی پورا کرنا لازم ہے۔ صرف فرض منصبی کا انجام دینا ایک امر حق ہے۔ اعلٰی ترین زندگی کا انجام و نتیجہ بہی فرض ہے۔ سچی مسرتین اوسیوقت حاصل ہوتی ہین جب فرض پورا کیا جاتا ہے۔ جملہ امور مین یہی ایک وسیلہ ہے جس سے تسکین و طمانیت حاصل ہوتی ہے۔ اور جو حسرت و مایوسی سے مبرا ہے۔ اس بارہ مین جارج ہربرٹ کے الفاظ نقل کئے جاتے ہین۔ "انجام فرایض کا وقوف ہمکو آدہی رات کے وقت لطف و مزہ دیتا ہے۔"

پس جب ہم دنیا مین اپنے ضروری کام مثل محنت و ہمدردی اور فرض کے انجام دے چکے تو جسطرح ریشم کا کیڑا ریشم بُننے کے بعد مر جاتا ہے اوسیطرح ہم بہی کوچ کرینگے اور اگرچہ ہماری زندگی دنیا مین چند روزہ ہے لیکن یہہ ایک ایسا دور مقررہ ہے جسمین ہر شخص کو اپنی آخر زندگی تک حتے الامکان کوشش بلیغ کرنی چاہیے اور اسکے بعد حوادث زندگی فنا پذیر ہو جائینگے لیکن ہمکو حیات ابدی نصیب ہو گی۔

شکر صد شکر ٹہکانے لگی محنت میری
طے ہوئی آج کی منزل مین مسافت میری
***************************************************
*****************************************​
 
Top