ایک رات ۔۔۔ ابنِ صفی

تفسیر

محفلین

ایک رات
ابن صفی

[line]
دیکھو دیکھو ۔۔۔۔ وہ رہا ۔۔۔۔ جانے نہ پائے ۔۔۔۔ ابے مار “ ۔
رائفل سے شعلہ نکلا ۔۔۔۔ فائر کی آواز آئی اور وہ چار دیواری پھلانگ کر نکل بھاگا۔
“لاحول ولاقوہ ۔۔۔۔ پھر نکل گیا ۔۔۔۔ اب تو اندھا ہے اندھا“ خان بہادر گرجے۔
نصیرا بھنا کر رہ گیا ۔۔۔۔ تیس خاں بنتے ہیں تو خود ہی کیوں نہیں ماردیتے مجھے کیوں رائفل تھما دیتے ہیں۔
“ مگر سرکار وہ سامنے کب تھا“۔
“ ہاں ہاں سامنے بھی آئے گا جیسے رائفل نہیں پٹاخہ ہے۔ الو کے پٹھے مت بکو؟ سرکار نے جھنجلا کر کہا اور الو کے پٹھے نے سر جھکا لیا۔
“ میں کہےدیتا ہوں آج اس سالے کو ختم ہوجانا چاہیے ورنہ تمہاری خیر نہیں“۔خان بہادر نے پورٹیکو کی طرف مڑتے ہوئے کہا۔
نصرا کا دل چاہا کہ برآمدے میں بیٹھی ہوئی رنگ کی اسپنئیل کتیا ہی کو ختم کردے جس کی وجہ سے وہ ایک ہفتہ سے گالیاں ہی سنتا چلا آرہا تھا۔۔۔۔اس کی کئی راتیں اس کی وجہ سے خراب ہوچکی تھیں۔
۔۔۔۔ اور آج رات بھی چین سے سونا اسے دشوار ہی نظر آریا تھا۔ نصیرا پام کے بڑے گملے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ خان بہادر صاحب برآمدے میں کتیا کی پیٹھ سہلارہے تھے ۔۔۔۔ نومبر کی رات تھی۔ دو دن پہلے بارش ہوچکی تھی۔ نصیرا کو ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے اس کے کان بے جان ہوگئے ہوں ۔۔۔۔ خان بہادر کے حکم سے اس نے آج پھٹا ہوا مفلر بھی اپنے کانوں پر نہ لپیٹا تھا۔ تاکہ آہٹ صاف سنائی دے ۔۔۔۔سردی سے بچنے کے لئے اس نے ایک بیڑی سلگائی اور لمبے لمبے کش لینے لگا۔
“ ابے او گدھے کے بچے “ خان بہادرصاحب نے برآمدے سے للکار کر کہا “ اب تو ضرور آئے گا۔۔۔۔ بیڑی بجھادے ۔۔۔۔ اور ہاں ہٹ کر مالتی کی جھاڑیوں کے پیچھے دبک جا۔
نصیرا نے دل ہی دل میں گالیاں دیتے ہوئے جلتی ہوئی بیڑی بجھا زمین میں رگڑ دی اور مالتی کی جھاڑیوں کے پیچھے چلا گیا ۔۔۔ یہاں ٹیک لگانے کی جگہ بھی نہیں تھی ۔۔۔۔ اور پھر سردی۔ سر سبز جھاڑیوں کی خنک سیلی ہوئی زمین کی ٹھنڈک ۔۔۔۔ سر پر کھلا آسمان ۔۔۔۔ وہ رائفل کو گود میں رکھ کر اکڑوں بیٹھ گیا ۔۔۔۔ رائفل کی ٹھنڈی ٹھنڈی نال اس کی رانوں سے چپک گئی۔ اس نے اپنے برسوں پرانے گرم کوٹ کا کالر کانوں کے برابر اٹھا کر دونوں ہاتھوں سے دبالیا۔
خان بہادر صاحبا نے کسی سے کہا “ ذرا میرا کمبل تو دے جانا ۔۔۔۔ اور وہ تکئے کے نیچے کتاب ہوبھی اسے بھی لیتے آنا“۔
ہاں سالےتم تو قبر ہی میں چین سے سوؤگے ۔۔۔۔ نصیرا سوچنے لگا ۔۔۔۔ اسے نیند نہ جانے کیوں نہیں آتی ۔۔۔۔ ڈاکٹر پر ڈاکٹر آتے ہیں، کوئی اللہ کا بندہ زہر نہیں پلاتا ۔۔۔۔ سو جائے چین سے ۔۔۔۔ بڑے آدمیوں کی بڑی باتیں ہوئی ہیں۔۔۔۔ بیمار ہیں ۔۔۔۔ کیا بیمار ہیں؟ ۔۔۔۔ نیند نہیں آتی ۔۔۔۔ یہاں کھانستے کھانستے مرجاؤ ۔۔۔۔ بخار میں جلتے جلتے کباب ہوجاؤ مگر کوئی نہیں کہے گا کہ بیمار ہو۔۔۔۔ کچھ نہیں زکامی حرارت ہے۔۔۔۔ کھٹائی مٹھائی ہوگئی اسی لئے کھانسی آرہی ہے۔۔۔۔ کوئی خاص بات نہیں ۔ ہات تمہاری کھٹائی مٹھائی کی ۔۔۔۔ سالا سر پر سوار ہے۔۔۔۔ بیڑی بھی بجوادی ۔۔۔۔ افوہ کتنی سردی ہے ۔۔۔۔ اور سکڑ گیا ۔۔۔۔

[line]
سڑک پر کتوں کے دوڑنے کی آواز آئی۔اور اس نے را ئفل سنبھالی ۔ برآدمے میں بیٹھی ہوئی کتیا “ چوں چوں“ کرنے لگی۔خان بہادر صاحب کی آواز آئی “ لوسی لوسی“
کتیا اور زور سے “چوں چوں کرنے لگی ۔
نصیرا کے ہونٹوں پر گالی آتے آتے رہ گئی ۔ وہ سوچنے لگا، ہاں دلاسہ دیتے جاؤ اپنی نانی کو۔ اگر آج بھی اس سالے پر ہاتھ نہ لگا تو کل ہی زہر پلاادوں گا تمہاری چہیتی کو چاہے پھر جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ وہ تو بابا کی وصیت یاد آجاتی ہے ورنہ کبھی کا اس نوکری پر لات مار کر چل دیتا۔ کام بن جائے تو انعام نہیں ، بگڑجائےتوگالیاں کھاؤ ۔
“ ابے سورہا ہے کیا؟“۔ خان صاحب کی گرجدار آواز سنائی دی۔
“ نہیں تو“ نصیرا سنبھل کر بولا۔
“ نہیں تو کے بچے۔ذرا ہوشیاری سے“۔
اس کا دل چاہا کہ کھڑے ہو کر خان بہادر کو رائفل کھینچ مارے۔ اسے اپنے آباؤاجداد پر غصہ آگیا جو خان بہادر کے آباؤاجداد کے ٹکڑوں پر پل کر دائمی غلامی کی بنیاد ڈال گئے تھے۔ اسے اپنے باپ کے الفاظ یاد آگئے جو اس نے مرتے وقت کہے تھے۔ “ بیٹا اس گھر کے ہمیشہ وفادار رہنا یہیں ہمارے باپ دادا کی ہڈیاں پلی ہیں۔ کبھی خود کو تخواہ دار نوکر نہ سمجھنا۔ تم اس گھرکے پالک ہو۔ ہم اس گھر کے پالک ہیں۔ کلوا بھی تو ڈپٹی صاحب کے گھر کا پالک ہے۔ چھایا ہوا ہے سارے گھر پر کیا مجال کوئی چوں تو کرے۔ نوابوں کی طرح گھر سے نکلتا ہے ایک ہم ہیں ۔ نہ پیٹ بھر کھانا نہ بدن پر کپڑا۔ سردی میں بیٹھے سکڑ رہے ہیں۔ اس پر گالیوں کی بوچھار ۔ مرنے والے اور یہاں وبال چھوڑ گئے۔ پات تیری وصیت کی۔ کہیں اور جا کر کمائیں گئے۔ تھوڑا بہت لکھ پڑھ لیتے ہیں کسی چکی گھر میں منشی گیری ہی کرلیں گے۔۔۔لوگ منشی جی تو کہیں گے۔ یہاں توبس او نصیرا۔ ابے او نصیر!
ابے بیڑی پینے لگا کیا؟ خان بہادر صاحب چلائے۔
“نہیں تو“ اس نے کھنکار کر کہا۔
“ پھر وہی نہیں تو“ خان بہادر صاحب جھلا کر بولے۔“ ابے تجھے بات کرنا کب آئے گا“۔
“جب تم جہنم رسید ہوجاؤگے۔ نصیرا نے دل میں کہا اور دانت پیسنے لگا۔ ناک میں دم کررکھا ہے۔ سردی کے مارے جان نکلی جاری ہے۔ اور ا س پر پھٹکار۔ نہ جانے کب تک یوں ہی بیٹھا رہنا پڑے ۔ بیڑی بھی نہیں پینے دیتا۔۔۔ کیا کیا جائے۔ دفعتاً ایک خیال اس کے ذہین میں چمکا اٹھا۔
“ سرکار برآمدے میں جو بتی جل رہی ہےکہیں اس نے بھڑک نہ جائے اور ایک فائر ہوچکا ہے“۔ نصیرا نے جھاڑیوں سے سر ابھار کر کہا۔
“ اچھا! اب مجھے منطق پڑھانےچلے ہیں“۔ خان بہادر نے گرج کر کہا۔“ لو بتی بجھائےدیتا ہوں مگر میں یہاں سے ہٹ نہیں سکتا۔ کام چور کہیں کا۔
“ارے تم یہیں دفن ہوجاؤ۔ شیطان کے بچے“۔ اس نے دل میں کہا اور جھنجلاہٹ سے اپنے بال نوچنے لگا۔ برآمدے میں اندھیرا ہوگیا اور کتیا پھر “ چوں چوں پیاؤں پیاؤں “ کرنے لگی۔
“ لوسی لوسی “ خان بہادر صاحب نے چمکارا۔

[line]
بوڑھا ہوگیا مگر عقل نہیں آئی۔۔۔وہ سوچنے لگا ۔۔۔ارے چلائے گی نہیں تو وہ سالا آئے گا کیسے ۔۔۔ ابھی کہہ دوں تو الف ہوجائے گا۔۔۔
واقعی یہ کتیا اس کے لئے مستقل عذاب ہوکر رہ گئی تھی۔۔۔ اس کا بس چلتا تو پہلے اسی کو گولی ماردیتا۔۔۔ خان بہادر صاحب نے اسپنئیل کا پورا جوڑا خریدا تھا۔ کچھ د نوں بعد کتا ایک حادثے کا شکار ہو کر چل بسا اور کتیا اکیلی رہ گئی ۔۔۔۔خان بہادر چاہتے تھے کہ کہیں سے کوئی نجیب الطرفین قسم کا اسپنئیل مل جائے تو خرید لیں ورنہ قرب و جوار کے دیسی آوارہ کتوں کی بن آئے گئی۔۔۔ لیکن انہیں کوئی نجیب الطرفین نہ مل سکا اور کاتک شروع ہوگیا۔۔۔ ہوا وہی جس کا ڈر تھا ۔۔۔ کئی کتے ان کے پائیں باغ کی چہار دیواری کے گرد منڈلانے لگے۔۔۔ ان میں سے ایک جو مشاق عاشق معلوم ہوتا تھا اسپنئیل کا دل جیتنے میں کامیاب ہوگا۔۔۔شروع شروع میں اس نے سڑک پر کھڑے ہو کر فلمی گانے گائے۔۔۔اس کے بعد آنکھوں آنکھوں میں پیام و سلام ہوئے اور پھر کتیا برامدے سے اٹھ کر پھاٹک تک آنے لگی ۔۔۔ یہ دیکھ کر خان بہادر کو بہت تشویش ہوئی اور انہوں نے حکم دیا کہ کسی بھی پھاٹک کو کھلا نہ رکھا جائے۔۔۔مگر وہ تھا لوہے کی سلاخوں کا پھاٹک۔۔۔اور سلاخیں اتنے فاصلے پر جڑی تھیں کہ دونوں اس میں سے منہ نکال کر ایک دوسرے کو بہ آسانی سونگھ سکتے تھے۔۔۔ خان صاحب اچھی طرح جانتے تھے کہ سونگھے سے محبت بڑھ جاتی ہے۔۔۔ انہوں نے کتیا کو باندھ کر رکھنا شروع کیا مگر کتیا نے چیخ چیخ کر پوری کوٹھی اٹھا لی۔ مجبوراً پھر کھول دینا پڑی اور پھر دونوں کا معاشقہ شروع ہوگیا۔۔۔ خان بہادرصاحب اس کو دیکھ دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتے ۔۔۔۔ انہیں اپنی کتیا سے ایسی امید نہیں تھی۔۔۔مگر کتیا کا اس میں کیا قصور ۔۔۔ وہ تو کمبخت کتے کو حفظ و معراتب کا خیال رکھنا چاہیے تھے۔۔۔ کہاں اسپنئیل اور کہاں دیسی دم کٹا کتا۔۔۔نہ دم ہلانے کی تمیز اور نہ بھونکنے کا سیلقہ۔۔۔ بے ہنگم
۔۔۔ جغاوری ۔۔۔ بدتمیز۔۔۔بدسلیقہ ۔ بھونکتا تو ایسی جھنکار پیدا ہوتی جیسے پھیپڑوں میں منوں بلغم اکٹھا ہو۔ جب کٹی ہوئی دم ہلاتا تو ایسا معلوم جیسے کوئی کسی کو ٹھینگا دکھا رہا ہو۔
کچھ دنوں تک دور ہی دور سے رومان بازی ہوتے رہی ۔ آخر ایک دن کتے کو جوش آ ہی گیا۔۔۔۔ ممکن ہے کہ اسپنئیل کتیا نے غیرت دلائی ہو۔۔۔ رات کا وقت تھا خان بہادر صاحب برآمدے میں کھڑے کسی مہمان کو رخصت کررہے تھے۔۔۔انہوں نے کتے کو چھ فٹ اونچی دیوار ہھلانگ کر اندر آتے دیکھا۔۔۔ گھبراہٹ میں دوڑ پڑے ۔۔۔ ٹھوکر کھائی اور سیٹرھیوں سے لڑھک کر پورٹیکو میں آرہے ۔۔۔ کتے نے چھلانگ لگائی اور نکل بھاگا۔
لوگوں نے لپک کر خان بہادرصاحب کو اٹھایا ۔۔۔زیادہ چوٹ نہیں آئی تھی۔ صرف معمولی خراشیں تھیں۔ اگر چوٹ بھی آئی تو انہیں پرواہ نہ ہوتی۔۔۔ کیونکہ معاملہ براہ راست اسپنئیل کتیا کا تھا۔۔۔ اگر خدا نخواستہ کتیا “ خراب“ ہوجاتی تو کیا ہوتا۔۔۔۔وہ تو خدا کو کچھ اچھا ہی منظور تھا جبھی تو ان کی نظر پڑگئی ورنہ انہیں کیا معلوم ہوتا کہ پائیں باغ میں کا ہوتا ہے۔ انہوں نے فوراً طے کرلیا کہ احتیاطی تدابیر شروع کردی جائیں۔۔۔ نصیرا کو رائفل دی گئ اور سمجھادیا گیا کہ جیسے ہی کتا کمپاونڈ میں داخل ہو گولی مار دی جائے۔ کتا بھی کائیاں تھا کمپاونڈ میں تو آتا تھا مگر رائفل کی زد پر نہ آتا تھا ۔ دو ایک فائر ہوجانے پر وہ چوکنا رہنے لگا تھا۔ مگر تھا بڑا بے جگر ۔۔۔۔کوئی اور کتا ہوتا تو ایک ہی بار رائفل کی آواز سن کر ادھر کا رخ نہ کرتا۔ مگر وارے کتے عاشق ہو تو ایسا ہو۔۔۔ کیا مجال کہ کسی رات کو ناغہ ہوجائے ۔۔۔۔ اور پھرایک بار نہیں چار چار چھ چھ بار ۔ ابھی فائر ہوا نکل بھاگا۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد پھر موجود۔۔۔نہ ہوا خان بہادرصاحب کے گھر میں کوئی اہل دل۔۔۔ ورنہ اس کتے سی سبق لیتا ۔۔۔۔ ایک ہم انسان ہیں کہ جوتوں کے ڈر سے “طواف کوچہ جاناں“ سے توبہ کرلیتے ہیں۔۔۔۔ ایک وہ کتا تھا کہ گولیوں سے بھی خوف نہیں کھاتا تھا۔ اسی لئے تو گورے لوگ کتوں کو اس قدر عزیز رکھتے ہیں اور کالے آدمیوں سے نفرت کرتے ہیں۔۔۔۔ کالے آدمی جو ایک اسپنئیل کتیا کے لئے ایک دیسی کتے کا خون نہیں کرسکتے ۔۔۔۔ کالے آدمی جنہیں سردی لگتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔کالے آدمی جنہیں ایک مہذب کتیا کے لئے اپنی راتوں کا خراب ہوجانا کھل جاتا ہے۔۔۔۔ خان بہادرصاحب کالے نہ تھے ۔۔۔۔ کالا آدمی قطعی بہادر نہیں ہوتا ۔۔۔۔ چاہے خان ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔خان بہادرصاحب کالے نہیں تھے انہیں اسپنئیل کتیا عزیز تھی اور دیسی کتے سے نفرت کرتے تھے۔ دیسی کتے ! جنہیں نہ بھونکنے کا سلیقہ نہ دم ہلانے کی تمیز ۔۔۔ اور یہ دیسی کتا تو ان کی اچھی نسل کی کتیا کو “خراب“ کردینے پر تلا ہوا تھا۔

[line]
بالکل ناقابل برداشت۔۔۔۔ خان بہادر صاحب اپنے غم وغصہ کے اظہار کے سلسلے میں قطعی حق بجانب تھے۔۔۔۔۔۔یہ اور بات ہے کہ خود کتیا کے دل میں باغیانہ خیالات جنم لے رہے ہوں ۔۔۔۔ وہ اس “ سماجی“ بندش پردل ہی دل میں جھلارہی ہو۔۔۔۔خان بہادر صاحب کی جاگیردارانہ ذہنیت پر تاؤ کھارہی ہو۔ حالانکہ اسے تاؤ کے بجائے پلاؤ کھانا چاہیے۔۔۔۔ کیونکہ پلاؤ زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔۔۔۔ اگر آدمی کو پلاؤ نہ میسر ہو تو کتیا پالنے کا خیال ہی نہ پیدا ہوسکے۔
نصیرا اونگھتا رہا۔۔۔۔ اور اونگھنے کے علاوہ چارہ ہی کیا تھا۔ ۔۔۔۔وہ اتنی “اونچی“ باتیں بھی تو نہیں سوچ سکتا تھا کہ سوچ سوچ کر بدن میں کچھ گرمی آتی۔“اونچی“ باتیں سوچ سکتا تو سردی میں کتا مارنے کی بجائے میری طرح لحاف میں گھس کر افسانہ لکھتا اور فرائیڈ کو مغربی افسانہ نگار سمجھ کر گالیاں دیتا۔ محض اس لئے کہ بہت سے لکھنے والے اسے یہی سمجھ کر گالیاں دیتے ہیں۔
تو نصیرا اونگھتا رہا۔
دفعتاً خان بہادر صاحب کو کھانسی آئی۔ غالباً وہ بھی اونگھ رہے تھے۔ کیونکی کھانسی کے بعد ہی انہوں نے نصیرا کو للکارا“ ابے سورہا ہے کیا؟“
“ نہیں تو“ نصیرا چونک کر رندھی آواز میں بولا۔
“آج مار ہی لے اسے ۔۔۔۔ ورنہ تیری شامت آجائےگی“۔
‘نصیرا خاموش رہا ۔۔۔۔ جواب ہی کیا دیتا۔۔۔۔دراصل اس کی یہی ادا خان صاحب کو بے حد ناگوار تھی۔۔۔۔ وہ جواب چاہتے تھے اپنی باتوں کا۔۔۔۔ انہیں نصیرا کا یہ رویہ بالکل ایسا معلوم ہوتا جیسے خاموشی کی زبان میں کہہ رہا ہو “جواب جاہلاں باشد خاموشی“۔۔۔۔ حالانکہ خان بہادر صاحب جاہل نہیں تھے۔ انہوں نے آکسفورڈ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اور کچھ عرصہ تک جرمنی میں بھی رہ چکےتھے۔۔۔۔ انہوں نے مغربی ممالک کے بھی نوکر دیکھے تھے۔۔۔۔ نہایت چاق و چوبند۔۔۔۔ زندہ دل اور حاضر جواب ۔۔۔۔تیز جواب۔۔۔۔ ایک وافعہ پیرس کے ایک ہوٹل میں ناشتہ کررہے تھے۔۔۔۔ ویٹر سے کسی مشہور ہوٹل کے متعلق پوچھ بیٹھے۔۔۔۔ مسکرا کر بولا “ معاف کیجئےگا! آپ کا سوال انتہائی احمقانہ ہے“ ۔۔۔۔ خان بہادر صاحب کو فوراً خیال آگیا کہ انہیں یہ چیز پسند تھی۔ جہاں تک ان کا اور ان کے گھرانے کا تعلق تھا وہ سب قریب قریب مغربی تھے۔۔۔۔ مگر افسوس انہیں مغربی طرز کے نوکر نہ مل سکے۔ ہندوستان میں مغربی نوکر کا خیال احمقانہ نہیں بلکہ قطعی غیر مغربی تھا کیونکہ یہاں مغربی قسم کی چیز صرف کلکٹر یا کمشنری ہوسکتی ہے۔ لہذا وہ مغربی نہیں مغربی طرز کا نوکر چاہتے تھے۔ لیکن یہ چیز ناممکن تھی کیونکہ مغربی طرز کے لوگ “ نوکری“ کی بجائے کلرکی کے قائل ہیں۔ بہرحال ان کی یہ تمنا کبھی پوری ہوسکی۔۔۔۔غالباً وہ نصیرا سے بھی مغربی طرز کی بے تکلفی چاہتے تھے۔۔۔۔ اور نصیرا کو ڈر تھا کہ کہیں واقعی وہ کسی دن بے تکلفی پر آمادہ نہ ہوجائے ۔۔۔۔ اس وقت کی سردی اور خان بہادر صاحب کی نکتہ چینیوں نے اسے بہت برہم کردیا تھا ۔۔۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اس رائفل سے اپنا ہی قصہ پاک کرڈالے۔
خان بہادر صاحب کھانستے کھانستے اچانک رک گئے غالباً انہوں نے سفید کتے کو چہار دیواری پھلانگ کر آتے دیکھ لیا تھا۔۔۔۔نصیرا نے آہستہ سے رائفل سیدھی کی ۔۔۔۔نشانہ لیا ۔۔۔۔ اور فائر کی آواز کے ساتھ ہی کتے کی ہیبت ناک چیخ سنائی دی۔
“کیا ہوا؟“ خان بہادر چیخے۔۔۔
“ مار لیا“ نصیرا کی آواز میں بے شمار مسرتوں کی کپکپاہٹ تھی۔۔۔۔
خان بہادر صاحب نے برآمدے کی بجلی جلائی اور کمپاؤنڈ کی طرف لپکے۔۔۔۔ تڑپتے ہوئے کتے نے آخری جست لگائی اور منہ پھیلا کر دم توڑ دیا۔
“سالے نہیں تو“ خان بہادر صاحب نے کہا اور ٹارچ کی روشنی میں جھک کر گولی کا نشان دیکھنے لگا۔۔۔۔

[line]
کسی نے پھاٹک ہلایا۔۔۔۔
“ بی بی جی ہوں گی۔۔۔۔شاید سینما دیکھنے گئی تھیں“ نصیرا نے رائفل کی نالی سے کارتوس نکالتے ہوئے جواب دیا۔
“ ابے تو جاکر کھولا کیوں نہیں“۔ خان صاحب گرجے۔
پھاٹک کھلا۔۔۔۔خان بہادر صاحب کی صاحب زادی کسی مرد کے ساتھ کمپاؤنڈ میں داخل ہوئیں۔
“ دیکھا شمی ۔۔۔۔ آج مار ہی لیا اسے“۔ خان بہادر یہ کہتے ہوئے ادھر لپکے۔
“ اوہ ڈیڈی ! یہ ہیں مسٹر رشید ، مس فریدہ کے بھائی میرے کلاس فیلو“ شمی نے اجنبی کی طرف دیکھ کر کہا۔
نصیرا نے رائفل سیدھی کرلی۔۔۔۔اسے ایسا معلوم ہوا جیسے خان بہادر صاحب کہیں گے۔
“ابے مار“ ۔۔۔۔ مگر خان بہادر صاحب نے قدرے جھک کر ہاتھ ملاتے وقت صرف دانت نکال دیئے
 
Top