قمر جلالوی ایک جا رہنا نہیں لکھا میری تقدیر میں

سیما علی

لائبریرین
ایک جا رہنا نہیں لکھا میری تقدیر میں
آج گر صحرا میں ہوں کل خانۂ زنجیر میں

اقربا نا خوش وہ بزمِ دشمنِ بے پیر میں
موت ہی لکھی تھی کیا بیمار کی تقدیر میں

بات کر میری لحد پر غیر ہی سے بات کر
یہ سنا ہے پھول جھڑتے ہیں تری تقریر میں

سیکھ اب میری نظر سے حسن کی زیبائشیں
سینکڑوں رنگینیاں بھر دیں تری تصویر میں

پاسِ آدابِ اسیری تیرے دیوانے کو ہے
ورنہ یہ زنجیر کچھ زنجیر ہے زنجیر میں

ڈھونڈتا پھرتا ہوں ان کو وہ قمر ملتے نہیں
شام کی رنگینیوں میں، صبح کی تنویر میں
 
آخری تدوین:
Top