ایک تازہ غزل

سعید سعدی

محفلین
عشق میں کچھ بھی ہو سکتا ہے
یہ طوفان ڈبو سکتا ہے

دھندلا سکتی ہے منزل بھی
رستہ بھی تو کھو سکتا ہے

یادوں کی اک چادر اوڑھے
کوئی کیسے سو سکتا ہے

آج ملا تو پوچھ رہا تھا
کیا اب بھی کچھ ہو سکتا ہے

پھول جھڑیں جس کے ہونٹوں سے
وہ بھی خار چبھو سکتا ہے

اس دل کی تم وسعت دیکھو
کیا کیا درد سمو سکتا ہے

آنسو ایک ندامت والا
ہر لغزش کو دھو سکتا ہے

اس نے کن ُ کہنا ہے سعدی
سوچو کیا کیا ہو سکتا ہے

 

محمداحمد

لائبریرین
آج ملا تو پوچھ رہا تھا
کیا اب بھی کچھ ہو سکتا ہے

آنسو ایک ندامت والا
ہر لغزش کو دھو سکتا ہے

اس نے کن ُ کہنا ہے سعدی
سوچو کیا کیا ہو سکتا ہے


واہ! کیا کہنے!

داد قبول کیجے۔
 

سعید سعدی

محفلین
آج ملا تو پوچھ رہا تھا
کیا اب بھی کچھ ہو سکتا ہے

آنسو ایک ندامت والا
ہر لغزش کو دھو سکتا ہے

اس نے کن ُ کہنا ہے سعدی
سوچو کیا کیا ہو سکتا ہے


واہ! کیا کہنے!

داد قبول کیجے۔
بہت شکریہ بہت نوازش بھائی.. پسندیدگی کے لیے شکرگزار ہوں
 
Top