اسد اقبال،

  1. سعید سعدی

    ایک نئی غزل : ہیں محوِ حیرتِ دنیا دماغ کتنے ہی

    ہیں محوِ حیرتِ دنیا دماغ کتنے ہی ملا نہ تُو ملے تیرے سراغ کتنے ہی یہ سال کیسی ہواؤں کو ساتھ لایا ہے بجھا دیے ہیں پرانے چراغ کتنے ہی یہ کیا کہ روز نیا زخم مل رہا ہے ہمیں ابھی تو مٹنے نہ پائے تھے داغ کتنے ہی یہ ان کے لہجے کی تاثیر تھی کہ باتوں کی دکھا دیے ہیں ہمیں سبز باغ کتنے ہی ہے اب بھی دل...
  2. سعید سعدی

    غزل

    محبتوں کی کتاب ہے وہ مری وفا کا نصاب ہے وہ ہیں شب گزیدہ ہماری آنکھیں سنا ہے کہ ماہتاب ہے وہ گزر گیا ہے جو وقت اب تک پلٹ کے دیکھیں تو خواب ہے وہ نہیں ہے جو دسترس میں اپنی گمان ہے وہ سراب ہے وہ کسی نے پوچھا کہ زیست کیا ہے کہا کہ مثلِ حباب ہے وہ بھرا تھا ہم نے بھی دم کسی کا تبھی سے زیرِ عتاب...
  3. سعید سعدی

    ایک تازہ غزل

    عشق میں کچھ بھی ہو سکتا ہے یہ طوفان ڈبو سکتا ہے دھندلا سکتی ہے منزل بھی رستہ بھی تو کھو سکتا ہے یادوں کی اک چادر اوڑھے کوئی کیسے سو سکتا ہے آج ملا تو پوچھ رہا تھا کیا اب بھی کچھ ہو سکتا ہے پھول جھڑیں جس کے ہونٹوں سے وہ بھی خار چبھو سکتا ہے اس دل کی تم وسعت دیکھو کیا کیا درد سمو سکتا ہے...
  4. سعید سعدی

    ایک غزل

    ہم خموشی کو ہاں سمجھتے ہیں سب ہمیں خوش گماں سمجھتے ہیں خوش گمانی میں طاق ہیں ہم تو آپ کیوں بد گماں سمجھتے ہیں گو حقیقت میں بات کچھ بھی نہیں یہ مگر سب کہاں سمجھتے ہیں آئینہ ہم تو دیکھتے ہی نہیں خود کو اب تک جواں سمجھتے ہیں پیار سے بات کر کے دیکھ ذرا ہم یہی اک زباں سمجھتے ہیں...
  5. سعید سعدی

    طرحی غزل

    ہم نوا کی خبر نہیں ملتی گر ملے معتبر نہیں ملتی بخش دے نور ظلمتوں کو مری ایسی روشن سحر نہیں ملتی بادِ صرصر ہی بس نصیب میں ہے "اب نسیمِ سحر نہیں ملتی" زندگی کے سراب میں گم ہوں مجھ کو اپنی خبر نہیں ملتی ہیں سبھی خواہشات کے قیدی کوئی صورت دگر نہیں ملتی زندگی موت کے حصار میں ہے کوئی راہِ مفر...
  6. سعید سعدی

    غزل

    وحشتیں ہیں چار سو رقصاں ترے جانے کے بعد سُونی سُونی ہیں بھری گلیاں ترے جانے کے بعد کیا بتاؤں جاں کو میری کیسے کیسے روگ ہیں کس قدر ہے زندگی ویراں ترے جانے کے بعد چاندنی پھیکی پڑی ہے چاند بھی ہے دم بخود تھم گئی ہے گردشِ دوراں ترے جانے کے بعد ہم نے مانا دن غمِ دوراں میں کٹ ہی جائے گا کس طرح بیتے...
  7. سعید سعدی

    غزل

  8. سعید سعدی

    غزل

  9. سعید سعدی

    غزل

  10. سعید سعدی

    ایک غزل کے کچھ اشعار

    ترے وہ عہد و پیماں اور پھر ان سے مکر جانا تری لفاظیوں کو ہم نے پھر بھی معتبر جانا جہاں میں آج کب کوئی کسی کے ساتھ چلتا ہے چلا جو دو قدم ہمراہ ہم نے ہم سفر جانا تمہاری سادہ لوحی سے مجھے بس یہ شکایت ہے ملا جو راہ زن اسکو بھی تم نے راہبر جانا یہ ویرانی، ادھورے خواب ، ملبہ آرزوؤں کا دلِ برباد...
  11. سعید سعدی

    ایک غزل

    فلک پہ چاند جو روشن ہے یوں سحاب کے ساتھ یہ استعارہ ترے رخ کا ہے نقاب کے ساتھ فصیلِ جاں کے در و بام جو منور ہیں کسی کی یاد چمکتی ہے آب و تاب کے ساتھ مرے خلوص کی اس نے ذرا بھی قدر نہ کی ملا تھا آج بھی لیکن کچھ اجتناب کے ساتھ دلِ فگار کے جتنے نہاں تھے راز سبھی وہ آشکار ہوئے آنکھ کے چناب کے ساتھ...
  12. سعید سعدی

    طرحی غزل

    ہر ایک بات میں تیرا ہی تذکرہ نکلا ترا خیال مرے دل میں جا بجا نکلا کوئی فصیل بھی تو درمیاں نہ تھی اپنے مگر وہ فاصلہ صدیوں کا فاصلہ نکلا مرے تمام حوالے بھی اجنبی نکلے مرے مزاج کا اک تو ہی آشنا نکلا تمام عمر گزاری ہے رہ نوردی میں جو راستہ بھی ملا ایک دائرہ نکلا ہوئی نہ جیت کسی کی نہ کوئی مات ہوئی...
  13. سعید سعدی

    طرحی غزل

    ہر ایک بات میں تیرا ہی تذکرہ نکلا ترا خیال مرے دل میں جا بجا نکلا کوئی فصیل بھی تو درمیاں نہ تھی اپنے مگر وہ فاصلہ صدیوں کا فاصلہ نکلا مرے تمام حوالے بھی اجنبی نکلے مرے مزاج کا اک تو ہی آشنا نکلا تمام عمر گزاری ہے رہ نوردی میں جو راستہ بھی ملا ایک دائرہ نکلا ہوئی نہ جیت کسی کی نہ کوئی مات ہوئی...
  14. سعید سعدی

    ایک غزل

    بہاروں کے موسم کو کیا ہو گیا ہے خزاں کا چلن عام سا ہو گیا ہے کہیں پر زمیں خون میں تر بتر ہے کہیں سرخ یہ آسماں ہو گیا ہے ہر اک سمت ہے ظلمتوں کا بسیرا اجالا تو جیسے خفا ہو گیا ہے سلگتی ہوئی نفرتوں سے بھرے دل محبت کا جذبہ ہوا ہو گیا ہے مفادات اور مصلحت ، خود پرستی فسوں کیسا جگ میں بپا ہو...
  15. ابو المیزاب اویس

    وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک ۔ شاعر اسد اقبال

    ہے یہ فرمانِ خُدا جس کی ہے عالَم میں دھمَک یہ وہ آیت ہے جسے پڑھتے ہیں سب حور و ملَک وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک میری میّت کو نہ تم باغ و چمن میں رکھنا خاکِ طیبہ ہی فقط میرے کفن میں رکھنا تاکہ ملتی رہے جنت میں بھی طیبہ کی مہک وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک چُوم کے کہتے تھے دہلیزِ نبوّت کو بلال تیرے ٹکڑوں...
Top