ایک نئی غزل : ہیں محوِ حیرتِ دنیا دماغ کتنے ہی

سعید سعدی

محفلین
ہیں محوِ حیرتِ دنیا دماغ کتنے ہی
ملا نہ تُو ملے تیرے سراغ کتنے ہی

یہ سال کیسی ہواؤں کو ساتھ لایا ہے
بجھا دیے ہیں پرانے چراغ کتنے ہی

یہ کیا کہ روز نیا زخم مل رہا ہے ہمیں
ابھی تو مٹنے نہ پائے تھے داغ کتنے ہی

یہ ان کے لہجے کی تاثیر تھی کہ باتوں کی
دکھا دیے ہیں ہمیں سبز باغ کتنے ہی

ہے اب بھی دل مرا آمادہءِ محبت کیوں
ملے ہیں گرچہ محبت میں داغ کتنے ہی

یہی وہ غم تھا جو اقبال کو ستاتا رہا
ملا نہیں انہیں شاہیں تھے زاغ کتنے ہی

بنا پلائے ہی رخصت کیا ہمیں سعدی
وہ بھر رہا تھا اگرچہ ایاغ کتنے ہی

سعید سعدی

 
Top