"ایک تاریخ ساز لمحہ" یعنی امریکہ و چین کی "واٹ اباوٹری"

الف نظامی

لائبریرین
"ایک تاریخ ساز لمحہ"
تقریبا دو ہفتے قبل امریکی ریاست الاسکا میں ایک تاریخ رقم ہوئی ہے۔ چینی سفارتکاروں نے عالمی میڈیا کے سامنے امریکی وزیر خارجہ اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کی وہ مٹی پلید کی ہے کہ اس کی بازگشت عالمی منظر نامے پر اب تک گونج رہی ہے۔ پس منظر اس واقعے کا یہ ہے کہ امریکہ کی عالمی ساکھ پچھلے چار سال میں اس بری طرح متاثر ہوئی ہے کہ اس کا ایک زوال پذیر سپر طاقت ہونا بالکل واضح نظر آنے لگا ہے۔ اسے خارجہ ہی نہیں داخلی محاذ پر بھی سنگین بحران کا سامنا ہے۔ جوبائیڈن اس دعوے کے ساتھ وائٹ ہاؤس پہنچا ہے کہ میرا جیتنا علمی منظر نامے پر "امریکہ کی واپسی" ہے۔ اس نے اپنی یہ واپسی دنیا کو دکھانے کے لئے الاسکا میں ایک ڈرامہ رچایا۔ چین کے ساتھ باہمی معاملات پر ایک سمٹ منعقد کی گئی جس میں امریکہ کی جانب سے اس کا وزیر خارجہ اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر شریک ہوئے ہے۔ جبکہ چائنا کی جانب سے چینی وزیر خارجہ اور چین کے خارجہ امور کمیشن کے ڈائریکٹر شریک ہوئے۔ سمٹ کا آغاز کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر نے چین کو کٹہرے میں کھڑا کرکے عالمی میڈیا کے سامنے اس کے خلاف انسانی حقوق کے حوالے سے فرد جرم پڑھنی شروع کردی۔ جواب میں چینی فارن کمیشن کے ڈائریکٹر ینگ جیچی نے ان پر وہ چڑھائی کردی کہ اوسان خطاء کردئے۔ انہوں نے کہا​
"ہمارا تو یہ خیال تھا کہ گفتگو سفارتی اداب کے مطابق ہوگی۔ لیکن آپ لوگ تو اپنی کسی برتری کے زعم میں نظر آرہے ہیں۔ یہ جس لہجے میں آج آپ لوگوں نے باتیں کی ہیں اس لہجے میں ہم سےبات کرنے کی اوقات تو آپ کی بیس تیس سال قبل بھی نہ تھی۔ ہم آپ کسی بالاتری کو تسلیم نہیں کرتے۔ بات ہوگی تو برابری کی سطح پر ہوگی"

اس جوابی گفتگو کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق میڈیا نے ہال سے نکلنا تھا چنانچہ جب وہ روانہ ہونے لگا تو امریکی وزیرخارجہ نے انہیں آوازیں دے کر رکوا لیا کہ میرا جواب الجواب سن کر جاؤ۔
میڈیا رک گیا اور یہ جواب الجواب دے چکے تو میڈیا سے کہا کہ اب آپ لوگ نکلو۔
اس پر چینی سفارتکار نے کہا کہ یہ نہیں جا سکتے۔ انہیں اب میرا جواب بھی سننا ہوگا۔ پوسٹ میں شامل ویڈیو اس لمحے کی ہے جب امریکہ ٹیم میڈیا کو نکلنے کا کہہ رہی ہے اور چائنیز سفارتکار ینگ جیچی میڈیا کو جانے سے روکتے ہوئے امریکی ٹیم سے کہہ رہے ہیں
"آپ لوگ میڈیا کی موجودگی سے ڈر کیوں رہے ہیں ؟ انہیں نکال کیوں رہے ہیں ؟ کیا یہ ہے آپ کی جمہوریت ؟"
خلاصہ یہ کہ میڈیا کو رکنا پڑا اور چینی سفارتکار کی یہ تاریخی جھاڑ کیمروں نے ممحفوظ کرلی جس میں انہوں نے کہا
"آپ ہمارے انسانی حقوق ریکارڈ کی بات کس طرح کر سکتے ہیں ؟ آپ صدیوں سے سیاہ فاموں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ آپ کے ملک میں بلیک لائیو میٹر جیسی تحریک چل رہی ہے۔ امریکی سڑکوں پر کسی کی جان مال محفوظ نہیں۔ آئے روز قتل عام کے واقعات ہورہے ہیں جن میں نسلی و مذہبی اقلیتوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ پانچ لاکھ انسانی جانیں کرونا میں آپ کے ہاں ضائع ہوچکی ہیں۔ آپ بات بات پر عالمی رائے عامہ کی بات کرتے ہیں۔ ہم آپ کو عالمی رائے عامہ کا نمائندہ تسلیم ہی نہیں کرتے۔ آپ کی کل حیثیت امریکہ نامی ایک ملک کی ہے۔ اپنی اسی حیثیت میں رہ کر ہم سے بات کیا کریں"
یوں وہ ڈرامہ جو دنیا کو یہ دکھانے کے لئے سٹیج کیا گیا تھا کہ امریکہ کی بطور چوہدری واپسی ہو رہی ہے۔ الٹا بائیڈن انتظامیہ کے عالمی خفت کا باعث بن گیا۔ اور پوری دنیا میں امریکہ کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ یہ پورا معاملہ اگر دیکھنا چاہیں تو یوٹیوب بھرا پڑا ہے۔ ایک اور تماشا یہ لگا کہ سی آئی اے کے لئے کام کی شہرت رکھنے والی سی این این رپورٹر کرسٹینا امان پور نے چینی سفیر کا انٹرویو کرتے ہوئے ان سے کہدیا
"میں نے شنکیانک کے حوالے سے "انویسٹی گیٹیورپورٹ" تیار کی ہے۔۔۔۔۔۔۔"
چینی سفیر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے جواب دیا
"آپ وہی ہیں نا جس نے صدام حسین کے ویپن آف ماس ڈسٹریکشن کی بھی انویسٹی گیٹیو رپورٹ تیار کی تھی ؟"
1f602.png
1f602.png
1f602.png


 

حسرت جاوید

محفلین
میرے خیال سے خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ چائنہ امریکہ سے بھی زیادہ بدتر ہو گا جب عالمی طاقت کا پیراڈائم مکمل چائنہ کے حق میں شفٹ ہو جائے گا۔
 

زیک

مسافر
میرے خیال سے خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ چائنہ امریکہ سے بھی زیادہ بدتر ہو گا جب عالمی طاقت کا پیراڈائم مکمل چائنہ کے حق میں شفٹ ہو جائے گا۔
سادہ سی بات ہے۔ امریکہ سے سالہا سال سے امداد لینے کے باوجود پاکستانی حکومت و سیاستدان امریکہ پر تنقید کرتے آئے ہیں لیکن چین کے خلاف ایک لفظ نہیں بول سکتے
 

حسرت جاوید

محفلین
سادہ سی بات ہے۔ امریکہ سے سالہا سال سے امداد لینے کے باوجود پاکستانی حکومت و سیاستدان امریکہ پر تنقید کرتے آئے ہیں لیکن چین کے خلاف ایک لفظ نہیں بول سکتے
ایغور معاملے پر پاکستان کا سٹیٹ لیول پر ردِ عمل اور مذہبی طبقے کی اس پر ڈیفننگ سائلنس اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ چائنہ کے سامنے ہماری اصل اوقات کیا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پاکستان کی مرضی آئیڈیلزم پر چلے یا پریگمیٹزم پر عمل کرے۔
ایک بار امریکہ کے کہے پر ہم نے ملت کا درد دکھ لیا اور افغانستان جہاد میں گھسے پھر جو ہمارا حشر آج تک ہو رہا ہے اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس بار امریکہ کو جو چین کے مسلمانوں کا درد اٹھا ہے اس پر کچھ بھی نہ کیا جائے۔
جا امریکہ تجھے امت مسلمہ کا زیادہ درد ہے تو خود چین سے معاملہ کر !
اب بھی ہم امریکہ کی منافقت نہیں سمجھیں تو اوپڑ دی اینکس دی گڑ گڑ ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
آئیڈیلزم کا درس دینے والا پریگمیٹک امریکہ بہادر
سابق امریکی وزیر خارجہ "امریکی ایکسپیرمنٹس" کا تعارف کرا رہے ہیں۔ جو دوست انگریزی نہیں سمجھتے ان کے لئے عرض ہے کہ موصوف امریکی خارجہ پالیسی کے بنیادی ستون متعارف کراتے ہوئے فرما رہے ہیں
"میں سی آئی اے کا ڈائریکٹر تھا۔ ہم نے جھوٹ بولا، ہم نے دھوکے دئے، اور ہم نے چوریاں کیں۔ ہم نے اس کے لئے پورے پورے ٹریننگ کورس بنا رکھے ہیں"
جب ہم خارجہ پالیسی کے پس منظرمیں امریکی الزامات کے حوالے سے کبھی کہتے ہیں امریکہ بکواس کرتا ہے تو پاکستانی "دانشور" ہمیں جھٹلاتے ہوئے اپنے اس ناجائز باپ کا دفاع شروع کر دیتا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
میرے خیال سے خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ چائنہ امریکہ سے بھی زیادہ بدتر ہو گا جب عالمی طاقت کا پیراڈائم مکمل چائنہ کے حق میں شفٹ ہو جائے گا۔
لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۖ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ
 

الف نظامی

لائبریرین
رعایت اللہ فاروقی لکھتے ہیں:
سیبل ایڈمنڈ ایف بی آئی کی سابق اہلکار ہیں۔ اور امریکہ کے رازوں سے پردہ اٹھانے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ ان کا تقریبا ایک گھنٹے پر مشتمل ایک انٹرویو یوٹیوب پر ہاتھ لگا ہے جو یوٹیوب پر 22 جنوری 2015ء کی تاریخ کو اپلوڈ ہوا ہے۔ اس انٹرویو میں وہ سنکیانک کے حوالے امریکہ اور ترکی کا گٹھ جوڑ بے نقاب کر رہی ہیں۔ آج سے چھ سال قبل وہ کہہ رہی ہیں کہ ایغور لوگوں کو براستہ افغانستان ترکی سمگل کیا جا رہا ہے اور وہاں انہیں عسکری ٹریننگ دی جا رہی ہے۔ اور انہیں اسی روٹ سے واپس بھیجا جائے گا۔ وہ صاف کہہ رہی ہیں کہ چار یا پانچ سال بعد یعنی 2020 کے آس پاس امریکہ ایغور مسئلے کو اپنے اتحادیوں کی مدد سے شدت کے ساتھ اٹھانے کی منصوبہ بندی کرچکا ہے۔ اور ان کا پلان اس علاقے کو دوسرا تائیوان بنانے کا ہے۔ وہ یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ اس مقصد کے لئے امریکی ایک بندہ بھی سنکیانک سے امریکہ پہنچا چکے ہیں اور اس کے بارے میں فیصلہ ہوچکا ہے کہ یہ اس نئے تائیوان "ایسٹ ترکستان" کا صدر ہوگا۔ یہ کیوں کیا جا رہا ہے یہ بھی بتایا جا رہا ہے اور اس میں گوادر کا بھی ذکر موجود ہے۔ یہاں یہ بہت ہی اہم بات ذہن میں رہے کہ یہ انٹرویو 2015ء کا ہے۔ اس کے بعد ترکی میں 2017ء والی بغاوت کے نتیجے میں اب خود ترکی اور امریکہ میں ہی کشمکش چل رہی ہے۔ اور اب ترکی روس اور چائنا کے قریب چلا گیا ہے۔ انٹرویو کا چائنا سے متعلق حصہ پوسٹ میں پیش خدمت ہے۔ اگر آپ پورا انٹرویو دیکھنا چاہتے ہیں جس میں باقی دنیا سے متعلق بھی بہت کچھ ہے تو یوٹیوب کا لنک کمنٹس میں حاضر ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
امریکہ سے غلامی کا مکمل خاتمہ کب ہوا ؟
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

ایک عجیب بلکہ احمقانہ حد تک عجیب چیز وقتا فوقتا یہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ کسی ملک سے متعلق ثابت شدہ اور عالمی سطح پر مسلمہ حقیقت کو یہ کہہ کر جھٹلا دیا جاتا ہے
"میں اس ملک کئی سال رہا ہوں، میں نے وہاں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی لھذا آپ غلط کہہ رہے ہیں"
مکرر عرض کر رہا ہوں کہ یہ اور اس سے ملتا جلتا ارشاد ایسے معاملات میں فرمایا جاتا ہے جو عالمی سطح پر مسلمہ حقیقت ہوتے ہیں۔ یہ دعوی ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص خود کو محض اس بنیاد پر "اسلام کا عالم" قرار دیدے کہ وہ چالیس سال مکہ میں رہائش پذیر رہا ہے۔ کسی ملک میں رہنے والے اس ملک کے بارے میں بعض اہم ترین معلومات بھی کس حد تک رکھتے ہیں اس کا اندازہ تین باتوں سے لگا لیجئے۔ پہلی یہ کہ پاکستان کی خارجہ یا عسکری تاریخ کے کسی گوشے سے جب میں پردہ ہٹاتا ہوں تو قارئین کی اکثریت چونکتی ہے یا نہیں ؟ اور چونک کر یہ کہتی ہے یا نہیں
"مجھے ان حقائق کا پہلی بار پتہ چلا"
یہ بات کہنے والے وہ ہوتے ہیں جو اپنے اس وطن میں چالیس چالیس سال سے رہ رہے ہوتے ہیں۔ سو محض کسی جگہ رہنے سے اگر سارے حقائق معلوم ہوجاتے ہوں تو پاکستان کے ہر شہری کو اپنے وطن کی ہر بات معلوم ہوتی۔ سو حقائق معلوم کرنے کا ذریعہ علم ہے نہ کہ رہائش۔ دوسری بات یہ کہ سعودی عرب میں 1977ء سے رہنے والے ایک حاجی صاحب نے بالمشافہ ملاقات میں مجھ سے پوچھا
"فاروقی صاحب ! پہلے سعودی بادشاہ عبد العزیز نے ریاست کا نام اپنے بیٹے سعود بن عبدالعزیز کے نام پر کیوں رکھا ؟ اور سعودی عرب کے شاہی خاندان کو "آل عبدالعزیز" کے بجائے آل سعود کیوں کہا جاتا ہے ؟"
حاجی صاحب نے یہ سوالات اس لئے پوچھے کہ خود سعودی عرب میں رہنے والے پاکستانی بھی سعودی تاریخ کا آغاز شاہ عبدالعزیز اور اس کے بیٹوں کی "جد و جہد" سے شروع کرتے ہیں اور کنگ سلمان تک آجاتے ہیں۔ اور وہ شاہ عبدالعزیز کو ہی سعودی سلطنت کا بانی سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سلطنت پہلی بار 1744ء میں محمد بن سعود نے قائم کی تھی اور اس نے اس کا نام اپنے باپ سعود بن محمد کے نام پر رکھا تھا۔ 1726ء میں فوت ہونے والے اسی سعود بن محمد کی نسبت سے سعودی شاہی خاندان کو "آل سعود" کہا جاتا ہے۔
اسی سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ امریکہ سے آنے والے "لنڈابازار" کے ایک رکن سے کسی دوست کے گھر ملاقات کی صورت پیش آیا۔ امریکہ کی حمد و ثنا کے دوران موصوف نے فرما دیا
"1865ء میں امریکہ سے غلامی کا مکمل خاتمہ ہوگیا"
عرض کیا
"1865ء میں تیرھویں آئینی ترمیم کانگریس سےضرور منظور ہوئی ہے مگر امریکہ سے قانونی طور پر غلامی کا "مکمل خاتمہ" بہت ہی بعد کی بات ہے"
جھٹ سے بولے
"امریکہ میں میں رہتا ہوں یا آپ ؟ میں کہہ رہا ہوں نا کہ وہاں 1865ء میں غلامی کا مکمل خاتمہ ہوگیا تھا"
صد شکر کہ لنڈے نے یہ جارحانہ اسلوب انٹرنیت کے تیز رفتار دور میں اختیار کیا تھا۔ یہی کوئی چارسال قبل کی بات ہے۔ چنانچہ فورا موبائل پر انہیں اصل حقیقت کے درشن کرا دیئے۔ اس لنڈے کو دکھائی گئی اصل حقیقت اس لئے معلوم نہ تھی خود امریکہ بھی اپنے مین سٹریم میڈیا میں اس حقیقت کو چھپاتا آیا ہے۔ اور دنیا میں مشہور یہی کروا رکھا ہے کہ امریکہ سے غلامی کا مکمل خاتمہ انیسویں صدی میں ہی ہو گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں آئینی ترمیم توثیق کے لئے اس کی ریاستی اسمبلیوں میں جاتی ہے۔ جب دو تہائی ریاستوں کی اسمبلیاں اس کی توثیق کردیں تو تب آئینی ترمیم آئین کا حصہ بنتی ہے۔ لیکن اس دوران اگر کسی ریاست نے اس ترمیم کی توثیق نہ کی ہو تو اس عرصے میں یہ ترمیم اس پر لاگو نہیں ہوتی۔ چنانچہ 1865ء میں کانگریس سے منطور ہونے والی تیرھویں ترمیم کی عام لوگوں کی نظر سے ایک پوشیدہ حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکی ریاست میسسپی کی اسمبلی نے اس ترمیم کی توثیق 1995ء میں کی ہے۔ پھر یہ کہ توثیق کرنے کے بعد بھی اس کا سرٹیفکیٹ اس نے فوری جاری نہیں کیا۔ اور قانونی طور پر توثیق تب ہی تسلیم ہوتی ہے جب توثیق کا سرٹیفکیٹ جاری ہوجائے۔ یہ سرٹیفکیٹ میسسپی نے 7 فروری 2013ء کو جاری کیا ہے۔ یوں قانونی طور پر امریکہ سے غلامی کا مکمل خاتمہ 7 فروری 2013ء کو ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب 2008ء کے بعد سے امریکہ دنیا کو یہ باور کرا رہا تھا کہ دیکھو غلامی کے" خاتمے" کے بعد اب ہم اس دور میں بھی پہنچ گئے ہیں جہاں ایک سیاہ فام امریکہ کا صدر بن گیا ہے تو ان سالوں میں بھی امریکہ کے ایک حصے میں غلامی قانونی طور پر جائز تھی۔
 

زیک

مسافر
امریکہ سے غلامی کا مکمل خاتمہ کب ہوا ؟
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

ایک عجیب بلکہ احمقانہ حد تک عجیب چیز وقتا فوقتا یہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ کسی ملک سے متعلق ثابت شدہ اور عالمی سطح پر مسلمہ حقیقت کو یہ کہہ کر جھٹلا دیا جاتا ہے
"میں اس ملک کئی سال رہا ہوں، میں نے وہاں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی لھذا آپ غلط کہہ رہے ہیں"
مکرر عرض کر رہا ہوں کہ یہ اور اس سے ملتا جلتا ارشاد ایسے معاملات میں فرمایا جاتا ہے جو عالمی سطح پر مسلمہ حقیقت ہوتے ہیں۔ یہ دعوی ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص خود کو محض اس بنیاد پر "اسلام کا عالم" قرار دیدے کہ وہ چالیس سال مکہ میں رہائش پذیر رہا ہے۔ کسی ملک میں رہنے والے اس ملک کے بارے میں بعض اہم ترین معلومات بھی کس حد تک رکھتے ہیں اس کا اندازہ تین باتوں سے لگا لیجئے۔ پہلی یہ کہ پاکستان کی خارجہ یا عسکری تاریخ کے کسی گوشے سے جب میں پردہ ہٹاتا ہوں تو قارئین کی اکثریت چونکتی ہے یا نہیں ؟ اور چونک کر یہ کہتی ہے یا نہیں
"مجھے ان حقائق کا پہلی بار پتہ چلا"
یہ بات کہنے والے وہ ہوتے ہیں جو اپنے اس وطن میں چالیس چالیس سال سے رہ رہے ہوتے ہیں۔ سو محض کسی جگہ رہنے سے اگر سارے حقائق معلوم ہوجاتے ہوں تو پاکستان کے ہر شہری کو اپنے وطن کی ہر بات معلوم ہوتی۔ سو حقائق معلوم کرنے کا ذریعہ علم ہے نہ کہ رہائش۔ دوسری بات یہ کہ سعودی عرب میں 1977ء سے رہنے والے ایک حاجی صاحب نے بالمشافہ ملاقات میں مجھ سے پوچھا
"فاروقی صاحب ! پہلے سعودی بادشاہ عبد العزیز نے ریاست کا نام اپنے بیٹے سعود بن عبدالعزیز کے نام پر کیوں رکھا ؟ اور سعودی عرب کے شاہی خاندان کو "آل عبدالعزیز" کے بجائے آل سعود کیوں کہا جاتا ہے ؟"
حاجی صاحب نے یہ سوالات اس لئے پوچھے کہ خود سعودی عرب میں رہنے والے پاکستانی بھی سعودی تاریخ کا آغاز شاہ عبدالعزیز اور اس کے بیٹوں کی "جد و جہد" سے شروع کرتے ہیں اور کنگ سلمان تک آجاتے ہیں۔ اور وہ شاہ عبدالعزیز کو ہی سعودی سلطنت کا بانی سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سلطنت پہلی بار 1744ء میں محمد بن سعود نے قائم کی تھی اور اس نے اس کا نام اپنے باپ سعود بن محمد کے نام پر رکھا تھا۔ 1726ء میں فوت ہونے والے اسی سعود بن محمد کی نسبت سے سعودی شاہی خاندان کو "آل سعود" کہا جاتا ہے۔
اسی سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ امریکہ سے آنے والے "لنڈابازار" کے ایک رکن سے کسی دوست کے گھر ملاقات کی صورت پیش آیا۔ امریکہ کی حمد و ثنا کے دوران موصوف نے فرما دیا
"1865ء میں امریکہ سے غلامی کا مکمل خاتمہ ہوگیا"
عرض کیا
"1865ء میں تیرھویں آئینی ترمیم کانگریس سےضرور منظور ہوئی ہے مگر امریکہ سے قانونی طور پر غلامی کا "مکمل خاتمہ" بہت ہی بعد کی بات ہے"
جھٹ سے بولے
"امریکہ میں میں رہتا ہوں یا آپ ؟ میں کہہ رہا ہوں نا کہ وہاں 1865ء میں غلامی کا مکمل خاتمہ ہوگیا تھا"
صد شکر کہ لنڈے نے یہ جارحانہ اسلوب انٹرنیت کے تیز رفتار دور میں اختیار کیا تھا۔ یہی کوئی چارسال قبل کی بات ہے۔ چنانچہ فورا موبائل پر انہیں اصل حقیقت کے درشن کرا دیئے۔ اس لنڈے کو دکھائی گئی اصل حقیقت اس لئے معلوم نہ تھی خود امریکہ بھی اپنے مین سٹریم میڈیا میں اس حقیقت کو چھپاتا آیا ہے۔ اور دنیا میں مشہور یہی کروا رکھا ہے کہ امریکہ سے غلامی کا مکمل خاتمہ انیسویں صدی میں ہی ہو گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں آئینی ترمیم توثیق کے لئے اس کی ریاستی اسمبلیوں میں جاتی ہے۔ جب دو تہائی ریاستوں کی اسمبلیاں اس کی توثیق کردیں تو تب آئینی ترمیم آئین کا حصہ بنتی ہے۔ لیکن اس دوران اگر کسی ریاست نے اس ترمیم کی توثیق نہ کی ہو تو اس عرصے میں یہ ترمیم اس پر لاگو نہیں ہوتی۔ چنانچہ 1865ء میں کانگریس سے منطور ہونے والی تیرھویں ترمیم کی عام لوگوں کی نظر سے ایک پوشیدہ حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکی ریاست میسسپی کی اسمبلی نے اس ترمیم کی توثیق 1995ء میں کی ہے۔ پھر یہ کہ توثیق کرنے کے بعد بھی اس کا سرٹیفکیٹ اس نے فوری جاری نہیں کیا۔ اور قانونی طور پر توثیق تب ہی تسلیم ہوتی ہے جب توثیق کا سرٹیفکیٹ جاری ہوجائے۔ یہ سرٹیفکیٹ میسسپی نے 7 فروری 2013ء کو جاری کیا ہے۔ یوں قانونی طور پر امریکہ سے غلامی کا مکمل خاتمہ 7 فروری 2013ء کو ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب 2008ء کے بعد سے امریکہ دنیا کو یہ باور کرا رہا تھا کہ دیکھو غلامی کے" خاتمے" کے بعد اب ہم اس دور میں بھی پہنچ گئے ہیں جہاں ایک سیاہ فام امریکہ کا صدر بن گیا ہے تو ان سالوں میں بھی امریکہ کے ایک حصے میں غلامی قانونی طور پر جائز تھی۔
جہالت کی بھی حد ہوتی ہے۔ آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی نہیں بلکہ تین چوتھائی ریاستوں سے توثیق لازمی ہوتی ہے۔ 1864 میں تیرہویں ترمیم سینیٹ نے منظور کی۔ جنوری 1865 میں ہاؤس نے۔ اس وقت امریکہ میں 36 ریاستیں تھیں۔ ستائیسویں ریاست جارجیا نے اس ترمیم کی توثیق دسمبر 1865 میں کر دی تھی۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
جہالت کی بھی حد ہوتی ہے۔ آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی نہیں بلکہ تین چوتھائی ریاستوں سے توثیق لازمی ہوتی پے۔ 1864 میں تیرہویں ترمیم سینیٹ نے منظور کی۔ جنوری 1865 میں ہاؤس نے۔ اس وقت امریکہ میں 36 ریاستیں تھیں۔ ستائیسویں ریاست جارجیا نے اس ترمیم کی توثیق دسمبر 1865 میں کر دی تھی۔
وہ آئینی ترمیم جس کے ساری ریاست پر لاگو ہونے کے لیے سات فروری 2013 کا انتظار کیا گیا۔
 

زیک

مسافر
وہ آئینی ترمیم جس کے ساری ریاست پر لاگو ہونے کے لیے سات فروری 2013 کا انتظار کیا گیا۔
جاہل کو بات سمجھائی بھی جائے تو وہ سمجھ نہیں پاتا۔ یہی جہالت اور لاعلمی کا فرق ہے۔

آئینی ترمیم کے تمام ملک اور سب ریاستوں پر لاگو ہونے کے لئے ہر ریاست کا اسے پاس کرنا ضروری نہیں۔ مسیسپی کا اسے پاس کرنا محض symbolic تھا کہ ان 36 ریاستوں میں سے وہ واحد تھی جس نے اس ترمیم کی توثیق نہ کی تھی
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
جاہل کو بات سمجھائی بھی جائے تو وہ سمجھ نہیں پاتا۔ یہی جہالت اور لاعلمی کا فرق ہے۔

آئینی ترمیم کے تمام ملک اور سب ریاستوں پر لاگو ہونے کے لئے ہر ریاست کا اسے پاس کرنا ضروری نہیں۔ مسیسپی کا اسے پاس کرنا محض symbolic تھا کہ ان 36 ریاستوں میں سے وہ واحد تھی جس نے اسُ ترمیم کی توثیق نہ کی تھی
ترمیم کی توثیق 2013 میں ہوئی یہ تو ایک تاریخی بات ہے اس بات کے دہرانے پر غصہ نہیں کرنا چاہیے
اتنا شدت پسند ہونے کی کیا ضرورت ہے کہ نیم کالنگ یا لیبلنگ کی ضرورت پڑے۔ یا کمیونیکیشن سٹائل ایسا ہے کہ خود کو کسی لحاظ سے برتر سمجھ رہے ہیں؟
 

الف نظامی

لائبریرین

ہمارے ہاں غیر ملکی میڈیا کے حوالے سے چلن یہ ہے کہ اگر امریکہ یا مغرب میں کوئی بڑا واقعہ ہو تو سی این این، بی بی اور الجزیرہ وغیرہ دیکھ لئے۔ واقعہ گزر جائے تو اگلی بار اب یہ چینلز تب دیکھے جاتے ہیں جب اگلا بڑا واقعہ رونما ہوجائے۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال انڈین و عرب میڈیا کے حوالے سے بھی ہے۔ پچھلا سال امریکی انتخابات کا سال تھا۔ یہ انتخابات ہمارے حوالے سے بھی خصوصی اہمیت رکھتے تھے۔اور یہ اہمیت اس لحاظ سے تھی کہ مارشل لاؤں سے چشم پوشی یا پھر اس کی کھل کر عملا حمایت امریکہ کی ریپبلکن پارٹی ہی کیا کرتی ہے۔
ڈیموکریٹس ہمیشہ مارشل لاء کے حریف رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ہمیشہ مارشل لاء یا فوجی عمل دخل والی حکمرانی کا آغاز تب ہوتا ہے جب امریکہ میں ڈیموکریٹ پارٹی کا صدر اپنی دوسری ٹرم پوری کرنے والا ہوتا ہے۔ اب چونکہ یہ وہاں کی طے شدہ روایت ہے کہ دو ٹرم پوری کرنے والے صدر کے بعد مخالف پارٹی ہی اقتدار میں آتی ہے سو ہمارے ہاں ڈیموکریٹس کی دوسری ٹرم کے آخری دو سالوں میں اس خیال کے ساتھ جمہوریت کا بوریا گول کرنے کی تیاری شروع کردی جاتی ہے کہ اب ریپبلکنز کے دور میں یہاں ہماری باری ہوگی۔
اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں مارشل لاء ہمیشہ آٹھ سے دس سال ہی چلتا ہے۔ ہمارے ہاں آج کل جو سیٹ اپ چل رہا ہے اس کے حوالے سے یہ بات کوئی سربستہ راز نہیں کہ تشکیل ایک ”دس سالہ پروگرام” ہی دیا گیا ہے۔ اور یہ پلان ٹرمپ کی صدارت کی دو ٹرمز پیش نظر رکھ کر ہی ترتیب دیا گیا تھا۔ یوں گویا پچھلے سال والے امریکی انتخابات ہمارے لئے اس لحاظ سے بہت اہم تھے کہ اس کے نتائج پر خود ہمارے ہاں کے دس سالہ منصوبے کا انحصار تھا۔چنانچہ اکتوبر سے ہی روز پابندی کے ساتھ امریکی میڈیا دیکھنا شروع کردیا۔
صرف نیوز ہی نہیں بلکہ ٹاک شو بھی پوری پابندی کے ساتھ دیکھے۔ خیال یہ تھا کہ انتخابات کے نتائج آنے تک یہ سلسلہ پوری پابندی سے جاری رکھا جائے گا۔ مگر جو تماشا وہاں انتخابات کے بعد شروع ہوا اس نے امریکی نیوز چینلز سے انتخابات کے بعد کے مرحلے میں بھی چپکائے رکھا۔کامل پابندی کے ساتھ روز گھنٹوں امریکی میڈیا دیکھنے سے امریکی سیاسی نظام سے متعلق کچھ دلچسپ تجربات حاصل ہوئے۔
پہلا تجربہ تو یہ حاصل ہوا کہ ہمارے ہاں دیسی لبرلز اس نظام سے کے حوالے سے جو چورن بیچتے ہیں وہ اسی طرح کے مبالغے پر مبنی ہے جس طرح کا مبالغہ ہمارے ہاں لانگ روٹ کی بسوں میں چورن بیچنے والے اپنے چورن سے متعلق کرتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ ہمارا دیسی لبرل ہمیں بتاتا رہا ہے کہ سیاست میں مذہب کا کارڈ اور نسلی امتیاز بس ہمارے ہاں ہی ہے۔ امریکہ اور مغرب میں ایسا کچھ نہیں۔ جبکہ امریکی سیاسی نظام میں مذہب کا کارڈ یوں موجود ہے کہ سپریم کورٹ کے بینچز تک میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ بینچ پر لبرل جج کتنے ہیں اور کنزرویٹو کتنے؟یہ کنزرویٹو کون ہیں؟ امریکی میڈیا صاف بتاتا ہے کہ ان کے فیصلوں پر مذہب کی چھاپ ہوتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے لبرل میڈیا کا ایک بڑا اعتراض یہی ہے کہ اس نے اپنے دور صدارت میں تین کنزرویٹو ججز کا تقرر کراکر سپریم کورٹ میں لبرل ججز کی اکثریت کو ختم کردیا ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کا نیشنلزم اور وائٹ سپرمیسی اپروچ نسلی تعصب پر مبنی سیاست نہیں تو اور کیا ہے؟یہ کوئی معمولی تعصب نہیں، اس تعصب نے امریکہ میں جمہوریت کو ایسے سنگین خطرات لاحق کردئے ہیں کہ نوم چومسکی اور فرانسس فوکویاما جیسے بڑے مفکر بھی مایوس ہیں۔
دوسرا تجربہ یہ حاصل ہوا کہ اداروں کے احترام اور پارلیمنٹ کی عظمت جیسا دل خوش کن تصور وہاں بھی دھول ہی چاٹ رہا ہے۔ ٹرمپ کی حالیہ ”پرامن سیاسی جدوجہد” نے جو حشر وہاں کیپٹل ہل کا کیا ہے اسے اب صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ ایوان کے دروزے کھڑکیاں توڑ دی گئیں۔ سپیکرآفس اور سینیٹرز کے دفاتر الٹ دئیے گئے۔ تاریخی مجسمے توڑ اور نایاب پینٹگز پھاڑ دی گئیں۔ قیمتی سامان چورا لیا گیا اور سینٹ کی کرسی صدارت پر لونڈوں نے سیلفیاں کھچوائیں۔یہ سلوک ایک عظیم ملک کی عظیم پارلیمنٹ کے ریپ کے منظر کے سوا کچھ نہ تھا۔
تیسرا تجربہ یہ حاصل ہوا کہ حق کو حق کہنے کا رواج ان کے ہاں بھی کسی فیصلہ کن حالت میں نہیں۔ ان کے ہاں بھی ”پارٹی پالیسی” ہی سب کچھ ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ منافقت وہاں کے سیاسی نظام میں بھی پورے عروج پر ہے۔ مثلا بہت ہی سینئر سینیٹر لنڈسے گراہم کو ہی لے لیجئے۔ جب دونلڈ ٹرمپ دھاندلی کا شور مچا کر جھوٹے دعوے کر رہا تھا تو یہ موصوف اس کے سب بڑے سپورٹر تھے۔ ان کی مجموعی حالت بھی یہ ہے کہ سینٹ میں جب بولتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ امریکی نظام کا آدھا وزن تنہاء انہوں نے ہی اٹھا رکھا ہے۔
لیکن جب کیپٹل ہل پر حملہ ہوا تو اسی دن انہوں نے فلور پر کھڑے ہوکر کہا ”مجھے آج کے بعد ٹرمپ کا حامی نہ سمجھا جائے۔ میرا ٹرمپ سے آج کے بعد کوئی تعلق نہیں ” اگلی شام جب موصوف ایئرپورٹ پہنچے اور وہاں انہیں ٹرمپ کے صرف چار حامیوں نے گھیر کر ”شیم شیم” کے نعرے لگا دئے تو اگلی ہی صبح موصوف ایک بار پھر ٹرمپ کے حامی پائے گئے۔ چوتھا تجربہ یہ حاصل ہوا کہ ”آئین کی بالا دستی” امریکہ میں بھی محض ایک ڈھکوسلہ ہے۔ پارلیمنٹ پر مسلح حملہ کرانے والے ٹرمپ کا مواخذہ کرنے کی تحریک امریکی سینٹ میں جمع کرائی گئی تو اس ننگی جارحیت کے حوالے سے ریپبلکن سینیٹرز نے یہ موقف اختیار کرلیا کہ یہ غیر آئینی ہے۔ چنانچہ اس پر ووٹنگ کرائی گئی۔ ووٹنگ میں یہ طے پاگیا کہ ٹرمپ کا یہ مواخذہ غیر آئینی نہیں بلکہ آئینی اقدام ہے۔
لیکن جب مواخذہ شروع ہوا اور ہاؤس منیجرز نے ہر طرح کے ثبوت پیش کرکے ثابت کردیا کہ حملے کا ذمہ دار ڈونلڈ ٹرمپ ہی ہے۔ اور مرحلہ آیا فیصلے کا تو43 ریپبلکن سینیٹرز نے ٹرمپ کا ساتھ دے کر اسے آئندہ کے لئے ”نا اہل” ہونے سے بچا لیا۔اور وجہ یہ بتائی کہ اس کا یہ دوسرا مواخذہ غیر آئینی ہے۔ بھئی جب سینٹ نے ابتدائی مرحلے میں ہی طے کردیا کہ یہ مواخذہ آئینی ہے تو اب آپ فیصلہ یہ کس طرح کر سکتے ہیں کہ ٹرمپ کا یہ مواخذہ غیر آئینی ہے لھذا ہم اسے بری کرنے کے حق میں ہیں؟یوں آئین وہاں بھی گیا تیل لینے اور ٹرمپ پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کے معاملے میں پارلیمنٹ سے ہی بریت کا پروانہ لے کر چلتا بنا۔ سو ہمارے سیاستدانوں کو بلا وجہ ہی بدنام کیا گیا ہے۔ ان بیچاروں کا چلن بھی تو وہی ہے جو امریکی سیاستدانوں کا ہے۔
 

زیک

مسافر
ترمیم کی توثیق 2013 میں ہوئی یہ تو ایک تاریخی بات ہے اس بات کے دہرانے پر غصہ نہیں کرنا چاہیے
اتنا شدت پسند ہونے کی کیا ضرورت ہے کہ نیم کالنگ یا لیبلنگ کی ضرورت پڑے۔ یا کمیونیکیشن سٹائل ایسا ہے کہ خود کو کسی لحاظ سے برتر سمجھ رہے ہیں؟
وجہ صاف ظاہر ہے کہ بار بار حقیقت سمجھائے جانے کے باوجود آپ پھر بھی اپنی غلط بات پکڑ کر بیٹھے ہیں۔ اس کو جہالت نہیں تو اور کیا کہیں گے
 

جاسم محمد

محفلین
جہالت کی بھی حد ہوتی ہے۔ آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی نہیں بلکہ تین چوتھائی ریاستوں سے توثیق لازمی ہوتی ہے۔ 1864 میں تیرہویں ترمیم سینیٹ نے منظور کی۔ جنوری 1865 میں ہاؤس نے۔ اس وقت امریکہ میں 36 ریاستیں تھیں۔ ستائیسویں ریاست جارجیا نے اس ترمیم کی توثیق دسمبر 1865 میں کر دی تھی۔
الف نظامی کو پاکستان میں بیٹھے بیٹھے امریکہ کے بارہ میں زیادہ پتا ہے جیسے زیک کو امریکہ میں بیٹھے بیٹھے ناروے کے بارہ میں جاسم محمد سے زیادہ پتا ہے :)
 

الف نظامی

لائبریرین
الف نظامی کو پاکستان میں بیٹھے بیٹھے امریکہ کے بارہ میں زیادہ پتا ہے جیسے زیک کو امریکہ میں بیٹھے بیٹھے ناروے کے بارہ میں جاسم محمد سے زیادہ پتا ہے :)
اگر آپ ہماری گفتگو میں جج بننا چاہیں تو یہ آپ کی خواہش ہو سکتی ہے ، کم از کم میرا ایسا کوئی خیال نہیں۔
 
Top