ایک ایسا پنجابی کلام جسے آپ بار بار سنے بنا نہیں رھیں گے.چیلنج ہے

ابن رضا

لائبریرین
یاررضا ۔ رڑھ گئی بھی تو خط کشیدہ ہی تھا ۔ :)
:p ارے بھیا کچھ شعوری طور پر چھوڑے ہیں اور کچھ غلطی سے رہ گئے ہوں گے۔ دراصل کلام ہے بہت طویل
رڑھ گیا مطلب بہہ گیا۔ مزید یہ آپ کی کشیدہ کاری بھی نقل نہیں ہو پارہی تھی اس لیے دو الگ جگہ پر کھول کر ایک کو دیکھ کر کہ کون کون سے کلمات یا حروف خط کشیدہ ہیں تب دوسرے میں ترجمہ کیا ہے

پسِ تحریر: میرے والدِ محترم پنجابی میں شاعری کرتے ہیں تو میرے اسکول دور میں وہ اپنی شاعری مجھ سے نیٹ کر کے بیاض میں لکھوایا کرتے تھے اسی وجہ سے کچھ سمجھ بوجھ بھی ہے اور پھر شاعری سے لگاؤ کا سبب بھی مذکور مشقِ تحریر بنی ہے
 
آخری تدوین:
کچھ الفاظ جو میں سمجھ پایا ان کا ممکنہ اردو ترجمہ لکھ رہا ہوں۔
۔۔۔۔۔
جند نمانی - کمزور جان
کُرلاوندا - آہستہ آواز میں رونا
نِیر وگاوے اَکّھ - آنکھ سے آنسو بہنا
مادھو ہویا اوکھ - ہویا اوکھ - علیحدہ ہونا یا بچھڑ جانا۔ (مادھو کے بارے میں سوچ رہا ہوں)
شوہ -
رُڑھ - ڈوب گئی
پتوار - کشتی چلنے والے چپو
نیناں دے کھوہ گِیڑ - نیناں = آنکھیں، کھوہ گیڑ = کنوئیں سے پانی نکالنا۔ مطلب آنسو بہانا
وتّر - نمی
نماننڑی - کمزور
کُھبے - زمین میں گڑے
کُھبڑے - زمیں میں گڑے ہوئے
کیس - بال
ہاڑھ دا - ہاڑھ = بکرمی کلینڈر کا ایک مہینہ مڈ جون سے مڈ جولائی (مطلب سخت گرمی)
سیت سیال = سیال = سردی کا موسم (سیت ؟ )
چیتر رُکھ = بکرمی کلینڈر کا ایک مہینہ مڈمارچ سے مڈ اپریل (مطلب بہار)
پانبڑ بال = آلاؤ جلانا
لوسیا = جل گیا
لُوں = جسم پر موجود چھوٹے چھوٹے بال۔
چِنتا چِیخا چڑاھون - چنتا = فکر، (چِیخا ؟ ) چڑاھون = چڑھانا
تِڑکن لَگے ھَڈّ = ہڈیاں ٹوٹنا یا کریک ہونا
لیکھاں = قسمت کا لکھا ہوا
تُر تُوں =
چاھگدے =
واٹ =
ویھڑے پھوھڑی = صحن میں میت
رو رو چویا نور = بینائی ضائع ہو جانا
اوکڑ =
وَیر = دشمنی
سُکیا ویکھ چنا = دیکھو دریائے چناب سوکھ گیا
کھیڑے = ایک قوم جس سے رانجھے کا تعلق تھا
ٹو لیا = ٹوہ لیا = چھو لیا
رول دے = ضائع کرتے
ھِیر سیالڑی = ہیر سیال = سیال قوم ہے
لیرو لِیر = ٹکڑے ٹکڑے
جوبن رُتے = عین جوانی میں
وَنجھ پالیا =
چاھڑی پان = قلعی کرانا
پینجا پِنجدا = روئی کو الگ الگ کرنے والے اوزار کو پینجا کہتے ہیں
تُنبے = ساز کا نام
بِیجے رُکھ انار = انار کے درخت لگانا
تُمے کَوڑ = تُمہ حکمت میں استعمال ہونے والی ایک بُوٹی ہے، کوڑ = کڑوا
دیھاڑے اُڈیکدے = اس دن کا انتظار
سَوڑ = جلدی
رُکھ = درخت
تُپوں گھیری = دھوپ سے زیادہ گہری
تَنبو ساڑھے سورجے = تنبو = قنات، ساڑھ = جلائے، سورجے = سورج
لُوسے دھرتی ماں = مادر وطن کا جلنا (؟)
چات = نظر ڈالنا
لتاڑ = مساج
تِڑ دے = بدمعاشی کرنا یا رعب ڈالنا
تُوڑ = دُھول
نُوڑ =
لَھو دے دیوے بال = خون سے چراغ جلانا
بے بُریاں = جہاں برے لوگ نا ہوں
گُڑھتی = گُھٹی
بُکّل - چادر لپیٹنا
پِٹدے = پیٹنا، شور شرابہ
کالجے - کلیجہ
موھرا پِیتا - زہر کا پیالہ پینا
بُل - ہونٹ
کلّم کلّڑے = اکیلے
ویری ہویا کُل = ساردی دنیا کا دشمن ہو جانا
نَینِیں نِیندر رُس کے = آنکھوں سے نیند کا ناراض ہونا
چَھویاں = برچھیاں
لیھف = لحاف، رضائی
جبدے =
سار =
تِکھڑا نین نکِیلڑا = تکھے نین نقش
تِھیں = سے
جوکاں = جونکیں
سو سو وَین = دہائی دینا
چِمڑی = چمٹنا
ڈین = ڈائین
کِیلے =
اوتری = بانجھ
تتّا لوگڑ = تتا = گرم، لوگڑ (؟)
جُسے = جسم
ٹکور = مالش
پیندیاں دندلاں =
ھف گئے ساہ =
پھاہ = پھانسی
پَچھ لگاوندا = فاسد خون نکلوانا
لُون = نمک
مَچھ مریلڑے = مونچھیں مروڑنا
تُونھن = دھونا
ٹھونھے = بچھو
نِیل و نِیل = زہر ہی زہر
کُوھڑے کُوھڑا = جھوٹے = یہاں مطلب یہ کہ جھوٹے ہمیں جھوٹا کہتے ہیں
تلونڈی = جگہ کا نام
جگ تے رھنی واج = دنیا میں نام رہنا یا آواز کا رہنا
پُرش دا =
اَت = بہت زیادہ
چھاننی پاپ چوں تُوں لِتا پُن نتار =
سِیساں دیوندی =
شِو کمارا پیاریا منگ = پیارے شو کمار مانگ
پَیڑ =
بوٹڑا = چھوٹا درخت
پال = پالنا پوسنا
پا چھاپاں چَھلے پینکھڑا لا ٹِکا نَتھ پازیب =پا = پہننا، باقی زیورات کے نام ہیں
ورت = استعمال کر کے
سُچجے سجڑے رل =
ندیمے قادری = شاعر صاحب کا نام
سیھوک = رکھوالا (؟)
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
:p ارے بھیا کچھ شعوری طور پر چھوڑے ہیں اور کچھ غلطی سے رہ گئے ہوں گے۔ دراصل کلام ہے بہت طویل اور گہرا
رڑھ گیا مطلب بہہ گیا۔ مزید یہ آپ کی کشیدہ کاری بھی نقل نہیں ہو پارہی تھی اس لیے دو الگ جگہ پر کھول کر ایک کو دیکھ کر کہ کون کون سے کلمات یا حروف خط کشیدہ ہیں تب دوسرے میں ترجمہ کیا ہے
پسِ تحریر: میرے والدِ محترم پنجابی میں شاعری کرتے ہیں تو میرے اسکول دور میں وہ اپنی شاعری مجھ سے نیٹ کر کے بیاض میں لکھوایا کرتے تھے اسی وجہ سے کچھ سمجھ بوجھ بھی ہے اور پھر شاعری سے لگاؤ کا سبب بھی مذکور مشقِ تحریر بنی ہے
ارے واہ ۔یہ خدمت تو میں بھی اپنے والد صاحب کے لیےاردو میں کیا کرتا تھا۔حسن اتفاق۔
 
یہ شاعر صاحب کون سے علاقے کے ہیں ۔ کسی کو علم ہے ؟
بابا غلام حسین ندیم
سمندری، فیصل آباد

578558_389736224394601_1824994111_n.jpg
 
آخری تدوین:
زبیر مرزا محمود احمد غزنوی نایاب تلمیذ ساجد شمشاد شاکرالقادری الف نظامی دوست محمد یعقوب آسی سید شہزاد ناصر محمد وارث
مندرجہ بالا پیغام نمبر 6 اقتباس میں خط کشیدہ۔ حل لغات کے لیے کوئی عنایت کرے بشرط سہولت۔۔۔

0000000

اُٹھ شاہ حُسینا ویکھ لے اسّی بدلی بیٹھے بھیس
ساڈی جِند نمانی کُوکدی اسی رُلگئے وِچ پردیس

ویکھ لے: دیکھ لے، بدلی بیٹھے بھیس: بھیس بدل چکے ہیں، جِند نمانی: بے بس جان، کم ہمتی، کُوکدی: رونے کے انداز میں پکارنا، رُل گئے: راستہ بھول گئے، خستہ حال ہو گئے۔


ساڈا ہر دم جی کُرلاوندا، ساڈی نِیر وگاوے اَکّھ
اساں جیوندی جاندے مر گئے، ساڈا مادھو ہوئیا وَکھ

کرلاوند: کُرلاتا، بین کرتا، روتا، نِیر: اشک، آنسو، جیوندی جانے مر گئے: جیتے جی مر گئے، مادھو: حسین کے مادھو لال کی طرف اشارہ ہے، وَکھ: الگ، جدا، بچھڑ گیا۔


سانوں سپّ سمے دا ڈنّگدا، سانوں پَل پَل چڑھدا زہر
ساڈے اندر بیلے خوف دے، ساڈے جنگل بن گئے شہر

سپ: سانپ، سماں: وقت، ڈنگدا: ڈستا ہے، بیلے: جنگل


اساں شوہ غماں وِچ ڈُبدے، ساڈی رُڑھ گئی ناؤ پتوار
ساڈے بولن تے پابندیاں، ساڈے سر لٹکے تلوار

شوہ: دریا، طوفان، رُڑھ گئی: پانی کے ساتھ بہہ گئی، بولن تے: بولنے پر، ناؤ: کشتی۔


اساں نیناں دے کھوہ گیڑ کے کِیتی وتّر دل دی بھوں
ایہ بنجر رہ نماننڑی، سانوں سجّن تیری سَونھ

نین: آنکھیں، کھوہ گیڑ کے: کنواں چلا کر (رہٹ میں بیل وغیرہ جوت کر پانی نکالتے ہیں)، وتر: تر، بھوں: زمین (زمین کو فصل بونے کے لئے پانی لگاتے ہیں)۔ نمانڑی (نمانی): بے بس، بے چاری، سجن: دوست، سَونھ: قَسم۔


اساں اُتوں شانت جاپدے، ساڈے اندر لگی جنگ
سانوں چُپ چپیتا ویکھ کے، پئے آکھن لوک ملنگ

اتوں: اوپر سے، بظاہر، شانت: پرامن، مسرور، جاپنا: محسوس ہونا، دکھائی دینا، چُپ چپیتا: چپ چاپ، خاموش، پئے آکھن: کہہ رہے ہیں۔


اساں کُھبے غم دے کھوبڑے، ساڈے لمے ہو گئے کیس
پا تانے بانے سوچدے، اساں بُندے ریندے کھیس

کھُبنا: دلدل وغیرہ میں پھنس جانا، دھنس جانا، کھوبڑے: کھوبے: کھوبا: دلدل، گاد، بہت نرم گیلی مٹی جس میں پاؤں وغیرہ دھنس جاتے ہیں۔ لمے: لمبے، طویل، کیس: سر کے اور داڑھی کے بال، پا: پانا، پاونا: ڈالنا، بُندے رہندے: بُنتے رہتے ہیں۔ کھیس: موٹا کپڑا۔

ہُن چھیتی دوڑیں بُلھیا، ساڈی سولی ٹنگی جان
تینوں واسطہ شاہ عنایت دا، نہ توڑیں ساڈا مان

چھیتی: جلدی، دَوڑیں: دَوڑ کر آنا (یہاں بَوھڑیں ہونا چاہئے تھا: واپس آنا، مدد کو پہنچنا)، بلھیا: اے بلھے شاہ، سُولی: پھانسی (اور اگر یہ سُولیں ہے تو: سُول: کانٹا) جان کانٹوں پہ ٹنگی ہے یا بھانسی پر ٹنگی ہے۔ مان: فخر، اعتماد۔


اساں پیریں پا لئے کُنگھرو، ساڈی پاوے جِند دھمال
ساڈی جان لباں تے اپّڑی، ہُن چھیتی مُکھ وِکھال

پیریں: پاؤں میں، پا لئے: پہن لئے، دھمال پاوے: دھمال ڈالے، ہماری جان دھمال ڈال رہی ہے، اپڑی: پہنچ گئی، مُکھ: منہ، چہرہ، وِکھال: وِکھا: دِکھا۔


ساڈے سر تے سورج ہاڑھ دا، ساڈے اندر سِیت سیال
بن چھاں ہُن چیتر رُکھ دی، ساڈے اندر بھانبڑ بال

ہاڑھ، ہاڑھ: موسمِ گرما کا مہینہ اساڑھ (وسط جون تا وسط جولائی)، سیت: سخت ٹھنڈ، شدید سردی، سیال: موسمِ سرما، چیتر: چیت: موسمِ بہار کا مہینہ (وسط مارچ تا وسط اپریل)، رُکھ: درخت، بھانبڑ: الاؤ، آگ، بال: جلا، بالنا: جلانا۔


اساں مچ مچایا عشق دا، ساڈا لُوسیا اِک اِک لُوں
اساں خُود نوں بُھلّے سانولا، اساں ہر دم جپیا توں

مَچ : آگ کے لئے ایندھین کا ڈھیر، مچایا: اس ڈھیر کو آگ لگا دی، لُوسیا: جل گیا، لُوں: بال (ایک ایک بال جل گیا)، بھلے: بھول گئے، سانولا: اے سانول، اے محبوب، جپیا (یہاں شاید جپدا ہو گا) جپنا: جاپ کرنا، وِرد کرنا، تیرا وِرد کرتا ہے۔


سانوں چِنتا چِخا چڑھاون دی، ساڈے تِڑکن لَگے ہَڈّ
پَھڑ لیکھاں برچھی دُکھ دی ساڈے سینے دتی کَڈ

چِنتا: فکر، چِخا: آگ، جہنم بھی مراد لیتے ہیں، چخا چڑھانا: کسی کا جلانا یا جل جانا، تِڑکن: تڑکنا، تڑخنا، ہَڈ: ہڈیاں، لیکھاں(لیکھ نصیب، قسمت): نصیب نے، قسمت نے، پھڑ: پکڑ کر، سینے دتی گڈ: سینے میں گاڑ دی۔


اساں دھُر تُوں دُکھڑے چاکدے ساڈے لیکھیں لکھیا سوگ
ساڈی واٹ لمیری دُکھ دی،ساڈے عُمروں لمے روگ

دھُر: شروع، دھُر توں؛ شروع سے، ازل سے، دکھڑے: دکھ، چاکدے: چکھ رہے ہیں۔ لیکھیں : قسمت میں، نصیب میں، واٹ: فاصلہ، سفر، لمیری: لمبی (واٹ مؤنث ہے، اس لئے)، لمے: لمبے۔


ساڈے ویہڑے پھوہڑی دُکھ دی،ساڈا رو رو چوئیا نور
ایہ اوکڑ ساڈی ٹال دے، تیرا جیوے شہر قصور

ویہڑے: صحن میں، گھر میں، پھُوہڑی: کوئی مر جائے تو اس کے گھر میں افسوس کے لئے آنے والوں کے لئے زمین پر کپڑا بچھاتے ہیں، اس کو پھُوہڑی یا پھُوہڑ کہتے ہیں۔ اس کے ہجے پھُوڑھی، پھُوڑھ بھی درست ہیں۔ چوئیا: بہت گیا، روتے روتے آنکھیں جاتی رہیں۔ اَوکڑ: مشکل، آزمائش کا عرصہ۔


آ ویکھ سُخن دیا وارثا،تیرے جنڈیالے دی خیر
اَج پُتر بولی ماں دے پئے ماں نال رکھن وَیر

وارثا: مراد ہے وارث شاہ، جنڈیالہ: اس کا گاؤں، وَیر: دشمنی


اَج ہیر تیری پئی سہکدی، اَج کَیدو چڑھیا رنگ
اَج تخت ہزارے ڈھے گئے،اَج اُجڑیا تیرا جھَنگ

سَہکدی: آہیں بھر رہی ہے، کیدو کو رنگ چڑھ گیا ہے وہ خوش ہے۔


اَج بیلے ہو گئے سنجڑے، اَج سُکیا ویکھ چنھا
اَج پِھرن آزُردہ رانجھڑے، اَج کھیڑے کر دے چاء

سُنجڑے: سُنجے: سنسان، سُکیا: خشک ہو گیا، چنھا: دریائے چناب، رانجھڑے: رانجھے، چاء: خوشی، جشن۔ کسی نام کی تصغیر بنانی ہو، اس میں پیار کا یا بے چارگی کا تاثر دینا ہو تو اس میں "ڑ" کا اضافہ کرتے ہیں، کبھی مصرعے کا وزن پورا کرنے کو بھی ایسا کر دیتے ہیں۔


اَج ٹُٹی ونجھلی پریت دی، اَج مُکے سُکھ دے گِیت
بَن جوگی دَر دَر ٹولیا، سانوں کوئی نہ مِلیا مِیت

ونجھ: بانس، ونجھلی: بانسری، ٹولیا: تلاش کیا، مِیت: دوست، سجن، مِتر۔


اساں اکھرموتی رولدے، اساں در در لاندے واج
کوئی لبھے ہِیر سیالڑی جیہڑی رنگے اپنا تاج

اکھر: لفظ، موتی رولنا: موتی تلاش کرنا اور ان کو جوڑنا، دَر دَر: در بہ در، ہر در پر، واج: آواز، سیالڑی: سیال قوم کی، رنگے: رنگ کرے۔


ساڈے ہتھ پیالہ زہر دا، اساں ویلے دے سُقراط
اساں کَھنڈ بنائیے کھار نوں ساڈی جگ توں وکھری بات

کھنڈ: چینی، میٹھا، کھار: کھاری شے، کڑوی چیز، بات وغیرہ، وَکھری: جُدا، الگ۔


اُٹھ جاگ فریدا سُتّیا ہُن کر کوئی تدبیر
جِند ہِجر کریڑے پَھس کے اَج ہو گئی لیرو لِیر

سُتیا: اے سوئے ہوئے، یہ الفاظ فرید کے کلام کا عکس ہیں۔ کریڑ: ککر، کورا، سردی کے موسم میں رات کو کھڑا پانی جم جاتا ہے۔ لیر: ٹکڑا، جان ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ (یہاں کریڑ شاید ژالہ باری کے معانی میں آیا ہے)۔


سانوں جوبن رُتے ویکھ کے سَب آکھن بابا لوگ
کِس کھویا ساڈا جوبنا سانوں لگا کیہا روگ

جوبن رُتے (جوانی کی رُت میں) لوگ ہمیں جوانی کی عمر میں بابالوگ کہتے ہیں، ہم جوانی میں بوڑھے ہو گئے ہیں، کھویا: چھین لیا، جوبنا: جوبن، کیہا: کیسا۔


اساں پیڑاں دا وَنجھ پالیا سانوں دُکھاں چاہڑی پان
سانوں غم دا پینجا پِنجدا ساڈے تُنبے اُڈدے جان

یہاں وَنجھ سے مراد شاید بانس کا جنگل ہے؟ پان چاڑھنا: لوہے کو سرخ گرم کر کے ٹھنڈے پانی میں ڈالتے ہیں، اس سے لوہا سخت ہو جاتا ہے۔ پینجا: روئی دھننے کی مشین یا اوزار، پنجیا: دُھنک کر رکھ دیا، بے حال کر دیا، تُنبے: روئی کے چھوٹے باریک ریشے جو روئی دھُنی جانے پر ہوا میں تیرتے پھرتے ہیں۔


اساں بِیجے رُکھ انار دے سانوں لبھے تُمے کَوڑ
اساں مرن دیہاڑ اُڈیکدے ساڈی وَدھدی جاوے سَوڑ

پیجے: بوئے، کاشت کئے۔ رُکھ: درخت، لبھے: ملے، دستیاب ہوئے، تمے: یہ خربوزے کی شکل کا ایک بہت کڑوا پھل ہوتا ہے۔ اسے کَوڑ تُما بھی کہتے ہیں۔ مرن دیہاڑ: موت کا دن، اڈیکدے: انتظار کر رہے ہیں، ودھدی جاوے: بڑھ رہی ہے، سَوڑ: تنگی، تکلیف اور دکھ کو بھی کہتے ہیں۔


ساڈے سِر تے رُکھ بلور دے ساڈی دھُپوں گہری چھاں
ساڈے تَنبو ساڑے سورجے ساڈی لُوسے دھرتی ماں

بلور کیا ہے، مجھے نہیں معلوم، یا شاید املا کا کوئی مسئلہ ہے۔ تنبو: شامیانے، چھاؤں کا سامان، سورجے: سورج نے، لُوسے: جل رہی ہے۔


ساڈی اُجڑی حالت ویکھ کے پا رحمت دی اِک جھات
ساڈے سر توں اَنھی رات نوں ہُن کر سائیاں شبرات

اُجڑی حالت: خستہ حالی، جھات پانا: ایک نظر دیکھنا، انھی: اندھی، سخت تاریک رات، شبرات: مراد ہے شب برات، امیدوں اور خوشیوں کی رات۔


ہُن آ باہو سُلطانیا سانوں درداں لیا لتاڑ
اَج توڑ زنجیری دُکھ دی اَج "ھُو" دا نعرہ مار

لتاڑ لیا: لتاڑ کر رکھ دیا، مار ڈالا، توڑ پھوڑ ڈالا، زنجیری: زنجیر، صرف اسلوب کا فرق ہے۔ ھُو ۔ باہو کی شاعری سے ماخوذ ہے۔


سانوں الف بنا دے پیاریا ساڈی مُک جائے بے دی لوڑ
مَن مُشّکے بوٹی عشق دی سب نِکلے دل دی کوڑ

الف بے: اشارہ ہے (علموں بس کریں او یار، تینوں اک الف درکار)، مُشک: اشارہ (الف اللہ چنبے دی بوٹی)۔ جب وہ بوٹی مہکے تو اندر کی ساری کڑواہٹ (کَوڑ) نکل جائے۔


ایتھے تِڑدے سب ایمان تے ایتھے اُڈدی عشق دی دھُوڑ
جو عشق سلامت منگدا پھڑ اُس نوں لیندے نُوڑ

تِڑنا: فخر کرنا، گھمنڈ کرنا، دھُوڑ: دھُول، یہاں عشق کی دھُول اڑتی ہے، قدر دان کوئی نہیں، نُوڑ لینا: جکڑ لینا، قید و بند میں ڈال دینا۔


ساڈا تالو جاوے سُکدا ساڈی ودھدی جاوے پیاس
بن بدل ساون ماہ دا ساڈی پوری کر دے آس

تالو خشک ہونا: پیاس کی شدت کا اظہار ہے۔ ودھدی جاوے: بڑھتی جائے، ساون ماہ کا بادل بن کر (ساون برسات کا مہینہ ہے : وسط جولائی سے وسط اگست)۔


اساں اپنی قبرے آپ ہی لئے لہو دے دیوے بال
اساں بے بُریاں دے شہر وِچ ایہ کیتا نواں کمال

قبرے: قبر پر، بے بریاں نہیں شاید یہاں بے قدراں یا ایسا کوئی لفظ رہا ہو گا۔ یعنی ہم نے نیا کمال یہ کیا کہ اپنی قبر پر چراغاں بھی خود کیا۔


سائیں دمڑی شاہ دیا پیاریا تیرا جیوے سیف ملوک
ساڈے دیدے ترسن دید نوں ساڈے دل چوں اُٹھدی ہوک

دمڑی شاہ کا پیارا: میاں محمد بخش، دیدے: آنکھیں، ہُوک: دکھ بھری پکار، آہ۔


سانوں گُڑھتی دے دے سُخن دی ساڈی کر دے صاف زبان
سانوں بُکّل وِچ لپیٹ کے ہُن بخشو عِلم گیان

گُڑھتی: بچے کو پیدا ہوتے ہی کوئی میٹھی چیز چٹاتے ہیں، وہ گُڑھتی ہے: گھُٹی، بکل: چادر وغیرہ کو جسم کے گرد پورے طور پر لپیٹ لینا، یعنی بکل مارنا، اس بکل میں بچے کو بھی سنبھال لیتے ہیں، تحفظ اور پناہ کی علامت ہے، گیان: علم۔


اساں راتیں اُٹھ اُٹھ پِٹدے ساڈے کالجے پئے گئی سوج
اساں چَھم چَھم روندے پیاریا سانوں ہر دم تیری کھوج

پٹدے: پیٹتے ہیں، کالجے: کلیجے پر، سوج: سوجن، ورم، مسلسل پیٹنے سے کلیجے پر ورم آ گیا ہے۔ کھوج: تلاش۔


اساں موہرا پِیتا سچ دا ساڈے نِیلے ہو گئے بُلھ
اساں رہ گئے کلّم کلّڑے ساڈا ویری ہویا کُل

موہرا: زہر، بلھ: ہونٹ، کلم کلڑے: بالکل اکیلے، وَیری: دشمن، کل: سب لوگ۔


ساڈے نَینِیں نِیندر رُس کے جا پُہنچی کیہڑے دیس
ہر راتیں چَھویاں مار دے سانوں لیف سرہانے کھیس

نینیں: آنکھوں میں، رُس کے: رُوٹھ کر، چھَوی: برچھی، چھرا، لیف: لحاف، بستر، سرہانہ، کھیس، چادر تک جیسے برچھیاں مار رہے ہوں۔


آ کوٹ مِٹھن دیا والیا لے جھبدے ساڈی سار
ہِک تِکھڑا نین نوکیلڑا ساڈے دل تِھیں ہویا پار

جھب: جھبدے: جلدی، سار لینا: خبرگیری کرنا، تکھڑا: تیکھا، نوکیلڑا: نوکیلا، نوک دار، شوخ، تھیں: سے، میں سے؛ ایک شوخ نگاہ دل سے پار ہو گئی۔


سانوں چڑھیا تَیئیا ہِجر دا ساڈا کر لے کوئی توڑ
سانوں بِرہن جوکاں لگیاں ساڈا لِتا لہو نچوڑ

تیئیا: تیسرے دن کا بخار، جسے باری کا تپ کہتے ہیں، توڑ کرنا: علاج کرنا، برہن: جدائی، فراق، جوکاں: جونکیں، لِتا لہو نچوڑ: خون نچوڑ لیا۔


اساں اپنے ہی گل لگ کے نِت پائیے سو سو وَین
ساڈی آ قسمت نوں چِمبڑی اِک بھکھاں ماری ڈین

نت: ہمیشہ، وَین پاونا: بین کرنا، چمبڑی: چمٹ گئی، بھکھاں ماری: بھوک کی ماری ہوئی، ڈَین: ڈائن۔


ایہنوں کِیلو منتر پھوک کے ایہنوں کڈھو دیسوں دور
ایہہ پِچھل پیری اوتری ایتھے بن بن بیٹھے حور

کِیلنا: قابو میں کرنا، منتر وغیرہ کر کے، کڈھو: نکال دو، دیسوں: دیس سے، پچھل پیری: الٹے پاؤں والی، منحوس، بلا، مشہور ہے کہ چڑیل عورت کی شکل میں ظاہر ہو تو اس کے پاؤں الٹے یعنی پچھلی طرف ہوتے ہیں، اوتری: لاوارث، آوارہ، یہاں آ کر یوں بیٹھ رہی ہے جیسے کوئی حور ہو، خود کو حور ظاہر کر رہی ہے۔


اَج پے گیا کال پریت دا اَج نفرت کیتا زور
کر تتّا لوگڑپریم دا ساڈے جثے کرو ٹکور

کال: قحط، پے گیا: پڑ گیا، پریت: پیار، پریم، ریجھ، رجھاؤ، لوگڑ:دھنکی ہوئی پرانی روئی، تتا: گرم: ٹکور کرنے کے لئے پرانی روئی گرم کر کر کے چوٹ لگے حصے پر رکھتے ہیں۔


ساڈی سوچ نوں پیندیاں دندلاں ساڈے جھل جھل ہف گئے ساہ
نِت پھندے بُن بُن سُخن دے اساں خُود نوں دیندے پھاہ

دندل: دندن: بے ہوشی، غشی کے دورے، جھل جھل: یہاں پنکھا یا ہوا مذکور نہیں مراد وہی ہے۔ ہف گئے ساہ: سانس پھول گئی، تھک گئے، نت: ہمیشہ، پھاہ لینا: باندھ لینا، پھنسا لینا۔


سانوں ویلا پَچھ لگاوندا اُتے گھڑیاں پاون لُون
دن راتاں مَچھ مریلڑے سانوں غم دی دلدل دھُون

پَچھ: پچھنے، زخم، گھڑیاں: وقت کی اکائیاں، لُون: نمک، زخموں پر نمک چھڑکنا مقصود المعانی ہے۔ مچھ مریلڑے: ممکنہ طور پر مگر مچھ کو کہا ہے، دھُون: گھسیٹ کر لے جاتے ہیں۔دھرُون، دھرُونا بھی یہی ہے۔


سانوں لڑدے ٹھُونوے یاد دے ساڈا جُثہ نِیلو نِیل
سانوں کُوڑے کُوڑا آکھدے کیہ دیئے اساں دلیل

ٹھونوے: بچھو، نیلو نیل: سارا نیلا، زہر کے اثر سے سارا جسم نیلا پڑ گیا ہے۔ کُوڑا، کوڑے: جھوٹا، جھوٹے، آکھدے: کہتے ہیں۔


آ تلونڈی دے بادشاہ گرو نانک جی مہاراج
توں لاڈلا بولی ماں دا تیری جگ تے رہنی واج

تلونڈی: گرو نانک کی جنم بھومی؟، واج: آواز کے علاوہ اس کا ایک معنی شہرت بھی ہے۔


لے فیض فرید کبیر توں کیتا اُلفت دا پرچار
توں نفرت دے وِچ ڈُبدے کئی بیڑے کیتے پار

کیتا: کیا، ڈبدے: ڈوبتے ہوئے۔


تُوں مان ودھایا پُرش دا تُوں ونڈیا اَت پیار
پا سچ دی چھاننی پاپ چوں تُوں لِتا پُن نتار

پرش: انسان، اَت: اس کے دو قطعی مختلف معانی معروف ہیں: ایک تو ہے بہت زیادہ، اور دوسرا ظلم؛ یہاں بہت زیادہ مراد ہے۔ پاپ: گناہ، پُن: نیکی، نتار لِتا: نتھار لیا، الگ الگ کر دیا۔


تیرا وسے گُرو دوالڑا تیرا اُچا ہووے ناں
دِن راتیں سِیساں دیوندی تینوں نانک بولی ماں

دوالڑا کیا ہے، مجھے نہیں معلوم، سیساں: دعائیں، دیوندی: دیتی ہے۔


اے شِو کمارا پیاریا منگ ماں بولی دی خیر
اساں ٹُر پئے تیری راہ تے اساں نپّی تیری پَیڑ

پَیڑ نپ لینا: پیچھے پیچھے چل پڑنا، اتباع کرنا۔ میرا گمان ہے کہ یہ نظم شِوکمار کی کہی ہوئی زمین میں ہے، واللہ اعلم۔ شاید اسی لئے مانوس سی لگ رہی ہے۔


تُوں چھوٹی عُمرے پیاریا کیتا عمروں وَدھ کمال
تُوں ماں بولی دا بوٹڑا لیا لہو اپنے نال پال

عمروں وَدھ: عمر سے بڑھ کر، بوٹڑا: بوٹا، پودا۔


توں بھنے پِیڑ پراگڑے توں پیتی گھول رسونت
تیرا لِکھیا گاہ نہ کڈھدے کئی سُر دے شاہ کلونت

توں بھنے پیڑ پراگڑے : تو نے بہت درد سہے۔ پراگا: قابلِ لحاظ مقدار، رسونت: ایک دوائی ہے جو زخموں اور چوٹ پر لگاتے ہیں۔ گاہ نہ کڈھدے: تیرے لکھے پر پورے نہیں اترتے، کلونت کیا ہے مجھے نہیں معلوم۔


پا چھاپاں چَھلے پینکھڑا لا ٹِکا نَتھ پازیب
تُوں ورت کے لفظ انوکھڑے بھری ماں بولی دی جیب

پہلے مصرعے میں زیوروں کے نام ہیں، انوکھڑے: انوکھے۔


تُساں سب سُچجے سجڑے رل پیش کرو فریاد
رب ماں بولی دا اُجڑیا گھر فیر کرے آباد

سچجے: سیانے، ماہر، سجرے: تازہ، سدا بہار۔


چل چھڈ ندیمے قادری ہُن کر دے پُور کلام
تُوں سیوک بولی ماں دا تیرا جگ تے رہنا نام

پُورنا: پورا کر دینا، بات مکمل کر دینا، سیوک: خادم۔


…………..
 
سید عاطف علی صاحب ۔ دراصل اردو اور انگریزی کے بڑھتے ہوئے سیلاب نے پنجابی زبان کو بہت متاثر کیا ہے اس وجہ پنجابی زبان میں اردو کے بہت سارے الفاظ استعمال ہورہے ہیں دوسری طرف پنجابی مٹتی سی جارہی ہے اس وجہ سے شاعر نے اپنی ماں بولی یعنی مادری زبان کا نوحہ پنجابی باعظمت سکالر شعراء جن میں شاہ حسین لاہوری،بابا بلھے شاہ قصوری، وارث علی شاہ جنڈیالہ شیر خان یا بھیروی، مٹھن کوٹ والے باباغلام فرید،شورکوٹ والے سلطان باہو،دمڑی والی سرکار میاں محمد بخش صاحب سیف الملوک،باباگرونانک چند،فرید کبیر یعنی اجودھن پاک پتن والے بابافریدالدین گنج شکر،وغیرہم کو فریادی طرز میں استمدادیہ پکارا ہے۔
واضح ہو کہ مندرجہ بالا صوفی شعرا ء پنجابی ادب میں بعینہٖ وہی مقام و مرتبہ رکھتے ہیں جو کہ اردو شاعری میں مرزا اسد اللہ غالب دہلوی،حکیم مؤمن خان مؤمن،میر تقی میر،میردرد، میرا جی ،خواجہ حیدر علی آتش دہلوی،ڈاکٹر اقبال وغیرہ رکھتے ہیں اور شیو کمار بٹالوی میرے ناقص خیال میں بالکل محسن نقوی کا سا خیال و انداز رکھتا ہے جیسا کہ اس کا مشہور زمانہ کلام نصرت فتح علی خان نے گا کر امر کردیا ہے۔
مائیں نی مائیں
میرے گیتاں دے نیناں وچ
برہوں دی رڑک پوے
ادھی ادھی راتیںاٹھ رون موئے متراں نوں
مائیں سانوں نیند نہ پوے
 

تلمیذ

لائبریرین
ساڈے سِر تے رُکھ بلور دے ساڈی دھُپوں گہری چھاں
ساڈے تَنبو ساڑے سورجے ساڈی لُوسے دھرتی ماں

پنجابی کا ایک محاورہ ہے ۔’بلورنا‘ جس کا مطلب ہے ’بلی کی طرح ناخن چلانا، نوچنا، کھرچنا‘ ۔
اس شعر کے دوسرے مصرعے کے تناظر میں میرا خیال ہے کہ’ ساڈھے سِر تے رُکھ بلوردے‘ ۔۔ کا مطلب کچھ یوں ہو سکتا ہے کہ’ ہمارے سروں پر موجود درختوں سے ہمیں کوئی راحت نہیں ملتی‘۔

۔۔

تیرا وسے گُرو دوالڑا تیرا اُچا ہووے ناں
دِن راتیں سِیساں دیوندی تینوں نانک بولی ماں

دوالڑا
پنجابی میں لفظ ’دوالا‘ ۔ عموماً ارد گرد (آلا دوالا) کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے
لیکن اس کا ایک مطلب ’مندر‘ بھی ہے۔ اس شعر میں وزن برابر کرنے کے لئے اس کو ’دوالڑا‘ لکھا گیا ہے۔ گرو دوالڑا، یعنی ’گرو مندر‘
۔۔
توں بھنے پِیڑ پراگڑے توں پیتی گھول رسونت
تیرا لِکھیا گاہ نہ کڈھدے کئی سُر دے شاہ کلونت

کلونت ۔' کلاونت' کو ملا کرلکھا گیا ہے۔ کلاونت یعنی 'فنکار'

محترمی و مکرمی محمد یعقوب آسی, صاحب
اوشو, ۔ (ملک جی، میری عرداس اے پئی وڈے ملک ہوراں نوں ایہہ کلام ضرور پڑھانا۔ اوہ بڑا آنند لین گے۔)
سید عاطف علی,
ابن رضا,
 
کلام کو 3-4 بار سن کر کچھ الفاظ کی پروف ریڈنگ کی ہے۔ مزید بھی اگر کسی لفظ میں شک ہو تو تصیح کر دیں
----------

ساھڈا ہر دم جی کُرلاوندا ، ساھڈی نِیر وگاوے اَکّھ
اساں جیوندی جاندے (جانے) مر گئے، ساھڈا مادھو ہویا اوکھ (وکھ)

اساں کُھبے غم دے کُھبڑے (کھوبڑے) ، ساڈے لمے ہو گئے کیس
پا تانے بانے سوچدے، اساں بُندے ریندے کھیس

ہُن چھیتی دوڑیں (بوڑیں) بُھلیا ، ساھڈی سولی ٹنگی جان
تینوں واسطہ شاہ عنائت دا ، نہ توڑیں ساھڈا مان

ساھنوں چِنتا چِیخا چڑاھون دی (چڑاھوندی) ، ساھڈے تِڑکن لَگے ھَڈّ
پَھڑ لیکھاں برچھی دُکھ دی ساھڈے سینے دیتی کَڈ (گڈ)

اَج بِیلے ہو گئے سونجڑے (سنجڑے) ، اَج سُکیا ویکھ چنا
اَج پِھرن آذُردہ رانجھڑے، اَج کھیڑے کر دے چاء

اساں بِیجے رُکھ انار دے ساھنوں لبھے تُمے کَوڑ
اساں مرن دیھاڑے (دیھاڑ) اُڈیکدے ساھڈی وَدّدی جاوے سَوڑ

اساں راتیں اُٹھ اُٹھ پِٹدے ساھڈے کالجے پئے گئی سوج (پئی کالجے سوج)
اساں چَھم چَھم روندے پیاریا ساھنوں ھر دم تیری کھوج

ساھڈے نَینِیں نِیندر رُس کے جا پُہنچے (پہنچی) کیھڑے دیس
ھر راتیں چَھویاں مار دے ساھنوں لیھف سرھانے کھیس

ساھنوں ویلا پَچھ لگاوندا اُتے کڑھیاں (کڑیاں) پاون لُون
دن راتاں مَچھ مریلڑے ساھنوں غم دی دلدل تُونھن

تُساں سب سُچجےسجڑے (سُوچجے سچڑے) رل پیش کرو فریاد
رب ماں بولی دا اُجڑیا گھر فیر کرے آباد

چل چھڈ ندیمے قادری ھُن کر دے پُر کلام
تُوں سیھوک (سیوک) بولی ماں دا تیرا جگ تے رھنا نام
 

اوشو

لائبریرین
ساڈے سِر تے رُکھ بلور دے ساڈی دھُپوں گہری چھاں
ساڈے تَنبو ساڑے سورجے ساڈی لُوسے دھرتی ماں

میرا خیال یوں ہے۔
بلور ۔ کچ ، کانچ
بلور-دے=کچ دے، کانچ کے
میرا خیال ہے شیشے کے شفاف کُرے کو یا شیشے کی گولیاں جس سے بچے کھیلتے تھے کسی زمانے میں اس کو بھی بلور کہا جاتا تھا۔ اور کروی شکل کے شیشے کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ روشنی کو مرتکز کرتا ہے۔ جیسا کہ محدب عدسہ جو اصل میں ایک کروی شیشہ کا ٹکڑا ہوتا ہے، دھوپ میں کاغذ جلانے کے لیے روشنی کی حدت کو ایک نقطہ پر مرتکز کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یا پھر وہ گانا "سُن وے بلوری اکھ والیا" :)
مراد کانچ کے درخت جو سایے کی بجائے دھوپ کی تمازت کو بڑھا رہے ہیں۔

تیرا وسے گُرو دوالڑا تیرا اُچا ہووے ناں
دِن راتیں سِیساں دیوندی تینوں نانک بولی ماں
میرا خیال ہے یہ لفظ "گرو-دوارڑہ" ہے۔
گورودوارہ ۔ سکھوں کی عبادت گاہ
جیسے کہ گورودوارہ پنجہ صاحب
یہاں ڑا کو اپنائیت یا محبت کے اظہار کے لیے استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ
اس سے اگلے شعر کے مصرعِ اولی میں "پراگے" کو "پراگڑے" کہا گیا۔
توں بھنے پِیڑ پراگڑے توں پیتی گھول رسونت
یا پھر "بچے" کو "بچڑا" یا "بچڑی" یا پھر "بال" کو "بالڑی" بھی بولا جاتا پنجابی میں۔

توں بھنے پِیڑ پراگڑے توں پیتی گھول رسونت
تیرا لِکھیا گاہ نہ کڈھدے کئی سُر دے شاہ کلونت
میرا خیال ہے یہ لفظ "کلا-ونت" نہیں کیوں کہ کلا لفظ کو ایسے استعمال کرنا مناسب نہیں لگ رہا ۔
شاید اگر مجھے بھول نہیں رہا تو "کلونت" ۔"شاعر" کو بھی کہتے ہیں۔ اور "سُر دے شاہ کلونت" سے مراد شاید یہ بھی ہو کہ "شاہ کلونت" نامی ایک پرانے سکھ گلوکار بھی گزرے ہیں۔ صرف نام ہی سنا ہے۔ شاید یہ ان کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن اس میں بھی کچھ مناسب نہیں لگ رہا کیوں کہ "کلونت" نام کو "کل-ونت" بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک پنجابی فوک گلوکارہ ہیں۔ "کلونت کور"۔ اس پر مزید دیکھوں گا۔
ابھی سپیکر کام نہیں کر رہے اس لفظ کو غور سے سنوں تو شاید کچھ اندازہ ہو سکے۔

یہ صرف میرا خیال ہے۔ اب کہنے والے نے کیا کہا اس بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔
کچھ جگہوں پر ٹائپنگ کی غلطی بھی لگ رہی ہے۔
اور اس لڑی میں ماشاءاللہ صاحبانِ علم محترم احباب نے خوب موتی پروئے ہیں۔
کمی کوتاہی معاف
سب کے لیے بہت سی دعائیں۔
اوشو, ۔ (ملک جی، میری عرداس اے پئی وڈے ملک ہوراں نوں ایہہ کلام ضرور پڑھانا۔ اوہ بڑا آنند لین گے۔)

ایہہ کلام کافی عرصہ کافی عرصہ پہلے وڈے ملک صاحب نے ہی سنوایا سی شاید اور میرا خیال اے کہ اوہناں دی ملاقات وی ہے "بابا غلام حسین ندیم" ہوراں نال۔
 
آخری تدوین:
اوشو جی
ماشااللہ۔ بہت زبردست تشریح کی ہے۔
مجھے 'کلونت' سے تھوڑا اختلاف ہے۔ اس کا مطلب فنکار ہی ہے جو تلمیذ صاحب نے بتایا۔ اس کی وجہ یہ کہ پوری لائین پڑھیں 'تیرا لِکھیا گاہ نہ کڈھدے کئی سُر دے شاہ کلونت'
یعنی تمھارے لکھے ہوئے کا حق سُروں کے بڑے بڑے فنکار بھی ادا نہیں کر سکتے
 
ساھڈا ہر دم جی کُرلاوندا ، ساھڈی نِیر وگاوے اَکّھ
اساں جیوندی جاندے مر گئے، ساھڈا مادھو ہویا اوکھ
کُرلاوندا : گریہ زاری کرنا
نِیر وگاوے : آنسو بہائے
مادھو ہویا اوکھ : مادھو بیساکھ کا مہینہ یا بہار سے متعلق
ہمارا دل تڑپ رہا ہے اور ہماری آنکھ سے آنسو جاری ہیں
ہم جیتے جی مر چکے ہیں اور کہ ہماری بہار جدا ہو گئی
ابن رضا اس شعر میں مادھو لال کی طرف اشاہ ہے۔
جس طرح کہ آپ بہتر جانتے ہیں کہ شعرا اپنے کلام میں تشبیہہ، استعارہ وغیرہ سے کام لیتے ہیں اسی طرح اس شعر میں "تلمیح " کی صنعت کا استعمال کیا گیا ہے ۔
تلمیح میں کسی تاریخ واقعے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جس سے شعر کی خوبصورتی اور قد میں اضافہ ہوجاتا ہے اور شاعر کی قادرالکلامی کا پتہ چلتا ہے کہ اس کو الفاظ و واقعات پر کتنی دسترس و قدرت حاصل ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
 
اُٹھ شاہ حُسینا ویکھ لے اسیں بدلی بیٹھے بھیس
ساڈی جِند نمانی کُوکدی اسیں رُلّ گئے وِچّ پردیس
ساڈا ہر دم جی کُرلاوندا ، ساڈی نِیر وگاوے اَکّھ
اساں جیوندی جانے مر گئے، ساڈا مادھو ہویا وکھ
سانوں سپّ سمے دا ڈنّگدا ، سانوں پَل پَل چڑھدا زہر
ساڈے اندر بیلے خوف دے ، ساڈے جنگل بن گئے شہر
اساں شوہ غماں وِچ ڈُبدے، ساڈی رُڑھ گئی نائو پتوار
ساڈے بولنّ تے پابندیاں ، ساڈے سر لٹکے تلوار
اساں نیناں دے کھوہ گِیڑ کے کِیتی وتّر دل دی پَئوں
ایہھ بنجر رھئی نماننڑی ، سانوں سجّن تیری سَونھ
اساں اُتوں شانت جاپدے، ساڈے اندر لگی جنگ
سانوں چُپ چپیتا ویکھ کے ، پئے اکھن لوک ملنگ
اساں کُھبے غم دے کُھوبڑے ، ساڈے لمے ہو گئے کیس
پا تانے بانے سوچدے، اساں بُندے ریندے کھیس
ہُن چھیتی دوڑیں بُلھیا ، ساڈی سولی ٹنگی جان
تینوں واسطہ شاہ عنائت دا ، نہ توڑیں ساڈا مان
اساں پیریں پا لئے کُنگرو ، ساڈی پاوے جِند دھمال
ساڈی جان لباں تے اپّڑی ، ہُن چھیتی مُکھ وکھال
ساڈے سر تے سورج ہاڑھ دا ، ساڈے اندر سیت سیال
بن چھاں ہُن چیتر رُکھ دی ، ساڈے اندر پانبڑ بال
اساں مچ مچایا عشق دا ، ساڈا لوسیا اِک اِک لُوں
اساں خُود نوں بُھلّے سانولا، اساں ہر دم جپّیا توں
ساھنوں چِنتا چِیخا چڑاھوندی، ساڈے تِڑکن لَگے ھَڈّ
پَھڑ لیکھاں برچھی دُکھ دی ساڈے سینے دیتی گَڈ
اساں تُر تُوں دُکھڑے چاگدے ساڈے لیکھیں لِکھیا سوگ
ساڈی واٹ لمیری دُکھ دی،ساڈے عُمروں لمے روگ
ساڈے ویھڑے پھوڑی دُکھ دی،ساڈا رو رو چویا نور
ایہہ اوکڑ ساڈی ٹال دے، تیرا جیوے شھر قصور
آ ویکھ سُخن دیا وارثا،تیرے جنڈیالے دی خیر
اَج پُتر بولی ماں دے پئے ماں نال رکھن وَیر
اَج ھیر تیری پئی سھکدی، اَج قَیدو چڑھیا رنگ
اَج تخت ھزارے ٹہہ گئے،اَج اُجڑیا تیرا چَنگ
اَج بِیلے ہو گئے سونجڑے، اَج سُکیا ویکھ چنا
اَج پِھرن آذُردہ رانجھڑے، اَج کھیڑے کر دے چاء
اَج ٹُٹی ونجلی پریت دی، اَج مُکے سُکھ دے گِیت
بَن جوگی دَر دَر ٹولیا، سانوں کوئی نہ مِلیا مِیت
اساں اکھرموتی رول دے اساں در در لاندے واج
کوئی لبھے ھِیر سیالڑی جیھڑی رنگے اپنا تاج
ساھڈے ہتھ پیالا زہر دا اساں ویلے دے سُقراط
اساں کَھنڈ بنادے کھار نوں ساڈھی جگ توں وکھری بات
اُٹھ جاگ فریدا سُتّیا ھُن کر کوئی تدبیر
جِند ہِجر کریرے پَھس کے اَج ہو گئی لیرو لِیر
سانوں جوبن رُتّے ویکھ کے سَبھ آکھن بابا لوگ
کِس کھویا ساڈا جوبنا سانوں لگا کیھا روگ
اساں پیڑاں دا وَنجھ پالیا سانوں دُکھاں چاھڑی پان
سانوں غم دا پینجا پِنجدا ساڈے تُنبے اُڈدے جان
اساں بِیجے رُکھ انار دے سانوں لبّے تُمے کَوڑ
اساں مرن دیھاڑ اُڈیکدے ساڈی وَدّدی جاوے سَوڑ
ساڈے سِر تے رُکھ بلور دے ساڈی تُپوں گہری چھاں
ساڈے تَنبو ساڑھے سورجے ساڈی لُوسے دھرتی ماں
ساڈی اُجڑی حالت ویکھ کے پا رحمت دی اِک چات
ساڈے سر توں اَنھی رات نوں ھُن کر سائیاں شبرات
ھُن آ باھو سُلطانیا سانوں درداں لیا لتاڑ
اَج توڑ زنجیری دُکھ دی اَج ھُو دا نعرہ مار
سانوں الف بنا دے پیاریا ساڈی مُک جائے بے دی لُوڑ
مَن مُشّکے بوٹی عشق دی سب نِکلے دل دی کوڑ
ایتھے تِڑ دے سب ایمان تے ایتھے اُڈدی عشق دی تُوڑ
جو عشق سلامت منگدا پھڑ اُس نوں لیندے نُوڑ
ساڈا تالو جاوے سُکدا ساڈی ودھدی جاوے پیاس
بَن بدل ساون ماہ دا ساڈی پوری کر دے آس
اساں اپنی قبرے آپ ہی لئے لَہو دے دیوے بال
اساں بے بُریاں دے شہر وِچ ایھہ کیتا نواں کمال
سائیں دمڑی شاہ دیا پیاریا تیرا جیوے سیف ملوک
ساڈے دیدے ترسن دید نوں ساڈے دل چوں اُٹھدی ھوک
سانوں گُڑھتی دیدے سُخن دی ساڈی کر دے صاف زبان
سانوں بُکّل وِچ لپیٹ کے ھُن بخشو عِلم گیان
اساں راتیں اُٹھ اُٹھ پِٹدے ساڈے کالجے پئے گئی سوج
اساں چَھم چَھم روندے پیاریا سانوں ھر دم تیری کھوج
اساں موہرا پِیتا سچ دا ساڈے نِیلے ہو گئے بُل
اساں رہ گئے کلّم کلّڑے ساڈا ویری ہویا کُل
ساڈے نَینِیں نِیندر رُس کے جا پُہنچی کہڑے دیس
ہَر راتیں چَھویاں مار دے ساھنوں لیف سرھانے کھیس
آ کوٹ مِٹھن دیا والیا لے جبدے ساڈی سار
ھِک تِکھڑا نین نکِیلڑا ساڈے دل تِھیں ہویا پار
سانوں چڑھیا تَیّا ہِجر دا ساڈا کر لے کوئی توڑ
سانوں بِرہن جوکاں لگیاں ساڈا لِتا لہو نچوڑ
اساں اپنے ہی گل لگ کے نِت پائیے سو سو وَیں
ساھڈی یا قسمت نوں چِمڑی اِک پُکھاں ماری ڈین
ایہنوں کِیلے منتر پھوک کے ایہنوں کڈھو دیسوں دور
ایہہ پِچھل پیری اوتری ایتھے بن بن بیٹھے حور
اَج پئے گیا کال پریت دا اَج نفرت کیتا زور
کر تتّا لوگڑپریم دا ساڈے جُسے کرو ٹکور
ساڈی سوچ نوں پیندیاں دندلاں ساڈے چل چل ھف گئے ساہ
نِت پھندے بُن بُن سُخن دے اساں خُود نوں دیندے پھاہ
ساھنوں ویلا پَچھ لگاوندا اُتے کڑیاں پاون لُون
دن راتاں مَچھ مریلڑے سانوں غم دی دلدل تُون
سانوں لڑدے ٹھونویں یاد دے ساڈا جُسا نِیل و نِیل
سانوں کُوڑے کُوڑا آکھ دے کیہہ دیئے اساں دلیل
آ تلونڈی دے بادشاہ گرو نانک جی مھاراج
توں لاڈلا بولی ماں دا تیری جگ تے رھنی واج
لے فیض فرید کبیر توں کیتا اُلفت دا پرچار
توں نفرت دے وِچ ڈُبدے کئی بیڑے کیتے پار
تُوں مان وداھیا پُرش دا تُوں ونڈیا اَت پیار
پا سچ دی چھاننی پاپ چوں تُوں لِتا پُن نتار
تیرا وسے گُرو دوالڑا تیرا اُچا ھووے ناں
دِن راتیں سِیساں دیوندی تینوں نانک بولی ماں
اے شِو کمارا پیاریا منگ ماں بولی دی خیر
اساں ٹُر پئے تیری راہ تے اساں نپّی تیری پَیڑ
تُوں چھوٹی عُمرے پیاریا کیتا عمروں وَدھ کمال
تُوں ماں بولی دا بوٹڑا لیا لہو اپنے نال پال
توں پُنے پِیر پراگڑے توں پیتی گھول رسوئنت
تیرا لِکھیا گاہ نہ کڈھدے کئی سُر دے شاہ کلونت
پا چھاپاں چَھلے پینکھڑا لا ٹِکا نَتھ پازیب
تُوں ورت کے لفظ انوکھڑے بھری ماں بولی دی جیب
تُساں سب سُچجے سجڑے رل پیش کرو فریاد
رب ماں بولی دا اُجڑیا گھر فیر کرے آباد
چل چھڈ ندیمے قادری ھُن کر دے پُر کلام
تُوں سیوک بولی ماں دا تیرا جگ تے رھنا نام
 
جبدے = جھبدے = جلدی سے
سار = خبر خیر
مادھو= حضرت مادھو لال حسین
کیلے= (دکھ تکلیف کو دور کرنے کیلئے ایک ٹوٹکہ ہے کیل ٹھونکتے ہیں ہیں کسی درخت وغیرہ میں)
پرش= مرد
سُچجے =چج =طریقہ ۔سچجے= اچھے طریقہ والے= سلیقہ والے
 

ابن رضا

لائبریرین
ساھڈا ہر دم جی کُرلاوندا ، ساھڈی نِیر وگاوے اَکّھ
اساں جیوندی جاندے مر گئے، ساھڈا مادھو ہویا اوکھ
کُرلاوندا : گریہ زاری کرنا
نِیر وگاوے : آنسو بہائے
مادھو ہویا اوکھ : مادھو بیساکھ کا مہینہ یا بہار سے متعلق
ہمارا دل تڑپ رہا ہے اور ہماری آنکھ سے آنسو جاری ہیں
ہم جیتے جی مر چکے ہیں اور کہ ہماری بہار جدا ہو گئی
ابن رضا اس شعر میں مادھو لال کی طرف اشاہ ہے۔
جس طرح کہ آپ بہتر جانتے ہیں کہ شعرا اپنے کلام میں تشبیہہ، استعارہ وغیرہ سے کام لیتے ہیں اسی طرح اس شعر میں "تلمیح " کی صنعت کا استعمال کیا گیا ہے ۔
تلمیح میں کسی تاریخ واقعے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جس سے شعر کی خوبصورتی اور قد میں اضافہ ہوجاتا ہے اور شاعر کی قادرالکلامی کا پتہ چلتا ہے کہ اس کو الفاظ و واقعات پر کتنی دسترس و قدرت حاصل ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
میری چونکہ اس نام سے آشنائی نہ تھی اس لیے لفظ مادھو کو شخصی کی بجائے لُغوی معنوں میں لیا تھا تصحیح کا شکریہ.
 
0000000

اُٹھ شاہ حُسینا ویکھ لے اسّی بدلی بیٹھے بھیس
ساڈی جِند نمانی کُوکدی اسی رُلگئے وِچ پردیس

ویکھ لے: دیکھ لے، بدلی بیٹھے بھیس: بھیس بدل چکے ہیں، جِند نمانی: بے بس جان، کم ہمتی، کُوکدی: رونے کے انداز میں پکارنا، رُل گئے: راستہ بھول گئے، خستہ حال ہو گئے۔


ساڈا ہر دم جی کُرلاوندا، ساڈی نِیر وگاوے اَکّھ
اساں جیوندی جاندے مر گئے، ساڈا مادھو ہوئیا وَکھ

کرلاوند: کُرلاتا، بین کرتا، روتا، نِیر: اشک، آنسو، جیوندی جانے مر گئے: جیتے جی مر گئے، مادھو: حسین کے مادھو لال کی طرف اشارہ ہے، وَکھ: الگ، جدا، بچھڑ گیا۔


سانوں سپّ سمے دا ڈنّگدا، سانوں پَل پَل چڑھدا زہر
ساڈے اندر بیلے خوف دے، ساڈے جنگل بن گئے شہر

سپ: سانپ، سماں: وقت، ڈنگدا: ڈستا ہے، بیلے: جنگل


اساں شوہ غماں وِچ ڈُبدے، ساڈی رُڑھ گئی ناؤ پتوار
ساڈے بولن تے پابندیاں، ساڈے سر لٹکے تلوار

شوہ: دریا، طوفان، رُڑھ گئی: پانی کے ساتھ بہہ گئی، بولن تے: بولنے پر، ناؤ: کشتی۔


اساں نیناں دے کھوہ گیڑ کے کِیتی وتّر دل دی بھوں
ایہ بنجر رہ نماننڑی، سانوں سجّن تیری سَونھ

نین: آنکھیں، کھوہ گیڑ کے: کنواں چلا کر (رہٹ میں بیل وغیرہ جوت کر پانی نکالتے ہیں)، وتر: تر، بھوں: زمین (زمین کو فصل بونے کے لئے پانی لگاتے ہیں)۔ نمانڑی (نمانی): بے بس، بے چاری، سجن: دوست، سَونھ: قَسم۔


اساں اُتوں شانت جاپدے، ساڈے اندر لگی جنگ
سانوں چُپ چپیتا ویکھ کے، پئے آکھن لوک ملنگ

اتوں: اوپر سے، بظاہر، شانت: پرامن، مسرور، جاپنا: محسوس ہونا، دکھائی دینا، چُپ چپیتا: چپ چاپ، خاموش، پئے آکھن: کہہ رہے ہیں۔


اساں کُھبے غم دے کھوبڑے، ساڈے لمے ہو گئے کیس
پا تانے بانے سوچدے، اساں بُندے ریندے کھیس

کھُبنا: دلدل وغیرہ میں پھنس جانا، دھنس جانا، کھوبڑے: کھوبے: کھوبا: دلدل، گاد، بہت نرم گیلی مٹی جس میں پاؤں وغیرہ دھنس جاتے ہیں۔ لمے: لمبے، طویل، کیس: سر کے اور داڑھی کے بال، پا: پانا، پاونا: ڈالنا، بُندے رہندے: بُنتے رہتے ہیں۔ کھیس: موٹا کپڑا۔

ہُن چھیتی دوڑیں بُلھیا، ساڈی سولی ٹنگی جان
تینوں واسطہ شاہ عنایت دا، نہ توڑیں ساڈا مان

چھیتی: جلدی، دَوڑیں: دَوڑ کر آنا (یہاں بَوھڑیں ہونا چاہئے تھا: واپس آنا، مدد کو پہنچنا)، بلھیا: اے بلھے شاہ، سُولی: پھانسی (اور اگر یہ سُولیں ہے تو: سُول: کانٹا) جان کانٹوں پہ ٹنگی ہے یا بھانسی پر ٹنگی ہے۔ مان: فخر، اعتماد۔


اساں پیریں پا لئے کُنگھرو، ساڈی پاوے جِند دھمال
ساڈی جان لباں تے اپّڑی، ہُن چھیتی مُکھ وِکھال

پیریں: پاؤں میں، پا لئے: پہن لئے، دھمال پاوے: دھمال ڈالے، ہماری جان دھمال ڈال رہی ہے، اپڑی: پہنچ گئی، مُکھ: منہ، چہرہ، وِکھال: وِکھا: دِکھا۔


ساڈے سر تے سورج ہاڑھ دا، ساڈے اندر سِیت سیال
بن چھاں ہُن چیتر رُکھ دی، ساڈے اندر بھانبڑ بال

ہاڑھ، ہاڑھ: موسمِ گرما کا مہینہ اساڑھ (وسط جون تا وسط جولائی)، سیت: سخت ٹھنڈ، شدید سردی، سیال: موسمِ سرما، چیتر: چیت: موسمِ بہار کا مہینہ (وسط مارچ تا وسط اپریل)، رُکھ: درخت، بھانبڑ: الاؤ، آگ، بال: جلا، بالنا: جلانا۔


اساں مچ مچایا عشق دا، ساڈا لُوسیا اِک اِک لُوں
اساں خُود نوں بُھلّے سانولا، اساں ہر دم جپیا توں

مَچ : آگ کے لئے ایندھین کا ڈھیر، مچایا: اس ڈھیر کو آگ لگا دی، لُوسیا: جل گیا، لُوں: بال (ایک ایک بال جل گیا)، بھلے: بھول گئے، سانولا: اے سانول، اے محبوب، جپیا (یہاں شاید جپدا ہو گا) جپنا: جاپ کرنا، وِرد کرنا، تیرا وِرد کرتا ہے۔


سانوں چِنتا چِخا چڑھاون دی، ساڈے تِڑکن لَگے ہَڈّ
پَھڑ لیکھاں برچھی دُکھ دی ساڈے سینے دتی کَڈ

چِنتا: فکر، چِخا: آگ، جہنم بھی مراد لیتے ہیں، چخا چڑھانا: کسی کا جلانا یا جل جانا، تِڑکن: تڑکنا، تڑخنا، ہَڈ: ہڈیاں، لیکھاں(لیکھ نصیب، قسمت): نصیب نے، قسمت نے، پھڑ: پکڑ کر، سینے دتی گڈ: سینے میں گاڑ دی۔


اساں دھُر تُوں دُکھڑے چاکدے ساڈے لیکھیں لکھیا سوگ
ساڈی واٹ لمیری دُکھ دی،ساڈے عُمروں لمے روگ

دھُر: شروع، دھُر توں؛ شروع سے، ازل سے، دکھڑے: دکھ، چاکدے: چکھ رہے ہیں۔ لیکھیں : قسمت میں، نصیب میں، واٹ: فاصلہ، سفر، لمیری: لمبی (واٹ مؤنث ہے، اس لئے)، لمے: لمبے۔


ساڈے ویہڑے پھوہڑی دُکھ دی،ساڈا رو رو چوئیا نور
ایہ اوکڑ ساڈی ٹال دے، تیرا جیوے شہر قصور

ویہڑے: صحن میں، گھر میں، پھُوہڑی: کوئی مر جائے تو اس کے گھر میں افسوس کے لئے آنے والوں کے لئے زمین پر کپڑا بچھاتے ہیں، اس کو پھُوہڑی یا پھُوہڑ کہتے ہیں۔ اس کے ہجے پھُوڑھی، پھُوڑھ بھی درست ہیں۔ چوئیا: بہت گیا، روتے روتے آنکھیں جاتی رہیں۔ اَوکڑ: مشکل، آزمائش کا عرصہ۔


آ ویکھ سُخن دیا وارثا،تیرے جنڈیالے دی خیر
اَج پُتر بولی ماں دے پئے ماں نال رکھن وَیر

وارثا: مراد ہے وارث شاہ، جنڈیالہ: اس کا گاؤں، وَیر: دشمنی


اَج ہیر تیری پئی سہکدی، اَج کَیدو چڑھیا رنگ
اَج تخت ہزارے ڈھے گئے،اَج اُجڑیا تیرا جھَنگ

سَہکدی: آہیں بھر رہی ہے، کیدو کو رنگ چڑھ گیا ہے وہ خوش ہے۔


اَج بیلے ہو گئے سنجڑے، اَج سُکیا ویکھ چنھا
اَج پِھرن آزُردہ رانجھڑے، اَج کھیڑے کر دے چاء

سُنجڑے: سُنجے: سنسان، سُکیا: خشک ہو گیا، چنھا: دریائے چناب، رانجھڑے: رانجھے، چاء: خوشی، جشن۔ کسی نام کی تصغیر بنانی ہو، اس میں پیار کا یا بے چارگی کا تاثر دینا ہو تو اس میں "ڑ" کا اضافہ کرتے ہیں، کبھی مصرعے کا وزن پورا کرنے کو بھی ایسا کر دیتے ہیں۔


اَج ٹُٹی ونجھلی پریت دی، اَج مُکے سُکھ دے گِیت
بَن جوگی دَر دَر ٹولیا، سانوں کوئی نہ مِلیا مِیت

ونجھ: بانس، ونجھلی: بانسری، ٹولیا: تلاش کیا، مِیت: دوست، سجن، مِتر۔


اساں اکھرموتی رولدے، اساں در در لاندے واج
کوئی لبھے ہِیر سیالڑی جیہڑی رنگے اپنا تاج

اکھر: لفظ، موتی رولنا: موتی تلاش کرنا اور ان کو جوڑنا، دَر دَر: در بہ در، ہر در پر، واج: آواز، سیالڑی: سیال قوم کی، رنگے: رنگ کرے۔


ساڈے ہتھ پیالہ زہر دا، اساں ویلے دے سُقراط
اساں کَھنڈ بنائیے کھار نوں ساڈی جگ توں وکھری بات

کھنڈ: چینی، میٹھا، کھار: کھاری شے، کڑوی چیز، بات وغیرہ، وَکھری: جُدا، الگ۔


اُٹھ جاگ فریدا سُتّیا ہُن کر کوئی تدبیر
جِند ہِجر کریڑے پَھس کے اَج ہو گئی لیرو لِیر

سُتیا: اے سوئے ہوئے، یہ الفاظ فرید کے کلام کا عکس ہیں۔ کریڑ: ککر، کورا، سردی کے موسم میں رات کو کھڑا پانی جم جاتا ہے۔ لیر: ٹکڑا، جان ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ (یہاں کریڑ شاید ژالہ باری کے معانی میں آیا ہے)۔


سانوں جوبن رُتے ویکھ کے سَب آکھن بابا لوگ
کِس کھویا ساڈا جوبنا سانوں لگا کیہا روگ

جوبن رُتے (جوانی کی رُت میں) لوگ ہمیں جوانی کی عمر میں بابالوگ کہتے ہیں، ہم جوانی میں بوڑھے ہو گئے ہیں، کھویا: چھین لیا، جوبنا: جوبن، کیہا: کیسا۔


اساں پیڑاں دا وَنجھ پالیا سانوں دُکھاں چاہڑی پان
سانوں غم دا پینجا پِنجدا ساڈے تُنبے اُڈدے جان

یہاں وَنجھ سے مراد شاید بانس کا جنگل ہے؟ پان چاڑھنا: لوہے کو سرخ گرم کر کے ٹھنڈے پانی میں ڈالتے ہیں، اس سے لوہا سخت ہو جاتا ہے۔ پینجا: روئی دھننے کی مشین یا اوزار، پنجیا: دُھنک کر رکھ دیا، بے حال کر دیا، تُنبے: روئی کے چھوٹے باریک ریشے جو روئی دھُنی جانے پر ہوا میں تیرتے پھرتے ہیں۔


اساں بِیجے رُکھ انار دے سانوں لبھے تُمے کَوڑ
اساں مرن دیہاڑ اُڈیکدے ساڈی وَدھدی جاوے سَوڑ

پیجے: بوئے، کاشت کئے۔ رُکھ: درخت، لبھے: ملے، دستیاب ہوئے، تمے: یہ خربوزے کی شکل کا ایک بہت کڑوا پھل ہوتا ہے۔ اسے کَوڑ تُما بھی کہتے ہیں۔ مرن دیہاڑ: موت کا دن، اڈیکدے: انتظار کر رہے ہیں، ودھدی جاوے: بڑھ رہی ہے، سَوڑ: تنگی، تکلیف اور دکھ کو بھی کہتے ہیں۔


ساڈے سِر تے رُکھ بلور دے ساڈی دھُپوں گہری چھاں
ساڈے تَنبو ساڑے سورجے ساڈی لُوسے دھرتی ماں

بلور کیا ہے، مجھے نہیں معلوم، یا شاید املا کا کوئی مسئلہ ہے۔ تنبو: شامیانے، چھاؤں کا سامان، سورجے: سورج نے، لُوسے: جل رہی ہے۔


ساڈی اُجڑی حالت ویکھ کے پا رحمت دی اِک جھات
ساڈے سر توں اَنھی رات نوں ہُن کر سائیاں شبرات

اُجڑی حالت: خستہ حالی، جھات پانا: ایک نظر دیکھنا، انھی: اندھی، سخت تاریک رات، شبرات: مراد ہے شب برات، امیدوں اور خوشیوں کی رات۔


ہُن آ باہو سُلطانیا سانوں درداں لیا لتاڑ
اَج توڑ زنجیری دُکھ دی اَج "ھُو" دا نعرہ مار

لتاڑ لیا: لتاڑ کر رکھ دیا، مار ڈالا، توڑ پھوڑ ڈالا، زنجیری: زنجیر، صرف اسلوب کا فرق ہے۔ ھُو ۔ باہو کی شاعری سے ماخوذ ہے۔


سانوں الف بنا دے پیاریا ساڈی مُک جائے بے دی لوڑ
مَن مُشّکے بوٹی عشق دی سب نِکلے دل دی کوڑ

الف بے: اشارہ ہے (علموں بس کریں او یار، تینوں اک الف درکار)، مُشک: اشارہ (الف اللہ چنبے دی بوٹی)۔ جب وہ بوٹی مہکے تو اندر کی ساری کڑواہٹ (کَوڑ) نکل جائے۔


ایتھے تِڑدے سب ایمان تے ایتھے اُڈدی عشق دی دھُوڑ
جو عشق سلامت منگدا پھڑ اُس نوں لیندے نُوڑ

تِڑنا: فخر کرنا، گھمنڈ کرنا، دھُوڑ: دھُول، یہاں عشق کی دھُول اڑتی ہے، قدر دان کوئی نہیں، نُوڑ لینا: جکڑ لینا، قید و بند میں ڈال دینا۔


ساڈا تالو جاوے سُکدا ساڈی ودھدی جاوے پیاس
بن بدل ساون ماہ دا ساڈی پوری کر دے آس

تالو خشک ہونا: پیاس کی شدت کا اظہار ہے۔ ودھدی جاوے: بڑھتی جائے، ساون ماہ کا بادل بن کر (ساون برسات کا مہینہ ہے : وسط جولائی سے وسط اگست)۔


اساں اپنی قبرے آپ ہی لئے لہو دے دیوے بال
اساں بے بُریاں دے شہر وِچ ایہ کیتا نواں کمال

قبرے: قبر پر، بے بریاں نہیں شاید یہاں بے قدراں یا ایسا کوئی لفظ رہا ہو گا۔ یعنی ہم نے نیا کمال یہ کیا کہ اپنی قبر پر چراغاں بھی خود کیا۔


سائیں دمڑی شاہ دیا پیاریا تیرا جیوے سیف ملوک
ساڈے دیدے ترسن دید نوں ساڈے دل چوں اُٹھدی ہوک

دمڑی شاہ کا پیارا: میاں محمد بخش، دیدے: آنکھیں، ہُوک: دکھ بھری پکار، آہ۔


سانوں گُڑھتی دے دے سُخن دی ساڈی کر دے صاف زبان
سانوں بُکّل وِچ لپیٹ کے ہُن بخشو عِلم گیان

گُڑھتی: بچے کو پیدا ہوتے ہی کوئی میٹھی چیز چٹاتے ہیں، وہ گُڑھتی ہے: گھُٹی، بکل: چادر وغیرہ کو جسم کے گرد پورے طور پر لپیٹ لینا، یعنی بکل مارنا، اس بکل میں بچے کو بھی سنبھال لیتے ہیں، تحفظ اور پناہ کی علامت ہے، گیان: علم۔


اساں راتیں اُٹھ اُٹھ پِٹدے ساڈے کالجے پئے گئی سوج
اساں چَھم چَھم روندے پیاریا سانوں ہر دم تیری کھوج

پٹدے: پیٹتے ہیں، کالجے: کلیجے پر، سوج: سوجن، ورم، مسلسل پیٹنے سے کلیجے پر ورم آ گیا ہے۔ کھوج: تلاش۔


اساں موہرا پِیتا سچ دا ساڈے نِیلے ہو گئے بُلھ
اساں رہ گئے کلّم کلّڑے ساڈا ویری ہویا کُل

موہرا: زہر، بلھ: ہونٹ، کلم کلڑے: بالکل اکیلے، وَیری: دشمن، کل: سب لوگ۔


ساڈے نَینِیں نِیندر رُس کے جا پُہنچی کیہڑے دیس
ہر راتیں چَھویاں مار دے سانوں لیف سرہانے کھیس

نینیں: آنکھوں میں، رُس کے: رُوٹھ کر، چھَوی: برچھی، چھرا، لیف: لحاف، بستر، سرہانہ، کھیس، چادر تک جیسے برچھیاں مار رہے ہوں۔


آ کوٹ مِٹھن دیا والیا لے جھبدے ساڈی سار
ہِک تِکھڑا نین نوکیلڑا ساڈے دل تِھیں ہویا پار

جھب: جھبدے: جلدی، سار لینا: خبرگیری کرنا، تکھڑا: تیکھا، نوکیلڑا: نوکیلا، نوک دار، شوخ، تھیں: سے، میں سے؛ ایک شوخ نگاہ دل سے پار ہو گئی۔


سانوں چڑھیا تَیئیا ہِجر دا ساڈا کر لے کوئی توڑ
سانوں بِرہن جوکاں لگیاں ساڈا لِتا لہو نچوڑ

تیئیا: تیسرے دن کا بخار، جسے باری کا تپ کہتے ہیں، توڑ کرنا: علاج کرنا، برہن: جدائی، فراق، جوکاں: جونکیں، لِتا لہو نچوڑ: خون نچوڑ لیا۔


اساں اپنے ہی گل لگ کے نِت پائیے سو سو وَین
ساڈی آ قسمت نوں چِمبڑی اِک بھکھاں ماری ڈین

نت: ہمیشہ، وَین پاونا: بین کرنا، چمبڑی: چمٹ گئی، بھکھاں ماری: بھوک کی ماری ہوئی، ڈَین: ڈائن۔


ایہنوں کِیلو منتر پھوک کے ایہنوں کڈھو دیسوں دور
ایہہ پِچھل پیری اوتری ایتھے بن بن بیٹھے حور

کِیلنا: قابو میں کرنا، منتر وغیرہ کر کے، کڈھو: نکال دو، دیسوں: دیس سے، پچھل پیری: الٹے پاؤں والی، منحوس، بلا، مشہور ہے کہ چڑیل عورت کی شکل میں ظاہر ہو تو اس کے پاؤں الٹے یعنی پچھلی طرف ہوتے ہیں، اوتری: لاوارث، آوارہ، یہاں آ کر یوں بیٹھ رہی ہے جیسے کوئی حور ہو، خود کو حور ظاہر کر رہی ہے۔


اَج پے گیا کال پریت دا اَج نفرت کیتا زور
کر تتّا لوگڑپریم دا ساڈے جثے کرو ٹکور

کال: قحط، پے گیا: پڑ گیا، پریت: پیار، پریم، ریجھ، رجھاؤ، لوگڑ:دھنکی ہوئی پرانی روئی، تتا: گرم: ٹکور کرنے کے لئے پرانی روئی گرم کر کر کے چوٹ لگے حصے پر رکھتے ہیں۔


ساڈی سوچ نوں پیندیاں دندلاں ساڈے جھل جھل ہف گئے ساہ
نِت پھندے بُن بُن سُخن دے اساں خُود نوں دیندے پھاہ

دندل: دندن: بے ہوشی، غشی کے دورے، جھل جھل: یہاں پنکھا یا ہوا مذکور نہیں مراد وہی ہے۔ ہف گئے ساہ: سانس پھول گئی، تھک گئے، نت: ہمیشہ، پھاہ لینا: باندھ لینا، پھنسا لینا۔


سانوں ویلا پَچھ لگاوندا اُتے گھڑیاں پاون لُون
دن راتاں مَچھ مریلڑے سانوں غم دی دلدل دھُون

پَچھ: پچھنے، زخم، گھڑیاں: وقت کی اکائیاں، لُون: نمک، زخموں پر نمک چھڑکنا مقصود المعانی ہے۔ مچھ مریلڑے: ممکنہ طور پر مگر مچھ کو کہا ہے، دھُون: گھسیٹ کر لے جاتے ہیں۔دھرُون، دھرُونا بھی یہی ہے۔


سانوں لڑدے ٹھُونوے یاد دے ساڈا جُثہ نِیلو نِیل
سانوں کُوڑے کُوڑا آکھدے کیہ دیئے اساں دلیل

ٹھونوے: بچھو، نیلو نیل: سارا نیلا، زہر کے اثر سے سارا جسم نیلا پڑ گیا ہے۔ کُوڑا، کوڑے: جھوٹا، جھوٹے، آکھدے: کہتے ہیں۔


آ تلونڈی دے بادشاہ گرو نانک جی مہاراج
توں لاڈلا بولی ماں دا تیری جگ تے رہنی واج

تلونڈی: گرو نانک کی جنم بھومی؟، واج: آواز کے علاوہ اس کا ایک معنی شہرت بھی ہے۔


لے فیض فرید کبیر توں کیتا اُلفت دا پرچار
توں نفرت دے وِچ ڈُبدے کئی بیڑے کیتے پار

کیتا: کیا، ڈبدے: ڈوبتے ہوئے۔


تُوں مان ودھایا پُرش دا تُوں ونڈیا اَت پیار
پا سچ دی چھاننی پاپ چوں تُوں لِتا پُن نتار

پرش: انسان، اَت: اس کے دو قطعی مختلف معانی معروف ہیں: ایک تو ہے بہت زیادہ، اور دوسرا ظلم؛ یہاں بہت زیادہ مراد ہے۔ پاپ: گناہ، پُن: نیکی، نتار لِتا: نتھار لیا، الگ الگ کر دیا۔


تیرا وسے گُرو دوالڑا تیرا اُچا ہووے ناں
دِن راتیں سِیساں دیوندی تینوں نانک بولی ماں

دوالڑا کیا ہے، مجھے نہیں معلوم، سیساں: دعائیں، دیوندی: دیتی ہے۔


اے شِو کمارا پیاریا منگ ماں بولی دی خیر
اساں ٹُر پئے تیری راہ تے اساں نپّی تیری پَیڑ

پَیڑ نپ لینا: پیچھے پیچھے چل پڑنا، اتباع کرنا۔ میرا گمان ہے کہ یہ نظم شِوکمار کی کہی ہوئی زمین میں ہے، واللہ اعلم۔ شاید اسی لئے مانوس سی لگ رہی ہے۔


تُوں چھوٹی عُمرے پیاریا کیتا عمروں وَدھ کمال
تُوں ماں بولی دا بوٹڑا لیا لہو اپنے نال پال

عمروں وَدھ: عمر سے بڑھ کر، بوٹڑا: بوٹا، پودا۔


توں بھنے پِیڑ پراگڑے توں پیتی گھول رسونت
تیرا لِکھیا گاہ نہ کڈھدے کئی سُر دے شاہ کلونت

توں بھنے پیڑ پراگڑے : تو نے بہت درد سہے۔ پراگا: قابلِ لحاظ مقدار، رسونت: ایک دوائی ہے جو زخموں اور چوٹ پر لگاتے ہیں۔ گاہ نہ کڈھدے: تیرے لکھے پر پورے نہیں اترتے، کلونت کیا ہے مجھے نہیں معلوم۔


پا چھاپاں چَھلے پینکھڑا لا ٹِکا نَتھ پازیب
تُوں ورت کے لفظ انوکھڑے بھری ماں بولی دی جیب

پہلے مصرعے میں زیوروں کے نام ہیں، انوکھڑے: انوکھے۔


تُساں سب سُچجے سجڑے رل پیش کرو فریاد
رب ماں بولی دا اُجڑیا گھر فیر کرے آباد

سچجے: سیانے، ماہر، سجرے: تازہ، سدا بہار۔


چل چھڈ ندیمے قادری ہُن کر دے پُور کلام
تُوں سیوک بولی ماں دا تیرا جگ تے رہنا نام

پُورنا: پورا کر دینا، بات مکمل کر دینا، سیوک: خادم۔


…………..
حضور جس قدر عرق ریزی اور محنت سے آپ نے اسے ہم جیسے جاہل لوگوں کے لئے عام فہم بنایا اس کا صلہ آپ کو سوہنا رب ہی دے سکتا ہے ہم تو صرف دعا ہی کر سکتے ہیں
جزاک اللہ :)
 
Top