ایک اور ڈرون حملہ

زبیر حسین

محفلین
انصافیوں کی مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جلسوں میں تو خوب ناچ گانا کرتے ہیں اور ساتھ میں طالبان کے سپورٹر بھی ہیں۔ طالبان کی حکومت آ گئی تو انصافیوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں گے۔
امن کی بات کر رہے ہیں آپ کو طالبان کی سپورٹ نظر آ رہی ہےذیشان بھائی۔
 

زبیر حسین

محفلین
ذرا باغی گروہ اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے والوں کے بارے میں قرآن مجید کی آیات کا مطالعہ فرمائیں۔ شائد پھر اسطرح کے سوال ہوچھنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
جناب میں نے سوال نہیں پوچھا تھا بلکہ اس بات
شمشاد بھائی باطل کے آگے ہتھیار ڈالنا مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔
کا جواب دیا تھا۔
 

ظفری

لائبریرین
میں تو ان کو جدید دور کے خوارج سمجھتا ہوں۔ اتمام حجت کے لئے مذاکرات کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے لیکن ان لوگوں نے سیدھا کبھی نہیں ہونا۔
یہ بات میں دوسرے موضوع پر لکھ چکا ہوں کہ یہ لوگ اسی فتنے کے لیئے پیدا ہوئے ہیں اور اسی پر ان کا خاتمہ ہونا ہے ۔
دوسری بات یہ کہ میں ان کو خوارج نہیں گردانتا کہ خوارج گروہی پیدا وار تھی ۔ طالبان تاتاریوں کے نقشِ قدم پر عمل پیرا ہیں ۔ جہاں اول و آخر قتل اور قتل ہی ہر بات کا جواب ہونا ہے ۔ جواز یہ لوگ کچھ بھی بنا لیں ۔
 

ظفری

لائبریرین
جناب بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی، دونوں پاکستان کے بھی دشمن ہیں۔ جب امریکہ ان کو مارتا ہے تو طالبان انتقام لینے پاکستان کے درپے ہوجاتے ہیں اور جب امریکہ طالبان کو مارنے ڈرون بھیجتا ہے تو پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرکے بے گناہ پاکستانیوں کو بھی نشانہ بناتا ہے۔
کس خود مختاری کی بات کر رہے ہیں ۔ آپ کی حکومت کی وہاں رٹ قائم نہیں ۔ فوج وہاں قدم نہیں رکھ سکتی ۔ وہاں کے قوانین پاکستان کے آئین سے یکسر مختلف ہیں ۔ یعنی ریاست میں ایک دوسری ریاست قائم ہے ۔ آپ بھی کبھی وہاں جنگ کرنے جاتے ہیں تو بلکل انہی بنیادوں پر جاتے ہیں ۔ جیسے کسی دوسرے ملک پر چڑھائی کی جاتی ہے ۔ کوئی اور فریق اس نام نہاد ریاست پر آکر اپنی ترجیحات کے مطابق حملہ کرتا ہے تو اس سے پاکستان کی کس خود مختاری پر ضرب پڑتی ہے ۔ پہلے اس حصے کو پاکستان کا حصہ تو بنا لیں ۔ اس پر پاکستان کی رٹ تو قائم کرلیں ۔ پھر کہہ سکتے ہیں کہ ایسے حملوں سے پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ رہی بے گناہ پاکستانیوں کے قتل و غارت کی تو یہ کام طالبان بڑی بخیرو خوبی انجام دے رہے ہیں ۔ اور وہ بھی بڑی تسلسل کیساتھ ۔ اور تعداد اب تک 45 ہزار سے اوپر پہنچ چکی ہے ۔
ڈورن حملوں میں بے گناہوں کی اموات کا بلکل اسی طرح دکھ ہوتا ہے جس طرح طالبان بازاروں ، چرچوں ، مساجد وں ، درگاہوں ، امام بارگاہوں ، شادیوں ، جنازوں میں معصوم اور بے گناہوں کو آگ و خون سے نہلاتے ہیں ۔
 
آپ کو اس علاقے کے بارے میں یقیناً بہت سی غلط فہمیاں ہیں۔ فاٹا یقیناً پاکستان کا حصہ ہے اور جو بھی اس علاقے میں بغیر اجازت گھسے گا وہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرے گا
 

سید ذیشان

محفلین
یہ بات میں دوسرے موضوع پر لکھ چکا ہوں کہ یہ لوگ اسی فتنے کے لیئے پیدا ہوئے ہیں اور اسی پر ان کا خاتمہ ہونا ہے ۔
دوسری بات یہ کہ میں ان کو خوارج نہیں گردانتا کہ خوارج گروہی پیدا وار تھی ۔ طالبان تاتاریوں کے نقشِ قدم پر عمل پیرا ہیں ۔ جہاں اول و آخر قتل اور قتل ہی ہر بات کا جواب ہونا ہے ۔ جواز یہ لوگ کچھ بھی بنا لیں ۔

خوارج اس لئے کہا کہ وہ بھی "لا حکم الا باللہ" کا نعرہ لگاتے تھے اور یہ لوگ بھی شریعت کے نفاذ کا نعرہ لگاتے تھے۔ وہ بھی اپنے علاوہ سب کو کافر اور واجب القتل سمجھتے تھے اور یہ بھی تکفیری ہیں۔

ورنہ آج کل کے عمان کے خوارج ان لوگوں سے بہت مختلف ہیں۔
 

x boy

محفلین
جو قرآن الکریم اوراتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑکرغیروں میں شری نظام ڈھونڈے،
اور اپنے علماء کی بات کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر مقدم سمجھے،
پورا پاکستان ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے جن کا قبلہ یا تو مغرب ہے یا انکے علماء کا آستانہ۔
یہ سب خوارج کے زمرے میں آئنگے۔
 

arifkarim

معطل
کس خود مختاری کی بات کر رہے ہیں ۔ آپ کی حکومت کی وہاں رٹ قائم نہیں ۔ فوج وہاں قدم نہیں رکھ سکتی ۔ وہاں کے قوانین پاکستان کے آئین سے یکسر مختلف ہیں ۔ یعنی ریاست میں ایک دوسری ریاست قائم ہے ۔ آپ بھی کبھی وہاں جنگ کرنے جاتے ہیں تو بلکل انہی بنیادوں پر جاتے ہیں ۔ جیسے کسی دوسرے ملک پر چڑھائی کی جاتی ہے ۔ کوئی اور فریق اس نام نہاد ریاست پر آکر اپنی ترجیحات کے مطابق حملہ کرتا ہے تو اس سے پاکستان کی کس خود مختاری پر ضرب پڑتی ہے ۔ پہلے اس حصے کو پاکستان کا حصہ تو بنا لیں ۔ اس پر پاکستان کی رٹ تو قائم کرلیں ۔ پھر کہہ سکتے ہیں کہ ایسے حملوں سے پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ رہی بے گناہ پاکستانیوں کے قتل و غارت کی تو یہ کام طالبان بڑی بخیرو خوبی انجام دے رہے ہیں ۔ اور وہ بھی بڑی تسلسل کیساتھ ۔ اور تعداد اب تک 45 ہزار سے اوپر پہنچ چکی ہے ۔
ڈورن حملوں میں بے گناہوں کی اموات کا بلکل اسی طرح دکھ ہوتا ہے جس طرح طالبان بازاروں ، چرچوں ، مساجد وں ، درگاہوں ، امام بارگاہوں ، شادیوں ، جنازوں میں معصوم اور بے گناہوں کو آگ و خون سے نہلاتے ہیں ۔
حکومت پاکستان کی رٹ تو ایبٹ آباد میں بھی نہیں تھی۔ جبھی تو امریکی بڑے مزے سے بن لادن کو مار کر اسکی لاش ساتھ اڑا کر لے گئے اور پاک فوج کو کان و کان خبر نہیں ہوئی کہ انکے ساتھ ہوا کیا ہے!
 

x boy

محفلین
مجھے ہنسی آتی ہے ایسے ڈراموں پر جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، اسامہ بن لادن کا ڈرامہ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے ورنہ اسامہ بن لادن
کب کا مارا گیا تھا مار کر سمندر میں پھینک دینا، ٹوم اینڈ جیری کارٹون ہے
 

arifkarim

معطل
مجھے ہنسی آتی ہے ایسے ڈراموں پر جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، اسامہ بن لادن کا ڈرامہ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے ورنہ اسامہ بن لادن
کب کا مارا گیا تھا مار کر سمندر میں پھینک دینا، ٹوم اینڈ جیری کارٹون ہے
اگر یہ بات ہے تو تحریک طالبان اور القائدہ نے اسکی تصدیق کیوں کی کہ امیر المؤمنین حضرت اسامہ بن لادن امیر القائدہ امریکی حملے میں ہلاک ہو چکے ہیں؟
 

ظفری

لائبریرین
آپ کو اس علاقے کے بارے میں یقیناً بہت سی غلط فہمیاں ہیں۔ فاٹا یقیناً پاکستان کا حصہ ہے اور جو بھی اس علاقے میں بغیر اجازت گھسے گا وہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرے گا
آپ اپنا ریکارڈ درست کرلیں ۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 42 کے مطابق فاٹا میں پاکستان کی کوئی عمل داری نہیں ہے ۔
 

Fawad -

محفلین
آپ مجھے بتائیں کہ امریکہ کے افغانستان میں آنے سے پہلے اور پاکستان کے امریکہ کے ساتھ اس جنگ میں شامل ہونے سے پہلے کون سی دہشت گردی تھی پاکستان میں۔۔۔ اکا دکا سنی شیعہ فسادات کے علاوہ؟



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


آپ کا نقطہ نظر اس سوچ اور يقين پر مبنی ہے کہ دہشت گردی کی وبا اور پاکستانی معاشرے پر اس کے اثرات افغانستان ميں امريکہ اور نيٹو افواج کی کاروائ کے نتیجے ميں رونما ہو رہے ہيں۔ آپ اس بات پر بضد ہيں کہ پاکستان ميں سال 2001 سے پہلے مکمل امن تھا۔


يہ يقينی طور پر ايک جانا مانا نقطہ نظر ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز پر خاص طور پر کچھ سابقہ فوجی افسران اور بيروکريٹ بھی اسی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہيں۔


ليکن واقعات کا تسلسل اور دہشت گردی کے ممکنہ خطرے کو نظرانداز کرنے سے متعلق مجرمانہ غفلت جس کے نتيجے میں 911 کا واقعہ پيش آيا سرکاری اور تاريخی دستاويزات کی صورت ميں ريکارڈ پر موجود ہيں۔


امريکی حکومت کو افغانستان ميں طالبان کی حکومت، پاکستان کی جانب سے ان کی حمايت اور دہشت گردوں کو محفوظ مقامات فراہم کرنے کے ضمن ميں ان کی پاليسی سے متعلق شدید خدشات تھے۔


طالبان حکومت کے ضمن ميں امريکی حکومت کے تحفظات کا محور ان کے مذہبی اور سياسی عقائد نہیں بلکہ ان کی جانب سے دہشت گردی کی براہراست حمايت اور بنيادی انسانی حقوق کی فراہمی کے ضمن ميں ان کی واضح ناکامی تھی۔


اگر آپ جانب دارانہ سوچ کو ايک طرف رکھ کر حقائق اور اعداد وشمار پر ايک نظر ڈاليں تو آپ پر يہ واضح ہو جائے گا کہ اس کھوکھلے نظريے ميں کوئ صداقت نہيں ہے کہ افغانستان ميں امريکی فوجی کاروائ سے قبل پاکستان ميں دہشت گردی کا سرے سے کوئ وجود ہی نہيں تھا۔


ذيل ميں ديا ہوا گراف دہشت گردی سے متعلق ان واقعات کو ظاہر کر رہا ہے جو سال 1984 سے 2007 کے درميانی حصے ميں رونما ہوئے۔


آپ خود ديکھ سکتے ہيں کہ دہشت گردی کا عفريت قريب دو عشروں سے پاکستانی معاشرے کو ديمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ يہ کہنا بالکل غلط ہے کہ يہ وبا 911 کے واقعے کے بعد اچانک ہی پاکستانی معاشرے ميں نمودار ہو گئ تھی۔ اعداد و شمار اس دعوے کی نفی کرتے ہيں۔


http://s9.postimg.org/o3b2emuof/Screen_Shot_2013_07_31_at_3_12_32_PM.png


اس کے بعد خود کش حملوں کے حوالے سے اعداد وشمار کا جائزہ ليتے ہيں۔ فورمز پر رائے دہندگان نے اکثر مجھ سے اس بات پر جرح کی ہے کہ سال 2001 سے قبل پاکستان ميں سرے سے کوئ خودکش حملہ نہيں ہوا تھا۔


آپ واضح طور پر ديکھ سکتے ہيں کہ سال 1995 سے خودکش حملوں کے واقعات ريکارڈ پر موجود ہيں۔


http://s15.postimg.org/gkjiipifv/Screen_Shot_2013_07_31_at_3_12_02_PM.png


اس گراف ميں سال 2007 کے قريب جو غير معمولی اضافہ دکھائ دے رہا ہے اس کے وجہ وہ خودکش حملے ہيں جو لال مسجد پر حکومت پاکستان کی کاروائ کے بعد ردعمل کے طور پر سامنے آئے تھے۔ سال 2007 ميں جون کے مہينے تک 8 خودکش حملے ہوئے تھے اس کے بعد اگلے چھ ماہ ميں 48 حملے کيے گئے۔


ايک مرتبہ پھر اعداد وشمار اور گراف سے يہ واضح ہے کہ خطے ميں امريکی افواج کے آنے سے کئ برس پہلے بھی دہشت گرد تنظيميں اپنے مذموم مقاصد کی تکميل کے ليے کم سن بچوں کو خود کش حملہ آوروں کے طور پر استعمال کر رہی تھيں۔


موازنے کے ليے يہ اعداد وشمار پيش ہين جو افغانستان ميں فوجی کاروائ سے پہلے اور اس کے بعد دہشت گردی کی کاروائيوں کے حوالے سے حقائق واضح کر رہے ہيں۔


http://s15.postimg.org/faqahee1n/Screen_Shot_2013_07_31_at_3_11_36_PM.png


اور آخر ميں يہ تصوير افغانستان ميں فوجی کاروائ سے قبل پاکستان ميں ہونے والے دہشت گرد حملوں اور ان کے حدود واربعہ کو واضح کر رہی ہے۔


http://s10.postimg.org/6e14qc8k9/Screen_Shot_2013_07_31_at_3_13_24_PM.png

اس ميں کوئ شک نہيں کہ گزشتہ ايک دہائ کے دوران آزاد ميڈيا، سوشل ويب سائٹس اور مواصلات سے متعلق ہونے والی عمومی ترقی کے سبب اب ان موت کے سوداگروں کی ظالمانہ کاروائيوں کے حوالے سے عوامی سطح پر پہلے کے مقابلے ميں زيادہ آگہی اور معلومات ميسر ہيں۔


ليکن اس حوالے سے کوئ مغالطہ نہيں ہونا چاہیے۔ يہ دہشت گرد تنظيميں محض کسی ردعمل يا انتقام کے جذبے سے سرشار ہو کر اچانک منظرعام پر نہيں آ گئ ہيں۔ 911 کے واقعات سے بہت پہلے ہی عوامی سطح پر خوف، دہشت اور بربريت کے ذريعے اپنے سياسی اثرورسوخ ميں اضافے کے ليے اپنے واضح کردہ ايجنڈے پر کاربند ہيں۔


فورمز پر موجود مقبول عام تاثر کے برعکس يہ عالمی برادری بشمول امريکی اور پاکستانی افواج تھيں جو ردعمل پر مجبور ہوئيں نا کہ يہ دہشت گردی تنظيميں – اور اس ردعمل کا فيصلہ اس وقت کيا گيا جب عالمی دہشت گردی کا يہ عفريت ہماری سرحدوں کے اندر پہنچ گيا۔


آپ ان حقائق کا جائزہ ليں اور پھر يہ فيصلہ کريں کہ کيا امريکی حکومت اور امريکی افسران کو پاکستان ميں موجودہ تشدد کا ذمہ دار قرار ديا جا سکتا ہے ، يہ جانتے ہوئے کہ مختلف امريکی افسران کی جانب سے پاکستان ميں حکومتوں کو آنے والے برسوں ميں دہشت گردی کے ممکنہ خطروں کے ضمن میں مسلسل خبردار کيا جا رہا تھا؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
یار اگر امریکہ افغانستان سے جان بچا کر بھاگنے کے لیئے افغانی طالبان سے مذاکرات کر سکتا ہے تو پاکستان کو بھی حق حاصل ہے




فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


امريکی حکومت کی جانب سے افغانستان ميں متحرک مختلف گروہوں کو سياسی دھارے ميں آنے کی ترغيب دينا اور اس عمل کی حوصلہ افزائ کو ہماری شکست سے تعبیر دینا درست نہيں ہے۔ حقيقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ يہ افغانستان کے بنيادی حکومتی ڈھانچے کو فعال کرنے اور مقامی افغان سيکورٹی فورسز کی اہليت اور صلاحيت ميں بہتری کی ہماری ديرينہ کاوشوں کی غمازی کرتا ہے تا کہ دہشت گردی کے جس عفريت نے سارے خطے کو متاثر کيا ہے اس پر قابو پانے کے لیے افغان حکومت اور اس کے ادارے اپنے موثر کردار خود ادا کر سکیں۔ اس مقصد کے حصول اور خطے میں ديرپا امن کا قيام ہی وہ اہداف ہيں جو خطے سے امريکی اور نيٹو افواج کی واپسی کی ضمانت فراہم کر سکتے ہيں – ليکن يہ نتائج شکست سے نہيں بلکہ ايک مستحکم پوزيشن کے نتيجے ميں ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس تناظر ميں افغانستان کے سياسی پليٹ فورم کو وسيع کرنے اور زيادہ سے زيادہ فريقين کو مذاکرات کی ميز پر لانے کے ضمن ميں ہماری حمايت، ہماری پاليسی ميں تبديلی کی آئينہ دار نہيں ہے۔ بلکہ يہ ہماری کامياب پاليسی کا اگلا مرحلہ ہے جس کا مقصد سياسی عمل سے ان دہشت گردوں اور ان کی خونی سوچ کو تنہا کرنا ہے تا کہ سياسی فريقين اور افغان عوام کے حقيقی نمايندے اس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ايک مقامی حل کی جانب گامزن ہوں جو صرف افغانستان ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام عالمی برادری کے لیے بدستور ايک مشترکہ خطرہ ہے۔


خطے کی باگ ڈور ايسے دہشت گردوں کے حوالے کر دينا جو اپنے اثر ورسوخ ميں اضافے اور عوام پر اپنے نظريات مسلط کرنے کے لیے بے گناہ شہريوں کو قتل کريں، نا تو کوئ حل ہے اور نا ہی کوئ قابل عمل آپشن



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین

اگر حکیم الله دہشتگرد تھا تو وہ دہشتگردی کہاں کرتا تھا ، آپ کا جواب پاکستان ہی ہوگا ، تو امریکا کو کیا مسلہ ہے ، دہشتگردی پاکستان میں ڈرون امریکہ بھیجتا ہے

....



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


کچھ رائے دہندگان اپنے دلائل ايسے دعوؤں کو بنياد بنا کر پيش کرتے ہيں جو ناقابل فہم بھی ہوتے ہيں اور پڑھنے والوں سے اس غلط توقع کے متقاضی بھی ہوتے ہيں کہ ان بے سروپا الزامات کو من وعن حقيقت سمجھ کر تسليم کر ليا جائے۔


دسمبر 2007 ميں تحريک طالبان پاکستان کا باضابطہ اعلان بيت اللہ محسود کی قيادت ميں کيا گيا تھا۔
ريکارڈ کی درستگی کے ليے آپ کو ياد دلا دوں کہ امريکی فوج نے اگست 2007 ميں ہی بيت اللہ محسود کی گرفتاری پر پچاس ہزار ڈالرز کا انعام رکھا تھا جسے امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے مارچ 25 2009 کو بڑھا کر 5 ملين ڈالرز کر ديا تھا۔


ستمبر 1 2010 کو امريکہ نے تحريک طالبان پاکستان کو ايک بيرونی دہشت گرد تنظيم قرار ديا اور حکيم اللہ محسود اور ولی الرحمن کو "خصوصی عالمی دہشت گرد" قرار ديا۔ تحريک طالبان پاکستان کو ايک دہشت گرد تنظيم کا درجہ ديے جانے کے بعد اس تنظيم کی حمايت يا اس سے ميل ملاپ ايک جرم ہے اور امريکی حکومت اس تنظيم سے متعلق کسی بھی اثاثے کو منجمند کرنے کی مجاز ہے۔ اس کے علاوہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے ان دونوں افراد کی حدود واربعہ سے متعلق معلومات مہيا کرنے پر 5 ملين ڈالرز کا انعام بھی مقرر کيا۔


امريکی سيکرٹری آف اسٹيٹ اس طرح کے انعام کے اعلان کا صرف اسی صورت ميں مجاز ہوتا ہے جب کسی ايسے شخص کی گرفتاری کے ليے معلومات درکار ہوں جو يا تو اپنے اعمال، منصوبہ بندی، سازش، امداد يا ترغيب کے ذريعے امريکی املاک يا افراد کے خلاف عالمی دہشت گردی کی کاروائ ميں ملوث ہو۔ بيت اللہ محسود پر انعام کا اعلان اور تحريک طالبان پاکستان نامی تنظيم کو دہشت گرد قرار ديا جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امريکی حکومت نے ہميشہ اس تنظيم کو اپنے شہريوں کے ليے براہراست خطرہ سمجھا ہے۔


اگر آپ گزشتہ چند برسوں کے دوران بيت اللہ محسود سميت تحريک طالبان پاکستان کے سرکردہ قائدين کے بيانات پڑھيں تو آپ پر يہ واضح ہو جائے گا کہ ان کی جانب سے تواتر کے ساتھ امريکہ کی حدود کے اندر دہشت گردی کی کاروائيوں کی دھمکی موجود تھی۔


مارچ 2009 سے ايک مثال


http://www.longwarjournal.org/archives/2009/03/baitullah_mehsud_tak.php

اس کے علاوہ تحريک طالبان پاکستان کے ليڈر قاری محسود نے اپريل 2010 ميں ايک ويڈيو بيان ريکارڈ کروايا جس ميں يہ دعوی کيا کہ امريکہ کے شہروں پر حملے ان کا اصل ہدف ہيں۔ تحريک طالبان پاکستان نے دسمبر 2009 ميں کيمپ چيپ مین ميں امريکی تنصيبات پر خودکش حملے اور مئ 2010 ميں نیويارک کے ٹائم سکوائر پر حملے کی کوشش کی ذمہ داری بھی قبول کی۔


يہ بيانات صرف امريکی اور مغربی ذرائع ابلاغ پر ہی نہيں بلکہ پاکستانی ميڈيا پر بھی موجود ہيں۔
حکمت عملی کے اعتبار سے امريکی حکومت کو ايسی تنظيم کو مدد فراہم کرنے کے نتيجے ميں کوئ فائدہ نہيں ہے جو برملا ہمارے ہی شہريوں کو ہلاک کرنے کی دھمکياں دے رہے ہیں۔ يہ تنظيم سرحد کے دونوں اطراف پاکستانی اور نيٹو افواج پر کئ براہراست حملوں کی ذمہ دار ہے۔


يہ ايک مسلم حقيقت ہے کہ تحريک طالبان پاکستان نامی تنظيم کے کئ قائدين، افغانستان ميں لڑائ ميں ملوث رہے ہیں اور نيٹو کی قيادت ميں آئ – ايس – اے – ايف کے فوجیوں سے برسرپيکار گروہوں کو تربيت، سازوسامان اور افرادی قوت فراہم کرتے رہے ہيں۔ مئ 2010 کو اپنے ايک انٹرويو کے دوران امريکی جرنل ڈيوڈ پيٹريس نے تحريک طالبان پاکستان اور ديگر جنگجو گروپوں کے مابين تعلقات کو ان الفاظ ميں بيان کيا۔


"ان تمام مختلف تنظيموں کے مابین ايک قريبی تعلق موجود ہے جن ميں القائدہ، پاکستانی طالبان، افغان طالبان اور تحريک نفاذ شريعت محمدی شامل ہيں۔ يہ تنظيميں ايک دوسرے کی مدد بھی کرتی ہیں اور مل جل کر کام بھی کرتی ہيں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔حتمی تجزيے ميں ان کے درميان مخصوص رشتہ قائم ہے"۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
مجھے ہنسی آتی ہے ایسے ڈراموں پر جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، اسامہ بن لادن کا ڈرامہ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے ورنہ اسامہ بن لادن
کب کا مارا گیا تھا مار کر سمندر میں پھینک دینا، ٹوم اینڈ جیری کارٹون ہے


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


اگر اسامہ بن لادن ايبٹ آباد کے کمپاؤنڈ ميں موجود نہيں تھا تو پھر آپ ان کی بيويوں کے بيانات کے حوالے سے کيا کہيں گے جو اسی عمارت ميں موجود تھيں؟

اگر يہ بھی آپ کو مطمن کرنے کے ليے کافی نہيں ہے تو پھر اس حقيقت کا کيا کريں کہ القائدہ سے وابسطہ ميڈيا کے تمام نشرياتی ادارے اور ويب سائٹس پر بھی اس کی تصديق کی گئ اور القائدہ کے موجودہ قائد يمن الظواھری کا براہ راست بيان بھی ريکارڈ پر موجود ہے


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

ساقی۔

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


امريکی حکومت کی جانب سے افغانستان ميں متحرک مختلف گروہوں کو سياسی دھارے ميں آنے کی ترغيب دينا اور اس عمل کی حوصلہ افزائ کو ہماری شکست سے تعبیر دینا درست نہيں ہے۔ حقيقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ يہ افغانستان کے بنيادی حکومتی ڈھانچے کو فعال کرنے اور مقامی افغان سيکورٹی فورسز کی اہليت اور صلاحيت ميں بہتری کی ہماری ديرينہ کاوشوں کی غمازی کرتا ہے تا کہ دہشت گردی کے جس عفريت نے سارے خطے کو متاثر کيا ہے اس پر قابو پانے کے لیے افغان حکومت اور اس کے ادارے اپنے موثر کردار خود ادا کر سکیں۔ اس مقصد کے حصول اور خطے میں ديرپا امن کا قيام ہی وہ اہداف ہيں جو خطے سے امريکی اور نيٹو افواج کی واپسی کی ضمانت فراہم کر سکتے ہيں – ليکن يہ نتائج شکست سے نہيں بلکہ ايک مستحکم پوزيشن کے نتيجے ميں ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس تناظر ميں افغانستان کے سياسی پليٹ فورم کو وسيع کرنے اور زيادہ سے زيادہ فريقين کو مذاکرات کی ميز پر لانے کے ضمن ميں ہماری حمايت، ہماری پاليسی ميں تبديلی کی آئينہ دار نہيں ہے۔ بلکہ يہ ہماری کامياب پاليسی کا اگلا مرحلہ ہے جس کا مقصد سياسی عمل سے ان دہشت گردوں اور ان کی خونی سوچ کو تنہا کرنا ہے تا کہ سياسی فريقين اور افغان عوام کے حقيقی نمايندے اس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ايک مقامی حل کی جانب گامزن ہوں جو صرف افغانستان ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام عالمی برادری کے لیے بدستور ايک مشترکہ خطرہ ہے۔


خطے کی باگ ڈور ايسے دہشت گردوں کے حوالے کر دينا جو اپنے اثر ورسوخ ميں اضافے اور عوام پر اپنے نظريات مسلط کرنے کے لیے بے گناہ شہريوں کو قتل کريں، نا تو کوئ حل ہے اور نا ہی کوئ قابل عمل آپشن



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu


واہ واہ! مان گئے استاد کہ امریکی پروپیگنڈے میں ماہر ہیں۔

ساری دنیا جانتی ہے امریکہ کی افغانستان میں رات ہو چکی ہے اور آپ ہیں کہ کوے کو سفید کہہ رہے ہیں ۔

ایک طرف آپ حکومت کی باگ دوڑ‘‘ دشت گردوں’’ سے بچاتے پھر رہے ہیں اور دوسری طرف انہیں دشت گردوں کو قطر میں بلا کر ہاتھ جوڑ کر کہہ رہے ہیں ‘‘ ہمیں بخشیو مہاراج’’

آپ کا تووہ حال ہے

ڈالر لیے ،دیئے ہوئے امریکہ کے تھے

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
 
Top