کاشفی
محفلین
غزل
(جناب پروفیسر ثاقب، وکٹوریا کالج، گوالیار - 1915ء)
ایّامِ گل میں اور ہی ساماں ہوگیا
پھر تار تار اپنا گریباں ہوگیا
ساقی کی چشمِ مست پہ قرباں ہوگیا
کامل طریقِ عشق میں ایماں ہوگیا
صد شکر، اُس بُتِ کافر کو شیخ بھی
ایماں نذر دے کے مسلماں ہوگیا
آوارگانِ دشتِ محبت کے واسطے
سجدہ درِ حبیب کا ایماں ہوگیا
میں شاد قتل سے، وہ پریشاں جور سے
مشکل تھا جو اُنہیں، مجھے آساں ہوگیا
وہ بے نیاز، جاں نکلنے کو بیقرار
بس اب مریضِ ہجر کا، درماں ہوگیا
زاہد میں وہ ریا، وہ پیوست نہیں رہی
رندوں میں بیٹھ بیٹھ کے انساں ہوگیا
پیرِمغاں کے فیضِ توجہ کو کیا کہوں
حاصل تصورات سے اذعاں ہوگیا
عشاق مرمٹے کہ گری برق جانستاں
ان کی نگاہِ ناز کا احساں ہوگیا
جب چارہء فراق نہ کچھ بن پڑا، تو میں
اپنے کئے سے آپ پشیماں ہوگیا
اللہ رے جمال کہ صنّاع بے مثال
صورت کو تیری دیکھ کے حیراں ہوگیا
ثاقب امید وصل ہی میں ہوگیا وصال
پورا کسی طرح مرا ارماں ہوگیا