ایس ای کالج کے انگریزی کے استاد خالد حمید کا شاگرد کے ہاتھوں قتل

زیک

مسافر
واقعی افسوسناک بات ہے۔ کیا ہم ذاتی کوششوں پر ایسا کچھ تربیتی نظام ترتیب دے سکتے ہیں؟
باقاعدہ کوئی سنگھٹن کی ضرورت نہیں۔۔۔ ہر اسکول اور کالج میں کوچنگ سینٹرز والے اور انٹر اسکول/کالج مقابلوں کے انوی ٹیشن کے لیے جاتے ہی ہیں۔ کتنے ہی سیمی نار کریئر گائیڈنس کے ہوتے ہیں۔ انتظامیہ سے کوئی آدھے ایک گھنٹے کی بات کر کےکوئی اچھے اسپیکر کے ذریعے چھوٹا سا سیمی نار جیسا منعقد کرایا جا سکتا ہے۔
زیادہ مجمع بھی ضروری نہیں۔ محض گیارہویں باہویں جماعت کے طلباء، یا نویں دسویں کے طلباء۔ مختصر بات۔ ایسے معاملات کی سنگینیوں کا ذکر۔ مستقبل پر اثر۔ اسلام کا نظریہ۔ محبت کی باتیں۔
طلباء کی بجائے اساتذہ کو بھی ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے، جو بچوں کے ساتھ سال بھر رہتے ہیں اور دھیرے دھیرے ذہنوں میں محبتیں اور پازیٹیویٹی گھول سکتے ہیں۔
اگر اسکول کالج میں ممکن نہیں ہو رہا تو محلے میں جاری ٹیوشن سنٹرز کے اساتذہ سے خصوصی ملاقات کی جائے۔
کچھ تو کیا جائے!
آپ کی تجاویز اچھی ہیں لیکن اس پر عمل در آمد کے لئے لوگ کہاں سے آئیں گے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اکثر لوگ اسلام کے نام پر تشدد کے قائل ہیں بس پیمانہ مختلف ہے۔ سلمان تاثیر کے قتل کے حامی استاد یا والدین کس منہ سے طلبا کو سبق سکھا سکیں گے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اکثر لوگ اسلام کے نام پر تشدد کے قائل ہیں بس پیمانہ مختلف ہے۔

اکثر لوگ ایسے نہیں ہیں۔

اور جو ایسے ہیں اُنہیں ہی قائل کرنا ہے کہ اگر کسی چیز کو آپ غلط بھی سمجھتے ہیں تو قانون کو ہاتھ میں لینا کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
معمہ مزید الجھ گیا۔۔۔
جب سر اسلام مخالف نہیں بولتے تھے جیسا کہ خطیب کا دعویٰ تھا پھر خطیب نے انہیں کیوں مارا ؟؟؟
میں نے یہاں جو باتیں شریک کی ہیں۔۔۔وہ ایس ای کالج کے ہی لوگ ہیں۔
البتہ کچھ دوسرے لوگ اور باتیں بھی کر رہے ہیں لیکن چونکہ ان کا کوئی ثبوت نہیں اس لیے شریک نہیں کر رہی۔

نہیں۔ پمفلٹ تو شاید دو دن پہلے لگے۔ اور گمان غالب ہے کہ اسی نے لگائے۔
تاہم ان پارٹیوں کا اہتمام کرنا یا اُن میں شرکت کرنا گناہ کا کام تو ہے لیکن ایسا کام ہرگز نہیں ہے کہ کوئی شخص بلاوجہ واجب القتل ہو جائے۔
جی ہاں۔ اس تناظر میں دیکھیں تو لاکھوں لوگ ایسے ہوں گے۔ دوسری بات یہ کہ اگر واقعی واجب القتل والا جرم بھی کسی نے کیا ہے تو بھی اسے سزا دینا یا نہ دینا ہمارا کام نہیں۔
تاہم میری خواہش یہ ہے کہ معاشرے سے عدم برداشت کے رویوں کو کم سے کم کیا جائے اور اس قسم کے مجرموں کو جو خود ہی منصف، خود ہی گواہ اور سزا کا کام کرتے ہیں ،قرار واقعی سزا دی جائے۔
بالکل۔ مکمل متفق۔
 

جاسمن

لائبریرین
دراصل اس طالب علم نے پہلے سے اپنا ذہن بنا رکھا تھا اور موقع ملنے پر اپنا کام دکھا گیا۔ بعض جنونی افراد سستی شہرت کے حصول کے لیے ایسا کام کر دکھاتے ہیں اور پھر تاعمر پچھتاتے ہیں۔ اس بچے کا مستقبل برباد ہو گیا تاہم اب یہ اندیشہ ہے کہ ایک خاص مذہبی طبقہ اسے ہیرو نہ بنا لے۔

شروع ہوگیا ہے فرقان۔
فیس بک پہ تو شروع ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
میں نے یہاں جو باتیں شریک کی ہیں۔۔۔وہ ایس ای کالج کے ہی لوگ ہیں۔
البتہ کچھ دوسرے لوگ اور باتیں بھی کر رہے ہیں لیکن چونکہ ان کا کوئی ثبوت نہیں اس لیے شریک نہیں کر رہی۔


نہیں۔ پمفلٹ تو شاید دو دن پہلے لگے۔ اور گمان غالب ہے کہ اسی نے لگائے۔

جی ہاں۔ اس تناظر میں دیکھیں تو لاکھوں لوگ ایسے ہوں گے۔ دوسری بات یہ کہ اگر واقعی واجب القتل والا جرم بھی کسی نے کیا ہے تو بھی اسے سزا دینا یا نہ دینا ہمارا کام نہیں۔


بالکل۔ مکمل متفق۔

مسئلہ اسی بات سے واضح ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں بہت سارے ایسے لوگ موجود ہیں جن کو اتنی سادہ بات کا علم تک نہیں۔
 

زیک

مسافر
اکثر لوگ ایسے نہیں ہیں۔

اور جو ایسے ہیں اُنہیں ہی قائل کرنا ہے کہ اگر کسی چیز کو آپ غلط بھی سمجھتے ہیں تو قانون کو ہاتھ میں لینا کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے۔
دوسرے پیرے سے مکمل متفق۔

پہلے پیرے کے متعلق صرف یہی کہوں گا کہ محفل پر ہی مراسلے موجود ہیں کافی ارکان کے جو بنیادی طور پر اس مذہبی تشدد کے حامی ہیں۔
 

جان

محفلین
اسلامی ہیروازم پہ مبنی تاریخ پڑھانے سے معاشرے میں ایسے ہی ہیروز وجود میں آتے ہیں۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
افسوس۔ مذہب کے نام پر ہی جذباتی ہونے کی بجائے بنیادی تعلیمات پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

یہاں wishy washy اعتدال پسندی کی بجائے ببانگ دہل اصولی مذمت کی جانی چاہیئے۔
دونوں چیزوں کیلئے حوصلہ ہونا لازم ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر لوگ مذہبی اور معاشرتی ہر دو اعتبار سے بُزدل ہیں۔ ایک طبقہ آنکھیں بند کر کے تشدد کے نعرے لگاتا ہے۔ ایک مذہبی حوالہ درمیان میں آ جانے سے کنفیوز بنا رہتا ہے اور ایک طبقہ اس طرح کی حرکات کو ناپسند یا ان سے نفرت کرنے کے باوجود پہلے دونوں طبقوں کے ڈر سے اور معاشرے میں عدم قبولیت کے خوف سے کُچھ نہیں بولتا۔
 

زیک

مسافر
دونوں چیزوں کیلئے حوصلہ ہونا لازم ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر لوگ مذہبی اور معاشرتی ہر دو اعتبار سے بُزدل ہیں۔ ایک طبقہ آنکھیں بند کر کے تشدد کے نعرے لگاتا ہے۔ ایک مذہبی حوالہ درمیان میں آ جانے سے کنفیوز بنا رہتا ہے اور ایک طبقہ اس طرح کی حرکات کو ناپسند یا ان سے نفرت کرنے کے باوجود پہلے دونوں طبقوں کے ڈر سے اور معاشرے میں عدم قبولیت کے خوف سے کُچھ نہیں بولتا۔
اس طرح کے واقعات کا ایک مقصد اس خوف کو بڑھانا ہے۔ ایک شخص کو قتل کر کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں کو ڈرایا جا سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اکثر لوگ اسلام کے نام پر تشدد کے قائل ہیں بس پیمانہ مختلف ہے۔ سلمان تاثیر کے قتل کے حامی استاد یا والدین کس منہ سے طلبا کو سبق سکھا سکیں گے؟
متفق۔ جب تک اس فساد کی بنیاد ”اسلام کے نام پر تشدد“ کا مکمل کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا
 

جاسم محمد

محفلین
یہ بات عمران بھائی نے کب کہی کہ اسلام مخالف بیان بازی پر قتل جائز ہے؟؟؟
جائز نہیں ہے لیکن جب انتہا پسند پراپگنڈہ اپنی تمام حدود عبور کر جاتا ہے تو معاشرہ میں ممتاز قادری اپنے آپ پیدا ہو جاتے ہیں۔ آسیہ بی بی کی عدالت عظمی سے بریت کے باوجود ایک بڑا مذہبی طبقہ ان کی جان کے در پر تھا۔ مجبوراً ریاست کو انہیں تحفظ کیلئے بیرون ملک بھیجنا پڑا
 

جاسم محمد

محفلین
جی ہاں۔ اس تناظر میں دیکھیں تو لاکھوں لوگ ایسے ہوں گے۔ دوسری بات یہ کہ اگر واقعی واجب القتل والا جرم بھی کسی نے کیا ہے تو بھی اسے سزا دینا یا نہ دینا ہمارا کام نہیں۔
اگر یہ بات واقعی سچ ہے تو قاتل علم الدین معاشرہ میں غازی اور ہیرو کے طور پر کیوں مشہور ہے؟ یاد رہے کہ اس قاتل کا بانی پاکستان محمد علی جناح اور مفکر پاکستان علامہ اقبال نے بھی دفاع کیا تھا۔ اگر اس وقت اسلام کے نام پر تشدد کی مذمت کر دی جاتی تو آج قوم کو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔
 

جاسمن

لائبریرین
افسوس۔ مذہب کے نام پر ہی جذباتی ہونے کی بجائے بنیادی تعلیمات پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

یہاں wishy washy اعتدال پسندی کی بجائے ببانگ دہل اصولی مذمت کی جانی چاہیئے۔
آپ کی پہلی بات سے متفق ہوں کہ ہمیں اپنے دین کی بنیادی تعلیمات پہ غور و فکر اور عمل کرنا چاہیے۔
دوسری بات کی مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یہاں، اس دھاگہ میں ہم سبھی اس ظالمانہ قتل کی مذمت ہی تو کر رہے ہیں۔
اور مذمت کیا بے اصولی بھی ہوتی ہے؟
 

جاسمن

لائبریرین
ایس ای کالج کے لوگوں سے پتہ چلا ہے کہ اندر کی کہانی اور ہے۔ خطیب پہلے بھی مختلف ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتا تھا اور فئیرویل کے کسی پروگرام میں بھی حصہ لینا چاہتا تھا۔ (محتاط الفاظ میں) لیکن اسے بتایا گیا کہ وہ اس کے لیے مناسب تیاری نہیں کر سکتا تو اسے خطیب نے اپنی انا کا مسلۂ بنایا۔
اس نے پارٹی کو روکنے کی اپنی سی کوشش کی۔ اسے غیر اسلامی قرار دیا اور پروفیسر صاحب کو قتل کر دیا۔
بعد میں بھی پروفیسر صاحب پہ اسلام مخالف خیالات کا جھوٹا الزام لگایا۔
 

جاسمن

لائبریرین
مقتول پروفیسر خالد حمید کی شخصیت کو متنازعہ بنانے والوں کے لئے جواب...... اب فیصلہ آپ کیجئے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
21 مارچ 2019 ء کی صبح گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور میں شعبہ انگریزی کے سینئر پروفیسر خالد حمید کے قتل کا بدترین سانحہ رونما ہوا ۔ انہیں شعبہ انگریزی ہی کے ایک طالب علم خطیب حسین نے بہیمانہ انداز سے قتل کیا ۔ یہ سانحہ اُس وقت زیادہ سنگین ہوگیا جب ایک بہترین کیرئیر رکھنے والے اُستا د کے قتل کے بعد اُن کی شخصیت کے بارے میں منفی تاثر پھیلایا گیا جس کا سبب قاتل طالب علم خطیب حسین کا ایک ویڈیو بیان ہے، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ۔ حیران کن بات ہے کہ ایک بہترین کردار رکھنے والے اُستاد کی شخصیت کو ایک ملزم کے بیان کی روشنی میں مشکوک ٹھہرایا جانے لگا ۔ ایسے میں یہ ضروری محسوس کیا گیا کہ پروفیسر خالد حمید کی شخصیت کو اُجاگر کیا جائے ۔
اس لیے اُن کے ساتھی اساتذہ ، کالج کے ڈائریکٹر اسٹوڈنٹس افیئر اور صدر پروفیسر اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشنز لوکل یونٹ امیتاز سلیم لودھی،کالج کے شعبہ شماریات کے سربراہ پروفیسر عباس بخاری ، کالج کے طلباء وطالبات ، ڈائریکٹر کالجز بہاولپور ڈویژن ، ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز بہاولپور ڈویژن ، پروفیسرخالد حمید کے ماموں زاد راشد خان ، بہنوئی مبین خان ، اُن کے ٹیلر لیاقت علی جیسے اُن قریبی لوگوں سے رابطہ کیا گیا، جن کے ساتھ پروفیسر خالد حمید کا روزانہ یا باقاعدگی کے ساتھ دیرینہ تعلق تھا ۔ کسی کی شخصیت کو سمجھنے کیلئے اور خاص طور پر کسی اُستاد کی شخصیت کو سمجھنے کیلئے اُن کے ساتھی اساتذہ اور طلباء سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں یا پھر قریبی دوست یا رشتہ دار ہوسکتے ہیں ۔ ڈائریکٹر کالجز پروفیسر ابراہیم نے بتایا کہ میں اس ڈویژن کے اساتذہ کا سربراہ ہوں اچھے اور محنتی اساتذہ میرے لیے خاندان کی طرح ہیں اور اُن میں خالد حمید سرفہرست ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ڈائریکٹر بننے کے بعد میں نے جس کالج کے سب سے زیادہ دورے کئے وہ ایس ای کالج ہے اور جس پروفیسر سے چائے پی وہ پروفیسر خالد حمید ہیں، انہوں نے کہا کہ خالد حمید وقت کے پابند ، مضمون پر گرفت رکھنے والے شاندار اُستاد تھے ۔ جن کے کردار میں میں نے کو کجی نہیں دیکھی انہوں نے بتایا کہ وقوع کے دن میں لاہور تھا، اور جب مجھے اطلا ع ملی تو میں صدمہ سے نڈھا ل ہوگیا ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ہی اس حادثہ کی خبر ڈی پی آئی اور سیکرٹری تعلیم کو دی ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے آج تک پروفیسر خالد حمید کے حوالے سے کوئی معمولی سی شکایت بھی سننے کو نہیں ملی ۔ انہوں نے اس سانحہ کو ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز پروفیسر محمد اشفاق سے جب پوچھا گیا کہ کیا کبھی آپ نے ایسی کوئی شکایت سنی جس کا الزام قاتل لگا رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ نہ تو میں نے سنی اور نہ ہی میں نے کبھی خالد حمید صاحب کی شخصیت میں ایسی بات محسوس کی وہ ایک باعمل مسلمان تھے ۔ نر م خو اُستاد تھے اور اپنے کام سے کام رکھتے تھے ۔ ایس ای کالج شعبہ شماریات کے سربراہ پروفیسر عباس بخاری نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ملزم جھوٹ بول رہا ہے، ایک انتہائی قابل احترام اُستاد پر بہتان لگایا جا رہا ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ پروفیسر خالد حمید میرے شعبہ میں بھی آکر پڑھایا کرتے تھے ۔ وہ میرے دوست بھی تھے، اور میں اُن کو قریب سے جانتا بھی تھا وہ ایک دین دار اُستاد تھے ۔ پروفیسر خالد حمید کی شخصیت کو سمجھنے کیلئے اُن کے ٹیلر لیاقت علی سے بھی رابطہ کیا گیا تو انہوں نے الزام سن کر استغفراللہ کہا ، اُن کے کردار کی مضبوطی کی گواہی دی اور ایک واقعہ سنایا ۔ لیاقت علی نے بتایاکہ وہ گزشتہ بیس پچیس سال سے میرے کلائنٹ تھے ۔ ہم اکٹھے نماز پڑھنے جاتے اور خاص طور پر 12 ربیع الاول کو مجھے فون کر تے اور عید مبارک کہا کرتے تھے ۔
پروفیسر خالد حمید کے ماموں زاد راشد خان اور بہنوئی مبین خان نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ خالد حمید اپنے کام سے کام رکھنے والے کم گو اور صوم و صلوٰة کے پابند تھے ۔ راشدخان نے بتایا کہ وہ مسلم ٹاؤن کی مسجد میں پانچ وقت میرے ساتھ نماز پڑھتے اور جمعہ بھی اکٹھے پڑھتے اور وہ ایک مضبوط کردار کے مسلمان تھے ۔
پروفیسر خالد حمید کا خاندان شہر کے چند مشہور عزت دار، علمی اور کاروباری خاندانوں میں شامل ہے ۔ مشہور آڈٹ افسر سہیل خان مرحوم، لوکل گورنمنٹ کے افسر نسیم خان مرحوم ، سعید خان مرحوم (ڈپو والے ۔ اندرون فرید گیٹ) خالد حمید کے چچا ۔ مشہور سائنس ٹیچر سیف خان مرحوم چچا زاد، سینئر صحافی، کالم نگار شاعر و دانشور زاہد علی خان کزن، مشہور ماہر تپِ دق پروفیسر ڈاکٹر نوید شریف (قائدِ اعظم میڈیکل کالج بہاول پور اور ایس ڈی ہائی سکول کے مشہور سائنس ٹیچر عابد شریف مرحوم پروفیسر خالد حمید کے سگے بھائی ہیں ۔ خالد حمید کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ۔ سب بچے اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں
پروفیسر خالد حمید نے گولڈ میڈل کے ساتھ ایم اے انگریزی کیا پھر لیکچرر بھرتی ہوئے ۔ گورنمنٹ کالج یزمان میں کئی سال پڑھاتے رہے وہاں سے اُن کے کردار کے بارے میں گواہیاں ملیں ۔ وہ پانچ سال سعودی عرب میں رہے ایک حج کیا ، سات عمرے ادا کئے ۔2005 سے ایس ای کالج میں تعینات تھے اور اُن کی شخصیت کی مقبولیت کا انداز شعبہ انگریزی کے طلباء وطالبات سے ہی نہیں بلکہ کالج کے بی ایس کے دیگر پروگراموں میں بھی انگریزی پڑھائی ۔ اُن طالب علموں سے ہم نے براہ راست یہ سوال پوچھا کہ کیا کبھی کوئی اسلام کے مخالف کوئی بات اُن کے منہ سے نکلی تو سب نے سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ بالکل نہیں ۔ بلکہ ایک طالب علم نے بتایا کہ کچھ ہی دن پہلے شعبہ میں تلاوت کلام پاک ہونی تھی، ایک طالب علم سے کہا گیا تو اُس سے صحیح ادائیگی نہ ہو سکی تو پروفیسر خالد حمید نے خود تلاوت کی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پروفیسر خالد حمید کے بہیمانہ قتل کو متنازع بنانے کی کوشش کرنے والوں کے عزائم کو بے نقاب کیا جائے، اور اس کے پسِ پردہ محرکات اور انھیں سوشل میڈیا پر وائرل کرنے والوں کی نشاندہی کی جائے، اور اُن کے قتل کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں، اور اس میں ملوث کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
صاحب تحریر: وسیم اقبال
 

جاسمن

لائبریرین
لڑکیوں کو چھیڑنے سے منع کیوں کیا۔۔اوباش کا ٹیچر پہ تشدد
24 نومبر 2019
لڑکیوں کو چھیڑ نے سے منع کرنے پر اوباش نوجوانوں نے نجی کالج کے ٹیچر کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا نوجوانوں نے ٹیچر پر مکوں اور تھپڑوں کی بارش کر دی ٹیچر پر بہیمانہ تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے بتایا جاتا ہے کہ طلباء کی ایک تقریب میں لڑکے طالبات کو تنگ کر رہے تھے۔جس پر ٹیچر اعجاز نے انہیں چھیڑ خوانی سے منع کیا۔تو اوباش نوجوانوں نے طیش میں آکر ٹی ر اعجاز کو بخاری کالونی کے قریب روک لیا۔اور اسکو تشدد کا نشانہ بنایا۔موقع سے فرار ہوگئے۔اطلاع پاکر مقامی پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی۔جہنوں نے قانونی کاروائی شروع کی۔تو اس دوران ٹیچر اور تشدد کرنے والے اوباش نوجوان کے مابین معززین نے صلح کرواکر معاملہ رفع دفع کروا دیا۔ جبکہ جب سوشل میڈیا پر ٹیچر اعجاز پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہوئی۔تو سوشل میڈیا صارفین نے تشدد کرنے والے لڑکوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔دوسری جانب ایس ایس پی آپریشنز محمد کاشف اسلم کا کہنا ہے کہ ویڈیو دس روز پرانی ہے۔معاملہ صلح صفائی کی وجہ سے ختم ہوگیا ہے.
لڑکیوں کوچھیڑنے سے منع کیوں کیا۔۔۔اوباشوں کاٹیچر پروحشیانہ تشدد
 

جاسمن

لائبریرین
اپنے انٹرویو میں اعجاز صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے دباؤ میں آکر معاف کیا۔ حقیقتاً وہ انصاف چاہتے ہیں۔
 
Top