ایران میں بہار کا سماں

فاخر رضا

محفلین
ممنون برادر فاخر رضا صاحب
البتہ میں ذاتی طور پر یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ امریکی جنگوں کے ساتھ ایران کو تشبیہ دینا شاید درست نہ ہو کیونکہ امریکا ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے سے آکر مشرق وسطی میں مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ جبکہ ایرانی پالیسی ایسی نہیں۔ آپ شام کا معاملہ لیجیے۔ اصل میں امریکا اور اسرائیل کی پالیسی یہ تھی اور ہے کہ اسرائیل کے لیے مشرق وسطی میں زمین ہموار کیا جائے۔ نیل تا فرات کا خواب پورا ہو۔ جبکہ اسرائیلی توسیع پسند نظریے کو کوئی بھی اسلامی ملک تسلیم نہیں کرتا۔ اسرائیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حزب اللہ اور ایران ہے۔ امریکا اور اسرائیل ڈائریکٹ نہ حزب اللہ پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں تھا کیونکہ امریکا نے 8سالہ ایران عراق جنگ میں ایران کو شکست دینے کا ہر حربہ استعمال کیا لیکن ناکام رہا۔ جس کا اقرار سابق امریکی صدر بش بھی کر چکا ہے۔ ان کے بقول ہم نے ایران پر حملہ کرنے کا فیصلہ تقریبا نوے فیصد حتمی کر دیا تھا لیکن جب ہم نے ایران عراق 8سالہ جنگ پر نظر دوڑائی تب ہم نے اپنا فیصلہ تبدیل کردیا(کیونکہ یہ قوم شکست پانے والی نہیں). اسی طرح 2006میں آپ حزب اللہ اسرائیل 33روزہ جنگ کی تاریخ پڑھئے۔ جس اسرائیل کا مقابلہ تمام عرب ممالک نہیں کر پائے تھے حزب اللہ نے مختصر مدت میں اسے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ تب امریکا اور اسرائیل نے بھانپ لیا کہ کسی اور طریقے سے ان کو شکست دی جائے۔ اس نے پراکسی وار کے لیے شام کا انتخاب کیا جس کے ساتھ ایران کا بہت قدیمی دفاعی معاہدہ تھا جس کے تحت ایران عراق جنگ میں شام نے ایران کی بھرپور مدد کی تھی۔ تاکہ پہلے وہاں سے حزب اللہ کو شکست دی جاسکے پھر وہاں پر ایران کو کمزور کرکے ان کے انقلاب کا بھی خاتمہ کیا جاسکے۔ ان سب سے بڑھ کر داعش نے آتے ہی سب سے پہلا نشانہ حضرت زینب س کے حرم کو بنایا جو کہ اہل بیت میں سے ہیں۔ ان کا دفاع تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ داعشی حرم سے صرف ڈیڑھ سو میٹر کے فاصلے تک پہنچ گئے تھے۔ لہذا اگر ایران و حزب اللہ اس پراکسی وار میں خاموشی اختیار کرلیتے تب نہ حضرت زینب س کا حرم بچ جاتا اور نہ ہی یہ ممالک محفوظ رہ سکتے تھے۔ لہذا حزب اللہ اور ایران نے اس جنگ کو اپنے حدود میں پہنچنے سے پہلے ہی ختم کر دیا۔ اب شام کے بچے کھچے 10000داعشی افغانستان پہنچ چکے ہیں۔ جو ہمارے لیے بھی بہت بڑی خطرے کی گھنٹی ہے۔ یمن میں کوئی ایرانی فورس موجود نہیں۔ اگر یمنیوں کو اپنے ملک کے دفاع کے لیے مدد کیا بھی ہے تو یہ جرم نہیں بلکہ ظالم کے مقابلے میں مظلوم کی مدد ہےجو ہر مسلمان کا اخلاقی اور شرعی فریضہ ہے۔ آپ خود ذرا تحقیق کیجیے کہ آج تک ایران نے یا حزب اللہ نے کسی اسلامی ملک پر چڑھائی کی دھمکی نہیں دی۔ ساتھ ہی ایران کی حماس' شام اور یمن کے لیے مدد ہرگز مسلکی نہیں۔ ان تینوں ممالک میں سارے کے سارے سنی مذہب مسلمان آباد ہیں۔ شیعہ امامیہ ان ممالک میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ آپ خود گوگل سرچ کے ذریعے میری اس بات کی تائید لے سکتے ہیں۔یہ شوشا محض امریکی اسرائیلی پراپیگنڈے ہیں۔لہذا ہمیں ان کے دھوکوں میں آنے کے بجائے خود تحقیق کرنی چاہیے۔
ماشاءاللہ آپ نے خوب لکھا. کچھ مزید وضاحتیں بھی درکار ہوں گی اور کچھ counter argument بھی ہوگا. اس تمام گفتگو کو مثبت لیجیے گا جیسا کہ آپ لے رہے ہیں. بعد میں لکھتا ہوں. باقی ابھی اگر دیگر احباب کوئی تنقید کریں اسے بھی منفی نہ لیں اور وہ تنقید کریں گے ضرور
 

زیک

مسافر
ممنون برادر فاخر رضا صاحب
البتہ میں ذاتی طور پر یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ امریکی جنگوں کے ساتھ ایران کو تشبیہ دینا شاید درست نہ ہو کیونکہ امریکا ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے سے آکر مشرق وسطی میں مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ جبکہ ایرانی پالیسی ایسی نہیں۔ آپ شام کا معاملہ لیجیے۔ اصل میں امریکا اور اسرائیل کی پالیسی یہ تھی اور ہے کہ اسرائیل کے لیے مشرق وسطی میں زمین ہموار کیا جائے۔ نیل تا فرات کا خواب پورا ہو۔ جبکہ اسرائیلی توسیع پسند نظریے کو کوئی بھی اسلامی ملک تسلیم نہیں کرتا۔ اسرائیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حزب اللہ اور ایران ہے۔ امریکا اور اسرائیل ڈائریکٹ نہ حزب اللہ پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں تھا کیونکہ امریکا نے 8سالہ ایران عراق جنگ میں ایران کو شکست دینے کا ہر حربہ استعمال کیا لیکن ناکام رہا۔ جس کا اقرار سابق امریکی صدر بش بھی کر چکا ہے۔ ان کے بقول ہم نے ایران پر حملہ کرنے کا فیصلہ تقریبا نوے فیصد حتمی کر دیا تھا لیکن جب ہم نے ایران عراق 8سالہ جنگ پر نظر دوڑائی تب ہم نے اپنا فیصلہ تبدیل کردیا(کیونکہ یہ قوم شکست پانے والی نہیں). اسی طرح 2006میں آپ حزب اللہ اسرائیل 33روزہ جنگ کی تاریخ پڑھئے۔ جس اسرائیل کا مقابلہ تمام عرب ممالک نہیں کر پائے تھے حزب اللہ نے مختصر مدت میں اسے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ تب امریکا اور اسرائیل نے بھانپ لیا کہ کسی اور طریقے سے ان کو شکست دی جائے۔ اس نے پراکسی وار کے لیے شام کا انتخاب کیا جس کے ساتھ ایران کا بہت قدیمی دفاعی معاہدہ تھا جس کے تحت ایران عراق جنگ میں شام نے ایران کی بھرپور مدد کی تھی۔ تاکہ پہلے وہاں سے حزب اللہ کو شکست دی جاسکے پھر وہاں پر ایران کو کمزور کرکے ان کے انقلاب کا بھی خاتمہ کیا جاسکے۔ ان سب سے بڑھ کر داعش نے آتے ہی سب سے پہلا نشانہ حضرت زینب س کے حرم کو بنایا جو کہ اہل بیت میں سے ہیں۔ ان کا دفاع تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ داعشی حرم سے صرف ڈیڑھ سو میٹر کے فاصلے تک پہنچ گئے تھے۔ لہذا اگر ایران و حزب اللہ اس پراکسی وار میں خاموشی اختیار کرلیتے تب نہ حضرت زینب س کا حرم بچ جاتا اور نہ ہی یہ ممالک محفوظ رہ سکتے تھے۔ لہذا حزب اللہ اور ایران نے اس جنگ کو اپنے حدود میں پہنچنے سے پہلے ہی ختم کر دیا۔ اب شام کے بچے کھچے 10000داعشی افغانستان پہنچ چکے ہیں۔ جو ہمارے لیے بھی بہت بڑی خطرے کی گھنٹی ہے۔ یمن میں کوئی ایرانی فورس موجود نہیں۔ اگر یمنیوں کو اپنے ملک کے دفاع کے لیے مدد کیا بھی ہے تو یہ جرم نہیں بلکہ ظالم کے مقابلے میں مظلوم کی مدد ہےجو ہر مسلمان کا اخلاقی اور شرعی فریضہ ہے۔ آپ خود ذرا تحقیق کیجیے کہ آج تک ایران نے یا حزب اللہ نے کسی اسلامی ملک پر چڑھائی کی دھمکی نہیں دی۔ ساتھ ہی ایران کی حماس' شام اور یمن کے لیے مدد ہرگز مسلکی نہیں۔ ان تینوں ممالک میں سارے کے سارے سنی مذہب مسلمان آباد ہیں۔ شیعہ امامیہ ان ممالک میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ آپ خود گوگل سرچ کے ذریعے میری اس بات کی تائید لے سکتے ہیں۔یہ شوشا محض امریکی اسرائیلی پراپیگنڈے ہیں۔لہذا ہمیں ان کے دھوکوں میں آنے کے بجائے خود تحقیق کرنی چاہیے۔
شام کی مدد کے بارے میں غور کریں کہ آپ اسد فیملی کی حمایت کر رہے ہیں جنہوں نے بہت سالوں سے شامیوں پر مظالم ڈھائے ہیں
 
آخری تدوین:

ابو ہاشم

محفلین
میں تو سمجھا تھا کہ حسان خان صاحب کی طرح بہار کی تصویریں لگائی ہوں گی۔ ویسے یوں بھی حیرت ہوئی کہ بہار ابھی آئی تو ہے نہیں
 
Top