سید شہزاد ناصر
محفلین
مصر کے ساتھ ہی اہرام مصر کا نام ذہن میں نہ آئے۔۔۔ ہمارے لئے یہ سوچنا بھی ممکن نہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ مصر کی شہرت کو چار دانگ عالم میں پھیلانے کے لئے جتنی خدمات اہرام مصر کی ہیں اتنی کسی وزیر سفیر یا ثقافتی نمائندے کی نہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ اہرامِ مصر کی برسہابرس سے قائم و دائم مقبولیت میں اصل ہاتھ اس پراسراریت کا ہے جو صدیوں سے ان عجائب عالم سے وابستہ چلی آرہی ہے۔ فرعون، موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے واقعات تو دنیا زمانے کو معلوم ہیں لیکن آج تک کوئی پورے وثوق سے یہ نہیں بتا سکا کہ آخر کار اہرام مصر کی تعمیر کیسے ہوئی تھی؟
یہ ایک سوال ہے جس نے ماہرین آثار قدیم سے لیکر ماہرین تعمیرات تک کو پریشان کررکھا ہے۔ اہرام مصر میں تین ٹن(3,000 کلوگرام) سے لیکر300 ٹن وزنی پتھر استعمال ہوئے ہیں۔ ایک خیال تو یہ ہے کہ ان اہرام کی تعمیر پر لاکھوں غلام مامور کئے گئے ہوں گے جنہوں نے یہ عظیم الشان مقبرے بنائے۔ مگر اس خیال کی تائید میں بھی شواہد موجود نہیں۔ اگر اتنی بڑی تعداد میں غلام تھے تو ہر ایک ہرم کے پاس وسیع و عریض رہائشی علاقے بھی ملنے چاہئے تھے۔ لیکن اب تک جتنے آثار بھی ملے ہیں وہ غلاموں کی اتنی بڑی تعداد کی نفی کرتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ بہر کیف! ایسی کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں جس کی بنیاد پریہ یقین کیا جا سکے کہ اہرام مصر کی تعمیر میں واقعی غلاموں کی اتنی بڑی تعداد کا ہاتھ ہوگا۔ اہرام مصر کی تعمیر اتنی ہی پر اسرار تھی جتنی ان کی اپنی ساخت اورترتیب ہے۔
کوئی دس سال پہلے ایک امریکی سافٹ ویئرکنسلٹنٹ، مارین کلیمنز اہرام مصر کی تعمیر کے بارے میں کسی تحقیقی کتاب کا مطالعہ کر رہی تھیں۔ اس کتاب کے ایک صفحے پر انہوں نے ایک عجیب و غریب تصویر دیکھی۔ یہ پتھر پر کندہ، قدیم تصویری تحریر (hieroglyph) کا عکس تھا۔ آج سے لگ بھگ ساڑھے تین ہزار سال پہلے جب اہرام مصرتعمیر کئے جا رہے تھے، ان دنوں مصر میں یہی طرز تحریررائج تھا جس میں تصاویر کو علامات و حروف کی جگہ استعمال کیا جاتا تھا۔ مارین نے اس تصویری تحریر میں جو عجیب و غریب چیز محسوس کی، وہ یہ تھی کہ اس میں کئی آدمی ایک قطار کی شکل میں،غیر معمولی انداز سے کھڑے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں رسی جیسی کوئی چیز تھی جو درمیان میں کسی میکانکی نظام سے گزر کر،ہوا میں معلق (پرندے جیسی) کسی چیز سے منسلک ہورہی تھی۔ اگر یہ کوئی پرندہ تھا تو یقیناًاس کی لمبائی بہت کم تھی جبکہ اس کے بازوؤں (Wings)کی چوڑائی بہت زیادہ تھی۔ مارین کے ذہن میں یہیں سے نت نئے خیالات نے سر ابھارنا شروع کر دیا۔
ہوا میں معلق وہ دیوقامت پرندہ کہیں کوئی ’’پتنگ‘‘ تو نہیں تھا؟کیا یہ ممکن نہیں کہ ان آدمیوں اور عجیب سے میکانکی نظام کا مقصد ہوا کی طاقت کو قابو میں رکھنا ہو؟انہی خیالات نے مارین کو پریشان کئے رکھا۔ انہوں نے اپنے کچھ پراسراریت پسند دوستوں سے اس بارے میں بات چیت کی اور فیصلہ کیا کہ طیرانیات(ایئروناٹکس) اور باد حرکیات (ایئروڈائنامکس) کے کسی ماہر سے رابطہ کرنے سے قبل مناسب ہوگا کہ اپنے طور پر ابتدائی تجربات کرکے دیکھے جائیں۔
ان لوگوں نے بازار سے عام پتنگیں خریدیں اور انہیں نارتھ رج،کیلیفورنیا میں جاکر اڑایا۔ پہلے تو پتنگ کے ساتھ ریڈووڈ درخت سے کاٹا ہوا ڈھائی میٹر لمبا شہتیر باندھا گیا جسے پتنگ نے بہ آسانی اُٹھا لیا۔ بعد ازاں یہی تجربہ، سیمنٹ سے بنے ہوئے، 180 کلوگرام وزنی ستون پر دہرایاگیا۔یہ تجربہ بھی کامیاب رہا۔ان ابتدائی کامیابیوں کے بعد مارین کلیمنز نے مختلف جامعات میں ایئروناٹکس کے شعبوں سے رابطہ کرنا شروع کر دیا تاکہ یہ کام آگے بڑھایا جاسکے۔ کئی جگہوں سے مایوسی اور ناامیدی اٹھانے کے بعد، کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ان کی قسمت کام دکھا گئی۔ یہاں ان کی ملاقات ایرانی نژاد ماہر، مرتضی غریب سے ہوئی۔ ایران سے تعلق ہونے کی وجہ سے مرتضی کو قدیم مشرقی علوم سے خصوصی دلچسپی ہے اسی لئے مارین کے یہ تجربات انہیں چونکا گئے اور انہوں نے یہ کام آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔
وہ بھی اسی تصویر کے ہاتھوں بہت پریشان تھے جس نے مارین کو متوجہ کیا تھا۔ مرتضی بھی اس نکتے پر متفق تھے کہ لمبے بازوؤں اور مختصرقامت والی، ہوا میں معلق یہ چیز پرندہ نہیں ہوسکتی۔ یہ امکان قطعی طور پر ٹھوس بنیاد رکھتا ہے کہ وہ’’چیز‘‘ یقیناًکوئی پتنگ رہی ہوگی۔ اس دلچسپی کی بنا پر انہوں نے اپنے ایک شاگرد، ایمیلیوگراف کو چھٹیوں کے لئے ایک پراجیکٹ دے دیا۔ مقصد اس پراجیکٹ کا یہ تھا کہ پتنگوں کو بھاری وزن اٹھانے میں درکار قوت پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا جائے۔
فراغت کے دنوں میں مرتضی اور ایمیلیو نے یہ ہدف طے کیا کہ انہیں صرف پتنگ کی طاقت سے ساڑھے چار میٹر لمبے چٹانی پتھر کو(جو زمین پر لمبا لمبا پڑا ہو) سیدھا کھڑا کرنا ہے۔ ابتدائی حساب کتاب اور ہوائی سرنگ(ونڈٹنل) میں چھوٹے پیمانے پر کئے گئے تجربات سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ساڑھے تین ٹن وزنی چٹانی ستون سیدھا کھڑا کرنے کے لئے ہوا کی بہت زیادہ شدت ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ کام قدرے تیز جھونکوں ہی سے چل جائے گا۔ اسی تجزیئے کے دوران ان پر یہ عقدہ کھلا کہ اگر ہوا آہستہ آہستہ سے، لیکن دیر تک مسلسل چلتی رہے تو بھی یہ کام ہو جائے گا۔ کرنا صرف یہ ہو گا کہ اس میں چرخی(پلی) کا نظام شامل کرنا پڑے گا تاکہ لگنے والی قوت کا اثر بڑھایا جا سکے۔
اب انہوں نے عملی کام شروع کیا اور خیمے کی شکل والا ایک ڈھانچہ (مچان) باندھا، جو لمبے لیٹے ہوئے چٹانی ستون کے سرے کے عین اوپر تھا۔ مچان کے بلند ترین حصے سے چرخیاں باندھ کر لٹکائی گئیں۔ منصوبہ کچھ یوں تھا کہ جیسے جیسے حرکت پذیر چرخیاں ہوا کی طاقت سے اوپر کی جانب اٹھیں گی، ویسے ویسے چٹانی ستون بھی بلند ہوگا۔ اسے بالکل سیدھا کھڑا کرنے کے لئے اس کے دوسرے سرے کے نیچے ایک عدد ٹرالی رکھ دی گئی تاکہ سیدھا کھڑا ہونے کے ساتھ ساتھ، چٹانی ستون کا نچلا حصہ(ٹرالی کے ساتھ) زمین پر حرکت کرتا ہوا چرخیوں کے نیچے کی طرف بڑھتا چلا جائے۔
گزشتہ سال کے اوائل میں استاد شاگرد کی اس مختصر سی ٹیم نے ایک قدم آگے بڑھایا اور مارین کے غیرمعمولی خیال کی تصدیق میں مزید آگے جانے کا فیصلہ کیا۔ اب کی مرتبہ انہوں نے نائیلون کے کپڑے سے بنا ہوا چالیس مربع میٹر کا مستطیل نما’’بادبان‘‘ استعمال کرکے پتنگ بنائی۔
اس دیوقامت پتنگ نے بڑی صفائی سے اس وزنی چٹانی ستون کو ہوا میں اٹھا لیا۔ مرتضی غریب کہتے ہیں:’’ہم بالکل ششدر رہ گئے۔ جس لمحے اس بادبانی پتنگ کو ہوا میں کھولا گیا، اس وقت ایک زبردست قوت پیدا ہوئی اور لگ بھگ چارٹن وزنی چٹانی ستون محض چالیس سیکنڈ میں بالکل عموداً کھڑا ہو گیا۔‘‘
اس وقت ہوا کی رفتاربھی زیادہ نہیں تھی اور بادِصبا کا گزرصرف 16 سے20 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہورہا تھا۔ ہوا کی یہ رفتار ان کے تخمینہ جات کے مقابلے میں نصف سے کچھ زیادہ تھی۔ البتہ انہیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ جس وقت پتنگ کھولی جا رہی تھی، اس وقت کیا انہونی ہوئی تھی۔ مرتضی کا کہنا ہے کہ(پتنگ کھلنے کے وقت) پیدا ہونے والی زبردست ابتدائی قوت، ہوا کے مسلسل چلنے سے پیدا ہونے والی قوت کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ تھی۔ یہ حیرت انگیز مشاہدہ ابھی تک ان کے لئے معما بنا ہوا ہے جس کے لئے کسی کے پاس کوئی وضاحت موجود نہیں۔
تاہم مرتضی نے محسوس کیا کہ قوت کے اس ابتدائی جھٹکے کا مطلب یہ ہوا کہ پتنگ کی مدد سے کہیں زیادہ وزنی اشیاء بھی اٹھائی جا سکتی ہیں۔ ان کی رائے میں چار سے پانچ بادبانی پتنگوں اور تقریباً چالیس مزدوروں کی مدد سے تین سو ٹن وزنی چٹانی پتھروں کو اٹھا کر عموداً کھڑا کیا جاسکتا ہوگا۔ یعنی مارین کا خیال صحیح تھا۔ یہ قطعی طور ممکن ہے کہ ٹنوں وزنی پتھر اٹھانے اور مطلوبہ جگہ پر نصب کرنے کے لئے پتنگیں استعمال کی گئی ہوں گی۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ مصریوں نے واقعی ایسا کیا تھایا نہیں؟ ورنہ سائنسی شواہد تو اس خیال کی مکمل تائیدکرتے نظر آرہے ہیں۔
بدقسمتی سے ایسی تصاویر بھی دستیاب نہیں جن میں اہرام مصر کی تعمیر دکھائی گئی ہو۔ لہٰذا پورے وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتاکہ اصل میں کیا ہوا تھا۔ آثار قدیمہ کے نقطہ نگاہ سے جتنی بری بھلی شہادتیں لاکھوں غلاموں اور مزدوروں والے خیال کی تائیدمیں موجودہیں،کم و بیش ویسی ہی بھلی بری شہادت،پتنگوں والے مفروضے کو تقویت پہنچاتی ہے۔
وہ تمام سازوسامان (مثلاً رسیاں، بادبان اور چرخیاں وغیرہ) جو ہوا کی طاقت سے کام لینے میں استعمال ہوا ہو گا، وہ ہزاروں برس کے عرصے میں گل سڑ کر ختم ہو گیا ہو گا۔۔۔اس کا سراغ ملنے کی توقع بھی عبث ہے۔ آثار قدیمہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اہرام کی تعمیر میں مصر کے روحانی پیشوا بطور نگراں مامور ہوتے تھے۔ مرتضی کو یقین ہے کہ ہوا کی طاقت استعمال کرتے ہوئے اشیاء کو حرکت دینے کا یہ علم انہی راہبوں اور روحانی پیشواؤں کے پاس ایک مقدس راز کی شکل میں محفوظ تھا۔
بات میں وزن ہے۔ کیونکہ مصر کی قدیم تہذب میں راہبوں کا شمار مراعت یافتہ طبقے میں ہوتا تھا جس کے اختیارات بادشاہوں کے مد مقابل ہوا کرتے تھے۔ وہ طاقت، وہ اقتدار اور وہ تقدس برقرار رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ ان کے پاس کچھ ایسے ’’راز‘‘ موجودہوں جو انہیں رعایا کے مقابلے میں فضیلت کا حقدار ٹھہرائیں۔ لوگ جن باتوں کو آسمانی قوتوں پر راہب کا تصرف خیال کر کے سجدہ ریز ہوتے، وہ باتیں قوانین قدرت کے علم کے سوا کچھ نہیں تھیں۔
مصر کے علاوہ دوسری تہذیبوں میں بھی پتنگوں کو مذہبی نقطہ نگاہ سے مقدس مقام حاصل ہے۔ مثلاً پولی نیشیا میں انہیں بعض مخصوص دیوی دیوتاؤں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ماؤریس (Maoris) کی تہذیب میں پتنگ اڑانا، وہاں کی مذہبی رسوم کا ایک اہم حصہ ہے۔