اک نئی غزل ''جاناں''۔۔''

نور وجدان

لائبریرین
خواب میں روبرو تھا تُو جاناں
یا کوئی اور' ہو بہو 'جاناں

''تو'' تصور میں جب بھی آیا ہے
آنکھ کرنے لگی وضو جاناں

''تو'' کبھی تھا براجماں دل میں
اب بھی باقی ہے تیری خو جاناں

تیری خوشبو بسی رہی مجھ میں
زخم ہوتا نہیں رفو جاناں

بے سبب تو نہی دِوانہ پن
درد کی ہو گئی نمو جاناں

میں ہوں بھٹکی تلاش میں تیرے
یا تخیل ہے' 'کو بہ کو' جاناں

خواہشیں سب میں نے ختم کر دیں
صرف اک ''تو'' تھا آرزو جاناں

دل دکھانا تمہاری عادت تھی
مسکرانا تھی میری خُو جاناں

اُس نے پوچھا ملول رہتی ہو۔۔!
کہہ دیا پاس ہے کیا'' تُو'' جاناں

نور شیخ
 
آخری تدوین:

صائمہ شاہ

محفلین
یوں تو میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ کسی کی شاعری پر تنقید کروں مگر آپ کی شاعری میں آپ نظر نہیں آتیں وہی پرانے تصورات جنہیں کئی شعرا دوہرا چکے ہیں جیسا کہ اس شعر میں

''تو'' تصور میں جب بھی آیا ہے
آنکھ کرنے لگی وضو جاناں

وصی شاہ اور دیگر کئی شعرا نے اسی استعارے کو کئی بار استعمال کیا ہے
اپنی شاعری میں اپنے احساسات کو ڈھالیں گی تو سچی اور خوبصورت شاعری کر پائیں گی مستعار لیے ہوے تخیل سے نہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
یوں تو میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ کسی کی شاعری پر تنقید کروں مگر آپ کی شاعری میں آپ نظر نہیں آتیں وہی پرانے تصورات جنہیں کئی شعرا دوہرا چکے ہیں جیسا کہ اس شعر میں

''تو'' تصور میں جب بھی آیا ہے
آنکھ کرنے لگی وضو جاناں

وصی شاہ اور دیگر کئی شعرا نے اسی استعارے کو کئی بار استعمال کیا ہے
اپنی شاعری میں اپنے احساسات کو ڈھالیں گی تو سچی اور خوبصورت شاعری کر پائیں گی مستعار لیے ہوے تخیل سے نہیں
وضو'' کا لفظ کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے اگر اس لفظ کا حق ادا ہو پاے۔ اگر آپ کو یہ شعر مناسب نہیں لگا تو بتا دیں ۔ میں نے وصی شاہ کو پڑھا نہیں ہے ۔۔ اس لئے میں کچھ کہوں کیا۔ خیال میرا اپنا ہے ۔ ہاں ہم تجربات یکساًں پا لیتے شاید اس لیے اپ کو یہ قریب یا نقالی لگی ۔۔ حقیقتا ایسا نہیں ۔۔:) :) :)
 

صائمہ شاہ

محفلین
وضو'' کا لفظ کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے اگر اس لفظ کا حق ادا ہو پاے۔ اگر آپ کو یہ شعر مناسب نہیں لگا تو بتا دیں ۔ میں نے وصی شاہ کو پڑھا نہیں ہے ۔۔ اس لئے میں کچھ کہوں کیا۔ خیال میرا اپنا ہے ۔ ہاں ہم تجربات یکساًں پا لیتے شاید اس لیے اپ کو یہ قریب یا نقالی لگی ۔۔ حقیقتا ایسا نہیں ۔۔:) :) :)
آپ بہتر سمجھتی ہیں :) میری ناقص راے سے آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے
 
مجھے اس غزل میں ضمیر واحد حاضر (تو، تیرا، تیرے؛ وغیرہ) کا استعمال بہ تکرار کچھ بوجھل سا لگا، کہ یہاں فضا کو شاید ردیف نے بہت حد تک محدود کر دیا ہے۔ اس کے باوجود متنوع مضامین لائے جا سکتے تھے، کہ محبت کوئی اتنا چھوٹا موضوع بھی نہیں۔

تیری خوشبو بسی رہی مجھ میں
زخم ہوتا نہیں رفو جاناں
اس شعر میں تلازمات ایک دوجے سے دور جا پڑے۔ اپنی اپنی جگہ دونوں مصرعے عمدہ ہیں۔
 
شاعر کی ترجیحات اور اسلوب بجا، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ غزل میں اور اس کے قاری کے مزاج میں بھی تبدیلی آئی ہے۔
غزل کی ریزہ خیالی والی خوبی نے اس کو بے شمار نئے موضوعات دیے ہیں، ادھر حالات کے جبر نے ادیب اور قاری دونوں کو بھی متاثر کیا ہے، غموں اور خوشیوں کی نوعیت میں بہت فرق آ گیا ہے۔ اور ادب کا عام قاری اب لب و عارض میں وہ پہلے والی کشش محسوس نہیں کرتا۔ شاعر کو پابند تو نہیں کیا جا سکتا کہ وہ لب و عارض کی بات نہ کرے یا کارخانے کی دھماکے اور آگ کی اور سیاسی بازی گریوں کی بات لازماََ کرے۔ پھر بھی شاعر اور قاری کے مابین جتنی زیادہ سانجھ بنے گی، اس کا شعر اسی قدر مقبول ہو گا۔
 

نور وجدان

لائبریرین
جاناں'' ردیف کے ساتھ موضوع کی بندش ہو جاتی ہے یا میں نےغلط محسوس کیا کہ اس میں ''درد۔پیار یا ہجر کی بات کر سکتے ہیں ۔ ۔ سو اب کہ نئی سوچ پر ہوں کہ اس میں اور کیا لاتی۔ مجھے اتفاق ہے ۔۔مجھے آپ کی بات سے اتفاق لگا ہے غزل میں موضوعات مختلف ہوں اور قاری کو بی اچھا لگے۔

مجھے لگا بات کو اچھے پیرائے میں بتاؤں اس لئے میں نے خوشبو '' ڈال دیا۔۔ میں نے اس شعر میں یوں تبدیلیاں کیں


1۔مجھ میں باقی ہے اب بھی تو جاناں
زخم ہوتا نہیں رفو جاناں

2۔تیری روح بسی رہی مجھ میں
زخم ہوتا نہیں رفو جاناں


3،تیری خوشبو بسی رہی مجھ میں
زخم ہوتا نہیں رفو جاناں

میرے لئے خوشی کی بات ہے آپ نے یہاں اپنے افکار کے بارے میں بتایا۔۔ میں نے آپ کی ایک پوسٹ پڑھئ ''محفل کے شاعر سے انٹرویو میں'' جس میں تھا بات کو اس سانچے میں ڈھالو کہ جِفا کی بات کرنے پر اس کو التزام اس طرح کرو کہ نغمگی محسوس ہو ۔جیسے کوئی بے وفا ہے تو اس کو شاعری میں منفیت کے الفاظ پر نہ تولو ۔۔ اس طرح بتاؤ کی درد بھی بیان ہو پر جس کو بیان کر رہے وہ شاعری ہی لگے پتھر نہ مارنا لگے ۔۔ جیسے بددعا دینا یا کچھ اور کہنا۔۔۔۔ کچھ روشنی کریں ۔۔۔




میں نے اس کو بدل کر خوشبو ڈال دیا ۔۔ ۔۔
 

الف عین

لائبریرین
تعجب ہے کہ اس شعر کو کسی نے بے وزن نہیں کہا اب تک
خواہشیں سب میں نے ختم کر دیں
صرف اک ''تو'' تھا آرزو جاناں
آسانی سے اس کامی کو دور کیا جا سکتا ہے
خواہشیں ختم کر دیں سب میں نے
صرف اک ''تو'' تھا آرزو جاناں
دوسرا مصرع بھی
ایک تو ہی تھا آرزو۔۔
سے رواں ہو سکتا ہے
 
اصل مسئلہ پتہ ہے کیا ہے؟
کوئی بھی شخص اپنے خیالات آپ کے ذہن میں نہیں ڈال سکتا اور نہ کسی کو ایسی کوشش کرنی چاہئے۔ خاص طور پر وہاں جہاں مجھے معلوم ہے کہ میں ایک ذہین اور باصلاحیت شخص سے مخاطب ہوں، ایک نکتہ سجھا دیا کہ لیجئے صاحب اب خود سوچئے ۔۔۔ یا پھر اس نکتے کو بھول جائیے! ہاہاہا ۔۔۔۔۔
اصلاح بچوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ میں تو بچوں (نو آموزوں) سے بھی کہا کرتا ہوں کہ میاں الفاظ خود ڈھونڈ کے لاؤ۔ میں نے کسی کو ایک شعر ایک مصرع کہہ کر دے دیا تو یقین کیجئے کچھ بھی نہیں کیا۔ اگر اُس سے کہلوا لیا تو کچھ کام ہوا نا۔
 
تعجب ہے کہ اس شعر کو کسی نے بے وزن نہیں کہا اب تک
خواہشیں سب میں نے ختم کر دیں
صرف اک ''تو'' تھا آرزو جاناں
آسانی سے اس کامی کو دور کیا جا سکتا ہے
خواہشیں ختم کر دیں سب میں نے
صرف اک ''تو'' تھا آرزو جاناں
دوسرا مصرع بھی
ایک تو ہی تھا آرزو۔۔
سے رواں ہو سکتا ہے

جی، وہ ذہن گیا تو تھا اُس طرف، پھر بات کسی اور رُخ پہ چل نکلی۔ آپ کا تعجب بالکل بجا ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
الف عین اور محمد یعقوب محترم اساتذہ کرام ۔۔!!!
بہت شکریہ توجہ دینے کا۔۔ اور آپ کی بات بجا کہ اس میں وزن آسانی سے اور روانی بھی آسکتی ۔۔ اب اور احتیاط لازم ہے مجھے۔۔۔۔۔۔


باقی دونوں اساتذہ کرام بہت نفیس طبع ہیں،۔ اچھا سمجھاتے ہیں اور بتاتے۔۔ اور محمد۔آسی صاحب نوازش۔۔ میں کوشش کروں گی ادب کی خدمت اور اس میں جدت لاؤں۔ میرا دل کرتا ہے شاعری پر بھی اور نثر لکھنے کو۔ایسا لگتا ہے تشنگی ہے جو مٹانی ہے۔پیاس کو ختم کرنا ہے۔۔ انشااللہ۔انشااللہ انشااللہ ۔۔مجھ میں نیا پن پائیں گے اورجدت بھی۔۔ آمین۔اللہ تعالیٰ کے کرم سے۔۔
 
اب اس بہاؤ میں جدیدیت کے پیچھے نہ دوڑیے گا۔ کتنے ہی عمدہ شاعر ہماری آنکھوں کے سامنے جدت میں مارے گئے۔ ہوتے ہوتے نہ شاعری رہی نہ بات۔ جدید لکھنے کی ضرورت نہیں۔ لفظ یا خیال جدید نہیں ہوتے، بات نئی ہوتی ہے۔ صرف قدما کے مطالعے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد آپ خود جدید سوچیں گے۔ ہمارا بےلوث مشورہ!
 
Top