اک نئی غزل ''جاناں''۔۔''

اب اس بہاؤ میں جدیدیت کے پیچھے نہ دوڑیے گا۔ کتنے ہی عمدہ شاعر ہماری آنکھوں کے سامنے جدت میں مارے گئے۔ ہوتے ہوتے نہ شاعری رہی نہ بات۔ جدید لکھنے کی ضرورت نہیں۔ لفظ یا خیال جدید نہیں ہوتے، بات نئی ہوتی ہے۔ صرف قدما کے مطالعے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد آپ خود جدید سوچیں گے۔ ہمارا بےلوث مشورہ!
جائے استاذ خالی ست
 

شوکت پرویز

محفلین
نور سعدیہ شیخ صاحبہ!
آپ کا کلام اچھا ہے۔

آپ اساتذہ کی باتوں کو یاد رکھیں، نیا لکھتی رہیں، اور (اپنے) پرانے کلام کو بھی دیکھتی رہیں،
کہ وقت کے ساتھ ساتھ علم، تجربات بڑھتے ہی ہیں، آپ کو خود اپنے پرانے کلام میں کئی جگہ بہتری کرنے کے مواقع مل جائیں گے۔
ایسا ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے۔ اور ہمارا خیال ہے کہ اکثر کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔
۔۔۔
انکل کے اشارہ کردہ شعر کے علاوہ غزل کے آخری شعر میں "کیا" ایک حرفی باندھا گیا ہے،
جو کہ اس مصرع کو بھی بحر سے خارج کر رہا ہے۔
:)
 
شعر کسی الجھن کے بیان کرنے سے نہیں بنتا۔ البتہ شعر کہنے کے لیے الجھن کا ہونا بھی ضروری ہے۔ شعر بنتا ہے جب آپ اپنی الجھن کو قواعد و قوانین کے ساتھ درست تراکیب سے باندھ سکیں۔ الجھنوں میں بھی تسلسل ہونا ضروری ہے۔ اس تسلسل کے بغیر بات نہیں بنتی۔۔ اس غزل کا شاعر کہنا چاہ رہا ہے۔ لیکن کہہ نہیں پارہا۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
اب اس بہاؤ میں جدیدیت کے پیچھے نہ دوڑیے گا۔ کتنے ہی عمدہ شاعر ہماری آنکھوں کے سامنے جدت میں مارے گئے۔ ہوتے ہوتے نہ شاعری رہی نہ بات۔ جدید لکھنے کی ضرورت نہیں۔ لفظ یا خیال جدید نہیں ہوتے، بات نئی ہوتی ہے۔ صرف قدما کے مطالعے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد آپ خود جدید سوچیں گے۔ ہمارا بےلوث مشورہ!
شاعر ہونا اور شاعر بننا دو مختلف باتیں ہیں اگر آپ شاعر ہیں تو شاعر ہی رہیں گے خواہ جدت پسند ہوں یا نہیں اور جدت سوچ میں نہ ہو تو شاعری میں نہیں آ سکتی :)
 

نور وجدان

لائبریرین
نور سعدیہ شیخ صاحبہ!
آپ کا کلام اچھا ہے۔

آپ اساتذہ کی باتوں کو یاد رکھیں، نیا لکھتی رہیں، اور (اپنے) پرانے کلام کو بھی دیکھتی رہیں،
کہ وقت کے ساتھ ساتھ علم، تجربات بڑھتے ہی ہیں، آپ کو خود اپنے پرانے کلام میں کئی جگہ بہتری کرنے کے مواقع مل جائیں گے۔
ایسا ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے۔ اور ہمارا خیال ہے کہ اکثر کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔
۔۔۔
انکل کے اشارہ کردہ شعر کے علاوہ غزل کے آخری شعر میں "کیا" ایک حرفی باندھا گیا ہے،
جو کہ اس مصرع کو بھی بحر سے خارج کر رہا ہے۔
:)
بہت شکریہ رائے اور مفید تنقید کا بھی ۔۔ کیا کو 21 یا 2 پر باندھا جا سکتا ہے ۔۔۔ کیا= ک۔ا =کا۔۔ ک۔یا 21 ۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
شاعر ہونا اور شاعر بننا دو مختلف باتیں ہیں اگر آپ شاعر ہیں تو شاعر ہی رہیں گے خواہ جدت پسند ہوں یا نہیں اور جدت سوچ میں نہ ہو تو شاعری میں نہیں آ سکتی :)
میں بھی اس بات کے حق میں ہو ۔۔ وصی شاہ نے ''کنگن '' بھی ''کاش میں ترے ہاتھ کا بن گوش ہوتا'' سے نقالی کی ۔۔ یہ دیکھیں وضو ککی ترکیب کہاں سے لی وصی شاہ وصی نے ۔۔ وضو کا میرے نزدیک مفہوم پاک ہونا ہے ۔۔ اور تم جب تصور میں آتے ہو ۔۔۔جب بھی ۔۔ اس کا مطلب تم تصور می ہر وقت نہیں ۔۔ تو ؤضو سے خارج ہو جاتے ہو ۔۔یعنی رونے سے تمہارا عکس دھل جاتا ہے ۔۔ سو کیا ؤصی شاہ نے بھی اسی نہج پہ سوچا






مجید امجد کی ایک خوبصورت نظم "بُندا" جس سے متاثر ہو کر وصی شاہ نے اپنی مشہور زمانہ نظم کنگن لکھی تھی یاد رہے کہ یہ نظم وصی شاہ کی نظم کنگن لکھنے سے تقریباً 35 سال پہلے لکھی گئی تھی

کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا
رات کو بے خبری میں جو مچل جاتامیں
تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے
ملتا اس گوش کا پھر گوشہ مانوس مجھے
کان سے تو مجھے ہر گز نہ اتارا کرتی
تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی
یوں تری قربت رنگیں کے نشے میں مدہوش
عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش
کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا!
(مجید امجد)

کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
تو بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ
اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو
اور بے تابی سے فرقت کے خزاں لمحوںمیں
تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو
میں ترے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا
جب کبھی موڈ میں آ کر مجھے چوما کرتی
تیرے ہونٹوں کی میں حدت سے د ہک سا جاتا
رات کو جب بھی تو نیندوں کے سفر پر جاتی
مرمریں ہاتھ کا اک تکیہ بنایا کرتی
میں ترے کان سے لگ کر کئی باتیں کر تا
تیری زلفوں کو ترے گال کو چوما کرتا
جب بھی تو بند قبا کھولنے لگتی جاناں
اپنی آنکھوں کو ترے حسن سے خیرہ کرتا
مجھ کو بے تاب سا رکھتا تری چاہت کا نشہ
میں تری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا
میں ترے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا
کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
(وصی شاہ)
 

صائمہ شاہ

محفلین
میں بھی اس بات کے حق میں ہو ۔۔ وصی شاہ نے ''کنگن '' بھی ''کاش میں ترے ہاتھ کا بن گوش ہوتا'' سے نقالی کی ۔۔ یہ دیکھیں وضو ککی ترکیب کہاں سے لی وصی شاہ وصی نے ۔۔ وضو کا میرے نزدیک مفہوم پاک ہونا ہے ۔۔ اور تم جب تصور میں آتے ہو ۔۔۔جب بھی ۔۔ اس کا مطلب تم تصور می ہر وقت نہیں ۔۔ تو ؤضو سے خارج ہو جاتے ہو ۔۔یعنی رونے سے تمہارا عکس دھل جاتا ہے ۔۔ سو کیا ؤصی شاہ نے بھی اسی نہج پہ سوچا






مجید امجد کی ایک خوبصورت نظم "بُندا" جس سے متاثر ہو کر وصی شاہ نے اپنی مشہور زمانہ نظم کنگن لکھی تھی یاد رہے کہ یہ نظم وصی شاہ کی نظم کنگن لکھنے سے تقریباً 35 سال پہلے لکھی گئی تھی

کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا
رات کو بے خبری میں جو مچل جاتامیں
تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے
ملتا اس گوش کا پھر گوشہ مانوس مجھے
کان سے تو مجھے ہر گز نہ اتارا کرتی
تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی
یوں تری قربت رنگیں کے نشے میں مدہوش
عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش
کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا!
(مجید امجد)

کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
تو بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ
اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو
اور بے تابی سے فرقت کے خزاں لمحوںمیں
تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو
میں ترے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا
جب کبھی موڈ میں آ کر مجھے چوما کرتی
تیرے ہونٹوں کی میں حدت سے د ہک سا جاتا
رات کو جب بھی تو نیندوں کے سفر پر جاتی
مرمریں ہاتھ کا اک تکیہ بنایا کرتی
میں ترے کان سے لگ کر کئی باتیں کر تا
تیری زلفوں کو ترے گال کو چوما کرتا
جب بھی تو بند قبا کھولنے لگتی جاناں
اپنی آنکھوں کو ترے حسن سے خیرہ کرتا
مجھ کو بے تاب سا رکھتا تری چاہت کا نشہ
میں تری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا
میں ترے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا
کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
(وصی شاہ)
شکریہ اتنی تفصیلی وضاحت کا مگر مجھے آپ کی شاعری کا مفہوم سمجھنے میں کوئی دقت نہیں تھی آپ نے اسے اصلاح سخن کے زمرے میں پوسٹ کیا تھا اس لیے راے دے دی اور بات صرف ایک شعر کی نہیں ہے میں نے وہ شعر مثال کے لیے استعمال کیا تھا مجھے آپ کی غزل میں کچھ نیا نظر نہیں آیا صرف اس طرف اشارہ تھا
اگر آپ لکھنا چاہتی ہیں تو کچھ منفرد لکھیے اور اس کے لیے آپ کا کچھ منفرد پڑھنا اور سوچنا ضروری ہے روایتی انداز کے شاعروں اور ادیبوں سے ہٹ کر دیکھیے اور اسے تنقید مت سمجھیے گا میں آپ پر ہرگز تنقید نہیں کر رہی ہوں ایک قاری کی حیثیت سے اپنا موقف بیان کر رہی ہوں
 

شوکت پرویز

محفلین
بہت شکریہ رائے اور مفید تنقید کا بھی ۔۔ کیا کو 21 یا 2 پر باندھا جا سکتا ہے ۔۔۔ کیا= ک۔ا =کا۔۔ ک۔یا 21 ۔۔
کیا (استفہامیہ): یہ ہمیشہ 2 ہی بندھے گا۔
کِیا (فعل، کرنا): یہ عام طور پر 21 بندھے گا۔ ہاں! اگر شاعر 'الف' کو ساقط کر رہا ہے تو یہ 11 بندھے گا۔

رہا آپ کا شعر۔۔۔
اُس نے پوچھا ملول رہتی ہو۔۔!
کہہ دیا پاس ہے کیا'' تُو'' جاناں
تو یہاں 'کیا' استفہامیہ ہے۔ یہ صرف 2 ہی باندھا جا سکتا ہے۔
:):):)
 
Top