اڑتی ہے جو گرد پاؤں کی ٹھوکر سے

فرخ منظور

لائبریرین
دوست یہی تو میں لوگوں کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ ہر بات پر صرف ایک طنزیہ بحث شروع کردیتے ہیں۔۔۔ یہ سوچے بغیر کہ مسلمان اور مومن دو مختلف چیزیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اسی لیے اشارتا "من کی دنیا" میں چھانکنے کی بات کی ہے بارہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں خود بھی حجتی تھا مگر پھر ایک واقع نے میری زندگی تبدیل کردی۔۔۔۔۔ بقول حضرت علی کرم اللہ وجھہ "مت دیکھ کہ کون کہ رہا ہے سن کہ کیا کہ رہا ہے"۔۔۔۔۔ بس یہ بات کسی نے بتائی اور آج میں بزاروں حجتوں سے آزاد ہوں۔۔۔۔۔۔۔

لیکن قبلہ اگر کوئی مذہب میں جھوٹ کہے گا تو وہ بھی قبول کر لیں گے کیا؟ اسلام میں بہت سی چیزیں مختلف مذاہب سے اسی لیے در آئی ہیں - اسی لیے روائت کی حیثیت قرآن سے بھی بڑھ گئی ہے - اگر میری کوئی بات بری لگی ہو تو میں معافی چاہتا ہوں - لیکن میری گزارش یہی ہے کہ خالص اور اصل منبع قرآنِ مجید ہے - بقول اقبال کہ یہ کتاب ہے باقی تمام تفسیریں-
 

ظفری

لائبریرین
سر جی بذف ہم نے نہیں کیا کسی اور نے کیا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ اس لئے کہ شاید ہماری بات کی سچائی میں کڑواہٹ زیادہ تھی

میں نے یہ لکھا تھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے فرمایا " حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔ بوسف لدھیانوی مرحوم کی تقریر سنی تھی اس سے ایک جملہ کوٹ کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"میں زمینی راستوں سے زیادہ اسمانی راستے جانتا ہوں، مجھ سے اسمانی راستوں کے بارے میں پوچھو"۔

پوچھنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ کیا اس بیان کی روشنی میں غیب کسے کہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا حضرت علی کرم اللہ وجہھ کو غیب کا علم تھا ۔۔۔۔ جب کہ قارئین کا کہنا یہ ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر زمین کا باسی اسمانی راستوں کی بات کیسے کر رہا ہے۔۔۔۔ اور وہ بھی ایک انتہائی جلیل ا لقدر پرسنالٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں‌ اس حوالے سے کچھ کہنے کی جسارت کروں گا ۔ امید ہے یہاں دوستوں کو گراں نہیں گذرے گا ۔
سب سے پہلے تو اس بات کا علم ہونا چاہیئے کہ " غیب " کیا ہے ۔ ؟
اسباب سے ماوراء کسی چیز کو جان لینا ، " غیب " ہے ۔ یعنی ہمارے لیئے کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جو ہمارے سامنے ہوتیں ہیں ۔ قرآنِ مجید اس کو " شہادت" کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے ۔ یعنی ایسی چیزیں جن کا ہم براہِ راست مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ جو ہمارے حواس کی گرفت میں ہیں ، ہم ان سے واقف ہوتے ہیں ۔ اور کچھ چیزیں وہ ہوتیں ہیں ۔ جن کا ہم براہِ راست مشاہدہ نہیں کرسکتے ۔ ان کو " غیب " سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اب ہم اسباب کے ذریعے اس غیب تک رسائی حاصل کریں گے ۔ مثال کے طور پر ایک زمانے میں دنیا میں آنے والے بچے کی جنس " غیب " کی اہمیت کی حامل تھی ۔ اب ہم نے اس " غیب " تک رسائی کے لیئے ، اسباب میں سے جو چیز حاصل کی وہ " الٹرا ساؤنڈ " ہے ۔ یعنی آج آپ بتا سکتے ہیں کہ دنیا میں آنے والے بچے کی جنس کیا ہے ۔
اللہ تعالی ہر چیز سے واقف ہے ۔ اس کے لیئے نہ کوئی غیب ہے ، نہ کوئی شہادت ہے ۔ یعنی ہر چیز کا اسے علم ہے ۔ کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے ، جو اس کے لیئے غیب ہوجائے ۔ لہذا یہ مطلب ہے کہ غیب کا سارا علم اللہ کے ہی پاس ہے ۔ اب اسباب کے تحت بھی انسان بہت سی چیزوں کا جانتا رہتا ہے ۔ کل بہت سی چیزیں ہمارے لیئے " غیب " تھیں ، آج نہیں ہیں ۔ بہت سی چیزوں کے بارے میں ہم آج معلومات نہیں رکھتے ، ہوسکتا ہے کل ان کا بھی علم ہوجائے ۔ یہ علم اسی طرح سے جاری رہے گا ۔ جیسے اب الٹرا ساؤنڈ مشین ، عالمِ اسباب کی چیز ہے ۔ سو عالمِ اسباب میں تو ہم اسباب پیدا کرتے جاتے ہیں اور اس کے ذریعے بہت سے غیب ہمارے لیئے شہادت بنتے چلے جاتے ہیں ۔ اور اللہ تعالی ان اسباب سے بلکل ماوراء ہے ۔ وہ ہر شے سے واقف ہے ۔
اسی بات کو روحانی تناظر سے دیکھیں ۔ کوئی شخص اس ظاہری دنیا کو بلکل اہمیت نہیں دیتا ۔ اسے یہ علم ہے کہ یہ امتحان کی جگہ ہے ۔ اور اس کو اپنا اصل مقام کا علم ہے ۔ لہذا اس کا زمینی اور آسمانی راستوں کا حوالہ دینا کسی مادی لحاظ سے آسمانی اور زمینی راستوں کی طرف اشارہ نہیں ہے ۔ بلکہ دنیا ( جو امتحان کی جگہ ہے ) اور ( آسمانی راستہ ) جو آخرت ہے ۔ ان کے مابین ایک فرق کو واضع کرنا ہے ۔
 
میں‌ اس حوالے سے کچھ کہنے کی جسارت کروں گا ۔ امید ہے یہاں دوستوں کو گراں نہیں گذرے گا ۔
سب سے پہلے تو اس بات کا علم ہونا چاہیئے کہ " غیب " کیا ہے ۔ ؟
اسباب سے ماوراء کسی چیز کو جان لینا ، " غیب " ہے ۔ یعنی ہمارے لیئے کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جو ہمارے سامنے ہوتیں ہیں ۔ قرآنِ مجید اس کو " شہادت" کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے ۔ یعنی ایسی چیزیں جن کا ہم براہِ راست مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ جو ہمارے حواس کی گرفت میں ہیں ، ہم ان سے واقف ہوتے ہیں ۔ اور کچھ چیزیں وہ ہوتیں ہیں ۔ جن کا ہم براہِ راست مشاہدہ نہیں کرسکتے ۔ ان کو " غیب " سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اب ہم اسباب کے ذریعے اس غیب تک رسائی حاصل کریں گے ۔ مثال کے طور پر ایک زمانے میں دنیا میں آنے والے بچے کی جنس " غیب " کی اہمیت کی حامل تھی ۔ اب ہم نے اس " غیب " تک رسائی کے لیئے ، اسباب میں سے جو چیز حاصل کی وہ " الٹرا ساؤنڈ " ہے ۔ یعنی آج آپ بتا سکتے ہیں کہ دنیا میں آنے والے بچے کی جنس کیا ہے ۔
اللہ تعالی ہر چیز سے واقف ہے ۔ اس کے لیئے نہ کوئی غیب ہے ، نہ کوئی شہادت ہے ۔ یعنی ہر چیز کا اسے علم ہے ۔ کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے ، جو اس کے لیئے غیب ہوجائے ۔ لہذا یہ مطلب ہے کہ غیب کا سارا علم اللہ کے ہی پاس ہے ۔ اب اسباب کے تحت بھی انسان بہت سی چیزوں کا جانتا رہتا ہے ۔ کل بہت سی چیزیں ہمارے لیئے " غیب " تھیں ، آج نہیں ہیں ۔ بہت سی چیزوں کے بارے میں ہم آج معلومات نہیں رکھتے ، ہوسکتا ہے کل ان کا بھی علم ہوجائے ۔ یہ علم اسی طرح سے جاری رہے گا ۔ جیسے اب الٹرا ساؤنڈ مشین ، عالمِ اسباب کی چیز ہے ۔ سو عالمِ اسباب میں تو ہم اسباب پیدا کرتے جاتے ہیں اور اس کے ذریعے بہت سے غیب ہمارے لیئے شہادت بنتے چلے جاتے ہیں ۔ اور اللہ تعالی ان اسباب سے بلکل ماوراء ہے ۔ وہ ہر شے سے واقف ہے ۔
اسی بات کو روحانی تناظر سے دیکھیں ۔ کوئی شخص اس ظاہری دنیا کو بلکل اہمیت نہیں دیتا ۔ اسے یہ علم ہے کہ یہ امتحان کی جگہ ہے ۔ اور اس کو اپنا اصل مقام کا علم ہے ۔ لہذا اس کا زمینی اور آسمانی راستوں کا حوالہ دینا کسی مادی لحاظ سے آسمانی اور زمینی راستوں کی طرف اشارہ نہیں ہے ۔ بلکہ دنیا ( جو امتحان کی جگہ ہے ) اور ( آسمانی راستہ ) جو آخرت ہے ۔ ان کے مابین ایک فرق کو واضع کرنا ہے ۔

کاش میں وجدان سے متعلق کچھ لکھ سکتا ۔۔۔۔ ظفری

جو میں کہنا چاہتا تھا وہ وہیں رہا۔۔۔۔ لفطوں کے ہیر پھیر میں سب گم ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناصر کاظمی کا ایک انتہائی سادہ سا شعر ہے۔۔۔ جو لفظوں میں تو سادہ ہے مگر معنویت میں دیکھو کیا غضب کا تاثر ہے۔۔۔۔ فرق صرف ہجر و وصل سے گزرنے والا سمجھ سکتا ہے ۔۔۔ ورنہ شاعری تو سب ہی پڑہتے ہیں

بیٹھ کر سایہ گل میں ناصر
ہم بہت روئے جب وہ یاد آیا
 
لیکن قبلہ اگر کوئی مذہب میں جھوٹ کہے گا تو وہ بھی قبول کر لیں گے کیا؟ اسلام میں بہت سی چیزیں مختلف مذاہب سے اسی لیے در آئی ہیں - اسی لیے روائت کی حیثیت قرآن سے بھی بڑھ گئی ہے - اگر میری کوئی بات بری لگی ہو تو میں معافی چاہتا ہوں - لیکن میری گزارش یہی ہے کہ خالص اور اصل منبع قرآنِ مجید ہے - بقول اقبال کہ یہ کتاب ہے باقی تمام تفسیریں-

سرکار ہم اج تک جھوٹ اور سچ کے بیچ ہی تو زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔۔ ایک کہتا ہے یہ سچ ہے تو دوسرا اس کی تردید کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر سچ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

سچ ہمارے اندر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرق صرف جھانکنے کا ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
زیک کل جب میں نے لکھا تھا تو وہاں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا، جس سے مجھے یہی گمان ہوا کہ پیغام حذف ہوا ہے۔ جبکہ آج موجود ہے۔ یقیناً کوئی فنی خرابی ہوئی ہو گی۔ بہر حال پیغام واپس لانے کا شکریہ۔
 

تعبیر

محفلین
یہ کیا ہوا، اپنا ہی لکھا ہوا آپ کو پسند نہیں آیا اور حذف کر دیا۔


اپنا ہی لکھا حذف کرنا ہوتا تو اتنی محنت ہی کیوں کرتی :grin: ابھی تک اپ میری ادھی انگلش اور ادھی اردو سے نہیں سمجھے کہ مجھے ٹائپنگ نہیں آتی اردو میں :( آپ کو میری ہر پوسٹ edited ہی ملے گی وجہ mistakes ٹھیک کرنا ہوتی ہیں بس۔وہ والا reply مجھے خود کو بھی نظر نہیں آرہا تھا سو اسے بار بار ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جو بعد میں زیک نے ٹھیک کر دیا

یہان اتنا سناٹا کیوں ہے؟؟ ؟ :confused: :confused: :confused:
 

تعبیر

محفلین
میں نے کسی کی کوئی تحریر حذف نہیں کی۔

شکریہ آپ نے تو جان ہی نکال دی تھی۔میں نے آج تک کسی سے اونچی آواز میں بھی بات نہیں ۔ میں حیران اور شرمندہ تھی کہ پھر مین نے یہاں ایسا کیا کہ دیا کہ آپ کو اسے delete کرنا پڑا۔ شکر ہے ابھی بھی میرا شمار تمیزداروں میں ہے :grin:
 

تعبیر

محفلین
سرکار ہم اج تک جھوٹ اور سچ کے بیچ ہی تو زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔۔ ایک کہتا ہے یہ سچ ہے تو دوسرا اس کی تردید کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر سچ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

سچ ہمارے اندر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرق صرف جھانکنے کا ہے۔۔۔۔۔۔۔

پلیز آپ میرے لیے تھوڑی سی وضاحت کرینگے کہ آپ اکثر کہتے ہیں کہ من کی انکھ اور من میں جھاکنا ۔ کیسے کہ میرا خیال تھا کہ یہ صرف ولیوں کے اختیار میں ہے :confused:
 

فرخ منظور

لائبریرین
سعدی شیرازی کی ایک حکائت ہے کہ جہنم میں دو کڑاھے رکھے تھے ایک کے نیچے دھیمی اور دوسرے کڑاہے کے نیچے تیز آگ جل رہی تھی اور ان دو کڑاہوں میں دو آدمیوں کو ڈالا گیا تھا ایک ادیب تھا اور دوسرا ڈاکو اور قاتل - ڈاکو کے کڑاہے کے نیچے تیز آگ جل رہی تھی جبکہ ادیب کے کڑاہے کی آگ دھیمی تھی - کچھ صدیوں کے بعد ڈاکو کے کڑاہے کی آگ بجھ گئی جبکہ ادیب کے کڑاہے کی آگ مسلسل جلتی رہی اور مزید کئی صدیاں بیت گئیں - ادیب سوچنے لگا کہ یہ ڈاکو جس نے اتنے ڈاکے ڈالے اور قتل کیے اس کی سزا تو بہت کم مدت میں ختم ہو گئی جبکہ میری سزا اس شخص کے بعد بھی کئی صدیوں سے جاری ہے - وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں اس آگ سے ایک پری نکلی اور اسے کہنے لگی جو تم سوچ رہے ہو اس کا جواب میں تمہیں دیتی ہوں - ڈاکو کی آگ اس لیے بجھ گئ کہ اس نے جو گناہ کیے تھے اسکے اثرات صرف چند صدیوں پر محیط تھے جبکہ تمہاری لکھی ہوئی غلط کتابوں کے اثرات کئی صدیوں میں بھی ختم نہ ہونگے اس لیے تمہاری آگ نہیں بجھے گی -
 

زونی

محفلین
سب سے پہلے تو اس بات کا علم ہونا چاہیئے کہ " غیب " کیا ہے ۔ ؟
اسباب سے ماوراء کسی چیز کو جان لینا ، " غیب " ہے ۔ یعنی ہمارے لیئے کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جو ہمارے سامنے ہوتیں ہیں ۔ قرآنِ مجید اس کو " شہادت" کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے ۔ یعنی ایسی چیزیں جن کا ہم براہِ راست مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ جو ہمارے حواس کی گرفت میں ہیں ، ہم ان سے واقف ہوتے ہیں ۔ اور کچھ چیزیں وہ ہوتیں ہیں ۔ جن کا ہم براہِ راست مشاہدہ نہیں کرسکتے ۔ ان کو " غیب " سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اب ہم اسباب کے ذریعے اس غیب تک رسائی حاصل کریں گے ۔ مثال کے طور پر ایک زمانے میں دنیا میں آنے والے بچے کی جنس " غیب " کی اہمیت کی حامل تھی ۔ اب ہم نے اس " غیب " تک رسائی کے لیئے ، اسباب میں سے جو چیز حاصل کی وہ " الٹرا ساؤنڈ " ہے ۔ یعنی آج آپ بتا سکتے ہیں کہ دنیا میں آنے والے بچے کی جنس کیا ہے ۔





ظفری میرے خیال میں غیب وہ ھے جس سے صرف اللہ تعالی ہی واقف ھے اور مخلوق سے وہ چیزیں پوشیدہ رکھی گئی ہیں جیسے کہ موت کے بعد کیا ہو گا اور عالم ارواح کا منظر وغیرہ لیکن جو مثال آپ نے پیش کی ھے یہ چیزیں تو انسان کے تصرف میں تھیں لیکن تھوڑی کوشش کے بعد وہ ان تک پہنچا ھے جیسے بیکٹیریا اور وائرس وغیرہ کو انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا لیکن سائنسی ترقی کے بعد ایسا ممکن ہوا ھے لیکن کچھ معاملات کو اللہ پاک نے اپنے ہاتھ میں رکھا ھے ،مخلوق سے اس لئے پوشیدہ ہیں یہ چیزیں کیونکہ انسانی عقل وہاں تک رسائی نہیں رکھتی، انسانی عقل محدود ھے جیسا کہ آپ خدا کی ذات اور اسکی تخلیق پہ غور کریں تو عقل کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اسی طرح غیب کا علم بھی خدا نے اپنی ذات تک محدود رکھا ھے لیکن انسان کو وہاں تک رسائی نہیں دی گئی۔












ِ
 

ظفری

لائبریرین



ظفری میرے خیال میں غیب وہ ھے جس سے صرف اللہ تعالی ہی واقف ھے اور مخلوق سے وہ چیزیں پوشیدہ رکھی گئی ہیں جیسے کہ موت کے بعد کیا ہو گا اور عالم ارواح کا منظر وغیرہ لیکن جو مثال آپ نے پیش کی ھے یہ چیزیں تو انسان کے تصرف میں تھیں لیکن تھوڑی کوشش کے بعد وہ ان تک پہنچا ھے جیسے بیکٹیریا اور وائرس وغیرہ کو انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا لیکن سائنسی ترقی کے بعد ایسا ممکن ہوا ھے لیکن کچھ معاملات کو اللہ پاک نے اپنے ہاتھ میں رکھا ھے ،مخلوق سے اس لئے پوشیدہ ہیں یہ چیزیں کیونکہ انسانی عقل وہاں تک رسائی نہیں رکھتی، انسانی عقل محدود ھے جیسا کہ آپ خدا کی ذات اور اسکی تخلیق پہ غور کریں تو عقل کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اسی طرح غیب کا علم بھی خدا نے اپنی ذات تک محدود رکھا ھے لیکن انسان کو وہاں تک رسائی نہیں دی گئی۔

ِ
معذرت چاہوں گا مگر آپ کی یہ معلومات " غیب " کے متعلق مکمل نہیں ہے ۔
آپ میری پوسٹ دوبارہ پڑھیں ۔ :rolleyes:
 

زونی

محفلین
معذرت چاہوں گا مگر آپ کی یہ معلومات " غیب " کے متعلق مکمل نہیں ہے ۔
آپ میری پوسٹ دوبارہ پڑھیں ۔ :rolleyes:



ظفری میں نے پوسٹ دوبارہ بھی پڑھ لی ھے لیکن آپ دو متضاد باتیں کر رہے ہیں ، کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ انسان کا تصرف صرف دنیاوی علوم تک ھے اور اسباب اور "نشانیاں" جو آپ نے کہا ھے یہ عقلی رسائی ھے جس کی ایک حد اللہ نے متعین کی ھے ،اگر ایسی بات ھے تو انسان آج تک خدا کی تخلیق کے علم تک رسائی کیوں حاصل نہیں کر سکا اور کیا کل کو انسان ان نشانیوں کو راستہ بنا کر اس تک پہنچ جائے گا :rolleyes: نشانیاں ہیں لیکن یہ خدا کی حقیقت تک لیجاتی ہیں ، اسکی وحدانیت تل لیجاتی ہیں نہ کہ خدائی علوم تک ،میں پھر یہی کہوں گی کہ انسان کی عقل کا دائرہ اور اسکی رسائی محدود ھے اور جہاں یہ ختم ہوتی ھے وہاں سے غیب کا آغاز ہوتا ھے ۔
 
صاحبو! خواب کی حالت میں انسان ان مقامات کی سیر کرتا ہے جہاں وہ کبھی گیا ہی نہیں۔۔۔۔۔ اس پر غور کیجیے گا۔۔۔ ظفری اپنی جگہ صحیح فرما رہے ہیں۔۔۔ بات صرف علم کی کمی کی ہے۔۔
ایک اور بات ۔۔۔ سب سے پہلے غیب کے بارے میں پڑہیں یا معلومات حاسل کریں۔۔۔ اور اس بحث کو مثبت طریقے سے چلنے دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی بات کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں۔۔۔۔ ورنہ تلخی ہونے کا احتمال ہے۔۔۔۔ روحانیت ایک وسیع علم ہے۔۔۔۔ اکتسابی اور روحانی علم کے فرق کو سمجھیں۔۔۔ اکتسابی علم میں پہلے علم ہے اور پھر عمل ۔۔۔ روحانی علم میں پہلے عمل ہے اور پھر علم۔۔۔۔
 

زونی

محفلین
صاحبو! خواب کی حالت میں انسان ان مقامات کی سیر کرتا ہے جہاں وہ کبھی گیا ہی نہیں۔۔۔۔۔ اس پر غور کیجیے گا۔۔۔ ظفری اپنی جگہ صحیح فرما رہے ہیں۔۔۔ بات صرف علم کی کمی کی ہے۔۔
ایک اور بات ۔۔۔ سب سے پہلے غیب کے بارے میں پڑہیں یا معلومات حاسل کریں۔۔۔ اور اس بحث کو مثبت طریقے سے چلنے دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی بات کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں۔۔۔۔ ورنہ تلخی ہونے کا احتمال ہے۔۔۔۔ روحانیت ایک وسیع علم ہے۔۔۔۔ اکتسابی اور روحانی علم کے فرق کو سمجھیں۔۔۔ اکتسابی علم میں پہلے علم ہے اور پھر عمل ۔۔۔ روحانی علم میں پہلے عمل ہے اور پھر علم۔۔۔۔






میرا خیال ھے یہاں کسی نے اس ٹاپک کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا ھے ،میں نے صرف اپنی رائے دی ھے اور ظفری نے اپنی دیٹس آل۔ اب ظفری کو چاھئے کہ اپنی بات کی کھل کر وضاحت کریں دلائل کے ساتھ تاکہ میری عقل ناقص میں بھی کچھ آئے ۔:)
 

ظفری

لائبریرین

میرا خیال ھے یہاں کسی نے اس ٹاپک کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا ھے ،میں نے صرف اپنی رائے دی ھے اور ظفری نے اپنی دیٹس آل۔ اب ظفری کو چاھئے کہ اپنی بات کی کھل کر وضاحت کریں دلائل کے ساتھ تاکہ میری عقل ناقص میں بھی کچھ آئے ۔:)
آپ نے میری بات پر اعتراض کیا ہے ۔ لہذا آپ کو پہلے چاہیئے کہ میری اس بات کو کوٹ کرکے اپنا استدال پیش کریں کہ آپ کی " یہ بات " اس طرح غلط ہے ۔ ورنہ بیکار کی حجت کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
ظفری میں نے پوسٹ دوبارہ بھی پڑھ لی ھے لیکن آپ دو متضاد باتیں کر رہے ہیں ، کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ انسان کا تصرف صرف دنیاوی علوم تک ھے اور اسباب اور "نشانیاں" جو آپ نے کہا ھے یہ عقلی رسائی ھے جس کی ایک حد اللہ نے متعین کی ھے ،اگر ایسی بات ھے تو انسان آج تک خدا کی تخلیق کے علم تک رسائی کیوں حاصل نہیں کر سکا اور کیا کل کو انسان ان نشانیوں کو راستہ بنا کر اس تک پہنچ جائے گا :rolleyes: نشانیاں ہیں لیکن یہ خدا کی حقیقت تک لیجاتی ہیں ، اسکی وحدانیت تل لیجاتی ہیں نہ کہ خدائی علوم تک ،میں پھر یہی کہوں گی کہ انسان کی عقل کا دائرہ اور اسکی رسائی محدود ھے اور جہاں یہ ختم ہوتی ھے وہاں سے غیب کا آغاز ہوتا ھے ۔

آپ کے اس اقتباس سے ایک سوال اٹھتا ہے کہ قرآن میں پانچ غیب کا ذکر آیا ہے ( پتا نہیں آپ کو یہ معلوم بھی ہے کہ یا نہیں ) ۔۔۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ " دنیا میں آنے والے بچے کی جنس کا صرف اللہ کو علم ہے ۔ " ۔۔۔۔ اب ساری دنیا جانتی ہے کہ اب بچے کی جنس کا تعین ہوجاتا ہے ۔ اسے آپ کیا کہیں گی ۔ ؟ :confused:
 

زونی

محفلین
آپ نے میری بات پر اعتراض کیا ہے ۔ لہذا آپ کو پہلے چاہیئے کہ میری اس بات کو کوٹ کرکے اپنا استدال پیش کریں کہ آپ کی " یہ بات " اس طرح غلط ہے ۔ ورنہ بیکار کی حجت کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔




ظفری میں نے صرف اپنی رائے دی ھے کوئی اٹل فیصلہ یا فتوی پیش نہیں کیا ھے اور آپ نے اپنی رائے دی ھے ،اگر میں آپکی رائے کو نہیں مان رہی یا آپ میری بات سے اتفاق نہیں کرتے تو اس میں مجھے اور آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاھئے ،اعتراضات اور اختلاف رائے تو علماء میں بھی رہتا ھے اور میرے خیال سے میرے اور آپ میں کوئی اس منصب تک تو نہیں پہنچا ابھی:) کیا یہاں بات کرنے کی آزادی بھی نہیں ھے:rolleyes:فرصت میں کھل کر اظہار رائے کروں گی۔

ِ
 

ظفری

لائبریرین
ظفری میں نے صرف اپنی رائے دی ھے کوئی اٹل فیصلہ یا فتوی پیش نہیں کیا ھے اور آپ نے اپنی رائے دی ھے ،اگر میں آپکی رائے کو نہیں مان رہی یا آپ میری بات سے اتفاق نہیں کرتے تو اس میں مجھے اور آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاھئے ،اعتراضات اور اختلاف رائے تو علماء میں بھی رہتا ھے اور میرے خیال سے میرے اور آپ میں کوئی اس منصب تک تو نہیں پہنچا ابھی:) کیا یہاں بات کرنے کی آزادی بھی نہیں ھے:rolleyes:فرصت میں کھل کر اظہار رائے کروں گی۔

ِ
چلیں ۔۔ جب آپ فرصت سے اظہارِ خیال کریں گی تو شاید پھر آپ کا اعتراض اور اس کے جواب میں آپ کا استدلال سمجھ میں آئے ۔ آپ کے دلائل کا انتظار رہے گا ۔ :)
 
Top