اڑانوں کا ہرا موسم ..اسلام عظمی

الف عین

لائبریرین
**
مجھے کب سرخرو ہونا ہے کب معتوب ہونا ہے
خبر رکھتا ہوں ، کب، کس نام پر مصلوب ہونا ہے

یہ دعویٰ تو نہیں احوال کل کا جانتا ہوں میں
مگر جو حادثہ ہونا ہے اب کے خوب ہونا ہے

بہت دن تک نہیں رہنا اڑانوں کا ہرا موسم
ہمیں تھک ہار کر مٹی سے ہی منسوب ہونا ہے

لکیریں کھینچنے دو شوق سے اوراقِ ماضی پر
انہی بچوں کو کل کا صاحبِ اسلوب ہونا ہے

مری آنکھوں کو رہنا ہے بدلتے موسموں جیسا
کسی پل خشک رہنا ہے کبھی مرطوب ہونا ہے
 

الف عین

لائبریرین
**
دل رہا ہو کے بھی اس زلف کی زنجیر میں تھا
اور تریاق اسی زہر کی تاثیر میں تھا

کھل کے رویا بھی نہ تھا، ہار کے سویا بھی نہ تھا
وہ بھی کب میں نے کمایا تھا جو تقدیر میں تھا

پسِ الفاظ چھپا کیا تھا یہ کیا دیکھتا میں
دل تو اٹکا ہوا اس شوخ کی تقریر میں تھا

کس طرح عمر کٹی یاد بھی رکھتا کیسے
میں تو مصروف نئے شہر کی تعمیر میں تھا

شکل خوابوں کی ابھی کوئی نہیں تھی عظمیؔ
آنکھ کا دشت ابھی رات کی تعزیر میں تھا
 

الف عین

لائبریرین
**
تن کی سوکھی دھرتی پر جب نام لکھا تنہائی کا
بن کی پیاس بجھانے آیا اک دریا تنہائی کا

سب پہچانیں قائم رکھنا ہرگز آساں کام نہ تھا
درد نے جب جب کروٹ بدلی ، در کھولا تنہائی کا

خواب جزیرے کھوجتے کھوجتے پہنچا ہوں اس حالت کو
ورنہ عادت سے تو نہیں تھا ، میں رسیا تنہائی کا

پیاس رتوں میں برسا تھا وہ قطرہ قطرہ دھرتی پر
آج اکیلا چھوڑ گیا تو دکھ کیسا تنہائی کا

روپ سروپ کے کھیل سے عظمیؔ ہم نے تو یہ سوکھا ہے
جھولی میں بس رہ جاتا ہے اک سپنا تنہائی کا
 

الف عین

لائبریرین
**
کب سے ہوں اِس دیار میں تھوڑا تو سرخرو کرو
میں بھی شریکِ بزم ہوں مجھ سے بھی گفتگو کرو

کوہِ انا پہ بے طلب ، تیری تجلیوں میں ہوں
سنگ نہیں ہوں آگ ہوں مجھ پہ نظر کبھو کرو

دل کی سبھی ہماہمی ، آنکھ کی کج روی سے تھی
سیرِ جہاں ہوئی تمام چاکِ طلب رفو کرو

موسمِ اختیار کا کچھ تو بھرم بنا رہے
یار نہیں جو روبرو ، خواہشِ رنگ و بو کرو

نیند کی آرزو میں اب بیٹھے رہو تمام رات
کس نے کہا تھا رات بھر دھوپ کی جستجو کرو
 

الف عین

لائبریرین
**
یہ جو حسرت گہہ دل ہے ، عجب ہے
یہاں پر رات ہے نہ کوئی دن ہے

کسی تقدیر گر کی ہے یہ بستی
جسے بھی دیکھئے وہ با اَدب ہے

مجھے اُکسا رہا ہے بولنے پر
تمہاری خامشی کا جو سبب ہے

زمانے بھی کی باتیں کر چکا ہوں
مگر اِک بات پھر بھی زیرِ لب ہے

اُڑانیں پنچھیوں کی چار دن کی
کہانی ہر کسی کی چار شب ہے
 

الف عین

لائبریرین
**
اپنی تکمیل میں تکمیلِ ہنر کرتے ہیں
اہل تشکیک سرابوں کا سفر کرتے ہیں

اپنے ہی ڈھنگ سے رہتے ہیں تری دنیا میں
اپنے ہی ڈھنگ سے ہم لوگ بسر کرتے ہیں

کاسۂ شوق ہے بستی ہے ہنر والوں کی
کیا کرم دیکھئے اَب اہل کرم کرتے ہیں

قصۂ شوق اذیت بھی عجب ہوتا ہے
بھولتے ہیں نہ اُسے اپنی خبر کرتے ہیں

اتنے آسان طلب بھی تو نہیں ہم عظمیؔ
کارِ مشکل ہے وفا کرنا مگر کرتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
**
جہاں بھی رات ہو جائے ، بچھونا کھول لیتے ہیں
تری جانب جو کھلتا ہے ، دریچہ کھول لیتے ہیں

خس و خاشاکِ ماضی سے نئے موسم بنا کر ہم
مقفل آنکھ سے شہر تماشا کھول لیتے ہیں

کھلا رکھتے ہیں تیری واپسی کا ممکنہ رستہ
در اُمید کو ہم حسبِ منشا کھول لیتے ہیں

رموزِ خسرواں ہر چند کھل پاتے نہیں ہم پر
مگر کچھ گتھیاں دنیا کی تنہا کھول لیتے ہیں

اُداسی حد سے بڑھ جائے تو کر لیتے ہیں یاد اُس کو
اُداسی کے لئے اِک اور رستہ کھول لیتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
**
شاخ سے قوت نمو کی ، خاک سے نم لے گیا
مصلحت کا دیو اِس دھرتی کا دم خم لے گیا

کائی اَب پہچان ہے گھر کے در و دیوار کی
سرخیاں اینٹوں کی برساتوں کا موسم لے گیا

ہو گیا پتھر جو دیکھیں پتھروں کی خوبیاں
آئینے کو توڑ ڈالا خود کو سالم لے گیا

لٹ گیا اسلام عظمیؔ ہر کوئی بازار میں
مول پہ جھگڑا کیا اور تول میں کم لے گیا
 

الف عین

لائبریرین
**
عجب مجبوریوں کے ساتھ آیا
یہ موسم دوریوں کے ساتھ آیا

تمہارے قرب کا ہر ایک لمحہ
نئی مہجوریوں کے ساتھ آیا

خیالِ ہیر کی دیکھو کرامت
سندیسہ چوریوں کے ساتھ آیا

مری رسوائی کا موسم بھی عظمیؔ
مری مشہوریوں کے ساتھ آیا
 

الف عین

لائبریرین
**
سرِ میداں بسر کرنا ، خیال کوہ میں رہنا
اُسی کو سوچنا ہر لحظہ اُس کی ٹوہ میں رہنا

اُسی کے چشم و اَبرو نے بدل ڈالیں رُتیں دِل کی
وگرنہ ایک سا تھا جیٹھ میں یا پوہ میں رہنا

علاج اچھا ہے لیکن دیکھنا عادت نہ بن جائے
غم تنہائی سے ڈر کر ترا انبوہ میں رہنا

نصابِ شوق میں شامل ہے مجبوری نہیں عظمیؔ
سحر رونے سے کرنا شام تک اندوہ میں رہنا
 

الف عین

لائبریرین
**
ہوا کے ساتھ رخ اپنا بدل جاتے تو اچھا تھا
مثالِ آب ہر سانچے میں ڈھل جاتے تو اچھا تھا

ہوائیں تیز تر ہیں اور دن ڈھلنے کو آیا ہے
تلاشِ رزق میں پنچھی نکل جاتے تو اچھا تھا

شبِ سیلاب بھی سوچا نہیں تو آج کیوں سوچیں
کہ ان کچے گھروں سے ہم نکل جاتے تو اچھا تھا

خلافِ وضعداری ہے سنبھلنا ٹھوکریں کھا کر
اگر آغاز میں عظمیؔ سنبھل جاتے تو اچھا تھا
 

الف عین

لائبریرین
**
میں کیا تمام خلقِ خدا اُس کے ساتھ ہے
وہ ہے ہوا کے رُخ پہ ہوا اُس کے ساتھ ہے

ایسا نہیں ہے پھر بھی لگا ہے کبھی کبھی
جیسے کہ میرا اپنا خدا اُس کے ساتھ ہے

آواز کی تھکن ہی بتاتی ہے دوستو
رنجِ شکستِ عہدِ وفا اُس کے ساتھ ہے

تہمت نہ اُس کے قرب کی مجھ پر رکھ
دو چار دن تو ، تو بھی چلا اُس کے ساتھ ہے

شاید اِسی کو کہتے ہیں عظمیؔ ہنر وری
دل اِ س کے ساتھ ہے تو نوا اُس کے ساتھ ہے
 

الف عین

لائبریرین
**
الزام وہ کیا کیا تھے اَب تک جو مرے سر ہیں
پسپائی کے سب منظر بینائی کے اندر ہیں

تو چھین بھی سکتا ہے ہم لوگوں سے گویائی
پر یاد رہے اتنا ہم تیرے ثناگر ہیں

شہروں کی فصیلوں سے جھانکیں بھی تو کیا جھانکیں
صحراؤں کے باسی بھی اِک قید کے اندر ہیں

بنتے ہیں مکاں کیسے رہتے ہیں مکیں کیسے
ہم لوگ بتائیں کیا ہم لوگ تو بے گھر ہیں

کافی ہے ثبوت اتنا اِس شہر کی حرمت کا
کچھ لوگ ہیں پتھر کے ، کچھ کانچ کے پیکر ہیں

لفظوں سے تراشیں گے مرمر سے صنم عظمیؔ
ہم لوگ کہ شاعر ہیں ، ہم لوگ کہ آذر ہیں
 

الف عین

لائبریرین
**
ہر گھڑی سیماب پا حرکت میں رہنے کی طلب
پیچھے ہٹنے کی کبھی آگے نکلنے کی طلب

کیا خبر تھی سب لکیریں ہی مٹا لے جائے گی
اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو بدلنے کی طلب

گو میسر ہے ضرورت سے بڑھ کر روشنی
دل سے جاتی ہی نہیں جگنو بدلنے کی طلب

بام و در کی جب کوئی حاجت نہیں تو کس لئے
دل میں زیر سایۂ دیوار رہنے کی طلب

ایک ممکن سی تمنا ، ایک ناممکن سا کام
بھولی بسری بستیوں میں شام کرنے کی طلب

دیکھ تو اسلام عظمیؔ تم کو لے آئی کہاں
ہر کسی کے ساتھ تھوڑی دیر چلنے کی طلب
 

الف عین

لائبریرین
**
موسمِ بے خودی چار دن کے لئے اور پھر الوداع
چاند اور چاندنی چار دن کے لئے اور پھر الوداع

ہجر آزار میں قرب کی خواہشوں کے ہزاروں برس
صحبت گل وہی چار دن کے لئے اور پھر الوداع

کھولتے اور اُبلتے لہو کی عطا ہیں یہ سب رونقیں
بے پنہ سر کشی چار دن کے لئے اور پھر الوداع

ارض نام و انا میں پڑاؤ کا ہر اک ارادہ ہوا
ہر خوشی ہے خوشی چار دن کے لئے اور پھر الوداع

بس کوئی دیر میں ساتھ ہو جائیں گی دور اندیشیاں
دل کی آوارگی چار دن کے لئے اور پھر الوداع

کار زار محبت میں کیا کچھ ہوا کیا بتائیں تمہیں
چھاؤں تھی پیار کی چار دن کے لئے اور پھر الوداع

بے ضرورت کوئی خواب عظمیؔ کسی نے بھی دیکھا نہیں
دوستی دشمنی چار دن کے لئے اور پھر الوداع
 

الف عین

لائبریرین
**
خاک بے شک بہت اُڑاتی ہیں
آندھیاں بارشیں بھی لاتی ہیں

کچھ موسم میں پکی نیندیں بھی
ایک آہٹ پہ ٹوٹ جاتی ہیں

بیتی راتیں کہ اس کی باتیں ہوں
کس تسلسل سے یاد آتی ہیں

جب نہیں ہے بہار کا موسم
تتلیاں کس طرف سے آتی ہیں

ایک جیسی ہیں بچیاں چڑیاں
تنکے چنتی ہیں گھر بناتی ہیں

اک نئی سلطنت کی چاہت میں
اپنا بچپن ہی بھول جاتی ہیں

دل کی سادہ ہیں لڑکیاں کتنی
جھوٹ سن کر بھی مسکراتی ہیں

رستہ رستہ وہ باتوں باتوں میں
کتنے سپنے بکھیر جاتی ہیں

دور ہی دور سے دکھا کر چھب
دھیرے دھیرے قریب آتی ہیں

زندہ رکھتی ہیں کتنے سپنوں کو
وہ اُمیدیں جو ٹوٹ جاتی ہیں

تیری یادیں سکوت صحرا میں
اک عجب کہکشاں بناتی ہیں

شام ہوتے ہی بستیاں دل کی
گھپ اندھیرے میں ڈوب جاتی ہیں

ہٹتی جاتی ہیں منزلیں پیچھے
حوصلہ میرا آزماتی ہیں

ساتھ دیتا ہے تو مرا اکثر
ساتھ نیندیں جو چھوڑ جاتی ہیں

شہر کے شہر جلنے لگتے ہیں
نفرتیں آگ جب لگاتی ہیں

کیوں پرانی رفاقتیں عظمیؔ
ساتھ پل بھر میں چھوڑ جاتی ہیں
 

الف عین

لائبریرین
سلام عظمیؔ
پوسٹ بکس 1981 ء العین UAE
موبائل فون 050.4716345
تمام شد

مصنف کی اجازت کے ساتھ
فائل کے لئے تشکر سلیمان جاذب
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ 250 فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش
http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com, http://kutub.250free.com
 
Top