اڑانوں کا ہرا موسم ..اسلام عظمی

الف عین

لائبریرین
**
پسِ دیوار تو فصاحت ہے
سرِ بازار چپ ہے لکنت ہے

لفظ آشوب ہو کہ شہر آشوب
اہلِ دل کے لئے مصیبت ہے

سرد مہری کمال کو آئی
شہر کو دھوپ کی ضرورت ہے

جھوٹ سچ کا ہے ایک ہی بھاؤ
یہ مرے عہد کی صداقت ہے

چار دیواری ایک نادیدہ
اور کیا شہر کی حقیقت ہے

نا اُمیدی کی رت میں اے عظمی
مسکرانا بھی اک عبادت ہے
 

الف عین

لائبریرین
**
آتش تھے لب ، لبوں پہ ترانے عجیب تھے
وہ دل کی وحشتوں کے زمانے عجیب تھے

ترکِ تعلقات کا تھا اُن کو اختیار
پر جو بنا رہے تھے ، بہانے عجیب تھے

ناممکنات گویا وہاں پر تھے ممکنات
دل تھا تو دل کے آئینہ خانے عجیب تھے

وہ جاگتی شبیں کہ بہت مہربان تھیں
اُن سر پھری رتوں کے فسانے عجیب تھے

فرقت کی پہلی رات تھی دل تھا مرا اُداس
کچھ گیت گنگنائے ہوا نے عجیب تھے

دریا کی موج موج روانی میں کھو گئے
جو لوگ آئے ہم کو بچانے ، عجیب تھے

ہر درد رُت میں اور طرح جاگتے تھے وہ
چوٹیں تھیں یا کہ زخم پرانے عجیب تھے

چہرے سے جان لیتے تھے عظمیؔ وہ دل کا روگ
اُس شہر خوش نظر کے سیانے عجیب تھے
 

الف عین

لائبریرین
**
تیرے سودائی کو رستے تھے بہت
خوش زمانے تھے ، بہانے تھے بہت

عمر اور سوچ اَبھی تھی کچی
خواب آنکھوں نے پروئے تھے بہت

در بدر خاک بسر رہتے تھے
اور ہمیں ڈھونڈنے والے تھے بہت

رات زرخیز ہوا کرتی تھی
آسمانوں پہ ستارے تھے بہت

چہچہاتی تھیں سحر دم چڑیاں
بستیاں تھیں تو پرندے تھے بہت

تو سر ساحل جاں رہتا تھا
بیچ دریا بھی کنارے تھے بہت

کبھی تعبیر کا سوچا ہی نہ تھا
خواب ہی رنگ برنگے تھے بہت
 

الف عین

لائبریرین
**
اُس کی دہلیز پر نہیں ہیں ہم
اِس لئے معتبر نہیں ہیں ہم

کب مدارِ وفا سے نکلے ہیں
کب شریکِ سفر نہیں ہیں ہم

تھوڑی توفیق پیش گوئی دے
کیا ترے نامہ بر نہیں ہیں ہم

کل تھے محفوظ کنج زنداں میں
آج بھی در بدر نہیں ہیں ہم

خوب واقف ہیں اہل دنیا سے
خود ہی سے باخبر نہیں ہیں ہم

ہر گھڑی خواہشیں تر و تازہ
گویا بے بال و پر نہیں ہم

چلنے والوں کے ساتھ چلتے ہیں
راستے کا شجر نہیں ہیں ہم

اُس کا رستے ہی دھول ہیں عظمیؔ
اُس کے شام و سحر نہیں ہیں ہم
 

الف عین

لائبریرین
**
حسن دریا کا اُس کی روانی سے ہے
داستاں کا مزہ خوش بیانی سے ہے

یاس اور پیاس کے یہ کڑے راستے
جو بھی ہے ، آپ کی مہربانی سے ہے

روگ تازہ خیالی کا مت پالنا
سارا جھگڑا اِسی سرگرانی سے ہے

عشق ہجراں رتوں میں بھی مرتا نہیں
یہ توانا بہت ناتوانی سے ہے

صبح معلوم سے شامِ انجام تک
ہر کہانی تمہاری کہانی سے ہے

شہر ناچار میں گفتگو کیا کریں
حال اپنا عیاں بے زبانی سے ہے

غیر فانی نہیں عظمیؔ شے کوئی بھی
اپنا ہر اک مکاں لامکانی سے ہے
 

الف عین

لائبریرین
**
مہر و ماہ و ثابت و سیارگاں پتھر کے ہیں
اِس فضائے نیلگوں کے سب نشاں پتھر کے ہیں

مرتعش رکھتا ہے اِن کو حادثہ کوئی ضرور
نقش جتنے ہیں سر آب رواں پتھر کے ہیں

اِن گلی کوچوں میں کیسے روشنی کی بات ہو
شہر ہے پتھر کا یہ اِس کے مکاں پتھر کے ہیں

یوں جھکے ہیں سر کہ جیسے گردنوں پر بوجھ ہو
ان سروں پر جس قدر ہیں سائباں پتھر کے ہیں

تلخ باتیں زندگی کا اس طرح حصہ ہوئیں
اپنے سارے مہرباں نا مہرباں پتھر کے ہیں

ناتوانی میں بھی عظمیؔ حوصلے ہیں برقرار
ہم کہ ہیں فانی ہمارے استخواں پتھر کے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
**
عجب ہی ڈھنگ سے اب انجمن آرائی ہوتی ہے
جہاں پر بھی رہیں ہم ، ساتھ میں تنہائی ہوتی ہے

فتوحات دل و جاں پر یوں مت اِترا مرے لشکر
کہ اس میدان میں فی الفور ہی پسپائی ہوتی ہے

یہ میلہ وقت کا ہے ہاتھ اس کے ہاتھ میں رکھنا
بچھڑ جائیں یہاں تو پھر کہاں یکجائی ہوتی ہے

ہم ایسے کچھ بھی کر لیں ان کی تہہ کو پا نہیں سکتے
امیر شہر کی باتوں میں وہ گہرائی ہوتی ہے

سلاست سے بیاں احوالِ دل کرنا ہے اک خوبی
بسا اوقات چپ رہنا بھی تو دانائی ہوتی ہے

زبانِ خلق گویائی کے گوہر تو لٹاتی ہے
لبوں پر جو نہیں آتی وہی سچائی ہوتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
**
آگہی جب شدتوں سے آشنا ہو جائے گی
پھر وہی آوارگی کی انتہا ہو جائے گی

آئینے اُگ آئیں گے بام و در و دیوار پر
آنکھ آشوبِ انا میں مبتلا ہو جائے گی

رنگ خوشبو روشنی دو چار دن کا کھیل ہیں
کون جانے کب سفر کی انتہا ہو جائے گی

خلقت شہر ہوس پر اس قدر تکیہ نہ کر
جو بھی آئے گا اُسی کی ہم نوا ہو جائے گی

اب تو کہتے ہو کہ جی لیں گے بچھڑ جانے کے بعد
دیکھنا یہ زندگی پھر اک سزا ہو جائے گی

لائے گا اتنے حوالے اپنی مسند کے لئے
ہر کسی پر اُس کی واجب اقتدا ہو جائے گی
 

الف عین

لائبریرین
**
جو ظاہراً نہیں ہیں کسی کے گمان میں
شامل ہیں نام وہ بھی مری داستان میں

دشت طلب سے دور کوئی شہر زر نہ تھا
دیوار ہی اَنا کی رہی درمیان میں

کچھ میں رسوم دوستی سے آشنا نہ تھا
وہ بھی تھا اُن دنوں بڑی اُونچی اُڑان میں

صحرا میں تیز دھوپ کی جب بارشیں ہوئیں
ہم جھٹ سے آ گئے ہیں ترے سائبان میں

کچھ حادثہ نہیں ہے شکست انا یہاں
یہ بات ہی نہیں تھی ہمارے گمان میں

لائی ہیں گھیر گھار کر سب کو ضرورتیں
رکھا تھا کیا وگرنہ تمہاری دوکان میں

بے مہر دھوپ اور ہے مانگے کی بود و باش
دن کٹ رہے ہیں عظمیؔ پرائے مکان میں
 

الف عین

لائبریرین
**
طوافِ شہر نا پرساں میں اپنا دن گزرتا ہے
کہیں دیوار آتی ہے نہ کوئی در نکلتا ہے

مگر اِک فاصلہ اول سے آخر تک برابر ہے
نہ ہم منزل بدلتے ہیں نہ وہ رستہ بدلتا ہے

ہماری بیشتر باتیں فقط محدود ہم تک ہیں
گزر جاتی ہے جب اِک عمر ، تب یہ بھید کھلتا ہے

بہت موہوم سی آہٹ بہت مدھم کوئی جذبہ
ہمارے ساتھ چلتا ہے ، ہمارے ساتھ رہتا ہے

وہ لفظوں اور جذبوں کی رفاقت کا نہیں قائل
جہاں چاہے ، کہانی کا تسلسل توڑ دیتا ہے

کسی پر بھی نہیں موقوف اس کی رونقیں لوگو
یہ صحرا ہے اجڑ بھی جائے تو آباد رہتا ہے

خیال دوستاں ہو یا ہجوم گل رُخاں عظمیؔ
ذرا سی روشنی یا تھوڑی خوشبو چھوڑ جاتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
**
اُس کے در پر صدا تو کرنا تھی
بات کی ابتدا تو کرنا تھی

اپنی مرضی سے روگ پالا تھا
پھر بھی کوئی دوا تو کرنا تھی

حبس موسم سہی مقدر میں
جستجوئے صبا تو کرنا تھی

کچھ صلہ بھی تھا آشنائی کا
اہل دل کو وفا تو کرنا تھی

لاکھ اس پار ہیں خلاؤں کے
منزلوں کی دعا تو کرنا تھی

لاکھ عظمیؔ یہ کار مشکل ہے
سیرِ صحنِ انا تو کرنا تھی
 

الف عین

لائبریرین
**
احسانِ سنگ و خشت اُٹھا لینا چاہیے
گھر اب کوئی نہ کوئی بنا لینا چاہیے

اتنی غلط نہیں ہے یہ واعظ کی بات بھی
تھوڑا بہت ثواب کما لینا چاہیے

حالات کیا ہوں اگلے پڑاؤ پہ کیا خبر
سپنا یا سنگ کوئی بچا لینا چاہیے

وہ رات ہے کہ سایہ بدن سے ہے منحرف
ہم کس جگہ کھڑے ہیں پتہ لینا چاہیے

دشمن یا دوست کون کھڑا ہے پس غبار
جو سو رہے ہیں ان کو جگا لینا چاہیے

حسن بتاں کی بات ہی عظمیؔ چھڑی رہے
موسم کا کچھ نہ کچھ تو مزا لینا چاہیے
 

الف عین

لائبریرین
**
پھولوں رنگوں خوشبوؤں کی باتیں کرنے سے
جی کا روگ کہاں جاتا ہے ہنستے رہنے سے

آ ہی گئی ہے لب پر تو اب ٹال مٹول نہ کر
اور بھی کچھ دکھ بڑھ جائے گا بات بدلنے سے

بڑھ جاتا ہے اور بھی کچھ کچھ تنہائی کا روگ
وقت اگرچہ کٹ جاتا ہے چلتے رہنے سے

بس وہ پرانی چھاؤں نہیں ہے ورنہ دیکھو تو
کھلا کھلا سا گھر لگتا ہے پیڑ کے کٹنے سے

سینے میں طوفان تھا لیکن چہرہ جھیل مثال
پتھر ہی دیوار ہی نکلی برف پگھلنے سے

آج مجھے وہ پچھلی صف میں دیکھ ملول ہوا
روک دیا تھا جس نے مجھ کو آگے بڑھنے سے
 

الف عین

لائبریرین
**
دو چار نہیں سخت مقامات بہت ہیں
غم پیشہ زمینوں میں زحافات بہت ہیں

اوہام کے سائے میں بتا دیتے ہیں عمریں
مرغوب ہمیں کہنہ روایات بہت ہیں

ہنسنا تو بڑی بات ہے کھل کر نہیں روتے
ہم لوگ کہ پابند روایات بہت ہیں

در و در و بام کی چاہت ہی اُٹھا دی
اے دشت! تری ہم پہ عنایات بہت ہیں

اِک دھوپ سی وحشت میں گزرتے ہیں شب و روز
یہ عشق ہے اور اس میں کرامات بہت ہیں

رکھا ہے غمِ عشق نے زندہ ہمیں اب تک
ورنہ تو ہر اک گام پہ صدمات بہت ہیں

اس کا بھی ابھی شوقِ سماعت ہے سلامت
مجھ کو بھی ابھی یاد حکایات بہت ہیں
 

الف عین

لائبریرین
**
ترکِ الفت کو نہ اب اور ہوا دی جائے
اُس کی خواہش ہے تو یہ بات بھلا دی جائے

رات سر پر ہے کٹھن راستہ ، مسافر تم کو
لوٹ آنے کی یا منزل کی دعا دی جائے

خود وہ آئے گا سر بام جو آنا ہو گا
اُس کے دروازے پہ دستک نہ صدا دی جائے

اتنے جھنجھٹ ہیں کہ ملتی نہیں اب تو فرصت
رسم دلجوئی ہو جیسے بھی اُٹھا دی جائے

ایک ہی طرح دھڑکتا ہے خزاں ہو کہ بہار
دل کو اِس سال کوئی سخت سزا دی جائے

منتخب لوگ ہیں خلعت سے بلند و بالا
مستحق لوگوں کو دستار و قبا دی جائے

سحر خاموشی کسی طرح تو ٹوٹے عظمیؔ
اک صدا نام پہ اپنے ہی لگا دی جائے
 

الف عین

لائبریرین
**
ایسے ویسے لوگوں کے درمیاں نہیں رہتے
تو جہاں نہیں ہوتا ہم وہاں نہیں رہتے

تیرا نام جوڑا ہے اپنے نام سے جب سے
شہر ہو کہ صحرا ہو ہم کہاں نہیں رہتے

اب نہیں ملے گا وہ اُن پرانے رستوں میں
ایک ہی پڑاؤ پر کارواں نہیں رہتے

آسماں تلے بھی تم تھوڑے سانس لے دیکھو
عمر بھر سروں پر تو سائباں نہیں رہتے

پھر تو کام آتی ہی بازوؤں کی قوت ہی
تیز جب ہوائیں ہوں بادباں نہیں رہتے

یوں بدلنے آیا تھا وہ مری لکیروں کو
جیسے اِن زمینوں پر آسماں نہیں رہتے

شرط ہے تو بس اتنی ساتھ تیرا میرا ہو
امتحان پھر جاناں امتحاں نہیں رہتے
 

الف عین

لائبریرین
**
خوشبو صفت وہ نور سا پیکر کہاں گیا
اے شب! طلوعِ ماہ کا منظر کہاں گیا

میں اپنی حدتوں میں مگن تھا خبر نہیں
کھا کر شکست موجۂ صرصر کہاں گیا

در یا دریچہ کوئی کھلا ہی نہیں تو پھر
کیسا ملال وہ جو تھا بے گھر کہاں گیا

بیکار کا سوال ہے بعد از غروبِ دل
تن میں تھا جس کا نور وہ خاور کہاں گیا

کشتی مری اُتار کے صحرا میں پیاس کے
وہ گہرے پانیوں کا شناور کہاں گیا

یہ رتجگوں کا شہر مقدر ہوا ہے کیوں
وہ شبنمی سی دھوپ کا بستر کہاں گیا

عظمی جو تھے قریبِ رگ و جاں کدھر گئے
دل کے بہت قریب کا منظر کہاں گیا
 

الف عین

لائبریرین
**
بھولے سے بھی اوروں کو بتائے نہیں جاتے
کچھ نام لبوں پر کبھی لائے نہیں جاتے
توفیقِ نمو دیتی ہے از خود انہیں فطرت
دیوانوں کو آداب سکھائے نہیں جاتے
وہ قحط وفا ہے کہ باصرار بھی دل سے
صدمے غمِ ہجراں کے اُٹھائے نہیں جاتے
مفہوم بدل دیتی ہے جذبے کی تمازت
ہر بار نئے لفظ بنائے نہیں جاتے
کچھ ایسے بھی دکھ ہیں کہ جو مرنے نہیں دیتے
کچھ ایسے دیے ہیں کہ بجھائے نہیں جاتے
اِک کھیل ہیں نادانوں کا یہ ریت گھروندے
ساحل پہ مکاں ورنہ بنائے نہیں جاتے
خواہش یہ سفر کی بھی تو اِک رخت سفر ہے
بن جاتے ہیں اسباب بنائے نہیں جاتے
مخصوص ہے یہ رنج اسیرانِ وفا سے
ہر شخص پہ تو سنگ اُٹھائے نہیں جاتے
آنکھوں کا کوئی قرض تو ہوتا ہے چکانا
بے وجہ تو یہ خواب دکھائے نہیں جاتے
 

الف عین

لائبریرین
**
صدائیں دیتے دیتے رہ گئے ہیں
ترے رستے میں بیٹھے رہ گئے ہیں

عجب تھیں گفتگو کی چاہتیں بھی
مناسب لفظ چنتے رہ گئے ہیں

نکل آئے ضروری کام اتنے
ضروری خط ادھورے رہ گئے ہیں

ہمارے ساتھ سیلابِ انا تھا
گھڑے ساحل پہ رکھے رہ گئے ہیں

بہت آگے یہ دنیا جا چکی ہے
بہت پیچھے اُجالے رہ گئے ہیں

بگولوں میں بلا کی شدتیں تھیں
کھڑے کچھ پیڑ کیسے رہ گئے ہیں

کتابیں چھین لیں مصروفیت نے
ہر الماری میں جالے رہ گئے ہیں

مٹانے پر بھی عظمیؔ نام کیا کیا
سرِ دیوار لکھے رہ گئے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
**
وفا کے باب میں کارِ سخن تمام ہوا
چلو کہ رشتۂ روح و بدن تمام ہوا

کتابِ ہجر مسلسل کھلی ہمارے لئے
کہ بابِ وصل سرِ انجمن تمام ہوا

عجیب دھوپ سر صحن تن اُتر آئی
مزاج ترش ہوا ، بانکپن تمام ہوا

بصارتوں کو سمیٹو ، بجھا لو آنکھوں کو
بیانِ کربلِ سر و سمن تمام ہوا

رفو گری کا ہنر سیکھ تو لیا عظمیؔ
نمود فن میں مگر پیرہن تمام ہوا
 
Top