آغا شاعؔر قزلباش بتوں کے واسطے تو دین و ایمان بیچ ڈالے ہیں

بُتوں کے واسطے تو دین و ایمان بیچ ڈالے ہیں
یہ وہ معشوق ہیں جو ہم نے کعبے سے نکالے ہیں

وُہ دیوانہ ہُوں جس نے کوہ و صحرا چھان ڈالے ہیں
انہیں تلووں سے تو ٹوٹے ہوے کانٹے نکالے ہیں

عدو کی گرمیٔ اُلفت نے کیا جوبن نکالے ہیں
وہاں رُخسار نیلے ہیں یہاں اس دل میں چھالے ہیں

الہٰی خیر اب چلتی ہوا سے تم تو لڑتے ہو
کسی سے کچھ کہا ہم نے کسی سے بولے چالے ہیں

اگر دیکھا نظر بھر کے تو مر ہی جاؤنگا ظالم
تری آنکھیں نہیں ہیں زہر کے لبریز پیالے ہیں

تراشی ہیں وُہ باتیں اُس ستمگر نے سر محفل
کلیجے سے ہزاروں تیر چُن چُن کر نکالے ہیں

بلا سے دورہو جائیں نہ دیکھیں اچھی صورت کو
یہ سب پتھّر کا دِل رکھتے ہیں جتنے حسن والے ہیں

نشے میں چُور ہیں وہ آ پڑے ہیں بال چہرے پر
ذرا دیکھے تو کوئی کیا اندھیرے میں اُجالے ہیں

ہمارا کیا ہے ہم تو ہیں ازل کے بد نصیبوں میں
مگر تم جس جگہ ہو وُہ بڑے تقدیر والے ہیں

جگر دل کے ورق ہیں وعدۂ دیدار سےروشن
اِنہیں کیوں دوں کسی کو یہ تو جنت کے قبّالے ہیں

بٹھایا غیر کو پہلو میں پھر ہم کیوں نہ اُٹھ جائیں
یہ باتیں دیکھی جاتی ہیں یہ غمزے اُٹھنے والے ہیں

وُہ لذت کیا بتاؤں ہمنشین مجھ میں کہاں دم تھا
جب اُس نے پیار سے گردن میں میری ہاتھ ڈالے ہیں

نہیں تو کون تیری بزم میں مُحروم رہتا ہے
پُہنچنے کو ہمیں تک پاؤں میں ساغر کے چھالے ہیں

اگر مُنہ سے کہا کچھ تو بکھر ہی جائیں گے ٹکڑے
بڑی مشکل سے ہم ٹوٹے ہوئے دل کو سنبھالے ہیں

ہمیں ہیں مُوجد بابِ فصاحت حضرت ش۔۔اع۔۔ؔ۔۔ر
زمانہ سیکھتا ہے ہم سے وُہ دلیّ وِالے ہیں

آغا مظفر بیگ آغاشاعؔرقزپباش
1871-1940 دہلی
✍️تیر و نشتر
 
Top