اُڑا لینا، یا اُڑا دینا، اُڑنا ۔۔ !!

سید فصیح احمد

لائبریرین
اُڑنا پرندوں کا عمل ہے۔ اِدھر سے اُدھر آنا جانا، ایک شاخ سے اُچھل کر دوسری شاخ پر بیٹھ جانا، دانا چُگنے کے لیے یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آنا، پروں ہی کی مدد سے ہی تو ہوتا ہے۔ یہ عملِ محال کرشمہ اور کرامت کے طور پر پیروں کے ساتھ بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ وہ ہوا میں اُڑتے ہیں اور خوشبو کی طرح اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر پھیلتے رہتے ہیں، آتے جاتے ہیں۔ آج کل تو تقریریں، تحریریں اور تصویریں بھی ہوا پر اُڑتی ہیں اور ٹیلی ویژن میں ہم دنیا بھر کے شہروں، بیابانوں، جانوروں، انسانوں، سمندروں اور ہواؤں کی تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔ اُڑنے کے معنی میں یہ سب آتا ہے۔ اُڑان بھرنا بھی ایک محاورہ ہے اور اُڑانے کے معنی میں خلیل خاں کا فاختہ اُڑانا اور مریدوں کا پیروں کو اُڑانا بھی شامل ہے، کہ پِیر نہیں اُڑتے، مرید اُڑاتے ہیں۔ خبر اُڑانے کو بھی ہمارے ہاں بطورِ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔

اُڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی​

بات اڑا دینا بھی یا"باتوں باتوں میں اڑا دینا"، "چٹکیوں میں اُڑا دینا" بھی ہمارے محاورات کا حصّہ ہے۔ "بے پر کی اُڑانا"، "گُل چھرّے اُڑانا"، "طوطا مینا اُڑانا"۔ اس سے اُڑنے اور اُڑانے کے عمل سے ہماری زبان اور ہمارے ذہن کی وابستگیوں کا پتہ چلتا ہے۔ "اُڑا دینا"، خاک دھُول کی طرح اُڑا دینا ہے۔ اور کسی چیز کا اُڑا لینا بھی جیسے، "اس نے یہ بات اڑا لی"، "اس نے ساری کتاب ہی اڑا لی"۔ اس معنی میں"اُڑنا" یا"اُڑا دینا" یا"اُڑا لینا" بہت سے محاورات کی بنیاد ہے۔ جن محاوروں کو ہم کسی ایک تصور، ایک تصویر، ایک خیال یا ایک عمل سے نسبت دے کر مختلف صورتوں یا سمتوں میں پھیلا سکتے ہیں، اُن میں"اُڑنا" اور"اُڑا دینا" بھی ہے۔ "اُڑتی چڑیا کو پہچاننا"، یا"اُڑتی چڑیا کے پر گننا"بھی اور"اُڑن چھُو ہونا" (غائب ہو جانا، بھاگ جانا) یا"اُڑن کھٹولا ہونا" بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ ۔ "اُڑن کھٹولا" ہوئی جہاز کو بھی کہتے ہیں۔ دہلی میں"اُڑان جھَلّا" یعنی اڑتے ہوئے کبوتروں کی ٹولی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو کبوتر بازوں کا محاورہ ہے۔ "قسم ہے اُڑان جھلے کی"۔ "اڑن سانپ" یعنی ایسا سانپ جو اڑ سکتا ہو۔ "اڑتی بیماری" بھی ایک محاورہ ہے، ایسی بیماری کو کہتے ہیں جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ کھجلی بھی انہیں میں ہے، دق بھی اور کھانسی بخار کی بعض صورتیں اس میں شامل ہیں۔ معاشرتی طور پر ایسی برائی جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے اور سب ہی کم و بیش اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اس کو اڑتی بیماری کہتے ہیں۔

(اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ از ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی سے اقتباس)
 
آخری تدوین:
Top