فراق اُمید و یاس کے اب وہ پیام بھی تو نہیں - فراق گورکھپوری

کاشفی

محفلین
نوائے فراق
(فراق گورکھپوری)
اُمید و یاس کے اب وہ پیام بھی تو نہیں
حیاتِ عشق کی وہ صبح و شام بھی تو نہیں
بس اک فریبِ نظر تھا جمال گیسو و رُخ
وہ صبح بھی تو نہیں اب وہ شام بھی تو نہیں
وفورِ سوزِ نہاں کا علاج کیوں کر ہو
جو لے سکے کوئی وہ تیرا نام بھی تو نہیں
انہیں محال ہے تمیزِ قیدو آزادی
کہ تیرے صیدِ بلا زیر دام بھی تو نہیں
دلِ حزیں میں ترے شوق مضطرب کے نثار
اس انجمن میں تجھے کوئی کام بھی تو نہیں
بیان ہو کیسے وہ دیرینہ ارتباطِ نہاں
کہ تجھ سے اگلے پیام و سلام بھی تو نہیں
وہ کیا کہیں کہ کبھی اہلِ شوق سے کھُل کر
ہوئی نگاہ تری ہم کلام بھی تو نہیں
کبھی انہیں بھی زمانے میں تھی خوشی کی تلاش
اب اہلِ غم کو یہ سودائے خام بھی تو نہیں
نہ پوچھ ہجر کی حسرت کہ دور گردوں میں
سحر نہ ہو سکے جس کی وہ شام بھی تو نہیں
فراق جلوہء ساقی کے سب کرشمے تھے
کہ اب وہ رنگ مَے لالہ فام بھی تونہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ کاشفی صاحب خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے۔


دلِ حزیں میں ترے شوق مضطر کے نثار
اس انجمن میں تجھے کوئی کام بھی تو نہیں

نہ پوچھ ہجر کی حسرت کہ دور گردوں میں
سحر نہ وہ سکے جس کی وہ شام بھی تو نہیں
[/CENTER]

پہلے شعر کے پہلے مصرعے کو پھر دیکھیے گا پلیز، شوقِ مضطر سے وزن خراب ہو رہا ہے۔

دوسرے شعر کے دوسرے مصرعے میں 'سحر نہ وہ سکے' کو 'سحر نہ ہو سکے' کر دیں۔ شکریہ
 
Top